You are currently viewing افسانہ کی صنف بطور فن:مختصر جائزہ

افسانہ کی صنف بطور فن:مختصر جائزہ

محسن خالد محسنؔ

(اُستاد،شعبہ اُردو،گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور)

عظمیٰ نورین

(اُستاد،شعبہ اُردو،گورنمنٹ ویمن یونی ورسٹی،سیالکوٹ)

افسانہ کی صنف بطور فن:مختصر جائزہ

Genre Fiction as Art: A Brief Overview

ABSTRACT

Fiction is an important genre in Urdu literature. The genre of fiction in Urdu literature has actually created an exciting and trendy change that is indispensable in promoting positive values in a society. This paper provides information to understand the genre of fiction as an art and to know about its importance and usefulness. This paper presents a short critical trial about the genre of fiction, by reading which a common reader can understand the genre of fiction in a very comprehensive way and evaluate the entire literature created in it in the context of art.

Key Words: fiction, Urdu fiction, fiction, literature, language, subcontinent, India, Pakistan, society, partition of India, western literature, style, prose genres

خلاصہ:افسانہ اُردو ادب کی نثری اصناف میں ایک اہم صنف کی حیثیت سے موجود ہے۔ اُردو ادب میں افسانے کی صنف نے  در حقیقت  ہیجان انگیز اور رجحان ساز بدلاؤ پیدا کیا ہے جو کسی معاشرے کی مثبت اقدار کو فروغ دینے میں ناگزیر ہے۔ یہ مقالہ افسانہ کی صنف کو بطور فن سمجھنے اور اس کی اہمیت و افادیت کے بارے میں جاننے کی معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہ مقالہ افسانہ کی صنف کے بارے میں مختصر تنقیدی محاکمہ پیش کرتا ہے جسے پڑھ کر ایک عام قاری افسانہ کی صنف کو بہت انداز میں سمجھ سکتا ہے اور اس  میں خلق کیا گیا جملہ ادب فن کے تناظر میں پرکھ سکتا ہے۔

کلیدی الفاظ: افسانہ، اُردو افسانہ، فکشن، ادب، زبان ، برصغیر، ہندوستان،پاکستان، معاشرت،تقسیم ہند،مغربی ادب،اُسلوب،نثری اصناف

 لغت میں افسانہ جھوٹی کہانی کو کہتے ہیں مگر اردو ادب میں افسانہ  سچی کہانی کو سمجھا  جاتا ہے، ایک ایسی کہانی   جو صرف ایک تاثر پر مشتمل ہو  تا  کہ افسانہ پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں وہی ایک تاثر باقی رہ جائے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک ناول زندگی کا مکمل  احاطہ کرتا ہے جب کہ  افسانہ زندگی کا  فقط ایک  ہی حصہ بیان کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  ناول اور افسانے میں طوالت کا فرق بہت  نمایاں   ہوتا ہے۔

ابتدا میں اس صنف ادب کو  کسی نے کہانی کا نام دیا تو کسی نے اسے افسانہ اور بعد ازاں مختصر افسانہ کہا۔ادبی تاریخ شاہد ہے کہ افسانہ کو وجود میں لانے کا محرک کہانی ہے جس کا آغاز ابتدائےآفرینش سے   آدم و حوا کی تخلیق سے ہو گیا تھا جب  حضرت آدم کے واحد وجود سے حضرت حوا کی تخلیق ہوئی  تو وحدت سے ثنویت  کے روپ میں آدم و حوا اور خیر و شر،گناہ اور ثواب  کی تقسیم نے جنم لیا۔شعور اور لاشعور کے  اسی تصادم سے کہانی کو وجود ملا۔ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش لکھتے ہیں :

“کہانی میں  جب تک خیر اور شر ،محبت اور نفرت ،ظلم اور قربانی ،انصاف،  اور حق تلفی کے عناصر باہم برسر پیکار نہ ہوں ،کہانی میں تحرک پیدا نہیں ہو سکتا۔نتجتہً کہانی  معرض وجود میں نہیں  آ سکتی۔اس بات کو کچھ یوں کہا جا سکتا ہے کہ جب آدم کی پسلی سے دوسری ہستی نے جنم لیا تھا تو”تھیم” وجود پا گئی تھی۔البتہ”پلاٹ” کی تشکیل کا مرحلہ ابھی باقی تھا جسے ابلیس کی آمد نے پورا کر دیا اور زوال آدم خاکی کا افسانہ لکھا جانے لگا۔یعنی قصہ در قصہ کہانی کا سلسلہ آگے کو بڑھنے لگا”(۱)

افسانے کے پس پردہ کہانی کے ارتقائی عمل میں فطرت  کی کارفرمائی میں جانور،پودے،بیج سے پھل اور پھول  کی  افزائش،زمین و آسمان پر آفتاب و ماہتاب  کا طلوع و غروب ہونا، ستاروں اور سیاروں  کا وجود،ارضی و سماوی ناگہانی  آفات،جنگل کا غیرتہذیبی دور، عصر حجر اور پھر انسان کا فطرت سے الگ ہو کر اپنی ذات کو مرکز  و محور  بنانا شامل ہے انسان نے  اپنی قوت متخیلہ کی مدد سے مظاہر کائنات اور خود انسان کے مابین  کہانیاں تراشییں  اور ادبی ذوق کو جلا بخشی۔ ڈاکٹر سلیم آغا  لکھتے ہیں:

“اس سے اگلا قدم وہ تھا جب معاشرے،تاریخ کے ادوار میں داخل ہوئے۔لہٰذا واقعات اور سانحات کے تاریخی پس منظر نے کہانی کی تشکیل میں حصہ لینا  شروع کیا اور آخر میں افسانہ مشینی دور میں داخل ہوا،جس کے ساتھ معاشرتی مسائل،نفسیاتی شکست و ریخت،معاشی ناہمواریاں،طبقاتی رسہ کشی،سیاسی نظریات کی آویزش اور بے معنویت اور عصری آگہی کے سوالات نے صنف افسانہ میں افقی اور عمودی گہرائی  پیدا کر دی اور وہ ایک مقبول صنف اظہار کا روپ اختیار کر گئی”۔(۲)

 دیویندرا سر  ا ایک مضمون “ہندوستان میں اردو افسانہ ” میں لکھتے ہیں کہ:”بنیادی بات یہ ہے کہ  ہر افسانے کا بنیادی محور انسان ہوتا ہے جس کے گرد ساری زندگی گھومتی ہے،افسانے کا یہ انسان ہی ہے جو سیاسی اور معاشی زندگی بسر کرتا ہے،ضمیر کی چبھن محسوس کرتا ہے یا اس کا گلا گھونٹتا ہے۔لاشعور کا غلام بن کر عمل کرتا ہے یا شعوری طور پر کوئی  قدم اٹھاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ زندگی کے بارے میں اس کا تمام تر رویہ غیر استدلالی یا غیر اخلاقی ہو”۔(۳)

کہانی اور افسانہ میں  واضح فرق یہ ہے کہ کہانی  کے لیے معروضی پن  اور افسانہ میں موضوعی پن  کا رجحان غالب ہوتا  ہے۔کہانی میں بیان کردہ واقعات میں محض منطقی تعلق ہوتا ہے جب کہ “افسانہ” میں بیان  کیے جانے والے  واقعات کا باہمی  ربط نفسیاتی  نوعیت کا ہوتا ہے۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کہانی “افسانے “کے لیے خام مواد تیار کرتی ہے جسے وہ  حسب ضرورت استعمال کرتا ہے۔

