You are currently viewing انجیکشن کا خوف

انجیکشن کا خوف

محمودہ قریشی

آگرہ۔یوپی۔انڈیا ۔

افسانہ

انجیکشن کا خوف

 

 نہ معلوم آج کون سی واردات ہونے والی ہے ۔ کہ نیند روٹھ سی گئی ہے  ۔بار بار سونے کی کوشش کر رہی  ہوں ۔لکین آنکھیں بند کرتے ہی  نگاہوں  میں بس  ایک ہی نظارہ  آ جاتا ہے ۔ آمنہ خالہ کا  پیارا سا ہنستا کھیلتا  وہ  معصوم سا عکس ۔ اور آج کا کس طرح کا خوفناک  چہرہ ۔؟اس  دہشت ناک موت کے سبب  ایسا خوف طاری ہے کہ ۔ اب کیا  معلوم   نیند آئے گی بھی یا نہیں ؟۔یہ ہی  سوچ کر  ذہن پر ایک کوفت    طاری ہو گیا   ہے ۔کہیں  یہ خوف مجھے موت  کی نیند نہ سلا دے ۔؟

ہائے ! اسپتال والو نےآمنہ خالہ کا    کیا حال کیا  ۔؟وہ تو اپنے پیروں سے چل کر ہاسپٹل  گئی تھی ۔؟ بے  چاری  , آمنہ خالہ کے بدن کو   کس طرح سے  چھلنی کیا ہے۔ ان بے رحم ڈاکٹروں نے ,نہ جانے کون کون سے تو انجیکشن لگائے تھے   ۔؟شاید اسی سبب ان کے ہاتھوں پر کیسے نیلے ہرے چکتّے پڑے ہوئے تھے   ۔

“ہائے اللہ ۔۔میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے ۔

آج کل تو ڈاکٹروں کے یہاں  جانا ہی نہیں چاہئے ۔ بالکل قصائی بن گئے ہیں ۔”

خدا نہ خواستہ میں اگر کل کلاں کو بیمار ہو  گئی تو یہ  ڈاکٹر تو مجھے  بھی کوئی ایسا ہی ایک  انجیکشن لگا دیں  گے ۔”

نہیں ۔نہیں میں کبھی ان سرکاری  ڈاکٹروں کے چکّر میں نہیں پڑنے والی ۔پر آج ان تکلیف دہ  اموات   کو برداشت کرنا مشکل ہی نہیں   نا ممکن  بھی  ہو رہا ہے  ۔ وقت اور حالات کے سبب   دھڑکہ  لگا ہوا ہے ۔

“مگر میں کس سے کہتی  ؟۔” دل  ہلکا کرنے کے لئے کوئی پاس بھی تو ہونا چاہئے ۔؟

دانشتہ کے ابو دوسرے شہر میں   اکیلے رہتے  ہیں ۔ اپنے سبب خواہ مخواں ان کو  پریشان کرنا کچھ مناسب  نہیں  لگ رہا تھا    ۔

دل میں آیا    دانشتہ کو اُٹھاؤ  اس کے ساتھ کچھ باتیں کروں تو دل ہلکا ہو جائے گا ۔ اس کو دیکھ کر لگا کہ   وہ تو  گہری نیند سوئی ہوئی  ہے ۔بیٹی کو یوں اتنی رات کو نیند سے اٹھانا  بھی گوارہ نہیں ہوا ۔ ,اسی کے پاس  لیٹ گئی اور اپنی دہشت اور  تنہائی کو دور کرنے کی کوشش کرنے لگی ۔ آہستہ آہستہ اس کے بالوں کو سہلانا شروع کیا ۔سوتے ہوئے دانشتہ کتنی معصوم لگ رہی تھی  ۔آج پہلی بار احساس ہوا میری چھوٹی سی دانشتہ کب اتنی بڑی ہو گئی ۔؟ اس کی یہ معصومیت کتنی خوشگوار لگ رہی ہے  ۔دل کر رہا تھا اسے  سینے سے لگا کر خوب اشک باری کروں ۔لکین اس کی خوبصورت نیند ٹوٹنے کا خدشہ منع تھا ۔اس کے مخملی رخسار پر ہاتھ پھرتے ہوئے ,یکایکہ مجھے  خیال آیا ,کیا  میں نے آمنہ خالہ کے جنازے میں سے آکر ہاتھ دھوئے  تھے ۔؟ اور میں نے جلدی  بے اختیار ہاتھوں پر سینی ٹائزر چھِڑکا… اور یاد کرنے لگی  کہی میں نے   آمنہ خالہ کے جنازے سے ہاتھ تو نہیں لگایا تھا ۔؟میں نے ان کی کسی بھی چیز سے   ہاتھ تو نہیں لگایا تھا…!  اور میں  جنازے سے کتنی دوری کے فاصلے پر کھڑی تھی ۔؟اس خیال سے خود کو اطمینان دلایا کہ۔

