وجے کمار
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جموں یونیورسٹی
اردو زبان کے ابتدائی نقوش
زبان آواز اور الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے ۔زبان انسانی احساسات ،جذبات و خیالات کو اداکرنے کا ایک وسیلہ ہے ۔زبانیں زماں و مکاں کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف و منفرد ہوتی ہیں ۔دنیا کی زبانوںکو صوتی ،صرفی اورنحوی خصوصیات کی بِنا پر ماہر لسانیات نے آٹھ خاندانوں میں تقسیم کیا ہے ۔ (۱) سامی (۲) ہند چینی (۳) دراوڑی (۴) منڈا (۵) بانتو (۶) امریکی (۷) ملایائی (۸) ہند یورپی اردو اور ہندی زبانوں کا جس خاندان سے تعلق ہے وہ ہند یورپی خاندان ہے ۔اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اردو ہندی کا تعلق ہند یورپی سے کیسے ملتا ہے ۔جواب یہ ہے کہ اصل میں ہندوستانی (اردو ہندی) کا بنیادی تعلق آریائی زبانِ خاص سے ہے ۔آریائوں کی زبان ہند یورپی ہوا کرتی تھی ۔جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشرقی اور مغربی یعنی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔مغرب میں جانے والے آریائوں کو کنٹم گروہ کا نام دیا گیا ۔آریا جو یورپ میں قیام پزیر ہوئے تھے اُن کی نمائندہ زبانیں یونانی ،لاطینی ،جرمینک ،فرانسیی وغیرہ مشہور ہیں ۔مشرق کی طرف ہجرت کرنے والے آریائوں کو شتم گروہ کا نام دیا گیا ۔جو ایران میں اوستھا (جس کی جدید شکل فارسی ہے )بولا کرتے تھے ۔شتم گروپ کے جو آریا ہندوستان میں وارد ہوئے اُن کی زبان سنسکرت کہلائی ۔ تاریخ نویسوں اور ماہر لسانیات کا ماننا ہے کہ آریا بحرِ روم سے نکل کر وسطی ایشیا سے ہوتے ہوئے ایران اور وہاں سے ہندو کُش پہاڑ لانگ کر تقربیاً ۵۰۰ اق م میں ہندوستان میں دو الگ الگ گروہوں میں وارد ہوئے ۔جہاں تک اُن آریائوں کی زبان کا تعلق ہے جو ہندوستان میں پہنچے اُن کی زبان پہلے ایرانیوں سے متاثر ہوئی کیونکہ وہ آریا کچھ عرصہ کے لئے ایران میں رکے تھے وہاں ہند ایرانی کہلائی ۔اس طرح سے ہند یورپی نے ہند ایرانی سے گزر کر ہند آریائی کے نام سے ہندوستان میں پہچان بنائی ۔ماہر لسانیات نے ہند آریائی کے عہد کو تین ادواروں میں تقسیم کیا ہے ۔ (۱) قدیم ہند آریائی ۱۵۰۰ ق م سے ۵۰۰ ق م ۔ (۲) وسطی ہند آرائی ۵۰۰ ق م تا ۱۰۰۰ء ۔ (۳) جدید ہند آریائی ۱۰۰۰ء تا حال۔ جدید ہند آریائی زبانوں کا زمانہ اِن کا دورِ عروج مانا جاتا ہے ۔ماہرین نے جدید ہند آریائی زبانوں کی گروہ بندی کر کے ان کے ابتدائی نقوش اور علاقوں کو اس طرح سے پیش کیا ہے ۔ ـَشمال مغربی ہند کی زبانیں :۔لہذا جو مغربی پنجاب میں بولی جاتی ہے اور سندھی جو سندھ یعنی کراچی کے علاقوں اور اس کے گرد و نواع میں رائج ہے ۔جنوبی ہند کی آریائی زبان مراٹھی ہے ۔جو موجودہ مہاراشٹر اور اس سے منسلک دکشن بھارت کے علاقوں میں بولی جاتی ہے ۔ مشرقی ہند میں رائج آریائی زبانیں :۔آسامی ،بنگالی ،اُڑیا اور بہاری ہیں ۔