’ارژنگ قلم ‘اہم تحقیقی  کاوش  کا نمونہ

پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین

ہندستانی زبانوں کا مرکز ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی

’ارژنگ قلم ‘اہم تحقیقی  کاوش  کا نمونہ

         زبان اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں ایسی نعمت ہے کہ جس کے سبب انسان  ممیز ہوا دیگر جانداروں سے لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں بلکہ اصل تو یہ ہے کہ جس معاشرے نے زبان کو ترقی دی وہ معاشرہ     ترقیات کی  منزلیں طے کرتا رہا ۔ ان منازل میں ایک اہم منزل ادب کی آماجگاہ  بھی ہے ۔کہاجاتا ہے کہ دنیا کی وہ زبان کبھی صفحہٴ ہستی سے نہیں مٹ سکتی  جس میں ادب عالیہ کی تخلیق ہوئی ہو۔ اردو دنیا کی ان ترقی یافتہ زبانوں میں سے ایک ہے جس میں ادب عالیہ  موجود ہے اور حیرت یہ بھی ہے کہ دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے مقابلے یہ زبان  سب سے کم عمر ہے ۔ لیکن اس کم عمری میں بھی  اس کے دامن میں ادب عالیہ کے ایسے ایسے نوادرات موجودہیں جو دنیا کے کسی بھی ادب کے برابر رکھے جاسکتے ہیں ۔

         ادبیات عالم کی تاریخ کو ذہن میں رکھیں تو یہ باور ہوتا ہے کہ دنیاوی ادب کے بہت سے اثاثے اس لیے محفوظ نہیں رہ سکے کیونکہ اس  کی جانب ان کے   وارثین نے توجہ نہیں دی ۔آج کا دور تو وہ دور ہے جو شناختوں کے  پیچھے  دوڑ رہاہے خواہ وہ طاقت وقوت کی شناخت ہو یا اقتصاد کی شناخت۔ لیکن ان شناختوں میں اہم  شناخت تہذیبی اور لسانی شناخت ہے ۔ جس قوم نے اپنی تہذیبی شناخت کو زندہ رکھنے میں کوششیں کیں وہ دنیا میں احترام کی نظروں سے دیکھی جاتی ہے ۔اسی لیے قابل ستائش ہیں وہ لوگ جو اپنی  تاریخ کو زندہ و تابندہ کرنے کی سمت میں کوشاں ہیں ۔رمیشا قمر کو بھی میں اسی فہرست میں شامل کرتا ہوں کہ انھوں نے اپنی تاریخ  و تہذیب  کو روشن و منور کرنے کی سمت میں ایک اہم خدمت انجام دی ہے۔

         ’’ارژانگ قلم ‘‘    اسی سمت  میں ایک اہم کوشش ہے ۔ یہ صر ف  کرناٹک وحیدر آباد کی خواتین  کی تحریروں کا مرقع نہیں ہے بلکہ یہ اس خطے کے ساتھ ساتھ  برصغیر کی تہذیب و ثقافت اور علم و ادب کاسرمایہ ہے ۔ مجھے حیرت ہے کہ ایک ریسرچ اسکالر نے  اپنی سندی  تحقیق کے دوران یہ اضافی تحقیقی کام کیا ہے جس پر ان کو سند دی جاسکتی ہے ۔( اللہ ان کو سلامت رکھے )   رمیشا قمر کی یہ تحقیقی کاوش  مثالی بھی ہے اور نئی نسل کے لیے ایک پیغام  بھی ہے ۔

         اردو ادب کا اسے المیہ  کہیں  یا عجوبہ ؟کہ  خواتین  قلم کار وں نے عرصے بعد اس میدان میں قدم رکھا ۔ ابتدائی نقوش   ضرور ملتے  ہیں مگر یہ نقوش بھی درِ پردہ   ملے ہیں  اسی لیے   خواتین قلمکاروں  کی روایت کا تسلسل دیکھنے کو نہیں ملتا ۔لیکن یہ بھی ایک مسرت افزا حیرت ہے کہ  خواتین نے بھلے ہی  بہت تاخیر سے اس جانب قدم بڑھایا مگر جس مضبوطی اور  ادبی  گرفت کے ساتھ  قدم رکھا کہ انھیں ہر طرف سے داد و تحسین ملے اور بہت جلد ادب میں اپنا   مقام بنالیا ۔ عموماً اس روایت کو ہم بیسویں صدی کے  ربع اول سے  بیان کرتے ہیں اسی لیے اس سے پہلے کی  کاوشوں  کو نظر انداز کرجاتے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے  تاریخ  میں ان کو جگہ نہیں مل سکی  اور بہت کم لکھنے والوں نے اس جانب توجہ دی کیونکہ ان کے سامنے مواد دستیاب نہیں تھے ۔ مگر خوشی ہے کہ اب ایسی  کاوشیں   ہورہی ہیں کہ تاریخ کے دبیز پردے سے چھن چھن کر نئی دریافتیں سامنے آرہی ہیں ۔

         رمیشا قمر کہ اس  تحقیقی کاوش کو میں اس لیے ہدیہ ٴ تبریک پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے علاقائی سطح پر خواتین قلم کاروں کی  ایک تاریخ  مرتب کردی ہے ۔ عموماً تاریخ میں انہی کو جگہ ملی ہے جن کو شہرت نصیب ہوئی   نتیجہ یہ ہوتاہے کہ کئی اصحاب قلم  تذکروں میں نہیں آتے ۔ اس   کتاب  کی خاص بات یہ ہے کہ رمیشا نے  کرناٹک حیدر آباد کی خواتین  قلمکاروں کا بھر پور  تعارف کراتے ہوئے  ا ن کی تالیفات  کے نمونوں کو بھی اس کتاب میں شامل کیا ہے ۔ اس طرح یہ کتاب   تاریخ کے درجے میں  شامل ہوجاتی ہے ۔دو جلدوں پر مشتمل  یہ کتاب یقیناً ادب میں زندہ رہے گی  ۔ مصنفہ نے اس کتاب  کا  طویل مقدمہ بھی لکھا ہے ۔ اس مقدمے میں کچھ شکایتیں بھی ہیں اور خواتین کے حوالے سے ملکی اور عالمی  بے اعتنائیوں کو ذکر بھی کیاہے ۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنی تحقیق کے منصوبے کو بھی واضح طور پر بیان کیا ہےاس سے یہ فائدہ یہ ہوگا کہ اس کتاب کو پڑھنے والے  یا بعد میں خواتین کے ادب پر تحقیقی کام کرنے والوں کو آسانی ہوگی کہ انھیں یہاں سے کیا کیا مواد مل سکتا ہے اور اس کا منہاج و معیار کیا ہے ۔

میں اس اہم تحقیقی کام کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ ’ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ‘ ۔ رمیشا کی کاوشوں سے ہم اساتذہ  کی امیدیں اور بھی بڑھ گئی ہیں، امید کرتے ہیں ادب کے سرمائے میں ایسے بے شمار اضافے ہوں گے ۔۔۔۔ مستقبل کی تمامتر نیک  خواہشات کے ساتھ

***

Leave a Reply