”  میں نے تو آکر اچھے سے غسل بھی کر لیا تھا ۔”

مجھے خود اپنی اتنی  فکر نہیں ہے ۔ لکین دانشتہ تو میرے ساتھ رہتی ہے ۔

“خدا نہ خواستہ ۔

نہیں ۔۔۔نہیں ۔۔۔یہ میں  کیا سوچ رہی ہوں ۔۔

توبہ ۔۔توبہ ۔۔

 دوسرے ہی لمحہ میرے  ذہن میں سوال پیدا ہوا ۔

” کیا مجھے  اپنا کرونا  ٹیسٹ کروا لینا  چاہئے .؟  لکین  میرے ساتھ  ہاسپٹل  کون جائے گا ۔؟ “

حالات ایسے ہیں کہ مہنگے ہاسپٹل کا خرچہ برداشت کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔لکین  سرکاری ہاسپٹل بھی تو  قصائی باڑہ بنے  ہوئے  ہیں ۔وہاں جائے تو آدمی کیسے جائے ۔؟

ایک دانشتہ ہی تو ہے میرے پاس ۔ میں دانشتہ کو سرکاری اسپتالوں کے چکّر میں نہیں ڈال سکتی۔؟  اوراگر میں خود  سرکاری اسپتال گئ  اور انھوں نے میرے بھی کوئی انجیکشن لگا دیا تو ؟.

تو سمجھو آمنہ خالہ کا کیا ہوا .!

نہیں ۔۔نہیں میں سرکاری  اسپتال نہیں جاؤنگی ۔”

میں اس  ادھیڑ بن میں مصروف تھی کہ دانشتہ کے موبائل کی گھنٹی  بجی   ۔دانشتہ  کی نیند خراب نہ ہو اس ڈر سے آہستہ سے فون  اُٹھا کر حلق سے آہستہ آہستہ ۔۔آواز نکالتے ہوئے کہا

“ہیلو ۔۔۔ہیلو “

دوسری طرف سے دانشتہ کے ابو کی بھرائی ہوئ آواز کانوں میں پڑی ۔

“ہیلو دانشتہ بیٹا  ۔

کیسی ہو ۔؟

اپنی امی  کو فون دو ۔”

میں نے ہکلاتے ہوئے کہا ۔

“جی …جی ..میں ہی ہوں  ,اتنی رات کو کیسے فون کیا ۔؟

سب خیریت ۔”؟

اور ان کے کچھ کہنے  سے پہلے ہی اپنا دوسرا سوال پیش کر دیا ۔

اچھا ہوا آپ نے فون کر لیا میں بھی کافی دیر سے آپ کو فون کرنے کے لئے سوچ  رہی ہوں۔

 لکین دانشتہ سو رہی ہے اسے نیند سے جگانا مناسب  نہیں سمجھا ۔

سنو ! مجھے تو آج بہت خوف کھائے جا رہا ہے ۔آپ بس جلدی آ جاؤں ۔”

