ڈاکٹرعرفان رشید
کشمیر
اردو افسانہ پر جدیدیت کے اثرات
جدیدیت نے نہ صرف اردو تنقیداور شاعری کو متاثر کیا بلکہ اردو نثر خاص طور پر افسانوی ادب پر بھی اپنے اثرات مرتب کیے ۔حالانکہ اس سے پہلے علی گڈھ اور ترقی پسند تحریک نے اردو نثر کو کافی حد تک بدل ڈالا لیکن جو تغیر موضوع اورہیئت و تکنیک کے اعتبار سے جدیدیت میں دیکھا گیا۔اس نے اردو ادب پر دوررس اثرات چھوڑے۔اردو ناول اور افسا نہ اپنے آغاز سے تقریباً ایک صدی سے کچھ زائد زمانہ طے کرچکا ہے۔ اپنے اس طویل سفر میں دونوں اصناف نے متعدد تحریکات و رجحانات کے اثرات قبول کیے۔ کچھ کے اثرات دیر پا ثا بت ہوئے اور کچھ کے وقتی۔ابتدا ہی میں حقیقت پسندی اور رو مان پسندی سے ہم آ ہنگ ہو کر افسا نہ صحت مند روایات کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔’انگارے‘ کی اشاعت نے اردو افسا نے میں انحراف کا پہلا بگل بجایا۔ خط مستقیم پر چلنے والے افسانے میں تغیر و تبدل کا لطیف جھونکا در آیا۔اب ان موضوعات پر بھی افسا نے لکھے جانے لگے جن پر قبل میں بات کرنا تک معیوب سمجھا جاتا تھا۔ نہ صرف مرد عورت کے رشتوں پر افسا نے اور ناول تحریر ہو نے لگے بلکہ جنسیت کو بھی موضوع کے تحت بھرتا گیا ۔پھر آہستہ آہستہ ترقی پسند تحریک نے ادب کو اپنی گرفت میں لینا شروع کیا تو مو ضو عات کی فہرست بھی طویل ہو نے لگی۔ اجتما عیت کے ساتھ ساتھ مقصدیت اور معاشرے کی تعمیر و تشکیل بھی موضوع کے تحت آنے لگی۔سماج میں ایک نئی لہر پیدا ہوئی۔ اردو نثر پر اس کے گہرے اثرات مرتسم ہوئے۔ ترقی پسند افسا نے اور ناول نے سماجی مو ضو عات مثلاً سیاسی بیداری، آزادی، امن ، انقلاب، بھوک، افلاس، قحط، انسان دوستی، عالمی اخوت، بھائی چارہ، قومی یکجہتی، اتحاد و یگا نگت، جاگیر دارا نہ نظام کا زوال وغیرہ کو نہ صرف اپنایا بلکہ عمدگی سے بیان کیا۔ پسماندہ طبقات خصوصاً حا شیائی کردار وں کو پیش کر کے انہیں منظر عام پر لا نے اور مین اسٹریم سے جوڑ نے کا با مقصد عمل بھی ترقی پسند ادب میں ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی پسندی کے تقریباً۳۰ برسوں میں جو اردو فکشن قلم بند ہوا، ان میںشاہکار افسا نوں اور ناولوں کی تعداد زیادہ تھی۔ دوسرے الفاظ میں ترقی پسند ادب کو اردو نثر کاعہد زریںبھی کہا جاسکتا ہے ۔
