محفوظ عالم
اندر سبھا : ایک تجزیاتی مطالعہ
بقول نور الٰہی و محمد عمر
’’سید آغا حسن امانت ؔمسلمہ طور پر اُردو ڈراما کے واباآدم ہیں۔ گو غزل میں بھی انہیں استادی کا درجہ حاصل ہے مگر اُن کے نام کو رہتی دنیا تک زندہ رکھنے والی چیز ان کی تصنیف ِلطیف اندر سبھا ہے۔ ‘‘ 1
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈراما اندر سبھا امانت لکھنوی کا وہ لا جواب کارنامہ ہے۔ جس کو دنیا صدیوں تک یاد رکھے گی۔ انہوں نے اردو ڈرامے کو وہ راہ دکھائی جس پر چل کر ڈراما اپنی منزلِ مقصود کو پہنچا۔ ڈراما اندر سبھا ایک منظوم قصہ ہے جو واجد علی شاہ کے عہد میں 1852ء مطابق 1268ھ میں لکھا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ تیس بتیس کی عمر میں امانت لکھنوی کی بولتی بند ہو گئی تھی جس کی بنا پر وہ گھر سے نہ نکلتے تھے۔ ایک قابل دوست اور شاگرد عابد علی عبادت نے مشورہ دیا کہ خالی بیٹھے بیٹھے بور ہونے اس بہتر ہے کہ کچھ لکھ ڈالوں، بس یہی بات آغا حسن صاحب کے لیے محرک ثابت ہوئی، شاعر پہلے سے ہی تھے، چند ماہ میں ہی یہ اندر سبھالکھ ڈالی۔ لوگوں میں مشہور نہیں ہونا چاہتے تھے اسلئے تخلص استاد ؔ رکھ لیا۔ جب 1854 میں اندر سبھا پہلی بار ایک سادہ اسٹیج پر کھیلی گئی تو اس کی خبر آگ کی طر ح دور دور تک پھیل گئی۔ امانت ؔلکھنوی کی غزلوں کو لوگ پہلے سے ہی جانتے اور پہچانتے تھے اسلئے استادؔ تخلص رکھنا سود مند ثابت نہ ہوا اور وہ اندر سبھا کو لے کر مشہور ہو گئے۔ حلانکہ اس سے پہلے واجد علی شاہ کے رہس کا چرچہ لکھنؤ میں تھا۔ لیکن اِس کے رہس متعلق لوگوں نے صرف کانوں سے سنا تھا آنکھوں سے دیکھا نہ تھا۔ اندر سبھا ا نھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور کانوں سے سنی۔ یہ اُن کو نئی چیز معلوم ہوئی حالانکہ لکھنؤ والے مرثیے، مشاعرے اور مثنویاں سننے کی روایت سے اچھی طرح واقف تھے۔ لیکن یہ کھیل کا انداز لکھنؤ والوں کو بہت بھایا۔ اور بھاتا بھی کیوں نہ جب نواب خود اس میں دل چسپی لے رہے تھے اور انگریز حکومتی معاملات میں۔ اندر سبھا کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس کو 1855ء مطابق 1271ھ کو محمد ی مطبع سے شائع کیا گیا۔
سید آغا حسن تخلص امانت ؔ لکھنوی بعد میں استاد ؔہوئے، لکھنو میں1815ء مطابق 1231ھ میںپیدا ہوئے۔ بزرگ ایران سے تھے۔ پندرہ برس تک خوب محنت سے تعلیم حاصل کی۔ تیس اکتیس برس کی عمر میں ایک مرض میں مبتلا ہو گئے جس کی وجہ سے زبان بند ہوگئی۔ قلم سے زبان کا کام لیتے تھے۔ عراق کا سفر کیا۔ روضہ امام حسین علیہ السلام پر دل سے دعا مانگی۔ زبان تو کھل گئی لیکن تھوڑی بہت لکنت باقی رہی۔ لوگوں سے بہت کام ملتے جلتے تھے۔ اُن کے والد صاحب اور مرثیہ نگار دلگیر ؔمیں دوستی تھی۔ والد صاحب نے دلگیر صاحب کا شاگرد کر دیا ۔آگے چل کر مرثیہ، غزل، واسوخت کے ساتھ اندر سبھا کے مستند استاد کہلائے۔ بہت سے شاگرد ہوئے۔ لیکن امانت جس کی وجہ سے زندہ ہیں، وہ اُن کی تصنیف اندر سبھا ہے امانت کا انتقال 44 برس کی عمر میں 1859ء لکھنو میں ہوا۔