ہیلو …ہیلو…

آپ  خاموش کیوں ہیں۔؟

کب سے میں ہی بولے جا رہی ہوں ۔

“آپ کو تو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا ۔”

انھوں نے ..”ہو ..” کرتے ہوئے  آواز دی ۔

“ہاں …ہاں …میں سن رہا ہوں ,

اور  ,میں بھی آج بہت پریشان ہوں۔دل بے چین ہو رہا تھا , تو سوچا آپ لوگوں سے بات  کروں تاکہ دل کو  کچھ سکون مل جائے   ۔

ویسے بھی یہاں  سب کام دھندا تو بند  ہے ۔ غدر جیسے حالات بنے ہوئے ہیں ۔ہر روز کوئی نہ کوئی کرونا کے سبب  موت کا شکار ہو جاتا ہے۔اور اپنے حقیقی محبوب سے جا ملتا ہے ۔”

انھوں نے بہت تعجب سے کہا ۔

” شکیلہ ,آج تو میرا عزیز ,  میرا ہمدم ,میرا  دوست …غفور,  بھی چل بسا ,اس ہی کے جنازے میں شریک ہو کر آیا تھا۔  ذہن و دماغ نے کام کرنا بند کر دیا ہے ۔…شکیلہ ,اب میں تمہیں کیا بتاؤ دل پر کیا گزر رہی ہے ۔ایسا لگ رہا ہے کوئی بیش قیمتی چیز مجھ سے جدا ہو گئی ہے ۔رہ رہ کر بس غالب کا ایک ہی جملہ یاد آ رہا ہے کہ۔

 “اس ہنگامے میں میرے اِتنے یار مرے کہ جب میں مروں گا تو مجھے کون کاندھا دے گا۔‘”

ان کی ٹوٹتی ہوئی ہمّت کو دیکھ کر مری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔

انھوں نے ایک گھری سانس لیتے ہوئے مجھ سے  کہا ۔

“شکیلہ ,ویسے تو ہر جان دار چیز کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔پر چالیس پچاس سال کے عرصے میں ,میں  نے ایسا وقت کبھی نہیں دیکھا ۔ اپنے خاص عزیزوں کی  جو اس طرح موتیں ہو رہی ہیں دل دہل گیا ہے  ۔”

“آپ بلکل پریشان نہیں ہوئے ,اللہ غفور رحیم ہے بہت جلد سب ٹھیک کر دے گا “۔میں نے انھیں   سمجھاتے ہوئے کہا

” اور جلد از جلد بس آپ  گھر آنے کی کوشش کیجئے ۔”

انھوں نے بھی مجھے تسلی دیتے  ہوئے کہا

“تم بھی زیادہ ذہن پر زور نہیں دو شکیلہ

میں کل شام تک آ جاؤں گا اپنا اور دانشتہ کا خیال رکھنا ۔”

“اچھا میں اب فون رکھتا ہوں “انھوں نے فون کاٹتے ہوئے کہا ۔

ان سے بات کرکے قلب کو کچھ سکون  محسوس ہوا ۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی بہت بڑا بوجھ ہلکا ہو گیا ہو ۔کہ پھر موبائل کی گھنٹی بجنا شروع ہو گئی  ڈرتے ڈرتے میں نے فون کو اٹھایا

“اتنی رات کو کس کا فون ہو سکتا ہے ؟”۔

سوالیہ نظروں سے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے خود سے ہی کہا ۔

 اور  جیسے ہی میں نے فون اوکے کرکے ہیلو کہا ۔دوسری طرف سے اس قدر رونے کی آواز آنے لگی کہ دل زور زور سے دھڑکنے لگا ۔

جب میں نے بہت  اصرار کیا  اور  کہا۔

” بیٹا تم پہلے چپ تو ہو جاوں “۔!