ڈاکٹر سہیل بخاری لکھتے ہیں :

“جس طرح واقعاتی افسانہ رومان میں سے ہو کر فنی ناول کی شکل میں جلوہ گر ہوا،اسی طرح وہ مختصر اور سادہ کہانی جو دنیائے افسانہ کی اسا س اولین ہے،مرورایام کے ساتھ تغیرات قبول کرتے کرتے موجودہ افسانے کے سانچے میں ڈھل گئی”۔(۴)

کہانی اپنا سفر کسی  واقعہ یا حادثہ کے آغاز سے کرتی ہے جب کہ افسانہ نگار  کہانی کی ابتدا اس کے انجام سے کرتا ہے۔کہانی  میں  جن،بھوت پریت،پریوں یا مافوق الفطرت عناصر کا ذکر ہوتا ہے جب کہ افسانے میں نفسیاتی،جذباتی ،طبقاتی اور معاشرتی مسائل  کی گرہیں   سلجھانے  کی کوشش کی جاتی ہے۔کہانی کے واقعات میں قاری یا سامع   جذبات میں تجسس محسوس کرتا ہے ۔

اس کے برعکس افسانے میں بیان کرنے والے واقعات کا تعلق زندگی کے روزمرہ مسائل سے ہو تا ہے۔کہانی میں بیان کرنے اور سننے کا عمل ایک ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے جب کہ افسانہ نگار کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ہر بات کو صاف صاف اور کھل کر  بیان کرے،بلکہ افسانہ میں زیریں لہر کے طور پر ایسا مواد موجود ہوتا ہے جس کو فہم آشنا کرنے کے لیے قاری کا باذوق ،اعلیٰ تعلیم یافتہ  اور  ذہنی طور پر بیدار  و  فعال ہونا ضروری ہے۔کہانی کی   ساخت میں  اکہرا  پن اور افسانہ کا ڈھانچہ  پیچیدہ ہوتا ہے۔کہانی سنانے والا آواز کے اتار چڑھاؤ سے دلچسپی پیدا کرتا ہے لیکن افسانے کو کسی  بھی عضویاتی سہارے کی  چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔

کہانی میں کہانی کار کی شخصیت  پیش منظر  اور افسانہ میں افسانہ نگار کی شخصیت پس منظر میں ہوتی  ہے۔کہانی کردار یا واقعہ کو ہو بہو اسی حالت میں سامنے لاتی ہے جس میں وہ معرض وجود میں آیا تھا۔اس کے مقابلے میں افسانہ مقررہ یا طے شدہ راستے میں دخل انداز ی کرتے ہوئے   واقعہ کی کایا ہی پلٹ  دیتا ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:

“کہانی پوری زندگی میں واقعات کے ٹکڑوں اور قاشوں کی صورت میں بکھری ہوتی ہے جب کہ افسانہ نگار کہانی کے ان واقعات کو یا ان میں سے چند ایک واقعات کو مربوط کر کے انہیں ایک نئی صورت میں مرتب کرتا ہے جو زندگی کے عام تجربات سے مختلف ہوتی ہے۔جس طرح موسیقار سروں کو ایک خاص انداز میں مربوط کر کے نغمہ بنا دیتا ہے اور شاعر حسی تجربات کو شعری  آہنگ میں پرو دیتا ہے،بالکل اسی طرح افسانہ نگار کہانی کو افسانے کے آہنگ کے  تابع کر کے اسے کیا سے کیا بنا دینے میں کامیاب ہوتا ہے۔اردو ادب کے سلسلے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ داستانیں اور سچی کہانیاں ،شکار کے قصے یا قتل و غارت گری کے واقعات یا مہمات وغیرہ اپنی جگہ مکمل کہانیاں ہیں۔جب کہ واقعات کے ٹکڑوں سے مرتب علامتی تہوں کی حامل کہانیاں جو افسانہ نگار کی تخلیق کاری کی زد میں آکر قلب ماہیت کے بعد خود کو ”        DE familiarize         کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔افسانوں کے زمرے میں آتی ہیں”۔(۵)

کہانی کہنا اور کہانی سننا انسان کا قدیم ترین شوق ہے۔اس شوق کی تکمیل کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ اس نے کہانی کو بھی کئی رنگ اور کئی روپ دیے۔واقعات میں تخیل کی رنگ آمیزی اور مافوق الفطرت کے بیان سے حیرتوں  کے جہان سجائے اور پھر وقت کے پہیے کے ساتھ گھومتے کہانی کی چوپال سے نکلی،کاغذ پہ سجی،کبھی پھیلی اور کبھی سمٹی۔یوں صدیوں کے سفر کے بعد افسانے کے روپ میں ہمارے سامنے موجود ہے۔افسانہ جسے انگریزی میں شارٹ اسٹوری کہا جاتا ہے اپنے اندر اختصار اور کہانی پن کی دو بنیادی خوبیاں رکھتا ہے،افسانے کو ایک نشست میں پڑھی جا سکنے والی کہانی بھی کہا جاتا ہے۔اور نثر کا مختصر بیانیہ بھی۔اپنی اسی اختصار کی بدولت افسانہ ،ناول اور ناولٹ سے الگ اپنی شناخت قائم کرتا ہے اور اسی سے اس کی فنی خصوصیات تشکیل پاتی ہیں۔

 افسانے میں پلاٹ،کردار ، افسانہ نگار کی شخصیت اور نفسی کیفیات مل کر ایک وحدت تاثر کو جنم دیتے ہیں جو کہانی کی اکہری فضا میں ممکن نہیں۔ ۱۸۵۷ء کی غدر،مغلیہ سلطنت کا زوال، دہلی کی تاراجی،انگریز وں کی حکمرانی  اور مسلمانوں کی محکومی نے  داستان کو زوال پذیر بنا دیا۔کیوں کہ  ان سے آزاد فضائیں اور ذہنی سرور چھن چکا تھا۔ فرصت کے اوقات میں داستان  یعنی  کہانی  کہنے،سننے اور سنانے کا سلسلہ منقطع ہونے لگا تھا۔غلامی کے دکھ اور آزادی کے حصول کی کوششوں میں  ان کی  پیہم جدوجہد اور سائنس و ٹیکنالوجی کے انقلاب زمانہ نے انسان کو مصروف کر دیا تھا۔اس لیے مصروفیت میں ذہنی آسودگی کے لیے افسانہ ایک معتبر صنف ٹھہری کہ کم وقت میں جو باآسانی ادبی ذوق کی  تسکین  کر سکے۔

انسان وقت کے ساتھ ساتھ سہل پسند ہوتا جا رہا ہے اور وہ چاہتا ہےکہ اپنے زیادہ  سے زیادہ   کام فوری طور پر سر انجام  دینے میں کامیاب ہو سکے۔  میری دانست میں شائد  افسانےکی ابتدا کی وجہ بھی یہی تھی کہ ایک  مکمل ناول  کورسالے یا اخبار میں چھاپنے میں بہت مہینے لگتے تھے۔ اتنی دیر تک  قاری کی توجہ ناول کے پلاٹ سے ہٹ جاتی تھی یا وہ بہت سی اہم اشیاء  اکثر وپیشتر بھول جاتا تھا۔ البتہ افسانہ ایک ہی نشست میں پڑھ لیا جاتا ہے اور قاری کی نظر میں پلاٹ اور کہانی  کا تسلسل اوجھل نہیں ہوتا۔