زیر نظر کتاب ’ اندر سبھا ایک مطالعہ ‘ کو الٰہ آباد یونیوسٹی کے شعبہ اردوکے پروفیسر ڈاکٹر عبدالحامد صاحب نے مرتب کیا۔ جس میں متن سے پہلے ’ ایک مطالعہ‘ کے نام سے اندر سبھا کا تنقیدی و تجزیاتی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب کے شروع میں جس کو ہم انتساب کا صفحہ کہہ سکتے ہیں وہاں ڈاکٹر مسیح الزماںکا یہ قول درج ہے۔
’’ادب کے جدید تصورات نے مطالعہ اور تنقید کی جو راہیں کھولی ہیں ان کا تقاضا ہے
کہ اپنے تہذیبی سرمایہ کو سامنے لا کر ہمدردی اور خلوص سے ان کا جائزہ لیا جائے۔ اندر سبھا ہماری
قومی روایت کی اہم کڑی اور ٹھیٹر کا نقطہ آغاز ہے، جس کو سمجھے بغیر اُردو کی ڈرامائی روایت اور ڈرامائی
ادب کا شعور نا ممکن ہے۔‘ 2
اس کے بعد اندر سبھا ایک مطالعہ نام سے ایک مقدمہ شروع ہوتا ہے، جس کے ذیلی عنوان تمہید،رادھا کنہیا کا قصہ، امانت کی اندر سبھا، بعض مفروضات، زمانہ تصنیف، پلاٹ، کردار، مکالمہ، پیشکش، اندر سبھا اور تجارتی ٹھیٹر، اندر سبھا کی مماثلتیں اور ادبی و تاریخی اہمیت ہیں۔ اور آخر میں حوالہ جات درج ہیں۔
اس کتاب کے بیک سائڈ پر حسرت موہانی کا ایک قول نقل ہے۔
’’ اندر سبھا اہل مغرب کے بہت سے ڈراموں سے بہتر ہے اور میں تو یہ کہتا ہوں کہ شیکسپیئر کے اوائل عمر کے بعض ڈراموں سے بھی بو جودا احسن فائق ہے۔‘‘ 3
تمہید میں وہ ڈرامے کی قدیم تاریخ یعنی سنسکرت کے آچاریہ بھرت منی سے شروع کر کے مہا کوی کالی داس کے ابھگیان شکنتلم سے ہوتے ہوئے شاہان اودھ کے آخری چراغ واجد علی شاہ سے رشتہ استوار کر کے دورِ جدید کی طرف آنے کی کوشش کرتے ہیں۔
’رادھا کنہیا کا قصہ‘ کے ذیلی عنوان میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کے کردار و اخلاق پر مختصر نظر ڈال کر اُن کے قصے’ رادھا کنہیا کا قصہ ‘ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ جس کو نواب واجد علی شاہ نے 1843ء میں خود لکھا تھا۔ جس کو اُن ہی کی تیار کردہ عمارت رہس میں کھیلا گیا۔ پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب صاحب اس ڈرامے کواُردو کا پہلا ڈراما قرار دیتے ہیں۔
امانت ؔلکھنوی کی اندر سبھا کا حوالہ دے کر ڈاکٹر عبد الحامد صاحب امانت ؔکے ایک شاگرد عابد علی عبادت کا ذکر کرتے ہیں جن کی وجہ سے یہ ڈراما وجود میں آیا۔ عابد علی عبادت کا ذکر خود امانتؔ لکھنوی نے’ شرح اندر سبھا‘میں کیا ہے۔ ذیلی عنوان’ بعض مفروضات ‘میں وہ اندر سبھا سے متعلق کچھ غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے کہ کوئی یہ کہتا تھا کہ اندر سبھا واجد علی شاہ کی فرمائش پر لکھی گئی۔کوئی اس اندر سبھا میں کسی فرانسیسی کو گھسیٹتا تھا۔ کوئی اندر سبھا کو’ مداری لال کی اندر سبھا ‘کے بعد کی مانتا تھا۔ وغیرہ وغیرہ
وہ اپنے حوالوں اور دلیلوں سے یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ یہ سب اعتراضات غلط اور بے بنیاد ہیں۔ زمانہ تصنیف میں وہ اندر سبھا کی اشاعت سے بحث کرتے ہیں اور مدلل انداز میں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق یہ اندر سبھا 1852ء مطابقکی وجہ سے زندہ ہیں، وہ اُن کی تصنیف اندر سبھا ہے امانت کا انتقال 44 برس کی عمر میں 1859ء لکھنو میں ہوا۔