اور مجھے یہ بتاؤ تم کون بول رہے ہو۔؟ “

تو روتے ہوئے   اس نے مجھ سے کہا ۔

“مما نی میں …نعمان

 آپ جلدی آ جائے ممانی ,اور ماموں سے بھی کہہ دیجئے ,ہماری  امی ۔۔۔۔

ہماری  امی ۔۔۔چلی گئی ممانی ۔۔۔”۔

میں ہیلو.. ہیلو ..کرتی ہی رہ گئی اور دوسری طرف سے فون کٹ گیا   ۔

میں نے  دل ہی دل میں

”  انا للہ وانا علیہ راجعون پڑھا “

ابھی کچھ دیر پہلے ہی ذہن کو تھوڑا سکون ملا تھا کہ پھر وہی کیفیت ,وہی خوف زدہ کیفیت طاری ہو گئی ۔

ابھی دانشتہ کے ابو بھی پریشان تھے  اب دوبارہ ان کو فون کرکے کہنا کہ تمہاری بہن بھی ۔ “ہائے ۔۔۔۔نہیں نہیں ۔گھبرا جائیں گے ۔

مجھے گوارہ نہیں ہوا۔ایک ہی تو بہن ہے ان کی وہ بھی اللہ کو پیاری ہو گئی ۔

اے مولیٰ کیسی وبا آئی ہے۔؟ جس سے کوئی بھی  نہیں بچے گا ؟۔

اس خوف  و فکر نے بدن کو تھکا  دیا ہے ۔عقل  نے بلکل کام کرنا بند کر دیا ہے   ۔”

رات جیسے تیسے خوف اور دہشت میں کٹی اور صبح تک  میری ایسی حالت ہو گئی کہ بستر سے اُٹھنا بھی  مشکل تھا ۔

صبح دانشتہ نے جب مجھے جھجوڑتے ہوئے زور دار آواز لگائی۔

“امی آپ کیا آج سوتیں  ہی رہے گی ۔”

میں ایک دم سے اُٹھ گئی اس نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ۔

“امی آپ کو تو بہت تیز بخار ہے “۔؟

میں کچھ کہتی کہ اس سے پہلے  دروازے کی  بیل بجنے لگی اور دانشتہ  دروازہ کھولنے کے لئے  چلی گئی وہ  وہی سے اس زور سے چلائی  ,

“ابو ۔۔۔۔ابو ۔۔۔

یہ کیا ہوا آپ کو ۔”

دانشتہ کی آواز سن کر میں دوڑی چلی گئ ۔

ان کو دیکھ کر بے ساختہ منھ نکلا ۔

“ہائے اللہ !۔۔ یہ آپ کو کیا ہوا ۔؟”

دانشتہ  کے ابو  اتنی زور زور سے کھانس رہے تھے ۔اور ان کا پورا بدن   کانپ رہا  تھا۔ تھرتھراتے ہوئے  ان کو خود سے  سنبھال پانا مشکل ہو رہا  تھا ۔

“آپ یہاں ,اور کس کے ساتھ آئے ۔؟”

میں نے ان سے سوالیہ لہجے میں کہا ۔

ہم دونوں نے ان کو سہارا دیتے ہوئے  آرام سے بیٹھایا۔ میں نے   جلد دانشتہ سے چائے بنا کر لانے کو کہا ۔

کچھ سکون محسوس ہوا تو انھوں نے کہا ۔

“نہیں نہیں میں اب میں  ٹھیک ہو ں ۔قبرستان میں ایک ساتھ پندرہ لاشوں کے تدفین کو دیکھ کر دل سہم گیا ۔اور  کمزوری کے سبب غشی کھا گیا   ۔وہ تو بھلا ہو اس نعمان  کا اپنی موٹر سائکل پر گھر تک چھوڑ گیا ہے  ۔

اور ہاں دانشتہ بیٹا پہلے مجھے اچھے سے سینی ٹائزر کر دے اس کے باد مجھ سے ہاتھ لگانا ۔”

