ڈاکٹر رمیشا قمر
(استادشعبہ اردو وفارسی گلبرگہ یونیورسٹی) کرناٹک ،انڈیا)
“بات کرکے دیکھتے ہیں “
پروفیسرالطاف یوسفزئی
تعارف:
معاصر منظر نامے پر اردو شعر وادب میں جن قلم کاروں نے مختلف ادبی حوالوں سے اپنی شناخت قائم کی اور جن کو اعتبار حاصل ہوا ان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر الطاف یوسفزئی کا بھی ہے۔ اس بات سے ہر شخص کماحقہ واقف ہے کہ اعلی درجہ کی تخلیق صرف اعلی ترین ذہنوں میں ہی پیدا ہوتی ہے۔ اعلی ترین ذہن وہ ہوتا ہے جس میں شعور کی بالیدگی ، بصیرت کی برّاقی اور احساس کی شدت ہوتی ہے۔ جس میں بیک وقت مفکر،دانشور اور آ رٹسٹ تینوں کی آمیزش ہوتی ہے۔ ڈاکٹر الطاف یوسفزئی ایسے ہی ذہن کے مالک ہیں۔ جس کا ثبوت ان کا وہ ادبی سرمایہ ہے جس میں تخلیق، تنقید،تحقیق ہر طرح کے نمونے موجود ہیں۔اور کمال کی بات یہ ہے کہ یہ نمونے نثری اور شعری دونوں سانچوں میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ تقریباً نصف درجن سے زائد کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں جو ان کی خلّاقی،قادرالکلامی اور عمیق مشاہدے اور وسعتِ مطالعہ کی غمّاز ہیں۔
ڈاکٹر الطاف یوسف زئی درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں اور اس وقت ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کے شعبہ اردو میں صدر شعبہ اردو کے عہدے پر فائز ہیں۔دو انٹرنیشنل رسالوں کے مدیر ہیں ۔
ا ن کی تصنیفات میں اردو نظم اور 9/11، مختار مسعود کا اسلوب(تین ایڈیشن)،مشتاق احمد یوسفی کے پٹھان کرداروں کا پشتو ترجمہ،تھائی لینڈ کے رنگ(سفرنامہ)، اصناف ادب اور مختار مسعود کی شہرہ آفاق تصنیف آواز دوست (پشتو ترجمہ)نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔مشتاق احمد یوسفی کے پٹھان کرداروں کا پشتو ترجمہ پر ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کی جانب سے پانچ لاکھ روپے کا انعام بھی پیش کیا جا چکا ہے۔اس کے علاوہ دو اور سفر نامے ‘‘نیل کے سنگ ’’اور ‘بخال ہندوش بخشم ’’بھی شائع ہوچکے ہیں ۔مختلف ادبی تنظیموں سے وابستہ ہیں ۔تو پھر اس باکمال شخصیت سے روبرو ہوتے ہیں اور ‘‘بات کرکے دیکھتے ہیں۔’’
۔۔۔۔۔
رمیشاقمر: میں نے ایک انٹرویو سیریز ” بات کر کے دیکھتے ہیں۔” شروع کیا ہے جس میں ہمہ جہت ادیبوں کے انٹرویوز شامل ہیں آپ بھی ہمہ جہت ادیب ہیں۔ شاعری کرتے ہیں۔ تنقید لکھتے ہیں۔ سفر نامے تحریر کرتے ہیں۔ صحافتی تحریریں بھی رقم کرتے ہیں بلکہ رسائل کی ادارت بھی فرماتے ہیں۔ یعنی آپ ایک قلم کار ہیں اور آپ کا قلم بیک وقت بہت کچھ لکھنے میں مشغول رہتا ہے تو سب سے پہلے آپ سے یہی جاننا چاہوں گی کہ آپ لکھتے کیوں ہیں؟
الطاف یوسفزئی: بہت بہت شکریہ کہ آپ نے مجھ ناچیز کو ہمہ جہت ادیبوں کی فہرست میں شامل کرکے مصاحبے (انٹرویو) کی دعوت دی۔ گفتگو سے پہلے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں کوئی بڑا قلم کار یا ہمہ جہت ادیب نہیں۔ ادب ایک بے کراں و بے پایاں بحر ہے اور میں اس کے کنارے سیپیاں ڈھونڈنے والا وہ معصُوم طفل جو ابھی تک صرف ان سیپیوں کی رنگینیوں سے لطف لے رہا ہوں۔ ادب کے اس بحرِ بے کراں تک میری نارسائی کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا اور شاید اسی نارسائی کا لطف ہے جو مجھے تخلیق و تحقیق اور نقد و نثر کی طرف کھینچتا ہے۔