زیر نظر کتاب ’ اندر سبھا ایک مطالعہ ‘ کو الٰہ آباد یونیوسٹی کے شعبہ اردوکے پروفیسر ڈاکٹر عبدالحامد صاحب نے مرتب کیا۔ جس میں متن سے پہلے ’ ایک مطالعہ‘ کے نام سے اندر سبھا کا تنقیدی و تجزیاتی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب کے شروع میں جس کو ہم انتساب کا صفحہ کہہ سکتے ہیں وہاں ڈاکٹر مسیح الزماںکا یہ قول درج ہے۔
’’ادب کے جدید تصورات نے مطالعہ اور تنقید کی جو راہیں کھولی ہیں ان کا تقاضا ہےکہ اپنے تہذیبی سرمایہ کو سامنے لا کر ہمدردی اور خلوص سے ان کا جائزہ لیا جائے۔ اندر سبھا ہماری قومی روایت کی اہم کڑی اور ٹھیٹر کا نقطہ آغاز ہے، جس کو سمجھے بغیر اُردو کی ڈرامائی روایت اور ڈرامائی ادب کا شعور نا ممکن ہے۔‘ 2
اس کے بعد اندر سبھا ایک مطالعہ نام سے ایک مقدمہ شروع ہوتا ہے، جس کے ذیلی عنوان تمہید،رادھا کنہیا کا قصہ، امانت کی اندر سبھا، بعض مفروضات، زمانہ تصنیف، پلاٹ، کردار، مکالمہ، پیشکش، اندر سبھا اور تجارتی ٹھیٹر، اندر سبھا کی مماثلتیں اور ادبی و تاریخی اہمیت ہیں۔ اور آخر میں حوالہ جات درج ہیں۔
اس کتاب کے بیک سائڈ پر حسرت موہانی کا ایک قول نقل ہے۔
’’ اندر سبھا اہل مغرب کے بہت سے ڈراموں سے بہتر ہے اور میں تو یہ کہتا ہوکہ شیکسپیئر کے اوائل عمر کے بعض ڈراموں سے بھی بو جودا احسن فائق ہے۔‘‘ 3
تمہید میں وہ ڈرامے کی قدیم تاریخ یعنی سنسکرت کے آچاریہ بھرت منی سے شروع کر کے مہا کوی کالی داس کے ابھگیان شکنتلم سے ہوتے ہوئے شاہان اودھ کے آخری چراغ واجد علی شاہ سے رشتہ استوار کر کے دورِ جدید کی طرف آنے کی کوشش کرتے ہیں۔
’رادھا کنہیا کا قصہ‘ کے ذیلی عنوان میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کے کردار و اخلاق پر مختصر نظر ڈال کر اُن کے قصے’ رادھا کنہیا کا قصہ ‘ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ جس کو نواب واجد علی شاہ نے 1843ء میں خود لکھا تھا۔ جس کو اُن ہی کی تیار کردہ عمارت رہس میں کھیلا گیا۔ پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب صاحب اس ڈرامے کواُردو کا پہلا ڈراما قرار دیتے ہیں۔
امانت ؔلکھنوی کی اندر سبھا کا حوالہ دے کر ڈاکٹر عبد الحامد صاحب امانت ؔکے ایک شاگرد عابد علی عبادت کا ذکر کرتے ہیں جن کی وجہ سے یہ ڈراما وجود میں آیا۔ عابد علی عبادت کا ذکر خود امانتؔ لکھنوی نے’ شرح اندر سبھا‘میں کیا ہے۔ ذیلی عنوان’ بعض مفروضات ‘میں وہ اندر سبھا سے متعلق کچھ غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے کہ کوئی یہ کہتا تھا کہ اندر سبھا واجد علی شاہ کی فرمائش پر لکھی گئی۔کوئی اس اندر سبھا میں کسی فرانسیسی کو گھسیٹتا تھا۔ کوئی اندر سبھا کو’ مداری لال کی اندر سبھا ‘کے بعد کی مانتا تھا۔ وغیرہ وغیرہ
