You are currently viewing التوا(ڈرامے)

التوا(ڈرامے)

تبصرہ

التوا(ڈرامے)

مصنف: اشفاق احمد آہنگر

صفحات: ۱۱۶، قیمت:۱۵۰،سنہ اشاعت:۲۰۲۰

مبصر:غلام مصطفی ضیا

اسسٹنٹ پروفیسر(کنٹر یکچول)

         اشفاق احمد آہنگر ایک بہترین قلم کارہیں۔تحقیق و تنقید کے حوالے سے یوں تو ان کے کئی مقالے شائع ہوچکے ہیں مگر ان میں بطور خاص ’’ اردو ڈرامے میں ترقی پسند رجحان‘‘،’’التوا(ڈرامے)‘‘ ،’’اردواسکرین ڈراموں پر ایک نظر‘‘،’’علی سردار جعفری کی ڈراما نگاری‘‘،’’علامہ اقبال کی شاعری میں سماجیاتی عناصر کی عکاسی ‘‘ اہمیت کے حامل ہیں۔بہت جلد ان کی ایک اور کتاب ’’اردو ڈراموں کے مایہ ناز فن کار ‘ ‘ بھی منظر عام پر آنے والی ہے۔

          زیر تبصرہ کتاب ’’ التوا‘‘کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف نے وادی کے افسردہ حالات، معاشی معاملات، سیاسی الجھنیں،نوجوانوں کے مسائل اور خاص طور پر موجودہ انسان کی نفسیات کو فن کارانہ انداز سے پیش کرنے کی سعی کی ہے۔موضوعی اعتبار سے بھی ڈراما نگار نے منطقی استدلال کا خیال رکھتے ہوئے اپنے چاروں ڈراموں میں ڈرامانگاری کے فن کے ساتھ انصاف کرنے کی کوشش کی ہے۔کمپوژنگ اور طباعت کے لحاظ سے بھی یہ کتاب عمدہ اور نفیس ہے۔بالخصوص سرِ ورق حد درجہ جاذب نظر  اور دلکش ہے ۔اشفاق احمد نے اس کتاب کو ان لوگوں کے نام معنون کردیا ہے جو فرسودہ نظام سے تنگ آچکے ہیں ۔اس کتاب کے ابتدائی صفحہ پر اردو کے مشہور شاعر احمد فراز کے یہ شعر درج ہیں:

میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی

میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے

اسی لیے تو جو لکھا تپاک جان سے لکھا

جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے

         اشفاق احمد نے ڈراموں کے اس مجموعے کا نام ’’ التوا‘‘ رکھا ہے اور اسی نام سے موصوف کا ایک ڈراما اس مجموعے کا حصہ بھی ہے۔ان کے چاروں ڈرامے ’’التوا‘‘، ’’لاک ڈاؤن ‘‘ ، ’’کمپرومائز‘‘، اور’’ جرآت گفتار‘‘ الگ الگ موضوعات پر مشتمل ہیں۔ڈراما ’’التوا‘‘ میں ایک مخصوص محکمہ کی منفی ذہانت اور سالہا سال عوام کے تئیں ان کی ستم ظرفی اور غریبوں کے لیے بےجا مصائب و طبائن کا ذکر کیا گیا ہے ۔اس ڈرامے کا مرکزی کردار’بیرا ‘ وادی کشمیر ہی نہیں بلکہ برصغیر وہندوستان کے ہر تحصیل دار کے دفتر میں میلے ہاتھوں سے  چائے ڈھوتاااور التوا میں پڑی درخواست پر کسی محترم تحصیل دار کے دستخط کا منتظر نظر آجائے گا۔یہ فن کارکی انتہائی خوبی ہے کہ انہوں نے اس طرح کے کرداروں کو برت کر اپنے ڈراموں کوآفاقیت بخشی۔اسی طرح اس ڈرامے کے دوسرے کردار مثلاََ دیوراج، رانی،پٹواری، چوکی دار، وغیرہ جہاں فنی اعتبار سے ڈرامے کو اسٹیج کے قابل بناتے ہیں وہیں حرکات و گفتار سے بھی قاری کو بہت حد تک متاثر کرتے ہیں۔

