اپنی کمائی

ڈاکٹر محمد الیاس

اپنی کمائی

اس کی مرغی نے پہلی بار انڈا دیا تو وہ بہت زیادہ خوش ہوئی۔وہ پھولی نہیں سماتی تھی۔خوشی اور حجاب کی ملی جلی کیفیت کے باعث اس کا رنگ سرخ ہو گیا۔اڑتی اڑتی یہ بات پورے محلے کی لڑکیوں تک پہنچی تو اس کی سہیلیوں نے اسے ڈھیروں مبارکبادیں دیں۔اس نے پہلا انڈا آٹھ آنے کا بیچا اور وہ پیسے اپنے دوپٹے کے پلو سے کس کر باندھ لیے ۔ یہ اس کی پہلی کمائی تھی جس پر اسے پورا فخر تھا۔کچھ دن گزرے تو گلی میں ایک پھیری والا آیا جو چوزے اور نوخیز مرغیاں بیچتا تھا جس سے اس نے دو مرغیاں اور ایک مرغ اور خرید لیا۔اس کی والدہ نے اس کو سمجھانے کی بہتیری کوشش کی کہ تم پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن ہو اور تمہارے پانچ بھائی اور تمہارا زندہ و سلامت والد تمہارا سارا خرچہ اٹھا سکتے ہیں لہذٰا تم ان انڈوں مرغیوں کے چکر سے نکل جاؤ مگر پروین کے سر پر اپنی ذاتی اور علیحدہ کمائی کا بھوت سوار تھا۔بھائیوں کی بہت زیادہ لاڈلی بہن تھی۔ایک دن اس کے بڑے بھائی نے اسے مرغیوں کو دانہ ڈالتے ہوئے دیکھا تو آوازیں دینی شروع کر دیں۔

پروین ! اے پروین !

بھائی کی آواز کانوں میں پڑنے کی دیر تھی کہ وہ ننگے پاؤں بھاگتی ہوئی چلی آئی۔اس کے بھائی نے کہا: ہاتھ آگے کرو۔پروین نے جب ہاتھ آگے کیا تو اس کے بڑے بھائی نے پانچ روپے کا نوٹ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا اور بڑے پیار سے کہا کہ دیکھو : ابھی تمہارے بھائی زندہ ہیں۔

تم یہ انڈے شنڈے نہ بیچا کرو مگر پروین نہ جانے کس جہان میں گم سم اپنی سوچوں کے تانے بانے بن رہی تھی جو اس نے کوئی جواب نہ دیا۔

میٹرک کا سالانہ امتحان ختم ہوا تو پروین کی ماں کو اس کی شادی کا فکر ستانے لگا اور اس نے پروین کے لیے مناسب سا رشتہ ڈھونڈنا شروع کر دیا کیوں کہ دیہات میں لڑکیوں کے لیے تعلیم کا حصول بہت مشکل تھا اور اگر کوئی لڑکی پڑھ لکھ بھی جائے تو نوکری یا ملازمت اس کے گھر والوں کے لیے ایک طعنے سے کم نہ تھی۔ اپنے رشتہ داروں میں کوئی ایسا لڑکا نہیں تھا جو پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن کے نخرے اٹھاتا۔

جب پروین کے کانوں میں اپنے رشتے کی آواز پڑی تو ایک دن اس نے صحن میں بڑے ٹھسے کے ساتھ کھڑے ہو کر ٹھونک بجا کر کہہ دیا کہ ابھی میری شادی کی بات رہنے دیں۔ مجھے مزید پڑھنا ہے۔

مرغیوں کا پنجرہ صاف کرتے ، بچی ہوئی روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے اور انڈے بیچتے ہوئے وقت ایسے گزرتا چلا گیا جیسے اس کو پر لگ گئے ہوں۔ پروین نے تعلیم جاری رکھی اور اس نے بی۔اے کا امتحان پاس کر لیا۔نوکری کے لیے ہاتھ پاؤں مار کر وہ اپنے خاندان کی انا کا خون نہیں کر سکتی تھی۔اب اس کے لیے ایک اچھے جوڑ کے رشتے کی تلاش تھی۔