رمیشاقمر: الطاف صاحب آپ نے اپنے تخلیقی محرکات پر اچھی روشنی ڈالی اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیجیے کہ آپ نے لکھنے کی ابتدا کب اور کیسے کی؟
الطاف یوسفزئی: ادب رغبتی تو مجھ میں بچپن سے تھی مگر لکھنا میں نے بہت بعد میں شروع کیا۔ ویسے تو کالج کے زمانے سے شعر کے بے ربط مصرعے جوڑ نا شروع کیا اسی دور میں تاریخی واقعات کو اپنے انداز اور اسلوب میں لکھنے کے لیے خامہ فرسائی کی مگر وہ ایک چھوٹے بچے کے لڑکھڑاتے قدم تھے جن کا ادبی معیار تو بالکل بھی نہیں مگر اس سے مجھے حوصلہ ملا اور یہ ادراک ہوا کہ میرا میلان ادب کی طرف ہے۔ پی ایچ ڈی تھیسزلکھنے کے دران میرا حاسہ انتقاد تیز ہوا ساتھ ساتھ میں نے اقبال اور غالب کے علاوہ بھی اردو زبان کے جو بڑے ادیب تھے جیسے پطرس بخاری، مشتاق یوسفی ،مختار مسعود ،قدرت اللہ شہاب ،اشفاق احمد ،بانو قدسیہ،اور امجد اسلام امجد کا مطالعہ کیا۔ اردو کے علاوہ دیگر بڑی زبانوں کے ادیبوں جیسے ہومر، ارسطو، لان جائنس، شیکسپیئر ، ٹی ایس ایلیٹ، خلیل جبران، ٹیگور، ارنیسٹ ہیمینگوے، امیر حمزاتوف، دستووسکی، میکسم گور کی پشتو زبان کے ادیبوں جیسے رحمان بابا، خوشحال خان خٹک، امیر حمزا شنواری وغیرہ کی ادبی تخلیقات کا مطالعہ کیاجس نے میری تخلیقی تنقیدی صلاحیت کو جلا بخشی اور فکر و نظر کو وسعت دی۔
رمیشاآپ کے سوال کے باقاعدہ لکھنا کب شروع کیا نے مجھے اس الجھن میں ڈال دیا جیسے کسی سے پوچھا جائے کہ آپ کو کب اور کس تاریخ کو محبت ہوئی کیونکہ طولِ شبِ فراق کی طرح اس کا ناپنا آسان نہیں۔ ہاں اس الجھن کا یوں سلجھاؤ ممکن ہے کہ میں نے باقاعدہ لکھنا کو ئی تیرہ سال پہلے دوہزار دس میں شروع کیا جب میں نے مشتاق یوسفی کے پٹھان کرداروں ،خان سیف الملوک خان اور حاجی اورنگ زیب خان کا پشتو ترجمہ شروع کیا۔ اسی دور میں میں نے تنقیدی مضامین بھی لکھنے شروع کیے۔ جبکہ تخلیقی ادب کی طرف میں بہت بعد میں آیا جب میں نے تھائی لینڈ کا سفرنامہ تحریر کیا یہ غالباً دوہزار پندرہ کا سال تھا۔
رمیشاقمر: محبت والی بات خوب کہی آپ نے ۔۔۔یہ بتائیں کہ آپ کی ادبی تربیت میں کن لوگوں کا حصہ رہا اور کن کتابوں نے آپ کو متاثر کیا؟
الطاف یوسفزئی: میرا میلان ادب کی طرف بچپن سے تھا میں نے ادبی تاریخی کہانیاں بچپن میں اپنے والد صاحب سے سنیں۔ اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے میں بہت شوق سے دیکھتا تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک مشہور پروگرام ‘‘نیلام گھر’’ ہوا کرتا تھا جس کا میزبان ایک ادب دوست و ادب شناس شخصیت تھا ان کا نام طارق عزیز تھا یہ پروگرام اس قدر مقبول ہوا کہ بعد میں اس کا نام طارق عزیز شو رکھا گیا۔ اس شو کاایک اہم سیگمنٹ بیت بازی کا بھی تھا جس میں پاکستان بھر کے کالجز سے طلبہ وطالبات بیت بازی کا مقابلہ کرتے میں شو کے اس حصے کو بڑے شوق سے دیکھتا جس نے میرے شعری ذوق کو پروان چڑھایا۔ اقبال کی شاعری نے بھی مجھے اسی دور میں متاثر کیا تھا۔ مطلب یہ وہ سارے عوامل تھے جس کی وجہ سے مجھے ادب کی دنیا سے محبت ہوئی۔