انھوں نے فکر مند لہجے میں  کہا ۔

لکین ان کی حالت ایسی نہیں تھی کہ کچھ بھی کہا جاتا ۔شہر میں ان کو   ڈاکٹروں کے یہاں لے جانے کے لئے ہمارے پاس  اتنی رقم نہیں تھی ۔اس سبب  قریب ہی ایک میڈیسن  سٹور سے بخار کی پیرا سیٹا مول  منگا کر دانشتہ کے ابو کو کھلا دیں  ۔

رات بھر ان کی طبیعت اور زیادہ بگڑتی گئی  دانشتہ مجھ سے بار اصرار کرتی رہی ۔

“امی جلدی ابو کو ہاسپٹل لے کر چلو نہ ۔”

میرے ذہن میں بس آمنہ خالہ کا وہی معصوم  چہرہ رقص کر  رہا تھا۔ اور ان پر کئے گئے ڈاکٹروں کے ظلم و ستم کا خوف   بھی تھا ۔میں بار بار اس کو ٹالتی رہی ۔

ان کا بدن بخار میں اس قدر تپ رہا تھا اور کھانسی کے اتنے دورے اس زور سے پڑ رہے تھے کہ ان کا سانس لینا  دشوار ہو گیا۔ایک ایک سانس لینے میں ان کو اتنی مشقت ہو رہی تھی ۔میں بار بار ان کی پیشانی پر ٹھنڈے پانی کی پٹٹیاں رکھ رہی تھی ۔لکین ان کی حالت میں ذرا بھی تبدیلی نہیں دیکھ رہی تھی ۔اور ان کی بگڑتی طبیعت دیکھ کر میں بھی اپنی ہمت ہار گئی ۔

 اخیر کار  دانشتہ کے بار بار اصرار پر ان کو سرکاری ہاسپٹل  لے جانے کے لئے راضی ہو  گئی۔ اور  جیسے ہی میں نے اپنی رضامندی کا اظہار  کیا ۔ دانشتہ نے رات کو ہی فون کر ہاسپٹل سے گاڑی منگوا لی اس نے  فورناً ہمیں ہاسپٹل چھوڑ دیا ۔لکین ڈاکٹرز نے سب سے پہلے کرونا جانچ کے لئے بھیج دیا ۔

کرونا کی   رپورٹ آنے تک ہمیں  باہر ہی بیٹھنا پڑا ۔ان کی حالت دیکھ کر ڈاکٹروں پر اس قدر غصہ آ رہا تھا کہ۔

” کم از کم یہ  ڈاکٹر علاج تو شروع کریں ۔رات بھر ان کا تڑپنا اس قدر پریشان کر رہا تھا کہ خود کو ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔

اللہ اللہ کرکے صبح دس  بجے رپورٹ آئی ۔

دانشتہ دوڑی دوڑی ڈاکٹر کے پاس گئی اور کہا ۔

“ڈاکٹر صاحب ,ڈاکٹر صاحب ہمارے ابو کی رپورٹ آگئی آپ پلیز۔۔ علاج شروع کیجئے”۔

پتہ نہیں  رپورٹ میں ایسا کیا لکھا تھا ۔

رپورٹ دیکھتے ہی ڈاکٹر نے کہا  ۔

“آپکی رپورٹ  کرونا  پوزٹیو آئی  ہے ۔”

اور ہمیں کرونا مریضوں میں بھیج دیا گیا ۔لکین وہاں حالات دیکھ کر میرے  پیروں کی زمین ہی نکل گئی

کوئی چیخ رہا تھا تو کوئی اپنے مریض کو کاندھے پر اٹھا کر ادھر سے ادھر گھوم رہا تھا ۔تو کوئی مریض کو گودی میں لیے دو تین منزل اکیلے ہی چڑھ جا رہا   تھا ۔دروازے پر سے ہی میرے پیر اکھڑ نے لگے  ۔سلینڈروں کی گاڑیا ادھر رقص کر رہی تھی ۔فرسٹ فلور پر چڑھتے ہی    مجھے گارڈ نے  روک لیا اور کہا

“انٹی آپ اوپر نہیں جا سکتی ۔

ایک مریض کے ساتھ ایک ہی شخص جا سکتا ہے ۔”