وہ اپنے حوالوں اور دلیلوں سے یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ یہ سب اعتراضات غلط اور بے بنیاد ہیں۔ زمانہ تصنیف میں وہ اندر سبھا کی اشاعت سے بحث کرتے ہیں اور مدلل انداز میں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق یہ اندر سبھا 1852ء مطابق 1268ھ میں لکھی گئی اور 1854ء مطابق 1270ھ کو پہلی بار ایک جلسہ میں کھیلی گئی۔ اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے شیخ رجب علی کی فرمائش پر مطبع محمدی سے 1855ھ مطابق 1271ھ میں شائع ہوئی۔4
اسکے بعدپروفیسر ڈاکٹر عبدالحامد صاحب پلاٹ پر سرسری نظر ڈالتے ہیں۔ کرداروں کا جائزہ لیتے ہیں۔ مکالموں کا تجزیہ کرتے ہیں۔’پیشکش ‘میں اندر سبھا کے پیش کرنے کی روایت اور اندر سبھا کی شرح اندر سبھا سے بحث کرتے ہیں کہ کس طرح سے ما فوق الفطرت واقعات کو اسٹیج پر پیش کیا جاتا تھا اور اب کس طرح پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ’ اندر سبھا اور تجارتی تھیٹر ‘کے عنوان میں تجارتی تھیٹر میں اندر سبھا کی مقبولیت اوراندر سبھا کی مشینوں کے ذریعے اور لائٹ کے استعمال سے پیش کرنے کی ذکر کرتے ہیں۔ اس میں وہ بمبئی ٹھیریٹکل کمپنیوں کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
اندر سبھا کی’ مماثلتیں‘ ذیلی عنوان میں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کچھ لوگ اندر سبھا کو فرانسیسی او پیرا کے طرز کی تخلیق قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، جو غلط ہے۔ وہ اس سرخی میں قدیم سنسکرت ڈراموں کی پیشکش ،اسکرپٹ اور مغربی ڈراموں کی پیشکش ،اسکرپٹ میں مماثلت قیام کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ان سب کو ایک الگ الگ اکائی بھی مانتے ہیں۔’ ادبی تاریخی اہمیت ‘ اندر سبھا کی تاریخی اور ادبی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
متن :۔
’ اندر سبھا‘کی شروعات سبھا میں ’راجا اندر ‘کی آمد گانے سے ہوتی ہے۔ کوئی نامعلوم آواز را جہ اندر کے آنے کی خبر دیتی ہے ، اور آمد گائی جاتی ہے۔
سبھا میں دوستوں اندر کی آمد آمد ہے
پری جمالوں کے افسر کی کی آمد آمد ہے
زمیں پر آئینگی اب راجہ کے ساتھ پریاں
ستاروں کی ما ہ پرور کی آمد آمد ہے
راجا اندر، سبھا میں آکر خود بھی اپنا تعارف پیش کرتا ہے۔ اور پریوں کو مجراا پیش کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جس سے اس کے عادات و خصائل اور عیش پرستانہ مزاج کا پتہ چلتا ہے۔ جس میں اس دور کے لکھنؤکارنگ چھلکتا ہے۔۔
راجہ ہوں میں قوم کا اندر میرا نام
بن پریوں کی دید کے نہیں مجھے آرام
لاؤ پریوں کو میری جلدی جاکر ہاں
باری باری آن کر مجرا کریں ہاں
پھر ایک نہ معلوم آواز آتی ہے جو پکھراج پری کی آمد کی جانکاری دیتی ہے۔ اور اس کے ساتھ پکھراج پری کی آمد گائی ہے۔ جس میں اس کے حسن کی تعریف سوا کچھ نہیں۔
دولت ِ حسن سے ہو جائے گا عالم معمور
کرنے اس بزم میں اب راج پری آتی ہے
پکھراج پری آتی ہے اور شعر خوانی کے ساتھ مجرا کرتی ہے۔ چھند، ٹھمری، غزلیں، بسنت کے اشعار پڑھتی ہے۔ جس سے راجہ اندر خوش ہوتا ہے۔ ناچ، گانا کرکے راجا اندار برابر پہلو میں بیٹھ جاتی ہے۔
پا لاگی کر جوری
شیام مو سے کھیلوں نہ ہوری
سگری چیز رنگ میں نہ بھیجو ؤ
اتنی سنو بات موری
اس کے بعد اسی طرح نیلم پری کی آمد گائی جاتی ہے، وہ آتی ہے ناچ گانا کرتی ہے۔