رمیشا قمر: طارق عزیز واقعی عمدہ اناونسر تھے خوبصورت اردو،مضبوط لہجہ ،آواز کا زیروبم،باوقار انداز،برمحل اشعار اور معلومات کا خزانہ ہوتا تھا میں نے بھی کچھ جھلکیاں اور کچھ تحریریں ان کی وفات پر پڑھی اور دیکھی تھیں ۔۔شعری ذوق میں ایسے پروگرامز بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں الطاف صاحب شاعری اور شعر کی بات چل رہی ہے تو اسی سے متعلق مزید بات کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غزل زیادہ مقبول صنفِ سخن ہے اور آسان بھی۔۔ مگر آپ نے غزل کے بجائے نظم کا وسیلہ اختیار کیا۔کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
الطاف یوسفزئی: ڈاکٹر صاحبہ میں اس بات سے پچاس فی صد اختلاف رکھتا ہوں۔ ‘‘غزل مقبول صنف سخن ہے’’کی حد تک بات درست ہے مگر یہ آسان صنف ہے کو میں درست نہیں سمجھتا میرے خیال میں ادبی اصناف میں سب سے مشکل کام غزل گوئی ہے۔ جس میں خیال کا اظہاریہ ہر ایک کی بس کی بات نہیں شاید اسی لیے اچھی غزل کہنے والے کو ہی استاد کہا گیا نہ کہ نظم گو کو۔ خیال کو بیان کرتے وقت ایک غزل گو کو جن پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے نظم لکھنے والے کو اس کے عشر عشیر سے بھی نہیں گزرنا پڑتا۔ قافیہ پیمائی، ردیف کی پابندی، وزن و بحر، تغزل کے علاوہ رمز و ایمائیت کی وہ زنجیریں کہ ایک بات بتانی ہے اک چھپانی ہے والی کیفیت ساتھ ساتھ انتخابِ الفاظ اور ترتیبٍ الفاظ کی ان سنگلاخ زمینوں سے گزرنا پڑتا ہے جن پر اردو زبان و ادب کے مہا گرو اساتذہ نے فکر و فن کے ہل چلائے ہوں۔ اب ان سے بہتر تو ہم میں کچھ لکھنے کی نہ جرآت ہے اور نہ اہلیت و صلاحیت۔ بہ قول شاعر :
اب ترستے رہو غزل کے لیے
تم نے لفظوں سے بے وفائی کی
رمیشاقمر: میں سمجھتی ہوں کہ کوئی بھی فن ہو وہ مکمل ریاضت چاہتا ہے تب آپ اس میں اپنا جادو جگا سکتے ہیں ۔آپ کی زیادہ تر نظمیں ہنگامی حالات پر لکھی گئی ہیں جب کہ آپ اچھی طرح واقف ہیں کہ ایسے موضوعات پر لکھی جانے والی شاعری کو یہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ کہیں شعریت مجروح نہ ہو جائے۔ پھر بھی آپ نے رسک لیا؟ کیا ہم جان سکتے ہیں کہ یہ جوکھم آپ نے کیوں اٹھایا؟
الطاف یوسفزئی: دیکھیں میں اپنے سماج سے ہٹ کر نہیں لکھ سکتا اور جس خطے سے میرا تعلق ہے وہاں حادثات و سانحات کا تسلسل ہو تو ایک لکھاری اس سے صرف نظر کیسے کر سکتا ہے۔۔ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا ہے
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
رمیشاقمر: بالکل!آپ کی نظر میں تو ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کی شاعری ہے۔ شاعری کے موجودہ منظر نامے کی روشنی میں کیا آپ بتانا چاہیں گے کہ دونوں جگہوں پر ہونے والی اردو شاعری میں کیا فرق ہے؟ اور اگر کسی قسم کا امتیاز ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں؟
الطاف یوسفزئی: رمیشا صاحبہ اچھی شاعری تب وجود میں آتی ہے جب سماج میں گھٹن ہو اور انسان کا جینا محال ہو۔ آپ اگر ہندوستان اور پاکستان کے سماجی معاشی اور معاشرتی منظرنامے کو دیکھیں تو اس میں موجود ناہمواریوں، تضادات، بے اعتدالیوں، جارہانہ مذہبی روشوں، ذات پات ،چھوت اچھوت،اور معاشی جھکڑ بندیوں نے ان دونوں ممالک کے ادیبوں کو لکھنے کا لا متناہی مواد مہیا کیا ہے۔ جس سے حسب استطاعت و توفیق ہر کوئی اپنی ادبی گھٹڑی کو بھر رہا ہے۔ ہاں یہ بات کہ پیش کش کے اعتبار سے کون بہتر لکھ رہا ہے تو سرحد کے آر اور پار اس کی ایک لمبی فہرست ہے۔ جس کی تفصیل یہاں دینے لگ جاؤں تو آپ کے باقی سوالات کے لیے وقت کم پڑجائے گا۔ اس لیے اس پرپھر کبھی بات کر لیں گے۔
