You are currently viewing  اُدھورا آدمی 

 اُدھورا آدمی 

سلیم ناز

 اُدھورا آدمی

         گلی میں  شور اس قدر تھا کہ  مکانوں میں سوئے بچے بھی مضطر ہوچکے تھے۔میں نے باہر جھانکا تو شورکامقام تین چار مکان چھوڑ کر معلوم پڑا۔اُسی شور سے تنگ ہوکر دو کتے آہستہ آواز میں  گوں گوں  کرتے شور سے دوسری طرف جارہے تھے۔ ایک کا دایاں اور دوسرے کابایاں کان ایک دوسرے کے اتنے قریب تھا جیسے اس شور پر بات چیت کرتے جارہے ہوں۔الف کتے کی آواز پر ب کتے نے اونچی اور کراہت آمیز آوازمیں اونہوں کیا جیسے وہ الف کتے کی بات کی تردید کر رہا ہو۔میں بلند ہوتے ہوئے شور میں سے ابھرنے والی آوازوں کا نصف آسانی سے سمجھ پارہا تھا ،جن کا موضوع تلخ کلامی تھا۔لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے شور کے قریب پہنچا تو سب لوگ ایک ہیولہ بنائے ایسے کھڑے تھے جیسے کسی مداری کے دلفریب کرتب کا نظارا کررہے ہوں۔اس حالت کو دیکھتے ہوئے ایک لمحے کے لیے میں ششدر رہ گیا کہ یہ نمائش سراب کی سی ہےکے مصداق بس شور ہی تھا باقی معاملہ کوئی سنجیدہ نہیں لگ رہا البتہ قابل تفتیش  بات ضرور ہے۔انبوہِ ساکن کی بیرونی قطار میں خلل ڈالتے ہوئے جب  وسط میں پہنچا تو دیکھتا ہوں کہ تین چہرے ساکن اور بےبس تھے ، پانچ لوگ متحرک اور مشتعل تھے۔ان پانچ میں سے ہر ایک کی آوازمیں نمرود کی سی للکار،فرعون کا سا اختیار اور ابوجہل کا سا قہر  ٹپک رہا تھا۔دو منزلہ گھر کے دوسرے  درجے میں کرائے پررہنے والا یہ بےبضاعت کنبہ عذابِ ایزدی میں گرفتارہےیا پھرزمین کے کسی غیر منصف اور جابر خدا  کے ہاتھوں مغلوب ہوگیا ہے!گھر سے اترتی سیڑھیوں کے اختتام پر مرکزی دروازے کے ساتھ لگی ہوئی تیس پینتیس سال کی خاتون  جس کےسرخ وسفید پاؤں  جوتوں سے محروم اورسرکو حفظ ِ ماتقدم کے طور پر بوسیدہ چادر سے ڈھانپ رکھا تھا۔اس کی بائیں پسلی سے سر لگائے آٹھ سال کا لڑکا کھڑا تھا  جس کے دائیں ہاتھ میں ریاضی کی کاپی اور بائیں ہاتھ میں پین تھا۔آنکھیں ساون کے بادلوں کی تصویر تھیں۔دائیں کولہے کے ساتھ لگی ہوئی پانچ سال کی بچی  چیخ مارتے ہوئے ‘‘امی اپنی فریج لیے جارہے ہیں’’۔لال دین نے خشمگیں آنکھوں سے دیکھتے ہوئےقہر آلود آواز میں کہا‘‘اس بار تو صرف فریج لے کرجارہے ہیں اگلی بار آنے کی ضرورت پڑی تو تمہاری ماں کو لے کرجائیں گے’’۔