         اشفاق احمد کے اس مجموعے کا دوسرا ڈراما ’’ لاک ڈاؤن‘‘ ہے جس میں عالمی وبا کے سبب ہر آدمی اپنی یکسو زندگی سے تنگ ہے ۔ وبا اگرچہ قدرتی ہے مگر اس کے انتظام و انصرام کی صورتیں عوام کے لیے زیادہ اذیت ناک ثابت ہوئی۔ان حالات کے نتائج اور ان سے پیدا شدہ پریشانیوں کو ڈراما نگار نے فن کارانہ انداز سے پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ڈرامے میں’بشیر ‘گرچہ کرونا جیسی آفت سے خود کو محفوظ رکھتا ہے مگر اپنے ہی ملک کے پولیس کے تشدد کا شکار ہوکر زندگی کی جنگ ہار جاتا ہے۔یہ ڈراما بھی طوالت سے پاک اور ڈراما نگار کی فن ڈراما نگاری سے مطابقت کا ثبوت ہے۔

         موصوف کے اس مجموعے کا تیسرا ڈراما ’’کمپرومائز ‘‘ہے جس میں پیش کردہ مرکزی کردار ’سلیقہ‘ ہمارے معاشرے کے ظاہر و باطن کا آئینہ ہے ۔باریک بینی سے دیکھا جائے تو اس طرح کے درجنوں کردار ہمارے موجودہ نظام تعلیم کی بھینٹ چڑھ کر ماسٹروں کی حوص کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔ڈراما نگار نے مذکورہ ڈرامے میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح پیشہ ورانہ جاہل لوگ مہذب عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھا کر مظلوم اور بے کس سلیقاؤں کی سلیقہ  مندی پر وار کرتے ہیں۔عصر حاضر میں ’ بلقیس اور شادرا جیسی آزاد خیال اور منفی سوچ رکھنے والی فاحشاؤں کی کمی نہیں ہیں جو ترقی کے نام پر جنسی کج روی کو فروغ دے رہی ہیں۔ورنہ اس طرح کے کردار ڈرامے ہرگز جنم نہ لیتے۔

         زیر نظر کتاب میں شامل آخری ڈراما ’’جرأت گفتار ‘‘ہے۔جس میں بادشاہ ،وزیر داخلہ، وزیرقانون ، صدر، کسان ، مزدور وغیرہ سیاسی چاپلوسی اور فریب کاری کو بے نقاب کرتے ہیں۔ اس ڈرامے کے مختلف اجزا کے مابین جوربط و تسلسل ہے وہ ڈرامے کو دلچسپ اور ہر دل عزیز بناتا ہے۔ڈراما نگار نے جس پیرائے میں اردو شعرا کا کلام کوکرداروں کی وساطت سے پیش کیا ہے وہ لائق صد تحسین ہے۔اس ڈرامے کے بعض مکالمے طویل ضرور ہیں مگر ان کی طوالت قاری پربوجھل نہیں گزرتی کیوں کہ یہ مکالمے سماج کے ٹھیکداروں ، شاطر فرمانروا ؤں اور ملک میں انارکی پیدا کرنے والوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔

         الغرض مذکورہ بالا ڈراموں کے مطالعے کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ڈراما نویس فن ڈراما نگاری پر کافی دسترس رکھتے ہیں۔پلاٹ کی تکنیک، کرداروں کی چلت پھرت ،مکالمہ نگاری کاصوتی مدوجزر، موسیقی اور اسٹیج کی آرائش و زیبائش کا بھی انہیں صحیح اندازہ ہیں۔لہٰذا اس کتاب کی اشاعت پر اشفاق احمد آہنگر بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہے۔امید ہے کہ ان کا یہ تخلیقی کام نظر تحسین سے دیکھا جائے گا اور ادبی حلقوں میں اس کی خاص پزیرائی ہوگی۔ان شا ء اللہ!

***

Leave a Reply