آخر کار ایک سلیم نامی لڑکا پسند آ گیا جو بینکر تھا اور دوسرے شہر میں ملازمت کرتا تھا۔ دونوں گھرانوں نے پانچ چھ ماہ ایک دوسرے کو سمجھنے میں لگا دیے۔

مرغیوں کے پنجرے صاف کرتی روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتی اور انڈے بیچتی ہوئی پروین بڑے چاؤ سبھاؤ کے ساتھ اپنے بابل کا گھر چھوڑ کر پیا گھر سدھار گئی۔سسرال والوں نے اس کے پاؤں تلے اپنی ہتھیلیاں رکھیں اور ایک ماہ تک اسے کسی کام کاج کو ہاتھ نہ لگانے دیا۔ اچھی خاصی تنخواہ والا خاوند اس کی سانس کے ساتھ سانس لیتا تھا مگر پروین  تھی کہ ہر وقت بجھی بجھی اور اداس اداس۔ ایک دن وہ میکے گئی تو جاتے ہی اس نے مرغیوں کے کھڈے میں جانکنا شروع کر دیا۔روٹیوں کے ٹکڑے، مرغیوں کے پیالے میں دانہ پانی اور انڈوں کا حساب کتاب شروع۔ دوسرے دن سلیم اسے لینے کے لیے آ گیا ۔گھر سے نکلتے وقت اس نے ایک مرغ اور پانچ مرغیاں ایک توڑے میں ڈال لیے۔اس کی ماں نے بہت منع کیا کہ اب یہ کام چھوڑ دو مگر اپنی ماں کی اس نے ایک نہ سنی۔

سسرال پہنچی تو ایسے لگا جیسے پروین دنیا پر آ گئی ہو۔ وقت نے گزرنا تھا۔ چپ چاپ گزرتا رہا۔ پروین کو اللہ تعالٰی نے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔پروین کو جب بھی  سلیم نے مہینے بعد تنخواہ لا کر دینی تو وہ اس طرح پکڑتی جیسے لوگ پرائی امانت پکڑ کر رکھ لیتے ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو جتنا مرضی روپیہ پیسہ لا کر دے مگر جو روپیہ دھیلا عورت نے خود کمایا ہوتا ہے اس پر اسے بڑا مان اور فخر ہوتا ہے اور اسے بہت سنبھال کر رکھ دی ہے۔پروین نے بچوں کی دیکھ بھال اور اپنے مجازی خدا کی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔شادی ہوئے دسواں سال شروع ہو چکا تھا۔پروین اپنے سسرال میں ساس سسر سے لے کر دیور، دیورانیوں اور نندوں سمیت ہر چھوٹے بڑے کے دل میں اپنا گھر بنا چکی تھی۔

 کوئی کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ پروین پانچ بھائیوں کی اکلوتی اور لاڈلی بہن ہے۔جس کسی نے جب اور جس وقت بھی کوئی کام کہا، پروین نے ماتھے پر تیوری ڈالے بغیر فوراً کر دیا۔پروین کے صحن میں مرغیوں کے غول کے ساتھ ساتھ پانچ دیسی بکریوں اور پندرہ ٹیڈی بکریوں کا ریوڑ بھی بن چکا تھا

محلے میں اگر کسی غریب یا مسکین کو دودھ یا انڈوں کی ضرورت پڑی تو پروین کی بکریاں اور مرغیاں حاضر۔

   اللہ تعالٰی نے ایسی برکت ڈالی کہ غرباء سے دودھ اور انڈوں کے پیسے نہ لینے کی وجہ سے کچھ کھاتے پیتے لوگ اپنے بچوں کے لیے انڈے اور دودھ خرید لیتے جس کی وجہ سے پروین کے پاس روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی۔