وہاں دانشتہ نے ہی سب فارملٹی پوری کی لکین اس کے ابو کو پانچ  بجے تک بھی علاج نہیں مل سکا  ۔دانشتہ سرکاری ہاسپٹل میں بار بار دو منز ل سے اوپر جا  رہی تھی اور بار بار نیچے اتر رہی تھی ۔میں بار بار اوپر جانے کی کوشش کرتی رہی ۔اور  جیسے تیسے کرکے میں اوپر چلی  گئی  اور ایک ایک وارڈ چھان مارا لکین ایک بھی بیڈ خالی نہیں تھا ۔دانشتہ کے ابو ایک پتلی سی بینچ پر لیٹے ہوئے کرہا رہے تھے ۔

میں نے وہاں پہنچ کر    جلد وہی زمین  پر اپنا دوپٹہ بچھا کر ان کو آرام سے لٹایا ۔

اور ڈاکٹر کے ہاتھ جوڑ کر کہا ۔

“خدا کے لئے ڈاکٹر صاحب پہلے میرے شوہر کو دیکھ لیجئے” ۔۔

ارے انٹی, آپ کی سمجھ میں کیوں نہیں آرہا ہے ۔

ان کے آکسیجن لگنا ہے ۔جب اکسیجن ہاسپٹل میں ہی نہیں ہے تو ہم کیا اپنی بنا کر لگائے گے ۔

اور آپ کے مریض کے لئے جو انجیکشن لکھ کر دیے تھے ۔وہ ابھی تک آپ نے منگوائے کیا ؟ ۔”

ہم علاج کیسے شروع کر سکتے ہیں ۔؟

میں نے ہاتھ جوڑتے ہوئے دوبارہ  اصرار کیا ۔

“ڈاکٹر صاحب میرے شوہر کی حالت بہت نازک ہے پہلے آپ انھیں دیکھ لیجئے ۔”

” ارے  یہاں سب ہی کی حالت نازک ہے  ۔”

ڈاکٹر  نےمجھ سے جھونجلاتے ہوئے کہا ۔

میں گھبرائی ہوئی ان کے پاس آئی اور اپنے منھ سے پھونکتے ہوئے ان کو ہوا دینے کی کوشش کرنے لگی ۔

اتنے میں دانشتہ آگئی میں نے اس سے روتے ہوئے کہا ۔

بیٹا تمہارے ابو کی طبیعت  بہت بگڑ رہی ہے مگر یہ ڈاکٹر علاج شروع نہیں کر  رہے ہیں ۔

تم ہی ان سے بات کروں میری تو یہ ایک نہیں سن رہے ہیں ۔”

امی آپ پریشان نہیں ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا ۔

امی مری بات دھیان سے سنوں ڈاکٹر نے مجھ سے ریمڈی سیور لانے کے لئے کہا ہے ۔

دانشتہ نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔

“امی بہت مشکلات کے بعد وہ مجھے مل گئی ہے ۔لکین اس کی قیمت چالیس ہزار روپے ہے ۔ “؟

میں نے ایک پل کی خاموشی اختیار کرتے ہوئے

جلد  اپنے کانوں سے  چھوٹے چھوٹے جھمکے جو  دانشتہ کے ابو نے مجھے ہماری پہلی شادی کی سالگرہ پر بطور تحفہ دیے تھے  اتارتے ہوئے کہا۔

“لو بیٹا تم جلدی انجیکشن لے کر   آؤ “۔

دانشتہ دوسرے ہی پل آکسیجن کا سلینڈر کھنچتے ہوئے لے آئی اور جلد ڈاکٹر سے آکسیجن  لگانے کے لیے التجا کرنے لگی ۔

“ڈاکٹر, پلیز جلدی میرے ابو  کے آکسیجن لگائے ۔پلیز ڈاکٹر ان کو بہت تکلیف ہو رہی ہے ۔”

