You are currently viewing افسانچہ

افسانچہ

مریم سلطانہ

ایم اے اردو، خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی، گلبرگہ

افسانچہ

’’تحسین اٹھو، آج تمہارے کالج کا پہلا دن ہے!‘‘امی کی آواز باورچی خانہ سے آئی، جو نرم مگر پُراثر تھی۔

’’اٹھ جائیں، ورنہ بابا غصہ ہوں گے!‘‘

شمی نے خوف زدہ انداز میں اپنی بہن کو آواز دی، جو اسکول کے لیے تیار کھڑی تھی۔

’’جی، امی، اٹھ گئی!‘‘ تحسین نے نیند میں بوجھل آنکھوں کو مسلتے ہوئے جواب دیا۔

’’سنا ہے کالج میں بڑی بڑی کتابیں ہوتی ہیں اور بہت پڑھنا پڑتا ہے۔ جب آپ کالج سے واپس آئیں گی تو مجھے سب بتانا۔‘‘ شمی نے بہن سے کہا،

تحسین نے اسکول کی طرف روانہ ہونے سے پہلے اپنی بے چینی ظاہر کی۔’’بلاشبہ ، تمھیں بتاؤں گی، فکر نہ کرو!‘‘ تحسین نے ہنستے ہوئے کہا اور خود کو تازہ دم کرنے کے لیے تیز قدموں سے تیار ہو کر کالج کے لیے روانہ ہو گئی۔

کالج پہنچتے ہی تحسین کا دل دھڑکنے لگا، کیونکہ ہر طرف طلبہ کی چہل پہل تھی۔ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کی کلاس کہاں ہے۔

اتنے میں ایک ٹیچر کا گزر ہوا۔ تحسین نے ان سے پوچھا،

’’میم، فرسٹ ایئر کی کلاس کہاں ہے؟‘‘

ٹیچر نے مسکراتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا۔

کلاس میں داخل ہوتے ہوئے تحسین نے محسوس کیا کہ وہ ایک نئی دنیا میں قدم رکھ چکی ہے۔ ہر طرف نئے چہرے، نئی آوازیں، اور نئی کہانیاں تھیں۔

وہ بے یقینی کے عالم میں آخری بینچ پر جا بیٹھی، دل میں ایک عجیب سا سکون اور اضطراب تھا۔

’’تمہیں کیسا لگا؟‘‘ تحسین نے شام کو کھانے کے دوران اپنی بہن سے سوال کیا۔

تحسین نے سارا دن شمی کو تفصیل سے سنایا۔

’’کالج میں سب کچھ نیا تھا، اور ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا جس سے میری زندگی بدل جائے۔‘‘ تحسین نے یقین دلایا۔

شمی نے اپنے نرم لہجے میں کہا، ’’شمی، سنا ہے کالج میں آ کر لڑکیاں اکثر غلط راستے پر چل پڑتی ہیں۔ تم ایسی لڑکیوں سے دور رہنا۔‘‘

’’مجھے خود پتا ہے کہ مجھے کس کے ساتھ رہنا چاہیے اور کس سے دور رہنا چاہیے،‘‘ تحسین نے تھوڑی سی خفگی سے جواب دیا۔

اس کے بعد دن گزرتے گئے اور تحسین کو اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ وہ کس طرح بدل رہی تھی۔

مہک، ایک نئی دوست، تھی جس سے تحسین کی دوستی گہری ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن مہک کی صحبت میں آ کر تحسین کی نظر میں اس کی دنیا میں تبدیلی آنے لگی۔ مہک کی کئی لڑکوں سے دوستی تھی، اور وہ بے تکلفی سے باتیں کرتی تھی۔

تحسین نے بھی ان لڑکوں سے بات کرنا شروع کر دیا، اور اس کے ساتھ ساتھ ایک لڑکے کی محبت میں مبتلا ہو گئی۔

’’تم بہت پریشان لگ رہی ہو، کیا بات ہے؟‘‘

شمی نے گہری نظر سے اپنی بہن کو دیکھا، جو چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑے ہوئے غمگین نظر آ رہی تھی۔

’’نہیں، کچھ نہیں،‘‘ تحسین نے انکار کیا، لیکن شمی کو جلد ہی حقیقت کا پتہ چل گیا۔

’’شمی، مجھے نہیں پتا میں یہ کیا کر بیٹھی۔‘‘ تحسین نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا، ’’مجھے ایک لڑکے سے محبت ہو گئی ہے‘‘۔

شمی نے اس کے جواب میں حیرانی کا اظہار کیا، ’’تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟‘‘

تحسین کی محبت اس قدر شدت اختیار کر چکی تھی کہ وہ اپنی زندگی کے اس نئے باب میں جتنی گہری اور پیچیدہ ہو رہی تھی، اتنی ہی وہ شمی کی باتوں کو نظرانداز کر رہی تھی۔

’’مجھے اس سے شادی کرنی ہے،‘‘ تحسین نے اصرار کیا۔ ’’امی اور بابا کو بتا دوں گی۔‘‘

’’تم اللہ سے خوف کرو، یہ بہت بڑا گناہ ہے!‘‘ شمی نے روتے ہوئے کہا۔

’’تمہیں نہیں پتا، مجھے اس لڑکے سے سچی محبت ہے۔‘‘ تحسین نے جواب دیا، ’’اور دنیا میں ایسے لڑکے ہوتے ہیں جو سچی محبت کرتے ہیں۔‘‘

اس محبت نے تحسین کی زندگی کو اس قدر پیچیدہ بنا دیا تھا کہ وہ اپنی حقیقت کو نظرانداز کر رہی تھی۔

وقت گزرتا گیا، اور ایک دن کالج کے سالانہ جلسے میں تحسین نے اس لڑکے کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور رشتہ لے کر آنے کی خواہش ظاہر کی۔

وہ خوش تھی، لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اس خوشی کا انجام کیا ہوگا۔ حقیقت کس قدر سراب ہوگی!

’’اس لڑکے نے تحسین کے علاوہ کسی اور سے شادی کر لی!‘‘ تحسین نے یہ خبر سنی اور جیسے اس کی دنیا ہی تہس نہس ہو گئی۔ دماغ گھوم گیا۔

’’مجھے تم سے شادی نہیں کرنی ہے۔‘‘ وہ لڑکا اب تحسین سے بے پرواہ ہو چکا تھا، ’’اب میں تم سے رابطہ نہیں رکھنا چاہتا، تم بھی کسی اور سے شادی کر لو۔‘‘

تحسین خاموش رہی، اس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے، اور وہ اب یہ سمجھ چکی تھی کہ اس کی محبت کا خواب ٹوٹ چکا تھا۔

Leave a Reply