You are currently viewing اردو غزل اور عشق حقیقی درد کی غزل گوئی کے حوالے سے

اردو غزل اور عشق حقیقی درد کی غزل گوئی کے حوالے سے

ڈاکٹر سعدیہ سلیم

سینٹ جانس کالج ، آگرہ

اردو غزل اور عشق حقیقی درد کی غزل گوئی کے حوالے سے

تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے  محبت کو محبوب تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا اور محبوب کی اطاعت اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے کو محبت کی صداقت کی دلیل ٹہرایا اور نفوس کو محبت کے حصول کے لیے طرح طرح کی قربانیاں اور مشقت برداشت کرنے پر برانگیختہ کیا اور یہ محبت حضرت عالم علوی اور عالمی سلفی (زمین و آسمان) میں ودیعت کی تاکہ وہ ایجاد، امداد اور قوت کے اعتبار سے  فعل کی طرف منتقل کریں اور بلند ہمتوں اور بلند  اعلی جذبوں کو عالیشان رفعتوں کے حصول کی ترغیب دی…

پاک ہے وہ ذات جس نے محبت کی طرف دلوں کو  جب چاہا  اور جیسے چاہا پھیر دیا اور اس محبت کے ذریعے اپنی حکمت کے ساتھ اس چیز کو نکالا جس کے لیے ہر جاندار کو پیدا کیا گیا ہے،،،اللہ کے ذکر سے محبت اللہ کی محبت کی علامت ہے کیونکہ محب محبوب کے ذکر سے کبھی سراب نہیں ہوتا  بلکہ وہ تو اس کو بھول ہی نہیں سکتا کہ اسے یاد دلانا پڑےابن اعرابی فرماتے ہیں:- العشقہ ایک  بیل کو کہتے ہیں جو پہلے سبز اور پھر زرد ہو جاتی ہے اور جس چیز کو لگتی ہے ساتھ چمٹ جاتی ہے عشق کو اسی سے مشتق کیا گیا عشق افراط ہے محبت کا نام ہے۔امام فراءفرماتے ہیں :- العشق نبت کزج… عشق یعنی  چپکنے والا لیس دار پودا عشق بھی انسان کے دل کے ساتھ چپک جاتا ہے اس لیے اسے عشق کہتے ہیں عشق کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے تصوف کا علاقہ اس سے مستعار لیا گیا ہے عشق کی وضاحت پر سب سے زیادہ علمی کام اب تک صوفیا ہی کر سکے ہیں خواجہ میر درد شاعری میں تصوف کے امام کہلاتے ہیں درد کے مزاج میں درد مندی اور خاکساری تھی تصوف کا جذبہ درد کے جسم و جان میں سرائیت کر گیا تھا انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے دوسروں کو بھی اس حقیقت سے آگاہ کیا ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو:-

مت اٹکیو تو اس میں کہ مشہود کون ہے

ہر مرتبہ میں دیکھیو موجود کون ہے

دونوں جگہ میں معنی مولا ہے جلوہ گر

غافل ایاز کون ہے محمود کون ہے

غزل کو اردو شاعری کی آبرو کہا گیا ہے غزل اردو شاعری کی بہت مقبول صنف ہے اگر اردو شاعری کی بات کی جائے تو سب سے پہلے ہمارے ذہن میں غزل کا ہی تصور آتا ہے یہ حسن و جمال کی رنگینیوں دلاآویزیوں کی وجہ سے ہی اردو شاعری میں بہت بلند مقام رکھتی ہے یہ سمندر کی طرح گہرائی رکھتی ہے اس کی مثال کسی اور صفت میں نہیں ملتی ان ہی سب خصوصیات کو دیکھتے ہوئے آل احمد سرور نے کہا تھا:-