 ڈاکٹر نے  اس سے سخت نارضگی ظاہر کرتے ہوئے  کہا۔

” ارے ارے میڈم یہ برابر والے مریض کے لئے منگوایا گیا ہے ۔ آپ لوگوں کو بس اپنے مریض کی ہی فکر ہوتی ۔؟”

 نرس نے  میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

ڈاکٹر صاحب کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ

“ابھی ڈیپارٹمینٹ میں  آکسیجن سلینڈر نہیں آئے ہیں ۔ہم کوشش کر رہے ہیں آپ کے پیشنٹ کے لئے بھی   آپ سلینڈر کی فکر نہیں کریں۔”

ڈاکٹر نے غصے سے دانشتہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔

“اور  آپ  سے جلدی ریمڈی سیور لانے کے لئے  کہا  تھا ؟۔”

دانشتہ نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنے غصے پر کنٹرول کیا ۔

اور ایک گہری سانس میں اپنے غصے کو پیتے ہوئے ڈاکٹر سے مخاطب  ہوئی ۔

ہاں ہاں ڈاکٹر صاحب میں بس یو گئی ۔!!!

“آپ پہلے میرے ابو کا علاج تو شروع کیجئے پلیز ڈاکٹر صاحب میرے اب ….بو .. بالکل بھی سانس نہیں لے پا رے ہیں ۔

آپ ان کو کوئی علاج تو دیجئے ۔!!!”

دانشتہ اپنے آنسوں کو پوچھتے ہوئے   کچھ بھی کہے بغیر بس دوڑی چلی گئی ۔

مجھے ان کی بگڑتی حالت دیکھتے ہوئے خوف کھائے جا رہا تھا ۔

“کہیں یہ ڈاکٹر ان کے بھی وہ آمنہ خالہ کی طرح انجیکشن نہیں لگا دیں گے ۔؟”

اس خوف کی وجہ سے  ہی میں نے انھیں پل بھر کے لئے بھی اکیلا نہیں چھوڑا  تھا ۔

ذہن میں نہ جانے کون کون سے خیال وسوسے ڈال رہے تھے  ۔ یہ سرکاری ہاسپٹل والے شاید اس ہی وجہ سے  علاج میں تاخیر کر رہے ہیں کہ دیر سے  انجیکشن لگانے سے جلد موت ہو جائے گی اور الزام بھی ان کے سر نہیں آئے گا ۔

ایک گھنٹہ گزر جانے کے بعد بھی دانشتہ  ریمڈی سیور لے کر نہیں آئی تھی ۔

میں برابر  انھیں  اپںے منھ سے سانس دینے کی کوشش کرتی  رہی ۔لگاتار ان کو اپنے منھ سے سانس دینے کے سبب میرے پھیپھڑے  بھی دکھ گئے تھے ۔اور کلیجہ منھ کو آرہا تھا ۔ میں زور زور سے ہانپنے لگی ۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ بس ایک چکّر کھا کر میں بھی یہیں گر  جاؤنگی۔ لکین , دانشتہ  کے ابو کی حالت  دیکھ کر مجھے اپنا  کچھ بھی ہوش نہیں رہا ۔

ڈاکٹروں کے خوف کی وجہ سے بار بار اٹھ رہی  کھانسی کو بھی نیچے ہی ڈھکیلنے کی کوشش کر رہی  تھی ۔ابلتے ہوئے بلغم کو بھی پی جا رہی تھی ۔ جس سبب گہری گرم گرم آہیں منھ سے نکل رہی تھی ۔اور  آنکھوں سے  آنسو جاری ہو گئے تھے ۔دل چہا رہا تھا زور سے کھانس لو لکین ڈاکٹروں کا خوف منع کر  رہا  تھا ۔  دانشتہ  کے ابو کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے پھر ان کو منھ سے سانس دینے کی کوشش کرنے لگی ۔