جب کوئی تحریک یا رجحان زمانے کے ساتھ ساتھ تغیر کو لبیک نہیں کہتا تو وہ زوال پذیر ہو نے لگتی ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی تحریک کے وہ اوصاف جو اس کے عروج کا با عث ہوتے ہیں، یکسانیت کے باعث وہی تحریک کے زوال کا سبب بھی بنتے ہیں۔ ترقی پسند نثرکے بعض مو ضو عات اور رویے شدت پسندی کا شکار ہو کر بے رس ہوتے ہوتے اکتا ہٹ پیدا کرنے لگے۔ معاشرے کی بات کرتے کرتے ترقی پسند ادب نعرے بازی اور پرو پیگنڈے کا شکار ہو گیا جب کہ سماجی اور سیاسی اعتبار سے ملک تقسیم سے دو چار ہوا۔ تقسیمِ ملک کے بھیا نک نتائج کے طور پر جو کچھ وقوع پذیر ہوا، اس کے بعد بھی ترقی پسندی اپنا وہی را گ الاپتی رہی جب کہ اجتماعیت رہی اور نہ معا شرہ۔ قتل و غارت گری، لوٹ مار، عصمتوں کے تار تار ہونے نے انسا ن کے اندر ایک ایسا خو ف پیدا کردیا کہ وہ تنہائی پسند ہو تا گیا۔ خارجیت کے حملوں کی تاب نہ لاتے ہو ئے انسان اپنے دا خل میں اترنے لگا۔ ایسے میں اردو ادب نے جدیدیت سے نئی روشنی اور امکانات لینے شروع کیے ۔ جدیدیت کے زیر اثر لکھا جانے والا جدیدادب فطری طور پر آ گے آ یا۔ اس نے انسان کے داخلی کرب ، ذہنی انتشار، خوف،عدم اعتماد کو محسوس کیا اور ایک رجحان کی شکل میں پھیلتا چلا گیااور اردو نثر میں اس رجحان نے ’’اردو افسانہ ‘‘ کو موضوعِ بحث بنا دیا ۔
جدید افسا نہ سامنے آیا جو کئی معنوں میں ترقی پسند افسا نے سے انحراف کر تا ہے۔ اس انحراف نے اردو
افسا نے کو نئی را ہوں اور نئی فضا ئوں کی بلندیوں تک سیر کرایا اور اردو افسا نے کی عمارت کو مزید حسین و جمیل، با معنی اور گہرا ئی و گیرا ئی عطا کی۔ ایسا قطعی نہیں کہ جدید اردو افسا نہ، روا یت سے یکسر بغاوت کر تا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج اردو افسانہ اپنی جڑوں کی طرف واپسی نہیں کرتا اورنا ہی افسانہ روا یتی افسانے کی اساس پر آگے بڑھتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جدید افسا نے نے ترقی پسند افسانے میں در آ ئی یکسانیت، نعرے بازی،بے جا مقصدیت اور خط مستقیم پر آنکھ موند کر چلنے کی عادت جیسی خا میوں کو دور کر نے کے ساتھ ساتھ علا متی نظام، تجریدیت، تجربات، دلکش اسلوب، نئے نئے مو ضوعات، ہیئت کے طے شدہ نظام سے انحراف، داخلیت، فرد کی عظمت، وجودیت، لایعنیت جیسے عنا صر سے اردو افسا نے کو مملو کر کے اس کے دامن کو خاصا وسیع کیا۔
تجریدیت، وجودیت، علامت، لا یعنیت جیسے عناصر جدید اردو ادب کی شناخت ہیں اور ان سب کا ایک ہی موقف رہا ہے یعنی معاشرے کی بجائے فرد کے داخلی کرب اور انتشار کو سمجھ کر اسے نئے تجربات اور ہیئت میں کہانی لکھنا اور ایک خوف زدہ عدم اعتماداور تنہائی پسند شخص کی شناخت کے مسئلے کو مو ضوع بنایا۔ دراصل تقسیم کے بعد کا زمانہ ہند و پاک کے لیے سیاسی اور سماجی اعتبار سے ایک ایسا عہد ہے جس میں سب سے بڑا مسئلہ فرد کی شناخت (Identity)کا ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب خوف و دہشت کا مارا انسان بھیڑ اورہجوم کاحصہ بننے سے گریز کرتے ہوئے تنہا ئی میں خود کو مقیدکرتا ہے دوسری طرف دو نوں ممالک میں سیاسی افراط و تفرط، جنگ و جدل، معاشی بحران، فو جی قوت مضبوط کر نے کے لیے ضروریات کی تخفیف، ایک طرف مارشل کا عذاب تو دوسری طرف ایمر جنسی کی جبریت۔ ان سب نے مل کر خو د بخود وہ حالات پیدا کردیے کہ انسان راز و نیاز، سر گو شی، اشارے کنائے میں گفتگو کر نے لگا، ادب نے بھی علا مات، تشبیہات و استعارات کا سہارا لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بالکل نئے قسم کا ادب ہمارے رو برو ہوا جو قاری کو ذہنی ورزش کی دعوت بھی دیتا ہے اور الفاظ کو نئے مفا ہیم بھی عطا کرتا ہے۔ منظر اور پس منظر حتیٰ کہ پیش منظر کے بارے میں بھی غور و فکر کی طرف مائل کرتا ہے۔ جدید افسا نے روا یتی افسا نوی ڈھنگ، طریقے، انداز اور متعینہ فارم سے انحراف کیا۔ علامتوں کی گہرا ئی، مو ضو عات کی بو قلمونی، اسلوب کی سحر کاری، تجربات کی روشنی، فہم و ادراک کی اعلیٰ سطح نے جدید اردو افسا نے کی شکل میں اردو افسا نے کو ایک عظیم تحفہ دیا۔ا س سے اردو افسا نے کا کینوس وسیع ہوا، موضو عات کا دائرہ پھیلا اور انسانی زندگی کی پیش کش کا نیا طریقہ سامنے آیا۔
’’۱۹۶۰ء کے بعد اردو افسانے میں جن نئے رجحانات کی پرورش ہوئی ان میں نئی فکر اور احساس کی ترجمانی ملتی ہے۔ ان افسانوں میں ترقی پسندی کی کٹر پرستی سے انحراف اور آدرشوں کے باطل ہونے کی یاسیت موجود ہے ۔ان میں جہاں زندگی کی بے معنویت کا شعور ملتا ہے وہاں اہم فکری تجربے بھی ہوئے ہیں ۔ان میں کہانی اور پلاٹ غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اینٹی پلاٹ اور اینٹی افسانے کی جھلک ملتی ہے یہاں تک کہ کردار بھی اب ضروری نہیں۔ گوشت پوست کے ہوں۔ ان میں افسانے کی روایتی وحدت اور ربط اب ضروری نہیں‘‘ ؎۱
جہاں تک جدید اردو افسا نے کے مو ضو عات کا سوال ہے اس میں فرد کے حصار سے موضوعات کا تنوع ہیں ۔ اس عہد میں انسانی زندگی کے وہ تمام تر مو ضو عات سامنے آئے جن کا تعلق انسان کے ظاہر اور با طن سے تھا۔ انسان کی سوچ، فکر کی پرواز اور تصور میں بننے والے ہیو لے بھی پیکریت میں ڈھلنے لگے۔ یوں تو اس عہد کے موضوعات کی ایک طویل فہرست مرتب کی جا سکتی ہے۔ شناخت کا مسئلہ، داخلی انتشار اور کرب، وجو دیت، تنہائی، اقدار کی پامالی، تقسیم کا المیہ، ہجرت کے مسائل، اجنبیت، لا یعنیت، تشکیک، سیاسی جبر، عالمی سیاسی صورت حال، معا شی بحران، جنسی ناآسودگی، شخصیت کا بکھرا ئو، استحصال، زندگی کی بے معنویت، عصری حسیت، ماضی کی باز یافت، انسانی نفسیات، اخلا قی و رو حانی زوال، دیو مالائی عناصر، بر ہمی و احتجاج، بیگانگی، عدم تحٖفظ کا احساس، وغیرہ ایسے مو ضو عات ہیں جن کا جدید افسا نہ نگاروں نے استعمال عمدگی سے کیا ہے۔