غزل میں ذات بھی ہے کائنات بھی

ہماری بات بھی ہے اور تمہاری بات

غزل کا دائرہ بہت وسیع ہے اس میں موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے غزل کے موضوعات صرف محبوب کے  رخ و رخسار اور گل و بلبل تک محدود نہیں غزل کے اندر موضوعات کا ایک بیش بہا سمندر ہے  اور اس کا ہی ایک اہم موضوع عشق ہے عشق غزل کے خمیر میں شامل ہے. عشق کی کیفیات عشق مجازی اور عشق حقیقی ہیں  عشقِ مجازی سے مراد دراصل ایک انسان کے مکمل وجود سے شدید پیار کرنا اور اپنی طلب کو وجودِ محبوب کے دائرے کا محور رکھنا یا  دوسرے الفاظ میں  ایسا سمجھ سکتے ہیں کہ کسی ایک انسان کے لیے اپنے آپ کو اس کی خواہشات کے مطابق ڈھال لینا یا وقف کر دینا  یہ عشقِ مجازی ہے جبکہ عشقِ حقیقی ہے اللہ تعالی کی ذات سے عشق ہوجانا  کائنات کے ہر ذرے میں اس کو محسوس کرنا کہ کائنات میرے رب کا معجزہ ہے اس کی بناء ہر شے خوبصورت ہے پہاڑ، دریا سمندر صحرا، سرسبز میدان، پھول پودے، چرند پرند، جنگل بیاباں اور آتے جاتے موسم کونسی چیز ہے جو مکمل خوبصورت نہیں ہر شے میں اس کا جلوہ ہے آتا سورج ہو یا ڈھلتا سورج اللہ کے ہونے کا اعلان ہے اللہ تعالی سے عشق ایک لافانی و لامحدود انسانی جذبہ ہے جس کا براہِ راست تعلق ایک روح سے دوسری روح تک ہوتا ہے خواجہ میر درد کا مسلک عشق تھا ان کی شاعری صوفیانہ رنگوں سے سجی ہوئی ہے ان کے لفظوں میں سچائی ہے الفاظ میں معنویت ہے اگر ہم صوفیانہ شاعری کی بات کریں تو ان کے ذریعے  ہی یہ غزل میں عام ہوئی ان کا  عشق عشق ِ حقیقی ہے  اور ان کا محبوب حقیقی ہے  اس لیے ان کے کلام میں پاکیزگی ہے ایک شعر ملاحظہ ہو :-

جی کے جی میں رہی بات نہ ہونے پائی

ایک بھی اس سے ملاقات نہ ہونے پائی

 خواجہ میرا درد کی شاعری کی ایک اہم شناخت ہے ان کا صوفیانہ لہجہ اور دنیا کی بے ثباتی کا اظہار ہے وہ ہمیشہ اس دنیا کو صوفیانہ انداز میں دیکھتے یہ غزل ملاحظہ کریں:-

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آ سکے

آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے

میں وہ فتادہ ہوں کہ بغیر از فنا مجھے

نقش قدم کی طرح نہ کوئی اٹھا سکے

قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے

اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے

غافل خدا کی یاد پہ مت بھول زینہار

اپنے تئیں بھلا دے اگر تو بھلا سکے

یارب یہ کیا طلسم ہے ادراک و فہم یاں

دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جا سکے

گو بحث کر کے بات بٹھائی بھی کیا حصول

دل سے اٹھا غلاف اگر تو اٹھا سکے

اطفائے نار عشق نہ ہو آب اشک سے

یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے

مست شراب عشق وہ بے خود ہے جس کو حشر

اے درد? چاہے لائے بہ خود پر نہ لا سکے

کبھی کبھی درد خدا سے یوں بھی ہمکلام رہتے۔

مدرسہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا

ہم سبھی مہمان تھے واں تو صاحبِ خانہ تھا

درد کی شاعری میں سادگی پائی جاتی ہے درد  کی  غزلیں سہل ممتنع کی اعلیٰ ترین مثال ہیں شعر ملاحظہ ہوں :-

جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

ان لبوں نے نہ کی مسیحائی

ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا

درد کی شاعری نے زندگی کی طرح اسے ایک مقصد دیا آپ نے شاعری کو نتیجہ انسانیت کہا ہے اور اسی وجہ سے ان کی شاعری  انسانی دوستی کے جواہر سے مالامال نظر آتی ہے جیسے کہ اس شعر سے ظاہر ہے:-

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

میر تقی میر کہتے ہیں کہ “درد ریختہ کا زور آور شاعر ہے، درد خوش بہار گلستانِ سخن ہیں…

محمد حسین آزاد نے درد کے بارے میں لکھا کہ” درد تلواروں کی ابداری نشتروں میں بھر دیتے ہیں “

بقول رام بابو سکسینہ :-” درد اردو شاعری کے تاج کا سب سے بڑا ہیرا ہے “. ( تاریخ اردو ادب)