         گلی میں موجود سب مرد حضرات بادشاہ کے دربار میں دست بستہ درباریوں کی تصویر پیش کررہے تھے۔تھوڑی دیر پہلے میرے پاس سے گزرنے والے کتوں کی گوں گوں مجھے مفقود آدمیت پر برتر محسوس ہوئی۔سب لوگ پٹے ہوئے تماشائیوں کی طرح  پتلی گلی تلاش کیے بغیر ہی روپوش ہوگئے۔چند ساعتیں حوصلہ مجتمع کرنے کے بعد میں نے  اپنے چہرے سے جھوٹی مردانگی کا ماسک اتارا اور بےحسی کی دھول جھاڑی تو خیال آیا کہ ایک فرد کا دوسرے فرد کے ساتھ تعلق  خلوص سے پاک اورزر،خون،عصبیت اور ضرورت کے ستونوں پر ایستادہ ہے۔ہمارا معاشرہ  یک طرفہ تعلق اور غالبیت پر یقین رکھتا ہے،جس میں  ہر شخص ‘میں’  کا شکار ہوتا ہے۔‘میں’ ایک تفریقی صیغہ اگر یہ ‘میں’ ،ہم میں بدل جائے  تو  یہ کم ظرفوں کا معاشرہ جانثاروں کے کنبے میں بدل سکتا ہے۔خاتون نے دھیمی اور سہمی ہوئی آواز میں کہا‘‘بھائی آپ بھی ان کے ساتھ ہیں یا اپناقرض  چکانےکے لیے دماغ لڑا رہے ہیں؟’’۔نہیں نہیں،باجی آپ بالکل غلط سمجھی ہیں میں تو اپنی کم ظرفی،بےحسی اور آپ کی بےبسی کا تقابلی گراف بنا رہا تھا۔خاتون نے منہ پھیرا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔باجی اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں  کہ اصل ماجرا کیا ہے؟۔‘‘بھائی آپ اپنا وقت ضائع مت کریں ہماری رُوداد سن کر آپ کو نیا مذاق سوجھے گا،یہاں حقیقت دیکھنے اور جاننے والے ہمیں قصوروار ٹھہراتے ہیں ۔آپ سن کر کیسے یقین کرپائیں گے؟’’۔باجی آپ کی بات بجا ہے اس دور میں کسی پر اعتبار یا انحصار اتنا ہی مشکل ہے جتنا اپنی گردن پر خود چھری چلانا مشکل ہے۔‘‘آپ  اگر کوئی نیکی کرسکتے ہیں تو یہ کریں کہ بصیر کچھ دنوں سے غائب ہے آپ اُس کی کوئی خیر خبر  لادیں’’۔بصیر ؟ ۔‘‘جی بصیر میرا خاوند ہے اور ان لوگوں کی درندگی کی وجہ سے گھر سے غائب ہے اور اُس کا فون بھی بند جارہا ہے’’۔تو وہ غائب کیوں ہیں؟۔‘‘بھائی یہ دیکھیں کاپی کے سولہ صفحات ان لوگوں نے اپنے بوجھ سے سیاہ کرکے ہمارے سر تھونپ دیے ہیں،اتنے تو ہمارے سر کے بال نہیں ہیں جتنا قرض ہے’’۔اس شخص نے پہلے پہل میرے خاوند کوا پنے جال میں پھنساکر  مزدوری سے  دور کردیامطلب لیدر کےکاروبار میں شراکت دار بنالیا۔ایک روز فیکڑی سے دس لاکھ چوری ہوئےوہ بصیر پر ڈال دیے اور اب روزانہ اس کے حصول کے لیے آن ٹپکتے ہیں’’۔ باجی ،مرد کا مرد کے ساتھ سو بار لین دین ہو مگر یہ تو غلط بات ہے کوئی اس طرح آئے اور سامان اٹھا کرلے جائے۔‘‘بھائی آپ نے شاید آج پہلی بار انہیں دیکھا ہے حالانکہ یہ لوگ تین دن سے لگاتار آرہے ہیں اور یہ لال دین جو چہرے سے مومن بنے پھرتے ہیں کردار کے اتنے ہی کالے ہیں’’۔باجی آپ  کھل کربتائیں حقیقت کیا ہے اور لال دین نے آپ کو کیا کہا؟۔‘‘پرسوں شام سورج غروب ہونے کے کچھ دیر بعد میں ابھی کٹچن میں گئی ہی تھی کہ یہ شخص دروازہ کھٹکھٹا کرسیدھا اوپر چلا آیا۔