  افسانہ  ایک ایسی مختصر کہانی ہوتی  ہے  جسے ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکے۔جس میں ایک ہزار سے سات ہزار تک الفاظ ہوتے ہیں البتہ الفاظ کی تعداد شرط نہیں ہے کیوں کہ بعض اوقات طویل افسانوں میں اس سے کافی زیادہ الفاظ بھی ہو سکتے ہیں۔ بقول ایڈگرایلن پو:”افسانہ ایک ایسی بیانیہ صنف ہے جو اتنی مختصر ہو کہ ایک بیٹھک میں ختم کی جا سکے جسے قاری کو متاثر کرنے کے لیے لکھا گیا ہو۔انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کے مطابق افسانے کی تعریف درج ذیل ہے:

“Short story, brief fictional prose narrative to be distinguished from longer, more expensive narrative, from such as the novel, epic, saga, and romance. Unlike them, the short story is usually concerned with a single effect conveyed in a single significant episodes or scene involving a small number of characters, sometimes only one.”(6)

ایک اچھّا افسانہ ایک ڈرامہ کی طرح معجزہ ہے ایجاز کا۔باوجود اختصار کے فنی حیثیت سے وہ ایک حُسنِ کامل ہوتا ہےاور اپنے حُسن وتکمیل کی وجہ سے ناظرین کے لیے ذہنی مسرت کاسامان۔”(7)لطیف الدین احمد نے افسانہ کی تعریف یوں کی ہے:”کسی ایک واقعہ یا جذبہ کی تاریخ بیان کر دینا مختصر افسانہ ہے۔”(8)سیّد وقارعظیم لکھتے ہیں:”افسانہ کہانی میں پہلی مرتبہ وحدت کی اہمّیت کا مظہر بنا۔ کسی ایک واقعے، ایک جذبے، ایک احساس، ایک تاثر، ایک اصلاحی مقصد، ایک رومانی کیفیت کو اس طرح کہانی میں بیان کرنا کہ وہ دوسری چیزوں سے الگ اور نمایاں ہو کر پڑھنے والے کے جذبات و احساسات پر  اثرانداز ہو  افسانہ کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جس نے اُسے داستان اور ناول سے الگ کیا ہے۔ “(9)

افسانہ کے لئے واقعہ، کردار، حادثات، مسائل، عروج، حل سب ضروری ہیں لیکن اس حد تک نہیں کہ یہ افسانہ کے ہاتھوں کے ہتھکڑیاں اور پیروں کی بیڑیاں بن جائیں۔ افسانہ نگار انھیں استعمال بھی کر سکتا ہے ، فنی تجربہ یا ندرت کے لئے ان سے صرفِ نظر بھی کر سکتا ہے۔ڈاکٹر انور سدید لکھتے  ہیں:

“برصغیر کی آزادی کے بعد اردو افسانے میں دو واضح کروٹیں نمو دار ہوئیں۔ آزادی کے فوراً بعد آبادیوں کے تبادلے  سے پیدا ہونے والے مسائل نے اردو افسانے میں ایک اہم موضوع  کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔ چنانچہ اردو افسانے  نے اب جو نئی کروٹ بدلی اس کے مطابق کردار کو اہمیت حاصل ہوئی ۔ فسادات کے گھمسان سے .ابھرنے والے  بیشتر کرداروں کا دامن انسانی خون سے آلودہ تھا۔ لیکن سطحی واقعات کے پس پردہ بلند انسانیت کو ابھارنے اور شر کے داخل سے خیر کا زاویہ تلاش کرنے کی کوشش کی گئی”(10)

افسانہ کے ارتقائی سفر میں زمانہ قدیم ہی سے برصغیر  کا سماج فطرت     سے  گہرے  شعور کے  ادراک کا حامل رہا ہے۔دوسری طرف وادئ سندھ کی تہذیب     اور مصری تہذیبوں سے اثرات قبول کیے۔لہٰذا زمانہ قدیم سے ہی مشرق وسطیٰ کے تمام علاقے  مشترکہ ثقافتی  کہانیوں کو تہذیبی سماج کا جزولانیفک بناتے چلے  گئے۔ اردو ادب میں قصہ کہانی کی روایت  عام طور پر عر ب و عجم سے وابستہ دکھائی دیتی ہے۔عربی،ایرانی اور ہندی تہذیب و معاشرت کا ایک حسین امتزاج ہمیں اردو کے قصے کہانیوں میں جا بجا محسوس ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں مختلف النوع کے قصے بیان کرنے کے لیے مثنویوں کا دامن بھی کشادہ رہا ہے۔سترہویں  صدی کے آغاز سے ہی اردو مثنویاں  لکھنے کا  سلسلہ شروع ہو گیا تھا جو کہ اٹھارہویں  صدی تک جاری رہا۔مثنوی نگاری کے دور میں نثری داستان نگاری کا رواج بھی مقبولیت اختیار کر چکا تھا۔اور یہ انداز مختلف روایات و حکایات،قصے ،کہانیوں کی صورت میں بکھری کہانیوں کی یکجائی کا دور تھا۔نظم میں  مثنوی کی صورت اس کی بنیاد پڑ چکی تھی۔اور نثر میں ان قصوں کی  شیرازہ بندی داستان کی صورت میں منظر عام پر آنے لگی۔

انیسویں  صدی   کی ابتدا میں ہی فورٹ ولیم کالج کلکتہ  میں تصانیف کے تراجم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اس حوالے سے میر امن دہلوی کی “باغ و بہا”،بہادر علی حسینی کی”نثر بے نظیر”،حیدر بخش حیدری کے قصے”آرائش محفل”، نہال چند لاہوری کا قصہ”تاج الملوک اور بکاؤلی”،مظہر علی ولا کی کتاب”مادھونل و کام کنڈلا “اور “بیتال پچیسی ” ابھی تک مشہور و معروف ہیں۔لیکن اس صدی کی کہانیوں میں “فسانہ عجائب”،”داستان امیر حمزہ”،”طلسم ہوشربا”،اور “بوستان خیال “زیادہ مقبول ہیں اور عوامی دلچسپی کا باعث ہیں۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ فورٹ ولیم کالج کلکتہ نے اگر ایک طرف  انجیل کی تبلیغ اور انگریزی ادب کے  اردو تراجم سے مغربی تہذیب و ثقافت کو فروغ دیا تو دوسری طرف  اردو زبان میں  اردو نثر کے فروغ میں بھی  اہم کردار ادا  کرتے ہوئے اردو زبان کی خدمات سر انجام دیں ۔فارسی اور انگریزی ادب کے اردو تراجم ہوئے۔اس علمی و ادبی فضا نے اردو افسانہ کے لیے راہ ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

جدید اردو کی ابتدا انیسویں صدی عیسوی سے ہوتی ہے اس نئی تعمیر کا سنگ بنیاد ڈاکٹر جان گلکرسٹ کے اہتمام سے فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں رکھا گیا۔یہ حقیقت مسلم ہے کہ فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے قیام کے بغیر اردو نثر کو جدید  ادبی لہجہ اختیار کرنے میں ایک صبر آزما عرصہ درکار ہوتا۔اس مسافت کے خاتمے کا سہرا بلاشبہ اس کالج کی نثری خدمات کو جاتا ہے۔