سبھا میں آمد نیلم پری ہے
سراپا وہ نزاکت سے بھری ہے
نہ دیکھا ہوگا ناج ایسا کسی نے
بلا ہے، سحر ہے، جادو گری ہے
چھند کا شعر نیلم پری کی زبانی۔۔
میں چیز سرکار کی اور تم راجوں کے راج
گانا مجھ معشوق کا سنو غور سے آج
اسکے بعد لال پر کی باری آتی۔ اسکی بھی آمد گائی جاتی ہے ناچ گانا ہوتا ہے۔ اُس کو بھی راجہ اندر خوش ہو کر اپنے ساتھ برابر میں بیٹھ نے کو کہتا ہے۔اور سبز پری کو بلاتا ہے ۔
کاٹی رات مزے میں ساری
بیٹھ میرے پہلو اب پیاری
بہت لڑائی تو نے جان
اب ہے سبز پری کا دھیان
( لاؤ سبز پری کو)
امانت ایک سین کو دوسرے سین سے جوڑنے کے لئے راجہ اندر کے اس طرح کے کلمات کا سہارا لیتے ہیں۔ جب ایک پری کا کام ختم ہو جاتا ہے ، تو دوسری پری کو راجہ اندر خود طلب کرتا ہے۔ سبز پری کی آمد سے اصل قصہ شروع ہوتا ہے کیونکہ سبز پری ہی اس ڈرامے کی ہیروئن اور سب سے زیادہ متحرک کردار بھی ہے۔ پریوں کی سردارنی بھی ہے اور راجہ اندر کی سب سے زیادہ چہیتی پری بھی۔ اس کے کلام میںامانت ؔلکھنوی نے خاص توجہ دی ہے۔ اس کا کلام مختصر ہے اور انداز اور پریوں سے منفرد بھی۔
آمد کے اشعار ملاحظہ ہوں۔۔
آتی نئے انداز سے اب سبز پری ہے
لب سرخ ہیں پر سبز ہیں پوشاک ہری ہے
آمد کی خبر سن کے حسینوں میں نہیں دم
جو شمع ہے محفل میں چراغ سحری ہے
استاد عجب عشق و معشوق کے ہیں نام
شہزادہ وہ گفام ہے ، یہ سبز پری ہے
یہاں آمد میں راجہ اندر کی موجودگی میں شہزادہ گلفام کا ذکر کرنا بے محل معلوم ہوتا ہے۔ اور جب سبز پری سبھا میں آتی ہے تو وہ بھی اپنے کلام میں شہزادہ گلفام کا ذکر کرتی ہے۔ رات بہت ہو چکی ہوتی ہے راجہ اندر نیند کی حالت میں ہوتا ہے اور وہ سبز پری کے کلام پر دھیان نہیں دے پاتا آخر کار سو جاتا ہے۔
معمور ہوں شوخی سے شرارت سے بھری ہوں
دھانی میری پوشاک ہے میں سبز پری ہوں
لے لیتی ہوں دل آنکھ فرشتوں سے ملا کے
انسان ہے بلا کیا چیز نہیں جِن سے ڈری ہوں
زند ہ نہ رکھے گا مجھے سن لیگا جو راجہ
شہزادہ گلفام کی صورت پہ مری ہوں
جب راجہ اندر سو جاتا ہے تو سبز پری کو ’کالے دیو‘ سے بات کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس ڈرامے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کالا دیو سبز پری کا وفادار اور راز داں ہے، اُسے یقین ہے کہ وہ راجہ اندر سے اس کی بات یعنی گلفام کا ذکر نہ کرے گا اور اسکا ہر حال میں ساتھ دے گا۔
راجہ جی تو سو گئے دیا نہ کچھ انعام
جاتی ہونے میں باغ میں یہاں میرا کیا کام
سن رے کالے دیو رے تو میری ایک بات
آتی تھی راجہ کے گھر میں جو آج کی رات
شہزاد ہ ایک بام پر سوتا تھا نادان
جو بن اس کا دیکھ نکلی میری جان
اس کو اُٹھا کر تو لا اُٹھا جلدی جا کر یار
لونڈی میں ہو جاؤنگی تیری بے تکرار
وہ اختر نگر سے شہزادے کو سبز پری کے لئے اٹھا کر لاتا ہے۔ اور جب سبز پری کو گلفام سے عشق کرنے کے جرم میں سبھا سے نکال دیا جاتا ہے اور وہ جو بن بن کر ادھر اُدھر ماری ماری گاتی پھرتی ہے، تو یہ کالا دیو ہی سبز پری یعنی جو بن کا ساتھ دیتا ہے اور ہر ممکن مدد کرتا ہے ۔
کالا دیو راجہ اندر سے کہتا ہے۔