مجھے ایسے تعارف کروایا جیسےیہ ہمارا آقا ہے اور ہم اس کے زرخرید غلام ہیں۔میں نے تلملا کرکہا کیا آپ کو عورت ذات سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے؟ وہ شخص اور غصے میں آکر کہنے لگا کہ تمیز صرف ہم مرتبوں اور ہم منصبوں سے برتی جاتی ہے باقی لوگوں سےتو مالی اور جسمانی سودے کی بات کی جاتی ہے۔میں نے کہا ہمیں آپ کی تمیز کی ضرورت بھی نہیں ہے سو آپ جائیں اور تب آنا جب میرا خاوند لوٹ آئے گا۔بری سی صورت بنا کر گالیاں بکتے ہوئےیہ  شخص چلا گیا۔اگلا دن گزرا اور سرِ شام  ہی پھر آن بھٹکا،آتے ہی میرے بیٹے کو سو روپے نکال کردیا کہ جاؤ دکان سے دودھ لے کرآؤ اور میرے لیے چائے بناؤ۔میں اتنی پریشان تھی کہ ایک غیر محرم کو یوں گھر میں بٹھا کرچائے پلاناکرداری رسوائی کودعوت دینے کے مترادف ہے۔کوئی بھی شخص میرے کردار پرانگلی اٹھانے سے باز نہیں آئے گا۔میرے بیٹے کے باہر نکلتے ہی یہ شخص بغیر کسی حیل وحجت کے میرا ہاتھ پکڑ کرکہنے لگا‘‘دیکھیں بصیر نے اگر بزنس کیا تو صرف آپ لوگوں کے لیے  ،اب اگر وہ شخص خسارے میں چلا گیا ہے اور قرض میں ڈوبا ہوا ہے تو اُس کو اِس بحران سے نجات دلانے میں تم اہم کردار ادا کرسکتی ہو،تمہارے پاس تو قارون کے خزانے کی بوریاں سونے کاسا چمکتاہواصندلی بدن،اس کے محل کے تہہ خانوں  کی تاریکی یہ زلفیں،اُس کے شکار کیے ہوئےہرن کے بچے کی مانند تڑپتی چھاتیاں،من پسند مشروب بادہ گلگوں یہ ہونٹ،قارونی پلنگ پربچھی مخملی چادریہ کمر،اُس کے تاج میں لگے ہیروں کی جڑت یہ پنجہءرنگیں ،ہاتھ میں تکبر کی چھڑی یہ گوری ساعدہ،اسلحے کا ڈپو رانوں کے بیچ چھپا خزانہ اور اب بھی تم خود کو غریب سمجھتی ہو! تم سا امیر دنیا میں اور کون ہوسکتا ہے؟’’۔میرا پورا جسم کانپ رہا تھا میں نے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا میں قارون  نہیں اور یہ خزانہ بھی لاوارث نہیں۔اس نے بلاتامل اپنی شیطانیت اگل دی‘‘اگر تم قارون نہیں توقرض کے پیسوں کا بندوبست ہونے تک ہفتے میں ایک بارحاتم تائی بن کر دعوت پر بلاتی رہو۔تمہارا جسم قرض کی مہلت بن جائے گا اور مجھے سود ملتا رہے گا’’۔اتنی دیر میں میرا بیٹا دودھ لے کرواپس آگیا،میں نہ چاہتے ہوئے بھی چائے بنا نے کے لیے کٹچن میں چلی گئی اور وہ شخص وقتی خاموشی کو میری رضا سمجھتے ہوئےسہل ہوکر چارپائی پردراز ہوگیا۔چائے بناکر کمرےمیں آنے تک وہ شخص اونگھنے لگا۔‘‘لال دین  ایک صحرا میں  جانکلتا ہے جس میں اُگی ہوئی جری بوٹیاں بالکل ناتواں اور سبزے سے محروم  ہیں۔اچانک سامنے ایک ندی نمودار ہوتی ہے۔