میر امن  دہلوی کے بعد مرزا اسد اللہ خان غالب نے اردو نثر کو سادہ اور آسان فہم بنایا۔سر سید احمد خان نے جہاں ایک طرف مسلمانان ہند کی سیاسی ،معاشرتی اور اخلاقی آزادی کی جدوجہد شروع کی وہیں اردو زبان کو بھی عربی و فارسی  لب و لہجے سے آزاد کروا کر اسے مافوق الفطرت عناصر سے چھٹکارا دلایا اور  عصری مسائل سے مطابقت اور نئے رجحانات سے روشناس کرانے کے لیے اردو زبان  میں سائنسی اور منطقی موضوعات کی استعداد کار پیدا کی۔اس سلسلے میں “تہذیب الاخلاق” نے اساسی  کردار   سر انجام دیا۔

یہ امر بھی قابل غور ہے کہ سر سید کی تحاریر نے اردو زبان میں معروضی انداز تحریر کو قابل قبول بنایا جو فکشن کے ارتقا کے لیے ضروری تھا۔بعض محققین  نے  سر سید کی ۱۸۷۰ء  کی تحریر “گزرا ہوا زمانہ” کو اردو کا پہلا افسانہ قرار دیا ہے۔بعدازاں سر سید کے رفقائے کاروں نے بھی اردو نثر کی خدمات سر انجام دیں۔دوسری طرف ڈپٹی نذیر احمد کے اصلاحی قصے جو ناولوں کی صورت میں ادبی منظر نامے پر آئے۔یہ قصے جہاں ناول نگاری کے نقوش ہیں  وہیں اردو افسانہ نگاری کے دامن کو بھی  روشن تر کرنے کا موجب  بنے۔

ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:

افسانہ اردو ادب کی ایک ایسی صنف ہے جو بیسویں صدی کے اوائل میں نمودار ہوئی۔اس لیے اس کی عمر دوسری اصناف ادب کے مقابلے میں زیادہ نہیں ۔اگرچہ اس کا ناتہ خاتم طائی اور قصہ چہار درویش قسم کی داستانی حکایتوں کے ساتھ باندھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ادب میں افسانے کی واضح اور منضبط روایت موجود نہیں تھی،مغربی افسانے نے جو سفر یورپ میں انیسویں صدی میں شروع کیا تھا وہی سفر اردو ادب میں افسانے نے بیسویں صدی کی ابتدا میں جاری کیا اور اس کے اولین نمونے بھی مغرب ہی سے فراہم کیے گئے!”۔(11)

غیر ملکی ادب کے مطالعہ اور تراجم کا سلسلہ انیسویں صدی کے آخری چند برسوں میں اردو ادب کے  کینوس  پر  اپنے اثرات دکھانا شروع ہو گیا تھا۔اس کے ساتھ  ساتھ سیاسی مسائل و امور پر اکابرین کی توجہ  نے اس کے دامن کو وسعت بخشی اور انیسویں صدی  کے آخری عشرے میں قومی سطح کی تحریکوں کا زور  بھی  افسانہ کے لیے محرک ثابت ہوا۔

ان تحریکوں سے پڑھے لکھے افراد  کو سیاسی شعور ملا۔اور انہوں نے اقتصادی اور قومی مسائل کو سیاسی حوالوں سے دیکھنا شروع کر  دیا ۔سیاسی شعور نے کسی حد تک طبقاتی شعور بھی پیدا کر دیا۔ان سب باتوں  نے نہ صرف اردو نثر کو فروغ دیا بلکہ اردو افسانہ کو وجود میں لانے کے لیے بہترین  فضا بھی تشکیل دے ڈالی۔انیسویں صدی کے اختتام پذیر ہونے سے قبل ملکی سطح پر مختلف تحریکیں وجود میں آ چکی تھیں۔بیسیویں صدی کے شروع ہوتے ہی سیاسی تحریکیں ہندوستانی معاشرے کو بہت متاثر کرنے لگیں اس کے نتیجے میں اردو کے مختصر افسانہ نے جنم لیا۔ڈاکٹر عبادت بریلوی نے لکھا:

“فنی اعتبار سے مختصر افسانہ انیسویں صدی کے آخر کی پیداوار ہے جب صنعتی انقلاب کے باعث سارہ دنیا ایک تبدیلی سے دوچار ہو رہی تھی۔ان حالات میں رہن سہن کے طور طریقے بدلے،ضرورتیں بدلیں اور انسان ذہنی حیثیت سے بالکل ایک دوسری سطح پر آ گیا۔حالات و واقعات کے تقاضوں نے اس کو مجبور کیا کہ وہ ان چیزوں سے قطع تعلق کرے جن کی پہلے دور میں حکمرانی تھی۔”(12)

انیسویں صدی کے آخری عشرے میں ہندوستانی ادبا نے افسانہ نویسی کے فن کو نکھارنے کے لیے ماحول سازگار بنا دیا تھا۔ان میں سجاد حیدر یلدرم،علامہ راشد الخیری اور منشی پریم چند جیسے ادبا نے افسانہ نویسی میں کمال اضافہ کیا۔افسانہ نویسی کے خدوخال اجاگر کرنے میں روسی،فرانسیسی،برطانوی اور کسی حد تک امریکی افسانوی ادب نے متاثر کیا۔ڈاکٹر سلیم آغا لکھتے ہیں:

“امر واقعہ یہ ہے کہ اردو افسانہ نگاروں نے ابتداً ملکی سطح پر فعال اصلاحی اور قومی تحریکوں کے اثرات کو شدت سے قبول نہ کیا،بلکہ فرانسیسی،روسی،امریکی اور برطانوی طرز افسانہ نگاری کے زیر اثر افسانے لکھنے شروع کیا۔اس ضمن میں غیر ملکی افسانوی ادب کو اردو زبان میں منتقل کرنے کے رجحان نے اساسی نوعیت کا کام کیا۔جس کے باعث فنی،موضوعاتی تکنیکی اور اسلوبیاتی اعتبار سے اردو افسانہ پر مثبت اثرات پڑے بہرحال اس ابتدائی دور کے افسانہ نگاروں نے طبع زاد ،ماخوذ اور ترجمہ شدہ افسانوں سے اردو افسانہ کا دامن بھر دیا اور یوں افسانہ مزید سرعت سے ارتقائی منازل کا سفر طے کرنے لگا۔”(13)

اس کے بعد اردو افسانہ سیاسی،معاشی،معاشرتی و اخلاقی ،نفسیاتی اور طبقاتی مسائل کو فنی چابکدستی سے پیش کرنے لگا اور بیسویں صدی کے ربع اول کی نسل سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگار ایک کارواں بن کر  اس  کی آبیاری کرتے رہے۔مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ افسانہ دیگر اصناف ادب کی نسبت    دریا کو  کوزے میں سمیٹنے  کی ایک جدید صنف ادب ہے۔ اور اس میں اختصار اور وحدت تاثر کے ساتھ زندگی کے کسی ایک پہلو کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد لکھتے ہیں :

“افسانے کا ہر روپ انسانوں کی جذباتی ،حسی اور فکری پرداخت پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسی کی مدد سے وہ نہ صرف حال سے آشنا ہوتا ہے بلکہ وپ اس قوت کا ادراک بھی حاصل کرتا ہے جو اسے حالت جبر سے آزاد کر کے موجود زندگی کو ترتیب نو سے ہمکنار کر سکتی ہے اور اسی کی بدولت وہ زندگی میں پیش آنے والی صعوبتوں ،مسافتوں اور ہجرتوں کے لیے جذباتی اور فکری طور پر تیار ہوتا ہے”۔(14)