پرستان میں ایک جو بن آئی ہے
خلائق سب اس کی تماشائی ہے
کالا دیو اس کے حسن کی ایسی تعریف کرتا ہے کہ راجہ اندر دیوانہ ہو جاتا ہے۔
نہ کر دیر اے دیو بہر خدا
آکھاڑے میں میرے اسے جلد لا
پھر کالا دیوجو بن یعنی سبز پری کو بلانے جاتا ہے۔۔ شاید وہ جانتا ہے کہ یہ وہی سبز پری ہے جس کو راجہ اندر نے سبھا سے نکال دیا تھا۔
اری جو گن اب دل میں ہو اپنے شاد
کیا ہے تجھے راجہ اندر نے یاد
جبکہ اس کے بر عکس لال دیو سبز پری کا اینٹی نظر آتا ہے اور راجہ اندر کا وفادار ہے۔ اور ہر حال میں راجہ اندرکے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ یہ ہی سبھامیں آدم زاد کے آنے کی اطلاع راجہ اندر کو دیتا ہے۔
شجر ہے پرانا جو شمشا د کا
گزر واں ہے اک آدم زاد کا
نہیں کرتی اصلا میری عقل کام
وہ انسان ہے یا کہ ماہ تمام
یہاں ایک بات اور قابل ِغور ہے کہ راجہ اندر جتنے بھی حکم صادر کرتا ہے لال دیو کا نام لے کر کرتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لال دیو کی اہمیت اندر سبھا میں راجہ اندر کی نظر کے اعتبار سے زیادہ ہے۔ وہی گلفام کو شمشاد شجر کے پیچھے سے پکڑ کر لاتا ہے۔ اور وہی گلفام کو کنواں قاف میں قید کرتا ہے۔
لال دیو گلفام سے کہتا ہے۔
میرے ساتھ چل اے بے شعور
بلایا ہے راجہ نے اپنے حضور
راجہ اندر لال دیو کو حکم دیتا ہے۔
کنواں جو ہے قاف میں پر خطر
ابھی اس میں جا کر اسے قید کر
اور جب دھوکے سے سبز پری راجہ اندر سے تین قول لے لیتی ہے اور وہ انعام کے بدلے گلفام کو مانگ لیتی ہے تو یہ لال دیو ہی گلفام کو’ قاف‘ سے نکال کے لاتا ہے۔
ارے لال دیو اس طرف جلد آ
بڑا مجھ کو جو گن نے دھوکہ دیا
بناوٹ کی تھی سب جادو گری
اسے زر کی خواہش نہ یاں لائی تھی
کبھی اس کو ملتا نہ وہ گل غدار
مگر قول بارا ہوں میں تین با ر
نکال اب کنویںسے تو گلفام کو
حوالے کر اس نیک انجام کو
اس ڈرامے کو پڑھنے کے بعد حسرت موہانی کا یہ قول درست معلوم ہوتا ہے۔
’’ اندر سبھا اہل مغرب کے بہت سے ڈراموں سے بہتر ہے اورمیںتویہ کہتاہوں کہ شیکسپیئر
کے اوائل عمرکے بعض ڈراموں سے بھی بو جو وا احسن فائق ہے۔‘‘
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ ڈراما اردو کے اوالین ڈراموں میں سے ایک ہے ۔ اس لیے اس ڈرامے کو تنقید کے سخت اصولوں سے پرہیز کرکے ہی پرکھا جانا چاہئے۔ کسی بھی صنف کے ابتدائی اور ارتقائی عمل و اجزاکی تحقیق وتجزیہ میںنا مکملیت فظری چیز ہے۔ اس کے با وجود بھی یہ ڈراما اردو ادب میں مولانہ حالی کے مقدمے کی طرح ہی اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں اپنے میدان کی اولین تخلیقات ہیں پھر بھی ان کے جیسی تخلیق دوبارا وجود میں میں نہ آسکی ۔
حوالہ جات :۔
۱ ۔ ناٹک ساگر، نور الٰہی و محمد عمر،قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو،نئی دہلی، جون ۱۹۲۷ء ،صفحہ ۳۷۳
۲ ۔ اندر سبھا ایک مطالعہ (مع متن)، پروفیسر ڈاکٹر عبدالحامد ، الٰہ آباد یونیوسٹی کے شعبہ اردو،صفحہ ۲
۳ ۔ اندر سبھا ایک مطالعہ (مع متن)، پروفیسر ڈاکٹر عبدالحامد ، الٰہ آباد یونیوسٹی کے شعبہ اردو،صفحہ ۳