ندی کو دیکھ کرلال دین کی حیرت قابو میں نہیں آرہی تھی کہ اس ندی میں ایک کشتی  پرسکون رفتار سے چلتی آرہی ہے،کشتی کی ملاح ایک خاتون ہے اور کشتی میں کوئی اور انسان نہیں ہے بس ایک کبوتر اور ایک چڑیا  ہیں ۔جوں جوں کشتی قریب آتی ہے لال دین  کے سامنے ۱۹۹۸ءکی ایک ویڈیو چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ویڈیو میں لال دین   کے بدن پراتنے بال نمودار ہوجاتے ہیں کہ جن کوشمار کرنا مشکل تھا۔اگلے ہی لمحے وہ بال کانٹوں کی صورت اختیارکرجاتے ہیں۔لال دین کی نظر کشتی پرپڑتی ہے تو اس میں سوار خاتون کے ہاتھ میں پیالہ ہوتاہےیہ سوچتا ہے کہ اس خاتون کے ساتھ چمٹ کراپنے کانٹے اسے چبھودوں اور اس کے ہاتھ سے پیالہ چھین کرپیاس بجھا لوں۔جونہی یہ ہاتھ آگے بڑھاتا ہے تو کبوتر اور چڑیا پیالے پر آکربیٹھ جاتے ہیں۔کبوتر اور چڑیا کواڑا کرپیالہ چھین کرپینے  کے لیے ہونٹوں کے قریب ہی لاتا ہے تو پانی تیزاب میں بدل جاتا ہے۔ڈر سے چیخ نکلتی ہے تو آنکھ کھل جاتی ہے’’۔لال دین کو پسینے میں شرابور دیکھ کر میں اور گھبراگئی ۔میں نے سوچا اگر اس  شخص کو نکالتےہوئے غل مچا  تب بھی لوگ مجھے ہی غلط سمجھیں گے سو میں نے صبر سے کام لیتے ہوئے چائے پینے تک کی مہلت دینے کاسوچ لیا۔جونہی میں چائے لے کرآگے بڑھی  تو چائےکو ایک طرف رکھتے ہوئے اس نے  میرا بازو اس تندہی اور زور سے کھینچا کہ میں اس کے پہلو میں جاگری،لیکن میں نے جی کو کڑا کرتے ہوئے اسے کافی زیادہ سنادیں اور بغیر چائے کے نکلنے کاعندیہ دے دیا۔شیطانی رعونت نے اس کو دوبارہ وار کرنے کی ہمت نہیں بخشی اور وہ مجھے یہ دھمکی دے کرچلا گیا کہ کل تک پیسے نہ پہنچے تو تمہارے گھر کا سامان ایک ایک کرکے اٹھا لے جاؤں گا۔اور آج اس شخص نے  اپنے حواریوں کو ساتھ لاکر یہ ڈراما رچایا دیا اور پورے محلے کے سامنے ہمارا تماشا بنادیا۔میں نےکہا باجی آپ مجھے بصیر صاحب کا موبائل نمبردیں اور آپ گھر جائیں اللہ بہتر کرے گا۔ بصیر کوشکل سے میں پہچانتا  تھا مگر زیادہ واقفیت نہیں تھی۔

         کل شام سے جسم  میں عجب سی حرارت اور حرکت ہے۔اُس شخص کو تلاش کرنا سب سے بڑا مقصد بن چکا ہے۔وہ  مل جائے تو ہر عقدہ کھل جائے شاید وہ لال دین سے چھپا پھرتا ہو یا پھر لال دین نے ہی اسے چھپایا ہو۔محترمہ کے مطابق لال دین کا کاروبارسرکلر روڈ راولپنڈی اور بادامی باغ  لاہور میں ہے ۔ تین گھنٹے سرکلر روڈ راولپنڈی تلاش کرنے کےبعد لاہور کارخ کیا۔ریلوے سٹیشن کے ایک غیر محفوظ سے ہوٹل میں رات گزارنے کے بعد صبح  کراچی پشاور ریلوے لائن کو عبور کرتے ہوئے بادامی باغ میں داخل ہوا  تو لاری اڈے پر جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور گندگی کے ڈھیروں پر نشے میں دھت گندگی سے زیادہ گندے نشہ باز سورج کی کرنوں سے نیند  کشید کر رہے تھے۔