درد کی شاعری کا موضوع وحدت الوجود رہا درد نے اپنی شاعری میں اس طرح کہا کہ :-

مرا جی ہے جب تک تیری جستجو ہے

زباں جب تلک ہے یہی گفتگو ہے

نظر میرے دل کی پڑی درد کس پر

جدھر دیکھتا ہوں وہی رو برو ہے

خواجہ میر درد کا شمار اپنے دور کے مشہور صوفیوں اور بزرگوں میں ہوتا ہے ان کی شاعری پر تصوف کا پورا رنگ غالب ہے خواجہ میر درد تاریخ کے اس نازک دور میں پیدا ہوئے جب کہ دہلی شہر جو بظاہر آباد لیکن اجڑنے کے لیے کھڑا تھا ہر جانب سے قتل و غارت گری کی آوازیں سنائی پڑتی تھیں مغلیہ سلطنت کا سورج بھی غروب کو پہنچ چکا تھا درد کی پیدائش 1720 میں ہوء ان کے والد خواجہ محمد ناصر عندلیب ایک درویش اور خوار رسیدہ بزرگ تھے ان کا خاندان بخارا سے ہندوستان آیا خواجہ میر درد کے اندر شاعری کا ذوق بہت کم عمری میں ہی پیدا ہوگیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ محض پندرہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی پہلی تصنیف “اسراہ الصلو?”. کے نام سے لکھی اور بیس سال کی عمر میں اپنے والد کی تصنیف “نالہ عندلیب”. پر قطعہ تاریخ تصنیف لکھا جسے ان کے والد نے بہت پسند کیا… درد ایک ایسے انسان تھے جنہیں قدرت نے حسن سیرت کے ساتھ حسن صورت سے بھی نوازا تھا ان کے مزاج میں اعتدال اور بردباری کی صفات موجود تھیں اس لئے جس محفل میں جاتے بہت عزت و احترام کے ساتھ مسند بلند پر بیٹھائے جاتے…

انسانی فطرت کا سب سے قوی جذبہ عشق ہے اور یہی وہ جذبہ عشق ہے جسے اردو غزل کی روح کہا جاتا ہے خواجہ میر درد کی شاعری میں عشق حقیقی اور عشق مجازی دونوں طرح کے عشق کے نمونے ملتے ہیں درد کی عشقیہ شاعری کے بارے میں  خلیل الرحمن اعظمی لکھتے ہیں کہ :-

خواجہ میرا درد کی شاعری کا عاشق اپنے مزاج کے اعتبار سے میر کی شاعری کے عاشق سے بہت ملتا جلتا ہے دونوں کے یہاں دھما چوکڑی اور کشتم کشتا کے بجائے سپردگی اور گداختگی ملتی ہے دونوں آہستہ آہستہ  سلگتے ہیں یکایک بھڑک نہیں اٹھتے  ایک مدت تک اپنے دل کو بہلاتے پھسلاتے ہیں محبوب سے شکوہ شکایت کرنے میں ڈانٹتے پھٹکارتے نہیں دھمکی یا چیلینج نہیں دیتے نرم اور مانوس لہجہ میں کچھ سرگوشی اور چمکارنے کے انداز میں باتیں کرتے ہیں “

درد کی شاعری کے اس پہلو کو ان کے اشعار سے بھی سے سمجھ سکتے ہیں :-

دل دے چکا ہوں اس بت کافر کے ہاتھ میں

اب میرے حق میں دیکھیے اللہ کیا کرے

درد نے اپنی شاعری کے ذریعے عشق حقیقی تصوف اور روحانیت کی چاشنی سے چار چاند لگا دئیے ہیں درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں :-

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پاسکے             میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

وحدت میں تیری حرف دوء کا نہ آسکے

آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے

درد خود عشقِ حقیقی میں ڈوب کر عشقیہ اشعار کہا کرتے تھے اور انہوں نے اپنی اس لازوال شاعری سے رہتی دنیا تک عشق کے فلسفے کو امر کردیا…

مرا جی ہے جب تک تری جستجو ہے

زباں جب تلک ہے یہی گفتگو ہے

خدا جانے کیا ہوگا انجام اس کا

میں بے صبر اتنا ہوں وہ تند خو ہے

تمنا تری ہے اگر ہے تمنا

تری آرزو ہے اگر آرزو ہے

کیا سیر سب ہم نے گلزار دنیا

گل دوستی میں عجب رنگ و بو ہے

غنیمت ہے یہ دید و دید یاراں

جہاں آنکھ مند گئی نہ میں ہوں نہ تو ہے

نظر میرے دل کی پڑی درد? کس پر

جدھر دیکھتا ہوں وہی رو بہ رو ہے

خواجہ میر درد کی اشعار میں صوفیانہ رنگ کا اظہار ایک عمیق موضوع ہے جو ان کی شاعری کی اہمیت کو بڑھاتا ہے۔ ان کی شاعری میں روحانیت، معنویت اور خدا کی محبت کے پیغام کو خوبصورتی سے پرویا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خواجہ میر درد کی شاعری میں دنیاوی عشق کی بجائے  عشق خدا کی ہی بات جابجا ملتی ہے۔