جدید اردو افسا نہ کے مو ضوعات کے تعلق سے ڈا کٹر رشید امجد پاکستا نی افسا نے کے پس منظر میں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’ہجرت کا دکھ افسا نے میں ماضی کی بازیافت کا حوا لہ بنا لیکن سب سے اہم موضوع خوا بوں کی ٹوٹنے کا المیہ تھا۔ پاکستان بننے کے چند ہی برس بعد احساس ہوا کہ جس مقصد کے لیے اتنی بڑی قربا نی دی گئی تھی، وہ پو را نہیں ہو سکا اور تقسیم کے بعد کوئی بڑی معاشرتی تبدیلی نہیں آئی بلکہ سماجی نا انصا فی کی بد تر صورتیں سامنے آ گئی ہیں۔ساٹھ کی دہائی بے یقینی اور تشکیک کا زمانہ ہے۔ چنانچہ اس دور میں جو افسانہ لکھا گیا وہ خارج کے بجائے با طن کی غواصی کرتا ہے، اسے فرد کی کہا نی کہا گیا ہے۔ یہ کہانی دوسری ذات کی تلاش اور شناخت کا سفر ہے۔ پاکستا نی افسا نے کے رویے کو سیاسی پس منظر سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ سیاسی سطح پر دو قومی شناخت کی گم شدگی کا دور ہے۔ چنانچہ اس دور کی کہانی میں شناخت ایک اہم مو ضوع ہے۔‘‘ ؎۲
جدید افسا نے کے اس عہد میں متعدد عمدہ اور معیاری افسا نے تحریر ہوئے۔ وہ؍ماچس (بلراج مین را)زرد کتا، کچھوے، آخری آدمی (انتظار حسین)،دوسرے آدمی کا ڈرا ئنگ روم، باز گوئی، بجوکا(سریندر پرکاش)، کونپل، گائے، سنڈ ریلا( انور سجاد)، کہا نی مجھے لکھتی ہے، مکھی( احمد ہمیش)تماشا( محمد منشا یاد)،کنوارے(بلراج کومل)، تعاقب،( قمر احسن)،کالی بلی( دیویندر اسر)، الف لام میم( کلام حیدری)، خانے تہہ خانے،تج دوتج دو، آخ تھو( غیاث احمد گدی) عفریت، باشندے، کایا پلٹ (جوگندر پال)، بے ثمر عذاب، بگل وا لا، ایک عام آدمی کا خواب( رشید امجد)،جب اس نے سنا، غیر علامتی کہا نی( احمد جاوید)، مغل سرا ئے، گم شدہ کلمات، جانکی بائی کی عرضی (مرزا حامد بیگ)، ہزار پایہ، سوا ری (حسین الحق)،بڑا کوڑا گھر،شیشہ گھاٹ(نیر مسعود)، دھوپ کی منڈیر، سوچ پہ بیٹھی مکھی( مظہر الاسلام)،نیم پلیٹ( طارق چھتاری) ،کوبڑ( شو کت حیات)، چاکر ( اسد محمد خاں)، سوکھی ٹہنیوں میں اٹکا ہوا سورج( رتن سنگھ)، خشک سمندر کی مچھلیاں (رضوان احمد)، زرد موسم سے پہلے (شمیم منظر)،نصف بوجھ والا قلی(انیس رفیع)،خالی ہوا یہ دل(فردوس حیدر)تیسرا وطن، (شہزاد منظر)، تلوار کا موسم( احمد یوسف)، کیچوا، بیچ کا ورق( ظفر اوگانوی) وغیرہ افسانے جدیدیت کے مختلف مو ضو عات کا احاطہ کرتے ہیں اور اپنی ہیئت، فکر،تجرید، تجربے کی وجہ سے اردو افسا نے میں انفرادیت کے حا مل ہیں۔