سواریوں کے جمگھٹوں میں سے کچھ لوگ چائے کے کھوکھوں اور پنواڑیوں کی دکانوں کے سامنے رونق جمائے بیٹھے تھے۔ہوا کے ذریعے پھیلتی زہرناکی  سے یہ لوگ اپنے پھیپھڑوں کوتروتازہ کرنے میں مصروف تھے۔ایک بھان متی بھی اپنی دکان سجاکر بیٹھ چکا تھا۔چند قدم کے فاصلے ایک گندے ٹاٹ پر دراز زلفوں والا ادھیڑ عمر شخص لوہے کے ٹکڑے پر یہ عبارت آویزاں کیے ڈیرہ جمائے بیٹھا تھا۔‘‘قسمت کی ڈوبتی،ابھرتی اور سکڑتی پھیلتی تصویریں دیکھیں اپنے ہی ہاتھ پر وہ بھی اپنی آنکھ سے’’۔مجھے دیکھتے ہی جوتشی وجد میں آگیا‘‘بڑی دور سے آئے ہو اور متلاشی ہو،بابے کے سامنے ہاتھ کرو اور محبوب کا پتہ پاؤ نہ ملنے کی صورت میں بابے کی گردن پر آپ کا پیر ہوگا’’۔میں  ان باتوں سے بےاعتنائی برتتے ہوئے سبزی منڈی کی سڑک پر چڑھ گیا۔سبزی منڈی کے پچھواڑے میں  چمڑے کے کارخانوں کی لمبی قطار دیکھ کرمجھے اندازہ ہواکہ میں مطلوبہ مقام پر پہنچ آیا ہوں۔میں نے شیخ  لیدر فیکڑی کے گیٹ پر موجود شخص سے پوچھا کہ لال دین لیدر والے سے ملنا ہے۔اس نے مجھے دو کارخانے چھوڑ کرتیسرے کارخانے کا پتہ بتایا۔

         کارخانے کے مرکزی دروازے سے نکلتے ہوئے دو دراز قامت اشخاص میں سے ایک پگڑی درست کرتے ہوئے بولا اُدھر  ہم اس پگڑی کی لاج کے لیے کتنے خون کرتے ہیں اور اِدھر  دو ٹکے کے مال کے پاؤں میں ہماری پگڑی رُل گئی ہے۔دوسرے نے بلاتوقف جواب دیا ‘‘ابے تو اسے دو ٹکے کا مال بول رہا ہے؟ یہی تو اصل مال ہے جو مال ہمارے ڈیروں پر پہنچتا ہے وہ تو صرف پیسے کا  دشمن اور چونچلوں کا پروردہ ہوتاہے’’۔ان اشخاص کے پاس سے گزرتے ہوئے جب میں ولایتی لیدر فیکڑی کے دروازے پر پہنچا تو وہاں ایک نوجوان مونچھوں کو بل دے رہا تھا مجھے دروازے کی اور بڑھتے ہوئے  میرے حلیے کو گھور کر بولا‘‘ کسی بھی طور سے چمڑے کے بیوپاری تو لگتے نہیں ہو پھر یہاں بھٹکنے کی وجہ ؟۔یہ لال دین کی لیدر فیکڑی ہے؟۔اس کے اثبات کا انتظار کیے بغیر میں فیکڑی میں داخل ہوگیا۔فیکڑی  کے صدر دروازے کے دائیں جانب بڑا عالیشان دفتر جس کی دیواریں کسی خاموش فلم کے مناظر پیش کر رہی تھیں۔موصوف کےسامنے میز پرچار مختلف رنگوں کی جھنڈیاں لہرا رہی تھیں۔لال دین صاحب  موبائل پر کسی سے بات کرنے میں مشغول تھے۔ ‘‘اس بےغیرت کو باندھ کررکھو،پیسوں کا اتنا مسئلہ نہیں ہے اور ویسے بھی اتنے پیسے ہمارے لیے کیا معنی رکھتے ہیں بات صرف اُس مال کی ہے جو اس کے گھر میں موجود ہے جب تک میں اُسے اپنے تصرف میں نہیں لےآتا تب تک اس کو باندھ کررکھو۔