گویا افسانے کا مقصد صرف تفریح نہیں بلکہ ادبی صنف کی حیثیت سے یہ ہمارے جذبات و محسوسات کو تحریک  دیتا  اور انسانی زندگی کو مکمل صورت میں دیکھنے کی خواہش کی تسکین بھی کرتا ہے۔

افسانے کے تشکیلی عناصر:

دیگر اصناف ادب کی طرح افسانہ بھی مختلف اجزا یا عناصر سے تشکیل پاتا ہے۔یہ عناصر افسانے کے دائرہ کار کے لیے  مرکزی اہمیت رکھتے  ہیں۔ان میں موضوع ،پلاٹ ،کردار، وحدت تاثر ،مکالمہ،اسلوب،آغازواختتام واقعات کے مابین مربوط  منطقی ربط کا باعث بنتے ہیں۔

موضوع:          افسانے کا بنیادی خیال  یا  تصور جو لکھنے کی تحریک پیدا کرتا ہے ،”موضوع “کہلاتا ہے۔ افسانہ میں زندگی  کی ترجمانی ہوتی ہے اس لیے افسانے کے لیے موضوعات کی کوئی قید نہیں۔اس کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے۔موضوع کا انتخاب افسانہ نگار کے لیے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ڈاکٹر فردوس انور قاضی لکھتی ہیں :

“موضوع کے اعتبار سے افسانے پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی اس فضا میں ہر چیز ،ہر منظر ،انسان ،اس کی آرزوئیں ،انسانی ذہن کے سینکڑوں سوال جو وہ کائنات سے کرتا ہے اس کی مجبوری ،بے بسی،اس کی چیرہ دستی ،اس کا شعور ،تحت الشعور غرض زندگی کا ہر پہلو اور کردار افسانے کا موضوع بن سکتا ہے۔”(15)

افسانے کا موضوع کوئی مخصوص  نہیں ہوتا بلکہ ہمیں بے شمار موضوعات اپنے گردو نواح میں بکھرے مل جاتے ہیں۔  معاشرے میں پیش آنے ولے واقعات عمومی طور پر بطور موضوع سامنے آتے ہیں۔  مصنف جب کسی چیز سے کسی خاص حد تک متاثر ہوتا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ اس چیز کا علم دوسروں کو بھی ہونا چاہیے تو پھر متاثر کرنے والا واقعہ یا چیز ہی بطور موضوع سامنے  آ جاتا ہے۔  ایک معاشرتی حیوان ہونے کی وجہ سے انسانی زندگی میں میں بے شمار سچے یا پھر تصوراتی  واقعات پیش آتے ہیں۔ یہ مصنف کی ایک خوبی ہوتی ہے کہ وہ ان واقعات کی وضاحت کس انداز میں کرتا ہے۔ اپنی وضاحت کے دوران وہ کون سے دلائل و براہین پیش کرتا ہے اور کون سی تاویلات پیش کرتا ہے۔

  یہ مصنف کی ایک اضافی خوبی   ہوتی ہے کہ وہ پیش کرنے دلائل و براہین معاشرتی عام زندگی سے پیش کرتا ہے کہ اپنی طرف سے متعین کردہ اصولوں کے تحت پیش کرتا ہے۔  عمومی طور پر کسی افسانے کا موضوع اس کے مرکزی خیال  سے ہی اخذ کیا جاتا ہے۔ موضوع میں کشش ہو گی تو قاری افسانہ پڑھے گا اور اگر موضوع ہی قاری کو لبھانے والی کوئی  چیز نہ ہو گی تو شائد ہی افسانہ پڑھنے کی کوشش کرے گا۔

پلاٹ :   کہانی ہماری زندگی کا لازمی جزو ہے اور ہمیں گردونواح میں  بے شمار کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے اور یہی کردار کسی نہ کسی کہانی کا حصہ ہوتے  ہیں۔ زندگی سے وابستہ جو کردار بیان کیے جاتے ہیں ان کرداروں کے متعلق واقعات کو  ترتیب دیناافسانہ نگاری کی صنف میں پلاٹ کہلاتا ہے ۔ اس ترتیب میں کہانی کی ابتدا یا آغاز، وسط  یا درمیان اور انجام  یا اختتام کے مابین ایک خاص تعلق ، رشتہ  اورتسلسل موجود  ہونا لازمی ہے۔ ایسی ہی تسلسل سے جڑی ہوئی کہانی قاری کے ذہن پر ایک واحد تاثر چھوڑتی ہے۔ The Criticle adiom general    کے مطابق:

“Plot is the arrangement of action. Action progress through the indispensable medium of time from which it derives all of its modifying vocabularies .Beginning, middle and end constitute a march through temporal history and causality exist in flux”.(16)

حفیظ صدیقی لکھتے ہیں:”کہانی کے واقعات کو یوں ترتیب دینا کہ وہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ معلوم ہوں اصطلاحی معنوں پلاٹ ہے”۔(۲۵)واقعات کی فنی ترتیب پلاٹ  کہلاتی ہے۔اس لیے اس میں حسن ترتیب ،اعتدال اور تجسس کے عناصر کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ای ایم فاسٹر کہانی اور پلاٹ میں واضح فرق  اس طرح بیان کرتا ہے :

“We have defined a story……a narrative of events arranged in their time sequence. A plot is also a narrative of events, the emphasis falling on causality .The king died and the queen died, is a story. The king died and the queen died of grief is a plot”.(17)

پلاٹ کے اجزائے ترکیبی میں تصادم،الجھاؤ حیرت و تجسس ،سلجھاؤ اور اظہار بصیرت شامل ہیں ۔پلاٹ کی اقسام میں سادہ،غیر منظم،مرکب ،اکہرا،ضمنی اور سپاٹ اور لچکدار ہو سکتا ہے۔موجودہ دور میں پلاٹ کے بغیر بھی افسانے لکھے جا رہے ہیں جن میں وقت اور مقام کا تسلسل ضروری نہیں ہوتا۔کچھ افسانوں میں سرف تاثرات اور مکالمے یا گفتگو شامل ہوتی ہے کچھ افسانے صرف خطوط کی مدد سے لکھے گئے ہیں۔

وحدت تاثر:       کہانی میں وحدت تاثر کا پایا جانا از حد ضروری ہے کہ کہانی کا ایک حصہ خوف،دوسرا حیرت اور تیسرا خوشی کی کیفیت پیدا  نہ کرے۔بلکہ اختصار کے ساتھ وحدت  تاثر کے ساتھ افسانہ ارتقا کی جانب بڑھے۔

  کردارنگاری:افسانے کی تکنیک میں کردارنگاری کو انتہائی اہم مقام حاصل ہے۔ افسانے کا زندگی سے تعلق براہ راست  ہوتا ہے اور زندگی کے کسی گوشہ یا کسی پہلو کوکہانی میں کرداروں کی مددسے تیار کیا جاتا ہے۔

 میری دانست میں شائد یہی وجہ ہے کہ کہانی میں کردارنگاری  اگرچہ حرف آخر نہیں مگر کہانی میں کردار کے سہارے ہی واقعہ آگے بڑھایا جا سکتا ہے ۔ واقعات کو تسلسل سے آگے بڑھاتے ہوئے انجام تک پہنچایا جاتا ہے ہے۔ کردار ناول میں بھی ہوتے ہیں مگر افسانہ اور ناول دونوں کی کردارنگاری میں فرق ہے۔