جدیدیت کے حوالے سے جو ناول منظر عام پر آئے ان میں عزیز احمد کا ’’آگ ‘‘ قرۃالعین حیدر ’’ آگ کا دریا ‘‘ ،شوکت صدیقی ’’ خدا کی بستی ‘‘ ،جان عالم سیف ’’روپ متی ‘‘،ممتاز مفتی ’’علی پور کا ایلی ‘‘،جمیلہ ہاشمی ’’تلاش ِ بہاراں ‘‘عبداللہ حسین ’’اداس نسلیں ‘‘،قاضی عبد الستار ’’ شب گزیدہ ‘‘ ،علیم مسرور ’’بہت دیر کر دی ‘‘،جیلانی بانو ’’ ایوان ِ غزل ‘‘ وغیرہ قابل ِ ذکر ہیں ۔
جدید اردو افسا نہ قصہ پن کے بجائے اسلوب اور پیش کش پر زیادہ زور دیتا ہے۔ بعض اوقات یہ معا ملہ شدت اختیار کرتے کرتےAnti story تک جا پہنچتا ہے،جہاں کہانی پن کا زیادہ خیال نہ رکھتے ہو ئے افسا نہ آزاد فضائوں میں آگے بڑھتا ہے۔ جدید افسانے میں در آ نے والی شدت یعنی تجریدیت، علامت،اینٹی اسٹوری وغیرہ کے استعمال میں بے احتیاطی، خود کو بہتر سمجھنے کا زعم جب زیادہ بڑھ گیا تو ہمارے وہی ناقدین جو کل تک جدید اردو افسا نے کی تعریف کرتے تھے، اب ان کا زاویۂ نظر بدل گیا تھا۔ شہزاد منظر اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’جدید افسا نہ میں علا مت کے نام پر معمہ پیش کرنے کا رجحان بہت عام ہو چکا ہے۔ جدید افسانہ نگار توقع کرتا ہے کہ قاری اس معمہ کو نہ صرف حل کرے گا بلکہ اس سے لطف اندوز بھی ہو گا۔ اس طرح جدید افسا نہ، صرف افسا نہ نہیں ہوتا ذہنی آزمائش بھی ہو تا ہے۔ چنانچہ اگر ذہین اور اعلیٰ ذوق قاری ہے تو علا متوں کو معنی پہنا نے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اگر وہ اوسط ذہن رکھتا ہے تو جدید افسا نہ سے لطف اندوز نہیں ہو پاتا۔ اس طرح اس میں افسا نہ کے مطالعہ سے بیزا ری اور اکتاہٹ پیدا ہو
جاتی ہے اور وہ گھٹیا ادب کے مطا لعہ کے لیے مجبور کردیا جاتا ہے۔ ‘‘ ؎۳
جدید افسا نہ جو جدیدیت کے زیر اثر وجود میں آیا تھا، 70ء کے بعد ہی زوال پذیر ہونے لگاتھا۔70ء کے بعد ایک اور نسل سامنے آئی جنہوں نے اردو افسا نے کے گرتے معیار اور وقار کو از سر نو بحال کیا۔ افسا نے میں کردار، پلاٹ اور قصہ پن کی واپسی ہوئی۔ موضو عاتی سطح پر بھی خاصا تغیر آ یا اور اب افسا نے میں زمینی حقیقتوں کا دور شروع ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ افسا نے کا زمین سے جڑا ئو اور بیا نیہ کی واپسی نے ایک بار پھر اردو افسا نے کو پٹری پر لادیا لیکن اس افسا نے کا اب نام تبدیل ہو گیا تھا۔ کسی نے سن ستری افسا نہ کہا تو کسی نے انام نسل، کسی نے نیا افسا نہ اور کسی نے Post modernافسانہ رکھا۔ جدید افسا نے میں بعض خامیاں در آئیں اور بے جا تجریدیت اور بے سر پیر کی علا متوں کے استعمال نے اسے حا شیے پر پہنچا دیا۔ لیکن مابعد جدید افسا نے میں متعدد خامیوں کے با وجود آج تک ہم اسے چھوڑ نہیں پائے ہیں اور نہ ہی کوئی نئی صورت حال سامنے آئی ہے۔لہٰذا جب تک اردو افسا نے میں کسی نئی تحریک یا رجحان کی آمد نہیں ہو تی، ہم اسی ما بعد جدید افسا نے سے رو برو رہیں گے