میرے عزائم اورولایتی لیدر فیکڑی کی حقیقت اس پر کھلنے نہ پائے۔ٹھیک ہے میں بعد میں بات کرتا ہوں ،پٹیل بھائی کا کوئی نیا بندہ  آیا ہے’’۔میں نے دفتر سے بیٹھے ہوئے اندر جھانکا تواندرونی حال کے  داخلی  دروازے پر دستہ دار صلیب کا نشان بنا ہواتھا۔ایک کمرے میں برف کی کان سےدس گز لمبی چاندنی کی لاٹ نمودار ہوئی اور دکھائی دینے والا شخص کنڈ کی پوجا کے لیے جھک گیا۔لال دین کی یہ لیدر فیکٹری مجھے امبروم شہر نظر آنے لگی اورلال دین نے فاتاں کا روپ دھارلیا۔ اس کے درودیوار فاتاں پرتیل اور شراب لنڈھا کرمرادیں مانگ رہے ہیں۔اس تیل اور شراب کی وجہ سے لال دین نے سیاہی مائل سرخ رنگ اختیارکرلیا۔میں نے  ایک دو، بار اپنی جیب ٹٹولی اور افسردہ سا چہرہ کرتے ہوئے لال دین سے اجازت طلب کیے بغیر دفتر سے باہر نکلنے لگا تو اس نے کہا‘‘پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے! مال کی بات کرلیں پیسے آن لائن شئیر کردینا یا کسی سے منگوالینا ،ابھی آپ جس کام کے لیے آئے ہیں وہ کریں’’۔سر اصل میں پیسے اور موبائل گاڑی میں رہ گیا ہے اور گاڑی کافی پیچھے کھڑی ہے میں لےکر واپس آتا ہوں۔

         میں نے باہر نکلتے ہی ایسے سرپٹ دوڑ لگادی جیسے کوئی قیدی جیل توڑ کربھاگ رہا ہو۔ریلوے سٹیشن کے پاس آکر میں نے اطمینان محسوس کیا ۔چند ساعتوں کے بعدبائیں ہاتھ  پردکان نما ہوٹل میں داخل ہوتے ہی کھانے کا آرڈر دیا۔کھانا کھاکراورچائے پی کر میں رکشے میں بیٹھ کرنیازی اڈے پہنچ گیا۔

         لاہور سے راولپنڈی تک کامیراسفربھنور میں پھنسی  ہوئی ناؤ نما تھا جس کے ملاح کو سامنے جزیرہ تو نظر آرہا ہو مگر وہاں تک رسائی بھنورسے خلاصی کے بعد ہی ممکن ہو۔لال دین کی فون پر ہونے والی گفتگو سے میں نے ایک بات کا اندازہ لگالیا تھا کہ بصیر سے ملاقات سرکلر روڈ  نام نہاد فیکڑی میں نہیں بلکہ سٹیلائٹ ٹاؤن میں لال دین کی کوٹھی پر ہوگی۔اس لیے میں نے  سرکلر روڈ فیکڑی جانے کی بجائے سیدھے سٹیلائٹ ٹاؤن جانے کا فیصلہ کیا۔صبح کی روشنی اتنی  پھیل چکی تھی کہ نیم پلیٹ پڑھی جاسکتی تھی،ہردروازے پر موجود نیم پلیٹ پر لال دین کا نام نہ نظر آنے پر میں آگے سے آگے اور ایک گلی سے دوسری گلی میں جاتے جاتے جب سات گلیاں گھوم چکا تو کربراؤن رنگ کی سنگ مرمر کی پلیٹوں میں نہائی ایک کوٹھی نظر آئی جس کی نیم  پلیٹ پر‘‘ لال دین لیدر والے’’کا نام جلی حروف  میں درج تھا۔دروازے کے سامنے کھڑے ہوکرایک منٹ کے لیے منصوبہ وضع کیا اور پھرگھنٹی بجائی۔گیٹ کے اندر سے کسی نے پوچھا کون؟ میں نے پارسل کا بتایا تو اس نے گیٹ  کھولا۔