ان کے اشعار میں صوفیانہ رنگ کی واضح جھلک دیکھی جاسکتی ہے جس کا اظہار انکی غزلوں سے بھی ہوتا ہے درد نے زندگی کے اہم موضوعات کو بھی صوفیانہ نظر سے دیکھا ہے  ان کی شاعری میں عشق کے زمینی اور رومانی جذبات کو اس طرح سے بیان  کیا گیا ہے کہ وہ  خدا کی محبت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔

تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے

جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے

خواجہ میر درد زندگی کی اذیتوں اور بے ثباتی پر یوں گویا ہیں۔۔۔

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

دوستو دیکھا تماشا یاں کا سب

تم رہو خوش ہم تو اپنے گھر چلے

کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا

ایک دم آئے ادھر اودھر چلے

آہ بس مت جی جلا تب جانیے

جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے

ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوست

زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے

شمع کے مانند ہم اس بزم میں

چشم تر آئے تھے دامن تر چلے

ڈھونڈھتے ہیں آپ سے اس کو پرے

شیخ صاحب چھوڑ گھر ،باہر چلے

ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے

وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے

ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے

ساتھ اپنے اب اسے لے کر چلے

درد دنیا کی عارضی لذتوں اور جام و ساغر کیلیے  سے بہکنے کو انسان کی خود فریبی سمجھتے تھے جیسے کہ آپ  ان اشعار میں اس طرف اشارہ کرتے ہیں

جوں شرر اے ہستی? بے بود یاں

بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے

ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ

جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

درد? کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب

کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے

 خواجہ میر درد نے انسانیت کی اہمیت اور انسانی رشتوں کے پیچھے چھپی معنویت کو اجاگر کیا۔ ان کی شاعری میں انسانی  جذبات کے ساتھ اور خدا کی محبت کے پیغام کو انسانوں تک  منتقل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

 صوفیانہ رنگ خواجہ میر درد کی شاعری کی ایک خصوصیت ہے جو ان کے اشعار کو ایک معنوی پیغام کا ذریعہ بناتے ہیں اور ان کی شاعری زندگی کی  عمیق راہوں میں انسانیت راہنمائی کرتی ہے۔

جیسا کہ اس شعر میں آپ فرماتے ہیں:-

قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے

اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے

کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں مری

جی میں یہ کس کا تصور آ گیا

اپنے بارے خواجہ میر درد یوں گویا ہیں :-

میں جاتا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑے

مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا

دنیا کی بے ثباتی پر آپ یوں رقم طراز ہیں :-

سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں

زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں

خواجہ میر درد قوت ایمانی کو مسلمان کی ایک بہت بڑی طاقت اور دولت سمجھتے تھے جیسا کہ اس شعر میں انہوں نے فرمایا ہے :-

ایک ایمان ہے بساط اپنی

نہ عبادت نہ کچھ ریاضت ہے

درد اپنی عمر رفتہ کو اداسی میں  کچھ یوں یاد کرتے ہیں

روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے

اے عمر رفتہ چھوڑ گئی تو کہاں مجھے

اپنے محبوب حقیقی کی ملاقات کے بغیر درد دنیا کے دیکھنے یا نہ دیکھنے کو بے معنی سے قرار دیتے ہیں درد اپنے محبوب حقیقی کے فراق کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں:-

تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا

برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا

درد انسان کا فرشتوں سے موزانہ کرتے ہوئے کہتے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بال و پر کے بنا و مقام و مرتبہ عطاءفرمایا جو فرشتوں کو باوجود بال و پر اور پاکیزگی کے میسر نہ آیا :-

باوجودے کہ پر و بال نہ تھے آدم کے

وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا

خواجہ میر درد کو اردو صوفیانہ  شاعری کا امام کہا جاتا ہے آپ کی شاعری اور تصوف لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں لیکن درد کو صرف صوفی شاعر کہنا بھی ان کی شاعری سے ناانصافی ہوگی درد نے نہ صرف زندگی کے ہر پہلو کو موضوع بحث بنایا ہے بلکہ زندگی نشیب و فراز ، سوز و ساز، گداز کو کھل کر بیان کیا ہے۔

سیر بہار باغ سے ہم کو معاف کیجیے

اس کے خیال زلف سے درد? کسے فراغ ہے

لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صوفیانہ شاعری اور درد ہمیشہ لازم و ملزوم رہیں گے اور درد کا نام صوفیانہ شاعری کے امام اول کے طور پر ہمیشہ قائم رہے گا

***

Leave a Reply