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ما بعد جدید افسانے اور جدید افسانے میں بہت زیادہ فرق نہیں۔ جدید اردو افسانے سے بعض نقصان دہ عوا مل کے نکل جانے اور اس میں مزید عناصر کے شامل ہو جانے کے بعد، وہ مزید نکھر کر سامنے آ یا ہے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ جدید اردو افسا نہ، اردو افسا نے کی روا یت میں ایک اضا فہ کی صورت داخل ہوا۔ ایک خاص مدت میں یہTrackسے ادھر ادھر تو ہوا لیکن بہت جلد ایک نئی انگڑا ئی کے ساتھ ہمارے سامنے آیا۔
جہاں تک جدید اردو افسانے کے مسائل کا تعلق ہے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جدید افسانے کی بعض خوبیاں مثلاً علامت، تجرید، دلکش اسلوب، تجربات، موضوعات کا انو کھا پن وغیرہ کے غلط استعمال سے جدید افسانے میں متعدد مسائل سامنے آ ئے۔ سب سے بڑا مسئلہ ترسیل و ابلاغ کا ہی تھا۔ یہ ہر فن پارے میں الگ الگ سطح کی ہو تی ہے۔ ترسیل سے ہی کسی فن پارے کی مقبو لیت کا اندا زہ ہو تا ہے۔ کبھی علامت کا ابہام ترسیل میں مانع ہو تا ہے تو کہیں اسلوب کی سحر کاری میں،قصہ دب کر رہ جاتا ہے اور کبھی عجیب و غریب تجربات قاری کے فہم و ادراک سے پرے ہو جاتے ہیں۔ بعض مو ضو عات بھی ترسیل میں مانع ہوتے ہیں۔
مجمو عی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ جدید اردو افسانے کا سب سے بڑا مسئلہ ترسیل ہی ہے۔ اسی ترسیل کے با عث بعض بہت اچھے اور خوبصورت افسانے سرنگ،جپی ژان (سریندر پرکاش) کھوپڑی( انور عظیم) اسپ کشت مات(قمر احسن) عکس فنا(اکرام باگ) بھی ادب میں وہ مقبو لیت حاصل نہیں کرسکے جس کے وہ حقدار تھے۔
جدید افسا نے میں ترسیل و ابلاغ کے مسئلے پر معروف فکشن نگار مرزا حامد بیگ کا خیال ذرا مختلف ہے وہ جدید افسا نے میں ابہام اور ابہام سے پیدا ترسیل میں فقدان کے لیے قاری کو بھی ذمہ دار مانتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’ابہام کی ایک وجہ علا مت اور استعارے کا تغیر بھی ہے۔ نئے افسا نے کی علا متیں اور استعارے موجود صورت حال کا تجزیہ کرنے وا لے نئے ذہن کی پیدا وار ہیں اور آج کا افسا نہ نگار انہیںLife Symbolsکے طور برتتا ہے۔ غیر تربیت یافتہ قاری جب تک اپنے آپ کو الفاظ کے مخصوص آہنگ کے ساتھ سیڑھیاں اتارتا افسا نے کی اندرونی ہیئت کے سپرد نہیں کردیتا ، افسا نہ نگار تک رسائی ناممکن ہے۔ اس کی ایک وجہ تو قاری کی تنہا زندگی ہے، نئے تجربے کا فقدان اور دوسری وجہ اس کی فکر کا زمانی تعصب۔‘‘؎ ۴