میں نے بیگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیش ہے کہ اندر آکر ڈرائنگ روم میں بیٹھ کردیتا ہوں۔ڈرائنگ روم میں پہنچتے ہی میں نے اس سے موبائل مانگا تو اس نے لال دین کا نمبر ڈائل  کرنے کا پوچھامگر میں نے چھیننے کے اندازمیں اس کے ہاتھ سے موبائل لےلیا۔موبائل لیتے ہی  میں نے اسے اپنے بازوؤں  کی گرفت میں لے کرواش روم کی طرف دھکیلا۔جسمانی لحاظ سے وہ مجھ سے تھوڑا کمزور ہی لگتا تھا  مگر اس نے اپنے اختیارات کے بل بوتے پرہرطاقت آزمائی اور رعب جمانے کی بھرپورکوشش کی مگر میں نے گرفت اور کڑی کرتے ہوئے اسے واش روم میں بندکردیا۔ساتھ ہی یہ کہہ سنایا کہ بیگ اسلحے سے بھرا ہوا ہے اگر تم نے فیل مچایا یا ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو ایک ہی بم پوری کوٹھی کو اڑانے کے لیے کافی ہوگا بس دس منٹ تم  خاموشی سے رہو اور میں تمہارا دروازہ کھول دوں گا۔یہ بتاؤ جب لال دین لاہور رہتا ہے تو یہ اتنی بڑی کوٹھی کس لیے رکھی ہے؟جواب دینے سے پہلے یہ سوچ لو کہ مجھے سب معلوم ہے میں بادامی باغ والا دھندا دیکھ کرآیا ہوں اگر تم نے ایک لفظ کا بھی جھوٹ بولا تو تمھاری موت یقینی ہے۔‘‘سر یہ کوٹھی نہیں سات رنگ کے پانیوں والا سمندر ہے جس میں مقامی مچھلیوں کو کبھی داد ودہش سے اورکبھی  رعونتِ فرعونی کے بل بوتے پر لایا جاتا ہے۔مقامی اور بین الاقوامی  ماہی گیر آکر شکارکرتے ہیں۔’’اس سے لال دین کو کیا فایدہ پہنچتا ہے؟ شکار تو صرف اتنا ہی کرنا چاہیے جس سے انسان خود محظوظ ہوسکے اور ایسے شکارکو آپ شکار کہیں گے یاحمیت کاسودا؟۔‘‘سرحمیت کا تعلق ضمیر کے ساتھ اور جب ضمیر ناکارہ ہوجائے تب صرف جسم سے کام لیا جاتا ہے’’۔یوں آنکھوں  پر ٹھیکری رکھنے پر اسے کوئی پوچھتا نہیں ؟۔‘‘سر اس کے سرپر نیلے اور سرخ رنگ کی مضبوط چھت ہے اور دوسری بات اسے پوچھنے والے خود اس  کے کاروبار سے مستفید ہوتے ہیں اور اس کےاصل آقا کے وہ سب غلام ہیں ’’۔آخری سوال اور تمہاری خلاصی،بصیر کون سے کمرے میں ہے؟۔‘‘سر یہ سوال نہیں  میری موت کا پروانہ ہے۔آپ خود سوچیں جس  نے ملک  کی بہن بیٹیوں کے ساتھ غداری کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی وہ میری زندگی کو موت کے سپرد کرتے ہوئے کتنی دیر لگائے گا!’’۔میرے پاس وقت نہیں بتا دو تو شاید کسی چال سے بچ جاؤورنہ موت کا پروانہ تمہاری روح کو لے کرپرواز کرنے میں پل بھر کی بھی تاخیر نہیں کرے گا،گنتی شروع ایک دو۔‘‘سر  !بیسمنٹ کمرا نمبر۔۱۰۔سر گراؤنڈ فلور پر آواز نہ پیدا ہونے دینا وہاں باس کے کارندے اور اجنبی مہمان رات بھر کی محفل کے بعد صبح ہی سوئے ہیں’’۔