ناول میں کرداروں کی پوری زندگی  اور اس سے جڑے ہوئے لوگوں یااس کی  اپنی مجموعی حیثیت بیان کیا  جاتا ہے جب کہ کہانی  یا افسانے میں کردار کی صرف ایک جھلک  یا ایک ہی پہلو نظر آتاہے ۔ بعض کردار مثالی ہوتے ہیں مطلب وہ شروع سے آخر تک نیک ہوتے ہیں یا بد ہوتے ہیں اور ہم نیک کرداروں سے نیکی کی توقع رکھتے ہیں اور برے کرداروں کو ہمیشہ  ایک وِلن کے روپ میں دیکھتے ہیں مگر ایسے کردار تکنیکی لحاظ سے کمزور  سمجھے جاتے ہیں۔

بعض کردار  پیچیدہ  ہوتے ہیں اور ایسے کرداروں کو قاری اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے ساتھ تخیل ہی تخیل خیرو شرکے پہلوؤں میں ڈھال لیتے ہیں۔ یہ وہی کردار ہوتے ہیں جو افسانے کے آخر میں اگر قاری کی سوچ کے مطابق نہ ڈھلے ہوں تو وہ   اپنا اثر کافی عرصہ تک قاری پر برقرار رکھتے ہیں۔

کردار جتنے زیادہ حقیقی ہوں گے وہ اتنا ہی  زیادہ قاری کے ذہن پر اپنا اثر چھوڑنے میں کامیاب ہوں گے۔ ایسی کردارنگاری کو تکنیک کا عمدہ  اور بہترین نمونہ مانا جاتا ہے۔ جیسے پریم چند کے افسانہ ’’کفن‘‘ کے کردار مادھو، گھیسو، بدھیا ،  اور اسی طرح سعادت حسن منٹو، راجندرسنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، غلام عباس ،  کرشن چندر، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر وغیرہ کے بعض افسانوں کے کردار قاری کے ذہن ودماغ میں رچ بس گئے ہیں اور بُھلائے نہیں بھولتے۔ غلام عباس کے افسانے کے  کردار اگرچہ عمومی طور پر بے نام ہوتے تھے مگر وہ کردار قاری کے دل و دماغ میں ایسی جگہ بنا لیا کرتے تھے کہ شائد ہی وہ شعور سے نکل سکیں۔

بعض افسانوں میں کردار،اس کی فرد واحد کی زندگی کے کسی پہلو پر اس طرز روشنی ڈالی جاتی ہے کہ کردار مرکزِتوجّہ بن جاتا ہے۔ ایسے افسانوں کو کرداری افسانہ کہا جاتا ہے۔  اس کی ایک مثال غلام عباس  کے افسانے اوور کوٹ میں نوجوان کا کردار ہے۔ کردار بھی کئی طرز کے ہوتے ہیں، جیسے سچے کردار، علامتی کردار اور تمثیلی کردار۔ بہتر کردار وہ ہے جو قاری کواپنی طرف متوجہ کرلے اور اس کے دل میں اپنا انمٹ نقش چھوڑ جائے۔ احمد ندیم قاسمی نے افسانہ گنڈاسا تو لکھ دیا تھا مگر  ناصر ادیب کی لکھی ہوئی فلموں میں سلطان راہی نے  گنڈاسے کوبام عروج پر پہنچا دیا۔ڈاکٹر نورین رزاق لکھتی ہیں:

“افسانے میں مختلف کردار ہو سکتے ہیں مثلاً مرکزی یا بنیادی کردار(Protagonist)     مخالف کردارAntagonist) )،ثانوی کردار ٹائپ(Type),سٹیریو ٹائپ(Stereo Type)،جامد (Static)،متحرک(Active)،دوہرے(Round) وغیرہ۔اچھی کردار نگاری سے افسانے میں جان پیدا ہوتی ہے۔”(18)

مکالمے:           افسانے کی اقسام میں مکالماتی اور بیانیہ افسانے شامل ہوتے ہیں۔ کرداروں کی آپس میں  گفتگو اور ان کی زبان سے جو باتیں ادا کروائی جاتی ہیں  انھیں مکالمہ (Dialogue) کہا جاتا ہے۔

 اگر مکالمے چھوٹے چھوٹے ہوں گے تو  بہترین مکالمے کہلائیں گے۔. کرداروں کی ذہنی کیفیت کو مد نظر رکھ کر لکھے جاے والے مکالمے ہی اپنا انمٹ نقش چھوڑتے ہیں۔ عمدہ مکالمے کرداروں کی داخلی  اورخارجی نفسیات کے عکّاس ہوتے ہیں۔ ایسے مکالمے نہ صرف افسانے کو تکنیکی طور پر بہتر بناتے ہیں بلکہ کہانی کو قاری کے ذہن پر ایک ایسی چھاپ لگا دیتے ہیں جس کے سحر سے قاری کا نکلنا مشکل ہو جاتاہے  ۔

تکنیک:           افسانے کی بناوٹ میں  تکنیک کی اہمیت کسی طرح بھی کم نہیں سمجھی جا سکتی کیوں کہ یہ افسانے  کی بناوٹ میں  ایک بنیاد کا کام کرتی ہے۔  یہ بنیاد ہی ہوتی ہے جو افسانے کی عمارت کو بلند  وبالا کرنے میں  ایک خاص اہمیت کی حامل  ہوتی ہے۔ ممتاز شیریں  لکھتی ہیں:

“تکنیک کی صحیح تعریف ذرا مشکل ہے۔ مواد، اسلوب اور ہئیت سے ایک علیحدہ صنف ہے۔ فن کار مواد کو اسلوب سے ہم آہنگ کر کے اسے ایک مخصوص طریقے سے متشکل کرتا ہے۔ افسانے کی تعمیر میں جس طریقہ سے مواد ڈھلتا جاتا ہے وہی تکنیک ہے۔ میں ایک عام سی مثال سے ذرا س کی وضاحت کر دیتی ہوں۔  مثلاً ایک برتن بنانے کے لیے مٹی کی ضرورت ہے ۔اسے خام مواد سمجھ لیجیے۔ پھر اس میں رنگ ملایا جائے گا۔ یہ اسلوب ہے۔ پھر کاریگر رنگ اور مٹی کے اس مرکب کو  اچھی طرح گوندھتا، توڑتا مروڑتا ، دباتا کھینچتا، کسی حصے کو گول کسی کو چکور، کہیں سے لمبا کہیں سے گہرا اور مخصوص شکل پیدا ہونے تک اسی طرح ڈھالتا چلا جاتا ہے۔ تکنیک کے لیے  یہ ایک موٹی سی مثال ہے ا ور آخر میں جو شکل پیدا ہوتی ہے اسے ہئیت کہتے ہیں اور جو چیز  بنتی ہے وہ افسانہ ہے۔”(19)

میری دانست میں افسانے کی کوئی ایک متعین شدہ تکنیک نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا اصول ہے ہے کہ جس سے پرکھا جا سکے کہ کون سی تکنیک اچھی ہے اور کون سی تکنیک اچھی نہیں ہے البتہ الفاظ کے چناؤ میں افسانہ نگار کو چاہیئے کہ وہ روز مرہ میں استعمال ہونے والی زبان استعمال کرے۔ مختلف افسانہ نگاروں  کی تکنیک مختلف ہوتی ہے ۔ کوئی شہری زندگی کو موضوع بحث بناتا ہے اور کوئی دیہاتی زندگی کو۔

 ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تکنیک افسانہ لکھنے کا ایک طریقہ ہے جو مختلف لوگوں کا مختلف ہو سکتا ہے۔ تکنیک سے وحدت تاثر کو بڑھانا ممکن ہوسکتا ہے۔  افسانے میں ایک مکمل وحدت ہوتی ہے اور یہ وحدت ایسی ہے جو ابتدا سے انتہا تک افسانے کو متاثر کرتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ افسانہ نگار اس بات کا خیال رکھے کہ افسانے میں کہیں جھول نہ پڑے۔ڈاکٹر عبادت بریلوی  نےلکھا:

“اس کی ہئیت چونکہ فروعی یا ضمنی باتوں کے اظہار کی اجازت نہیں دیتی ۔اس لیے صرف مرکزی خیال کو پیش نظر رکھنا ،اور مختلف زاویوں سے اس پر روشنی ڈالنا اس کے پیش نظر ہوتا ہے۔چونکہ خیال بھی ایک سے زیادہ نہیں ہوتا۔اس لیے اس میں بذات خود بھی وحدت ہوتی ہے ۔مختصر افسانے کے تمام نقاد اس خیال پر متفق ہیں کہ اس میں شروع سے آخر تک تاثر کی یہ وحدت کارفرما ہونی چاہیے،”(20)

جُزئیات نگاری:              افسانے کی تکنیک میں کہانی کے ساتھ ساتھ  ارد گرد  کے بارے میں کچھ بیان کرنا  جُزئیات نگاری کہلاتا ہے۔ یہ بھی افسانے کا اہم ادبی حصہ ہوتی ہے۔  راقم کی رائے میں جزئیات نگاری انتہائی کم ہونی چاہیئے کیوں کہ زایدہ جزئیات نگاری سے افسانہ نگار  اور قاری اصل موضوع سے ہٹ سکتے ہیں۔

 جزئیات نگاری کی مدد سے کہانی کی وضاحت کرنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے مگر جزئیات نگاری کو کہانی پر حاوی نہیں ہونا چاہیئے۔ڈاکٹر جعفر رضا کی رائے میں:”کہانی کا ماحول وقت کی گردش کے ساتھ بدلتا رہتا ہے ۔یہ ماضی ،حال اور مستقبل کسی سے بھی متعلق نہیں ہو سکتا ہے اور اس کی کامیاب تصویر کشی ہی ماحول کی عکاسی کرتی ہے۔

  ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جزئیات نگاری ایسی ہونی چاہیئے جو کردار اور کہانی سے متعلق ہی ہو  یعنی کہانی ، کردار اور جزئیات نگاری میں ایک اٹوٹ رشتہ ہونا چاہیئے۔  جزئیات نگاری کو ہم افسانے کا بناؤ سنگار بھی کہہ سکتے ہیں ۔

  ایک خوبصورت چہرے کو جس طرح زیادہ بناؤ سنگار کی ضرورت نہیں ہوتی اسی طرح ایک اچھی کہانی اور عمدہ کردار کو بھی  زیادہ جزئیات  کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ حد سے زیادہ جزئیات نگاری کے بوجھ تلے جب کردار اور کہانی دب جائیں گے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ افسانہ قاری کے ذہن پر عمدہ نقوش چھوڑ سکے گا۔ حر ف آخر یہ کہ  جزئیات نگاری سے  کہانی تکنیکی طور پر سجتی، سنورتی اور نکھرتی ہے۔

منظرنگاری:        افسانہ میں جب کوئی واقعہ لکھنا مقصود ہو تو  تو اس واقعہ سے وابستہ کسی اہم منظر(یہ بھی جزئیات میں آتا ہے)کو زیر قلم لایا جاتا ہے تاکہ افسانہ میں پہلے سے بیان کئے گئے جملہ پہلوؤں کوقاری کے سامنے لایا جا سکے ۔

  عمدہ منظرنگاری  قاری کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔  بعض اوقات قاری منظر نگاری میں ایسے کھو جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کہانی کا ایک کردار سمجھنے لگتا ہے۔ منظر نگاری کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس میں  اتنی وضاحت نہ ہو کہ قاری کے ذہن پر بوجھ محسوس ہونے لگے۔

منظر نگاری میں اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہوتا ہے کہ یہ کردار کی فطرت کے مطابق ہو مثلاً اگر کردار اپنے دیہات میں کھیتوں کو پانی لگا رہا ہے تو منظر نگاری میں بھی موسم کے مطابق فصل کا ذکر ہونا چاہیئے۔ منظر نگاری کہانی اور کرداروں کو  بہتر انداز میں قاری کے سامنے پیش کرنے کا سبب بھی ہوتی ہے۔

نقطۂ نظر:          ادبی اصناف میں بعض اوقات رمزیہ باتیں بھی موجود ہوتی ہیں بلکہ یہ ادب کی ہر صنف کے لیے لازمی بھی کہا جا سکتا ہے۔  میری دانست میں افسانہ ہو یا پھر ناول دونوں میں نکتہ نظر ہی وہ چیز ہوتی ہے جو مصنف میں تحریر لکھنے کے لیے تحریک   کا سبب بنتا ہے۔

  ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نکتہ نظر اور مرکزی خیال دونوں ایک ہی ہیں ۔ افسانہ نگار جب اپنے ذہن میں پیدا ہونے والی سوچ کو یا پھر کسی واقعہ کو بنیاد بناتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ محر کِ افسانہ ذہن میں پیدا ہونے والی سوچ یا پھر دیکھا ہوا واقعہ ہے۔  فنکار کی شخصیت کا صحی اظہار نقطہ نطر سے ہی ہوتا ہے۔اسی نکتہ نظر کے حساب سے مصنف پلاٹ تیار کرتا ہے اور پھر اس  میں کرداروں  اور مناظر کی مدد سے   مکمل کہانی قاری تک پہنچاتا ہے۔ڈاکٹر محمد حسن لکھتے ہیں :

“ہر موضوع ادب کا موضوع نہیں بن سکتا ہے مگر جو چیز نقطہ نظر کہلاتی ہے وہ محض وقتی اور ہنگامی حالات سے نہیں بنا کرتا،اس کے لیے زندگی کا اجتماعی احساس اور ادراک کی ضرورت ہوتی ہے ،وہ گویا زندگی کے بارے میں ہمارا رویہ ہوتا ہے۔”(21)

ماحول اور فضا       :یہ بھی منظر نگاری کی ہی ایک قسم ہے۔  جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ فضا اور ماحول کرداروں اور پلاٹ کو مدنظر رکھ کر ہی قاری کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔

اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔  ماحول اور فضا کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک اندرونی اور  دوسراباہری۔ نفسیاتی افسانوں میں   ذہنی کیفیات کو بیان کیا جاتا ہے جب کہ معاشرتی افسانوں میں گردونواح کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ اگر قاری فضا اور موحول میں خود بخود ڈھل جائے تو ایسا افسانہ تکنیکی طور پر بہتر سمجھا جائے گا۔ مختصر افسانے میں ماحول اور فضا کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔کہانی میں ماحول کی تصویر ایسی کھنیچی جائے کہ اس سے فضا ابھر آئے۔جو فن کار پیش کرنا چاہتا ہے۔ کہانی کی تعمیر میں فضا آفرینی کا بڑاعمل دخل ہوتا ہے۔