مشرقی ہندکی زبانوں سے گہرا تعلق رکھنے والی خاص زبان کا نام گریرسن نے ’’مشرقی ہندی‘‘ رکھا ہے ۔جو اپنی لسانی خصوصیات کی وجہ سے مغربی ہندی کے مماثل بھی ہے ۔مشرقی ہندی کی تین خاص بولیاں ہیں ۔اودھی ،بگھیلی اور چھتیس گڑھی ۔ مدھیہ دیش (مغرب میں سر ہند سے لے کر مشرق میں الہ آباد تک اور شمال میں ہمالیہ کے دامن سے لے کر جنوب میں وندھیاچل اور بُندیل کھنڈ کا علاقہ )کی خاص زبان کا نام گریرسن نے مغربی ہندی رکھا ہے ۔لسانی تحقیق کی روح سے مغربی ہندی کا براہ راست تعلق شورسینی اُپ بھرنش سے ہے ۔گریرسن نے اپنی کتاب (The Linguistic Survey of India)میں مدھیہ دیش میں رائج پانچ اہم زبانوں کو اپنی درجہ بندی میں شامل کیا ہے ۔یہ پانچوں زبانیں ایک ہی اصطلاح یعنی مغربی ہندی کے تحت آتی ہیں ۔مغربی ہندی مدھیہ دیش کی زبان ہونے کی وجہ سے ہند آریائی زبان کی نمائندہ شاخ ہے ۔بقول جارج ابراہم گریرسن :
’’مغربی ہندی کی پانچ بولیاں ہیں ۔(۱) کھڑی بولی (ہندوستانی) (۲) ہریانوی (جاٹو ) (بانگڑو) (۳) برج بھاشا (۴) قنوجی (۵) بندیلی ان پانچ زبانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے ۔ (الف)’’اُو‘‘کو ترجیع دینے والی زبانیں :۔(۱)برج بھاشا(۲)قنوجی (۳)بُندیلی (ب)’’اَ‘‘کو ترجیع دینے والی زبانیں :۔(۱)ہریانوی(۲) کھڑی بولی (۱)برج بھاشا:۔ماہرلسانیات نے برج بھاشا کو شورسینی اپ بھرنش کی سچی جانشین قرار دیا ہے کیونکہ برج بھاشامغربی ہندی کی دوسری بولیوں کے مقابلے میں شورسینی اپ بھرنش اور شورسینی پراکرت کی مجموعی خصوصیات کی حامل رہی ہے۔برج بھاشا کا مرکز برج یعنی متھراکا علاقہ ہے ۔لیکن یہ آگرہ ،بھرت پور ،ڈھول پور ،کرولی،گوالیراور جے پور کے مشرقی اضلاح تک پھیلی ہوئی ہے ۔شمال میں گڑ گائوں ضلع کے مشرقی علاقوںمیںبھی رائج ہے ۔ (۲)بندیلی:۔یہ بولی بندیل کھنڈ کے علاقوں میں بولی جاتی ہے اس کے بولنے والے بندیلے کہلاتے ہیں ۔ (۳)قنوجی:۔مغربی ہندی کی اس بولی کا نام شہر قنوج کے نام پر پڑا ہے جو آج کل ضلع فرخ آباد میں آتا ہے ۔ (۴)ہریانوی:۔اس کو بانگڑو یا جاٹو بھی کہا جاتا ہے ۔دہلی کے شمال مغربی اضلاع کرنال ،رہتک ،حصار وغیرہ کی عوامی بولی ان تینوں ناموں سے پکاری جاتی ہے ۔گریرسن موجودہ ہریانوی کو کھڑی بولی کی ہی ایک شکل مانتا ہے ۔جس میں راجستھانی اور پنجابی بولیوں کی آمیزش بھی پائی جاتی ہے ۔ (۵)کھڑی بولی (ہندوستانی):۔یہ بولی مغربی روہیل کھنڈ ،دوآبہ گنگ و جمن کے شمالی حصے اور پنجاب کے ضلع انبالہ میں بولی جاتی ہے ۔گریرسن نے کھڑی بولی کو ہی ہندوستانی کا نام دیا ہے ۔کھڑی بولی کی دو شاخیں ہیں ۔اردو اور ہندی ۔اردو کے لئے خط ِ نستعلیق مروج ہے جبکہ ہندی کے لئے دیوناگری رسم الخط استعمال کیا جاتا ہے ۔ کھڑی بولی کے اوصاف:۔
کھڑی بولی میں مشدّد الفاظ کا استعمال کثرت سے دیکھنے کو ملتا ہے ۔جیسے رّٹی (روٹی)بدّل (بادل)چدّر (چادر) گڈّی (گاڑی) وغیرہ۔