اور  دانشتہ کے ابو ,مجھ سے کچھ کہنے کی کوشش کرنے لگے ۔

جب ڈاکٹر نے دیکھا کہ واقعی ان کی دقّت زیادہ ہی بڑھ گئی ہے ۔

تو فورناً نرس کو ہدایت دی کہ

“نرس پلیز کوئی وینٹیلیٹر خالی کراؤں مریض کو  سخت وینٹیلیٹر کی ضرورت ہے ۔”

نرس نے آہستہ سے جواب دیا ۔

“سر ہمارے یہاں کوئی بھی وینٹیلیٹر خالی نہیں ہے ۔میں  اوپر ڈپارٹمینٹ  میں معلوم کرتی ہوں ۔

اوکے۔ڈاکٹر نے آہستہ سے  کہا ۔

” مریض کے ریمڈی سیور لگائے “

ڈاکٹر  نے  میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔

میں نے کھانسی کے سبب کچھ بھی کہے بغیر بس ہاتھ جوڑ دیے  ۔

ڈا کٹر خود دوڑتے ہوئے گیا اور دوسرے مریض کی بینچ پر سے تین انجیکشن اٹھا۔لایا اور جلد دانشتہ کے ابو کے انجیکشن لگائے ۔

انجکشن لگاتے ہی ان کا گھرٹا اس زور سے چلنے لگا کہ جس کی حد نہیں تھی ۔وہ کراہتے ہوئے گہری گہری آہیں بھرنے لگے ۔

یہ دیکھ کر مجھ سے تو نہیں رہا گیا اور میں نے ڈاکٹر کو ہٹاتے ہوئے کہا ۔

یہ کیا کر رہے ہو ڈاکٹر صاحب ۔؟

کیا ان کے بھی ۔۔۔۔؟

ڈاکٹر نے جھونجلاتے ہوئے مجھ  سے دور  کھڑے ہونے  کی ہدایت دی  اور ڈاکٹرز کو آواز لگاتے ہوئے کہا ۔

“سر پلیز پیشنٹ کی حالت بہت سیریس ہے “۔ ڈاکٹر دوڑے چلے آئے

سب ہی   ڈاکٹروں نے باری باری سے اپنی طاقت آزمائی سب نے مل کر دانشتہ کے ابو پر  اتنی کاوشیں کی  اور دانشتہ کے ابو  پیر پیٹتے   رہے ۔

پیر پٹپٹاتے ہوئے یکایکہ ان کے پیر سیدھے ہو  گئے۔ اس ہولناک منظر کو دیکھ کر میرے منھ سے بے ساختہ نکل گیا ۔

” ڈاکٹروں نے آمنہ خالہ کے جو  انجیکشن لگایا تھا  وہی ۔

دانشتہ…………..ڈاکٹروں نے تیرے ابو کے بھی انجیکشن لگا دیا ۔ “

ڈاکٹر میری چیخ سن کر بے ساختہ میری طرف دیکھتے ہوئے نرس سے کہنے لگے ۔

ان کو باہر کیجئے ۔

چپراسی نے مجھے باہر کھنچتے ہوئے باہر کرنے لگا ۔تب ہی نرس نے ڈاکٹر سے مری طرف دیکھتے ہوئے کہا

“سر  آنٹی کو بھی جانچ کے لئے بھیج دیجئے ۔کافی دیر سے یہ اپنے مریض کے ساتھ تھیں  ۔

بہت  دیر سے کھانس بھی رہی ہیں  ۔

نرس ک منھ سے یہ الفاظ سنتے ہی میں بے ساختہ بدہواس  سی ہو گئی ۔ نہیں ……نہیں ….

کرتے  ہو ئے اس تیزی سے دوڑی کہ جیسے انجیکشن کا خوف نہیں خود اپنی موت سے بھگا رہی تھی  دوڑتے ہوئے ,نیچے آکسیجن کی گاڑی سے ٹکرا کر  میں وہی ڈھیر  ہو گئی۔

***

    MEHMOODA QURESHI

22/78 DHOLI KHAR MANTOLA AGRA FORT AGRA U.P. INDIA

Leave a Reply