جدید اردو افسا نے کا دوسرا اہم مسئلہ قرأت ہے۔ در اصل یہ بات بعض جدید افسا نوں پر منطبق ہوتی
ہے کہ جن کی نثر میں تشبیہات ، استعارات اور علا متات کا قدم قدم پر استعمال ہوا ہیں انہیں عام قاری تو عام قاری، بعض پڑھے لکھے قارئین بھی صحیح قرأت نہیں کر پاتے ہیں اور جدید تنقیدی تھیوری کے مطابق لفظ کے معنی تک رسائی میں قرأت کا بڑا دخل ہے۔ قرأت سے الفاظ کے معنی و مفہوم تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں افسا نے سے دلچسپی کا عنصر ختم ہو جاتا ہے۔ ایسے افسا نے، افسا نوی محفلوں اور نشستوں میں بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔
جدید اردو افسا نے کا عہد ۱۹۶۰ء سے ۱۹۸۰ء تک قرا ر دیا جاتا ہے۔ جدیدیت نے اردو افسا نے کو اس قدر مضبوط و مستحکم بنایا اور بعض خوبیوں سے مزین کیا کہ۱۹۷۰ء کے بعد سے آج تک تقریباً تین نسلوں کی ذہنی آ بیا ری کی ۔ ۱۹۸۰ء کے بعد جن افسانہ نگاروں اردو افسانے کو جلا بخشی ان میں انور خان، حسین الحق، شفق، شوکت حیات، نور الحسنین، شموئل احمد، عبد الصمد، غضنفر، مرزا حامد بیگ، مظہر الاسلام، اے خیام، امرا ئو طا رق، احمد دا ئود، سید محمد اشرف، زاہدہ حنا، ساجد رشید، ابن کنول، مشرف عالم ذوقی، ترنم ریاض، طارق چھتاری، ابرار مجیب، جی آر سید، اسلم جمشید پوری، پرویز شہر یار، غزال ضیغم، معین الدین،جینابڑے،احمدرشید،اخترآزاد،صدیق عالم، شبیر احمد، محمد حامد سراج، آصف فرخی، طا ہرہ اقبال، اسرار گاندھی،شاہد اختر، نعیم بیگ، خالد جاوید ، شائستہ فاخری، ثروت خان، نصرت شمسی، افشاں ملک، محمد مستمر، نیاز اختر، ڈا کٹر ریاض توحیدی ،عشرت معین سیما، عشرت ناہید، رابعہ الربا، اسما حسن، اشرف شاد، بلراج بخشی ،منزہ احتشام، نسترن احسن فتیحی، وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں ۔
حوالہ جات:
۱۔دیویندر اسر ،ہندستان میں اردو افسانہ ،مشمولہ ،پروفیسر گوپی چند نارنگ ،اردو افسانہ روایت اور مسائل ،ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس ،دہلی ،۲۰۱۸ء،ص ۶۱۰
۲۔ڈا کٹر رشید امجد،نئے پاکستا نی افسا نے کا سیاسی و فکری پس منظر، ، افسا نہ نمبر، مکالمہ،16،کرا چی
۳۔شہزاد منظر،جدید اردو افسا نہ،منظر پبلیکشنز،کراچی،۱۹۸۲ء ص ،۵۴
۴۔اردو افسا نے کی روا یت، مرزا حامد بیگ، دہلی، ۲۰۱۴ء،ص ۱۴۲
مقالہ نگار : عرفان رشید (ریسرچ اسکالر شعبئہ اردو کشمیر یونی ورسٹی )
پتہ : حاجن سوناواری کوچک محلہ (بانڈی پورہ کشمیر ۔انڈیا)۱۹۳۵۰۱
اٰی میل : irfanrasheedf@gmail.com