قدیم اردو یعنی دکنی اس لحاظ سے کھڑی بولی سے قریب نظر آتی ہے جس میں ’’سُنا‘‘(سونا)’’چلّا‘(چولا )عام ہیں ۔سہارنپور ،مظفرنگراور میرٹھ مشتدّد الفاظ کے کثرت ِاستعمال کی وجہ سے ’’اضلاع مشدّدہ‘‘ کہے جاتے ہیں ۔دکنی اردو کی طرح کھڑی بولی کی یہ عام خصوصیت ہے کہ اس میں درمیانی ’’ہ‘‘گرا دی جاتی ہے اور آوازیں اپنی ہیت کھو دیتی ہیں ۔جیسے نئیں (نہیں )کاں (کہاں )وغیرہ۔کھڑی بولی میں دکنی کی طرح مصوتوں کو انفیانے کا رجحان عام ہے ۔جیسے فاطماں (فاطمہ)کہناں (کہنا)دیاں (دیا)کونچ در کونچ(کوچ در کوچ ) کھڑی بولی میں اسماء (ناموں)کی جمع الف نون لگا کر بنائی جاتی ہے ۔جیسے دِن سے دناں ،کھیت سے کھتیاں وغیرہ۔کھڑی بولی میں ضمیر میں تیرا میرا کی جگہ تجھ مجھ کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے ۔کھڑی بولی میں افعال کی صورت یہ ہے ’’میں مارتا ہوں‘‘کے ساتھ میں ماروں ہوں ۔وہ مارے ہے ۔تو مارے ہے ،بھی ملتا ہے ۔
کھڑی بولی کے اوصاف بیان کرنا اس لئے بھی ضروری بنتا ہے کیونکہ اردو کا رشتہ کھڑی بولی کے ساتھ ماں بیٹی کا ہے ۔اردو کھڑی بولی اور ہریانوی کی آمیزش سے ہی نکلی ہے ۔البتہ اس میں اکثر و بیشتر ،دکنی ،برج بھاشا ،بندیلی ،قنوجی بولیوں کے اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔اردو زبان میں الفاظ کا جو ذخیرہ ہے اس میں دکنی ،مراٹھی،گجراتی ،قنوجی ،بندیلی ،ہریانوی ،پنجابی راجستھانی اور کھڑی بولی کے علاوہ سنسکرت ،فارسی ،عربی ترکی،سندھی ،بلوچی ،انگریزی ،تامل وغیرہ زبانوں کے الفاظ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔مگر اردو زبان کی یہ انفرادیت ہے کہ اس نے جس زبان کے الفاظ بھی اپنے اندر سمیٹے ہیں اُن کو جوں کا توں قبول نہیں کیا ہے بلکہ اپنے مزاج کے حساب سے الفاظ کے تلفظ املا اور ہجا کا ردوبدل کر کے اپنے میں اس طرح سے ضم کیا ہے کہ اُن الفاظ کو متروک سمجھنا یا باہر کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور پڑھتے وقت خالص اردو کے الفاظ معلوم پڑتے ہیں ۔ذیل میں اردو زبان کے آغاز کے متعلق چند نظرئے درج ہیں ۔
مولانا محمد حسین آزاد نے آب حیات میں لکھا ہے کہ اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ اردو برج بھاشا سے نکلی ہے اور یہ کہ اردوشاہجہان کے عہد میں تکمیل کو پہنچی ۔میر امن نے اپنی شہکارتصنیف باغ و بہار میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اردو اکبر کے عہد میں پیدا ہوئی اور شاہجہان کے عہد میں فروغ پایا۔ شوکت سبزواری نے اپنی کتاب ’’اردو لسانیات‘‘میں دوآبہ گنگ و جمن کو اردو کا مسکن قرار دیا ہے اور یہ کہ اردو پالی سے نکلی ہے ۔حافظ محمود شیرانی نے اپنی تصنیف ’’پنجاب میں اردو‘‘میں اردو زبان کے آغاز کو سر زمین پنجاب سے منسوب کیا ہے ۔ڈاکٹر سہیل بخاری نے اردو کی جائے پیدائش اُڑیسہ کو قرار دیا ہے ۔سلیمان ندوی نے اردو زبان کے آغاز کا سہرا وادی سندھ کے سر باندھا ہے۔محی الدین قادری زور نے ہندوستانی لسانیات میں اردو زبان کے ارتقاء کو ہریانوی کے اثرات سے جوڑ کر دیکھا ہے ۔اختر اورینوی نے اردو کو ،مگدھی سے نکلنے کا نظریہ دیا ہے ۔