میں واپس آکر واش روم کا دروازہ کھول دوں گا۔ کم از کم چار کنال پر مشتمل قلعہ نما یہ کوٹھی جس  کے گراؤنڈ فلور کے اندرونی دروازے کو عبورکرتے ہی صہبا کی بو نے مجھے ہلا کررکھ دیا مگر میں رومال کا سہارا لے کر بیسمنٹ کی سیڑھیاں اترنے لگا۔داخلی دروازے کے ساتھ ہی ایک ہینڈل لگا ہوا تھا جس پر نمبر کے ساتھ تمام کمروں کی چابیاں  موجود تھیں۔وہاں سے دس نمبرکمرے کی چابی لے کر کمرا کھولا تو  غیر انسانی سلوک کے ساتھ بصیر کو جکڑ ا ہوا دیکھ کر کلیجہ منہ کو آگیا تاہم میں نے  حوصلہ مجتمع کرتے ہوئے بصیر کوکھولا اور اس کا لباس اس کے حوالے کیا۔ جلدی سے باہر آنے کو کہا۔کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بصیر نے کہا ‘‘رات ساتھ والے کمرے سے کسی دوشیزہ کی آہ وپکار دل میں سوراخ کررہی تھی سو اسے بھی آزاد کرتے ہیں’’۔میں نے ۹ نمبر چابی لاکر کمرا کھول کر اس کی بتی جلائی تو بیڈ کی سفید چادر سرخ رنگ اختیار  کیے ہوئے  ملول ومغموم  اور شکن آلود چہرے پر ہزار سوال لیے موجود تھی۔ولایتی صہبا کے ڈبوں،گولیوں کےریپرز اور کچھ استعمال شدہ کنڈوم نے کمرے کے فرش کوخاموش گواہ بنارکھا تھا۔دروزہ بند کرتے ہوئے شتابی سے ہم گراؤنڈ فلور سے ہوتے ہوئے ڈرائنگ روم میں آن پہنچے۔واش روم کا دروازہ کھول کرلال دین کے وفا دار کوباہر نکال کرپاس بٹھایا اور دس منٹ کی اس کی ایک ویڈیو ریکارڈ کی۔انسانیت کے ناطے مشورہ ہے کہ کوٹھی کو مقفل کرکے فرار ہوجاؤ،اسی میں جان خلاصی ہے۔بصیر  اس قدر حواس باختہ تھا کہ اپنے شہر اور علاقےکو پہچاننے سے قاصر تھا ۔ میں نے اسے یقین دلایا آپ ریلکس رہیں میں آپ کا حمایتی ہوں اور یہ آپ کا اپنا شہر ہے۔لال دین اور آپ کا کیا کاروبار تھا اور آپ کیسے یہاں پہنچے؟

         ‘‘لال دین نےاپنے ہی بندوں کے ذریعے مجھ سے پیسےغبن کرواکر مجھے خائن ثابت کرکے قید کروادیا ۔اُس نے مالی خسارہ دینے کے ساتھ ساتھ میری کاروباری ساکھ غارت کردی ۔تمام عہدوپیمان  کو پس پشت ڈال کریوں اکیلے فیکٹری کے مالک بن بیٹھنا قانونی ہی نہیں اخلاقی جرم  بھی ہے’’۔بصیر صاحب آپ بہت سادہ آدمی ہیں لال دین  کی مثال اس ہاتھی کی سی ہے جس کے دانت  کھانے  کےاور دکھانے کے اور ہوتے ہیں ۔لال دین کو سمجھنے کے لیے آپ کو ایک جنم اور چاہیے  اور دوسری بات وہ چمڑے کا کاروبار کرتا ضرور ہے مگرصرف زندہ چمڑے کاجس میں چمڑا تو مرسکتا ہے مگر پیسہ نہیں مرسکتا۔‘‘اوہو’’۔بصیرکے گھر کے سامنے  رکشے سے اتر کر میں کرایہ دے کراپنے گھر کی طرف مڑگیا اور بصیر کف افسوس ملتے ہوئےاپنے گھر میں داخل ہوگیا۔

***

Leave a Reply