ساون کا مہینہ شروع ہو چکا تھا جس میں لوگوں کے گھر بارش کی نظر ہو جاتے ہیں۔سیلابی پانی ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ کر رکھ دیتا ہے۔اٹاریاں، بنگلے اور کچے پکے مکان کچھ بھی محفوظ نہیں رہتا۔دن گیارہ بجے کا وقت ہوگا جب نیلے آسمان پر کالی گھٹا چھانے لگی۔ بادل گرجنا شروع ہو گئے۔بجلی کڑکنے لگی۔پروین کا دل ڈر گیا۔اس نے فٹافٹ مرغیوں کو پنجرے اور بکریوں کو ان کے باڑے میں بند کر دیا۔

بادل برسنا شروع ہوئے اور برستے ہی چلے گئے۔ ہر طرف پانی ہی پانی نظر آنے لگا مگر بارش بند نہ ہوئی۔ اس کے ساتھ تیز ہوائیں چلنا شروع ہو گئیں۔ تیزی سے سمت بدلتی ہوئی ہوا کے ساتھ بادل کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف برس رہے تھے۔سلیم کو بینک سے چھٹی ہوئی اور وہ گھر جانے کی تیاری کرنے لگا۔ اس کے ساتھیوں نے اسے منع کیا کہ ابھی رک جاؤ اور بارش کو ذرا تھم لینے دو مگر ہونی کو کون روک سکتا ہے؟

اس نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور برستی بارش میں یہ جا وہ جا ہو گیا۔بارش کے پانی نے ہر طرف جل تھل کر دیا تھا۔گاؤں کے باہر کچے راستے کے دونوں اطراف بڑی بڑی ٹاہلیاں اور سفیدے کے درخت قطار میں لگے ہوئے تھے جن سے راستے کا اندازہ ہو جاتا تھا۔طوفان کی شدت سے سفیدے کا ایک بھاری بھرکم درخت اس وقت جڑ سے اکھڑا جب سلیم کی موٹر سائیکل  بالکل اس کی سیدھ میں پہنچ چکی تھی۔ منوں وزنی درخت سلیم کے اوپر آن گرا جس کی وجہ سے سلیم دوسرا سانس بھی نہ لے سکا۔گاؤں میں شور مچ۔ گیا ہر آنکھ روتی رہ گئی۔ ہنستا بستا سلیم منوں مٹی تلے جا سویا۔رو دھو کر پروین نے چپ سادھ لی کہ اس کے بغیر کوئی چارا بھی نہیں تھا۔ ماں باپ، بھائیوں اور رشتہ داروں نے اسے بہت دم دلیری دی مگر پروین کو پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا؟ اس نے ہوں کیا، نہ ہاں۔

قل، دسویں اور چالیسویں کی رسمیں ہو گئیں۔ عدت کے دن گزر گئے۔ایک دن اس کا والد آیا اور اس نے پروین کو سمجھانے کی بہتیری کوشش کی۔ دیکھو پروین! زندگی کا سفر بہت مشکل ہے اور بچے ابھی چھوٹے ہیں۔ہم کوئی اچھا سا رشتہ دیکھ کر تمہاری شادی کر دیں گے کیونکہ بچوں کو ابھی سہارے کی ضرورت ہے۔

پروین بالکل خاموش تھی اور کھڑکی کے رستے وسیع و عریض صحن میں پھرنے والی مرغیوں اور باڑے میں بندھی ہوئی بکریوں کو دیکھ رہی تھی۔ باپ بولے جا رہا تھا اور وہ چپ سادھے سن رہی تھی۔اس سے پہلے کہ آنکھوں سے اشک چھلک پڑتے،اس نے انہیں زبردستی پیچھے دھکیلا اور مرغیوں کو دانہ ڈالنے کے لیے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔

ٌٌٌ***

Leave a Reply