نصیرالدین ہاشمی نے اپنی مشہور کتاب ’’دکن میں اردو‘‘میں اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ اردو کا چلن سب سے پہلے دکن میں ہی تھااس لئے اردو دکن میں ہی پیدا ہوئی ہے۔ڈاکٹر گیان چند جین نے کھڑی بولی کو اردو کا اصل قرار دیا ہے ۔انشا اللہ خان انشاؔ ء نے اردو کو عربی ،فارسی ،ترکی اور برج بھاشا پر مشتمل قرار دیا ہے ۔پروفیسر مسعود حسین خان نے اپنی شہرت یافتہ کتاب ’’مقدمہ تاریخ زبانِ اردو ‘‘میں سر زمینِ دہلی اور اس کے گرد و نواح کو اردو کی جائے پیدائش قرار دیا ہے ۔بقول مسعود حسین خان :۔
’’نواح دہلی کی بولیاں اردو کا اصل منبع ہیں اور حضرت دہلی اس کی حقیقی مولدو منشا‘‘
مندرجہ بالا تمام نظریات اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں ۔ہر محقق نے اپنے نظریئے کے ساتھ اُس کا جواز بھی پیش کیا ہے ۔مگر پروفیسر مسعود حسین خان کا نظریہ اور جواز قابلِ قبول معلوم ہوتا ہے اور اب تک کی تحقیق کے مطابق بہت سے محققین ادب اور ماہر لسانیات مسعود حسین خان کے نظریہ کی تائید کر رہے ہیں ۔تا ہم اردو کی ابتدا کے متعلق بہت سی باتیں پردہ خفا میں ہیں جو تشنہ تحقیق ہیں محمد حسین آزاد اور میر امن کا یہ دعویٰ کہ اردو نے شاہجہان کے عہد ِ حکومت میں قلعہ معلی میں فروغ پایا کسی نہ کسی قدر قابلِ قبول معلوم ہوتاہے ۔اردو کی پیدائش کے متعلق مسعود حسین خان اور گیان چند جین کے نظریات میں اگر چہ اختلاف ہے پھر بھی کسی حد تک غور ِطلب ہیں ۔مسعود حسین خان کی رائے میں نوائے دہلی کی بولیاں اردو کا اصل منبع ہیں اور حضرت دہلی اس کا اصل مولدو منشا اور بقول گیان چند جین ،’’اردو کھڑی بولی سے نکلی ہے ‘‘۔یہ دعوے نئے محققین کو مزید تحقیق کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور اردو زبان کے آغاز کے متعلق بہت سے پردے کھولتے ہیں ۔بقول سنتیی کمار چٹر جی :۔ ’’اگرمسلمان ہندوستان میں نہیں آتے تب بھی جدید ہند آریائی زبانوں کی پیدائش ہو جاتی۔ لیکن ان کے ادبی آغاز و ارتقاء میں ضرور تا خیر ہوتا‘‘ اردو زبان کے آغاز کا سہرا عموماًمسلمان حملہ وروں کے سر جاتا ہے جن کی فوجیں وقتاً فوقتاً جنگوں کے دوران ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں پھیل گئی ۔بس آپس میں لین دین اور بات چیت کے دوران ایک نئی بولی وجود میں آنے لگی جو ترقی کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد اردو زبان کے نام سے مشہورہو گئی ۔اردو کو پہلے ریختہ اور اردوئے معلی کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا جبکہ اس سے پہلے ہندی ،ہندوی اور ہندوستانی کا نام مروج تھا ۔فوجوں میں ترکی۔ایرانی،عربی ،منگول ،ازبیک اور افغان لوگ زیادہ تر شامل ہوا کرتے تھے ۔آہستہ آہستہ کچھ ہندوستانی بھی مسلمانوں کی فوج میں شامل ہونے لگے اس طرح سے آپسی میل ملاپ زیادہ بڑھ گیا اور برصغیر میں ایک نئی زبان نے جنم لیا جس کا نام اردو قرار پایا۔ اس مختصر سے تجزیہ کے بعد یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ اردو ایک ہند آریائی زبان ہے جو کھڑی بولی اور ہریانوی کی آمیزش سے بنی ہے ۔نواح دہلی اور شمالی ہندکے علاقوں میں اردو پروان چڑھی،دکن اور شمالی ہندنے اسے فروغ بخشا اور بعد میں فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد پورے ہندوستان میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئی ۔اردو کا طرز تحریر اور انداز کتابت ’’نستعلیق ‘‘کہلاتا ہے ۔خط ِ نستعلیق کا ارتقاء ایران میں ہوا تھا ۔ایران کے نامور عالم اور فاضل خواجہ میر علی تبریزی نے عربی کے دو رسوم خط ’’نسخ‘‘اور ’تعلیق‘‘کو ملا کر ایک نیا رسم الخط ایجاد کیا تھا ۔جو نستعلیق کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اردو زبان کے لئے آج یہی رسم الخط مروج ہے اور یہ اردو کا اپنا رسم الخط بن گیا ہے ۔اردو کا صوتی نظام مختلف زبانوں سے آئی ہوئی آوازوں کا مجموعہ ہے جس کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا جا چُکا ہے ۔اردو میں خالص ہند آریائی یا ہندی الاصل آوازیں ،خالص عربی آوازیں ،خالص فارسی آوازیں اور دو یا تین زبانوں کی مشترک آوازیں پائی جاتی ہیں ۔اردو ہند آرائی زبان ہے اس لئے اس میں خالص ہندی نثراد آوازوں کی تعدادسب سے زیادہ ہے ۔اردومیں عربی الفاظ براہ راست عربی زبان سے داخل نہیں ہوئے بلکہ فارسی کے توسط سے اردو میں آئے ہیں ۔اردو نے ان الفاظ کو اپنی زبان کے مزاج ،منہاج اور صوتی آہنگ کے مطابق اختیار کیا ہے ۔ مجموعی طور پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اردو ایک جدید ہند آریائی زبان ہے ۔ہندوستان کی دوسری زبانوں کی طرح اس کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے اپنا لسانی عمل ہے ۔اپنا ارتقائی مدراج ہے ۔اپنی قواعد ہے اور لغت ہے ۔صوتی نظام ہے ۔ہئیت و تشکیل کے اپنے اصول ہیں ۔اپنا معیار ہے اور اپنا رسم الخط بھی۔یہ ایسے حقائق ہیں جنھوں نے مل کر اردو کی انفرادیت کو نکھارا اور سنوارا ہے ۔اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے یہ بات سچ ہے کہ مغلوں کی سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی فارسی کا چلن کم ہوا اور اردو زبان نے فروغ پایا۔ہندوستان میں ادبی نقطہ نظر سے ہندی اور اردو دو الگ الگ زبانیں ہیں ۔جبکہ بول چال کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہاں کے ہندو ،مسلم ،سکھ ،عیسائی ،پارسی ،بودھ ،جین سب لوگ آپس میں اگر مادری زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں بات کرتے ہیں تو وہ اردو ہی ہے جس کو ہندوستانی کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔اس طرح تحریری طور پر دو زبانیں ہیں ۔اردو اور ہندی ۔جبکہ بول چال کے لحاظ سے ایک ہی زبان ہے وہ ہے ہندوستانی۔
اکتسابِ فیض :
اردو زبان کی لسانی تشکیل ۔مرزا خلیل احمدبیگ
مْقدمہ تاریخ زبانِ اردو۔مسعود حسین خان
ایک بھاشا دو لکھاوٹ دو ادب ۔گیان چند جین ***