زبان وبیان:       افسانہ ادب کی ایک نثری صنف سخن ہے۔ چوں کہ یہ ایک نثری صنف ہے اس لیے افسانے میں استعمال ہونے والی زبان بھی نثری ہونی  چاہیئے نہ کہ شاعرانہ۔ الفاظ انتہائی آسان ہوں اور تشبیہ، تلمیح، استعارہ، رمز،   وغیرہ جیسی شعری اصطلاحات سے گریز برتنا چاہیئے۔ روز مرہ اور  عام استعمال ہونے والی زبان میں لکھے گئے افسانے قاری کو سمجھانے میں نہ صرف مدد دیتے ہیں بلکہ ایسے افسانے  زیاہ دیر پا اثر بھی رکھتے ہیں ۔ علاقائی بولیاں ،  محاورے  اور کہاوتیں  وغیرہ افسانے کو اگرچہ بہتر بنا دیتی ہیں مگر ان کااستعمال بھی کسی حد تک ہونا چاہیے۔

اُسلوب:                  یہ حضرت انسان کی خوبی ہے کہ وہ کسی بنی ہوئی چیز کو دیکھ کر اس کے بنانے والے کے بارے میں جان جاتا ہے۔ اسی طرح  بعض اوقات تحریر کو دیکھ کر ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کس مصنف کی ہو سکتی ہے۔

جب کوئی چیز بنائی جائے یا پھر کوئی تحریر لکھی جائے تو یہ چیز بنانے والے اور تحریر لکھنے  والے کا اسلوب یا طریقہ کار کہلاتا ہے۔ اپنے اسلوب سے ہی ایک مصنف قاری کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لسانیات سے اسلوب کا تعلق بلا واسطہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں مرزا خلیل بیگ لکھتے ہیں :

“اسلوب یا Style سے عام طور پر کسی مصنف کا ‘طرز بیان’ یا ‘ اندازِ نگارش’ مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن ‘اسلوب’ کی تعریف اور اس کی تعبیر و تشریح یا توضیح دراصل اتنی آسان نہیں۔”(22)

مرزا خلیل بیگ  کی بات سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ اسلوب کوئی عام سی خوبی نہیں بلکہ یہ   مصنف کی پلاٹ کی تیاری،  الفاظ کے چناؤ،  کرداروں کا انداز و مکالمے اور منظر نگاری وغیرہ کی تمام خوبیوں اور خامیوں کو قاری کے سامنے لے آتی ہے۔  ہر مصنف کا اپنا اپنا انداز تحریر ہوتا ہے ۔ تحریر کا یہ انداز یا اسلوب ہی لوگوں میں قاری  اور اس کی تحریرکی اہمیت جانچنے کا ایک آلہ ہوتا ہے۔

ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسلوب  ایک ایسے وسیلے کا نام ہے جو نہ صرف تحریر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے بلکہ  اس سے ہم مصنف کی تکنیک کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں۔ تیزی سے ترقی کرتے ہوئے موجودہ دور میں ابہر قاری نہ صرف تحریر غور سے پڑھتا ہے بلکہ وہ یہ بھی جاننے کو کوشش میں ہوتا ہے کہ مصنف نے یہ تحریر کیوں اور کس مقصد کے لیے لکھی ہے۔

چوں کہ افسانے کے اسلوب مختلف قسم کے ہو سکتے ہیں یعنی سادہ زبان میں ، تصوراتی انداز میں، داستانی انداز میں، بیانیہ انداز میں، مکالماتی انداز میں  یا پھر نفسیاتی انداز میں اس لیے مصنف کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اس طرح کا اسلوب اپنائے کہ  جو قاری کی مکمل توجہ اپنی تحریر کی جانب مبذول کروا دے  اور  اپنی تحریر میں اتنی کشش پیدا  کر دے کہ قاری ایک ہی نشست میں افسانہ پڑھ لے۔  جب مصنفین کا اسلوب اور اس سے متعلق اشیاء بہتر سے بہترین  ہونا شروع ہو جائیں گی تو یقیناً قاری اس کی جانب اوران کی تحریر کی جانب مائل ہو جائے گا۔

حوالا جات

  1. سلیم آغا قز لباش،ڈاکٹر،جدید اردو افسانے کے رجحانات انجمن ترقی اُردو کراچی،پاکستان،2000ءص20
  2. سلیم آغا قز لباش،ڈاکٹر،جدید اردو افسانے کے رجحانات ،ص42
  3. دیویندرا سر ہندوستان میں اردو افسانہ ،مشمولہ اردو افسانہ روایت اور مسائل ،گوپی چند نارنگ،ڈاکٹر ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی،2000ء،ص 58
  4. سہیل بخاری،ڈاکٹر،افسانہ:تاریخ اور فن،مشولہ ۔کارروان، ماہنامہ اگست،ستمبر 1958 جلد 4،نمبر 8-7،ص 122
  5. وزیر، آغا ڈاکٹر،چند باتیں: کالمات(وزیر آغا سے)انٹرویو سحر صدیقی،مرتبہ ڈاکٹر انوار سدید اکتوبر 1991،مکتبہ فکروخیال لاہور،ص 185
  6. The New Encyclopedia Britannica Vol10,(15th Edition) U.S.A:1992.P.761
  7. اختر اورینوی ،تحقیق اور تنقید،شاد بک ڈپو، پٹنہ، ص،133
  8. نگہت ریحانہ ڈاکٹر، مرتبہ،اردو افسانہ: فنی و تکنیکی مطالعہ،مشمولہ، اردو مختصر افسانہ کا آغاز و ارتقاء،کلاسیکل پرنٹرس، دہلی، 1986ء، ص، 21
  9. سید وقار عظیم ،داستان سے افسانے تک، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 2003ء، ص،22
  10. انور سدید ڈاکٹر، اردو افسانے کی کروٹیں، مکتبہ عالیہ، لاہور، 1991ء، ص،24
  11. انور سدید،ڈاکٹر، مختصر اردو افسانہ :عہد بہ عہد،مقبول اکیڈمی،لاہور،1992،ص 14
  12. عبادت بریلوی ڈاکٹر،تنقیدی زاویے،مکتبہ اردو ،لاہور،1951ءص 235
  13. سلیم آغا قز لباش،ڈاکٹر،جدید اردو افسانے کے رجحانات ص 106۔107
  14. انوار احمد،ڈاکٹر،اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ،مثال پبلشرز فیصل آباد،2010،ص 16
  15. قاضی،فردوس انور ،ڈاکٹر ،اردو افسانہ نگاری کے رجحانات ،مکتبہ عالیہ،لاہور، ء،ص 40
  16. John D.Jump. The Critical Idiom General editor.1970.p 43
  17. Foster ,E.M.Aspects of the Novel.London:Penguin Books,1970
  18. نورین رزاق، ڈاکٹر، پاکستانی خواتین افسانہ نگار،(اردو افسانے کی روایت کے تناظر میں)،دستاویز مطبوعات،لاہور،2010ءص 18
  19. ممتاز شیریں، تکنیک کاتنوع ناول اور افسانہ میں، اردو رائٹرس گلڈ، الہ آباد، 1997ء، ص5
  20. عبادت بریلوی،ڈاکٹر،فن ا فسانہ نگاری،مشمولہ،نقوش،مدیر،محمد طفیل، افسانہ نمبر،لاہور، ستمبر1974،ص1000
  21. محمد حسن،ڈاکٹر،جدید اردو ادب،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی،1975ء،ص 26-25
  22. خلیل بیگ مرزا،زبان اسلوب اور اسلوبیات، ادارہ زبان و اسلوب، علی گڑھ، 1983ءص157

Leave a Reply