رمیشا قمر: آپ تو شاعر کے ساتھ ساتھ ایک نقاد بھی ہیں،آپ کے خیال میں تنقید کا رول موجودہ ادبی منظر نامے میں کیا ہے؟کیا تنقید تخلیق کا معیار طے کرتی ہے؟یا تخلیق سے تنقید کا معیار طے ہوتا ہے؟
الطاف یوسفزئی : میں اس بحث کو غیر ضروری سمجھتا ہوں میرے خیال میں یہ دونوں اپنی جگہ مسلمہ حقیقتیں ہیں۔ مگر کسی ایک کو دوسرے کے معیار کو جانچنے کا حق ایک رائے کی حد سے زیادہ نہیں۔ کیا آپ نہیں سمجھتی کہ ایک خالق اپنی تخلیق کا پہلا ناقد بھی ہوتا ہے۔ مصرعے اور جملے کو سب سے پہلے اپنے خالق کے قلم سے قطع برید اور ڈرافٹینگ ،کرافٹینگ سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک اور چیز جو مغرب پرستی کی وجہ سے ہم میں آئی ہے جس کو ادبی تھیوری کہا جاتا ہے جس کو میرا ذہن قبول نہیں کرتا مشرق کی خمیر سے پروان چڑھنے والے ادب کو آپ یہاں کے مروجہ اصول و ضوابط پر ہی پرکھ سکتے ہیں۔میرا نہیں خیال کہ مستعار لی ہوئی ترازو سے ادب پاروں کے معیار کے نام پر ادیبوں کے بازووں کو مروڑا جائے۔ اس سے کوئی اچھا ادب وجود میں آنے سے رہا۔
رمیشا قمر: الطاف صاحب کہا جاتا ہے کہ تنقید کا ایک مقصد اصلاحِ ذوق بھی ہے، کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔اگر ہاں تو آپ کے خیال میں ہمارے نقادوں نے ادب کے قارئین کے ذوق کو کتنا بلند یا بہتر بنایا ہے؟
الطاف یوسفزئی: حظ کشیدنی کا پیمانہ ہر قاری کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ اسی طرح ذوق وشوق کا معیار بھی ہر قاری کا الگ الگ ہوتا ہے۔کسی بھی فن پارے کے لیے اگر میں ویسا ہی ذوق رکھوں جیسے آپ رکھتی ہیں تو میرے خیال میں مجھے پھر اس فن پارے نے نہیں آپ نے متاثر کیا ہے۔ اور اگر کسی کے ذوق کی اصلاح کا اختیار بھی اگر ناقد کے سپرد کیا جائے تو تخلیق کار بیچارہ تو پھر تیل بیچے۔ میرے خیال میں ایک اچھے گدڑیے کی طرح ایک ناقد بھی ایک اچھی چراگاہ کی طرف قارئین کو راغب تو کر سکتا ہے مگر ذوق کو پروان چڑھانے کا کام اس کا نہیں بلکہ خالق کا ہوتا ہے جو اپنے فکر و فن سے قاری کی ذہنی تعمیر تربیت کرسکتا ہے۔
رمیشا قمر: یقینا الطاف صاحب تخلیق کار ہی اپنی تخلیق سے قاری کی تربیت کے ساتھ اس کولطف وانبساط فراہم کرتا ہے آپ تو شاعر اور نقاد دونوں ہیں اور دونوں کے پاس اپنے اپنے فن کے متعلق ایک نقطہ نظر ہوتا ہے آپ یہ بتائیں کہ آپ کا نظریہ شعر کیا ہے اور تنقید کے متعلق آپ کس طرح کانظریہ رکھتے ہیں؟
الطاف یوسفزئی: ادب میں دو اصطلاح مستعمل ہیں ایک‘ ادب برائے ادب ’جس کا نعرہ فطرت پسندوں اور رومانویوں نے بلند کیا جبکہ دوسری توانا آواز‘ ادب برائے زندگی’ کی ہے جس کے علمبردار ترقی پسند مصنفین تھے۔میرا قد اتنا بڑا تو نہیں کہ ان دونوں توانا آوازوں سے اختلاف کروں ہاں یہ کہ میں کس کیمپ میں ہوں تو میرا جواب وہی ہو گا جو فیض احمد فیض نے کیایعنی کچھ عشق کیا کچھ کام کیا۔۔ تو میں انسانی الجھنوں کے لیے ادب کو ایک توانا آواز بھی سمجھتا ہوں اور انسانی ذوق اور حظ کشیدنی کے لیے ادب کی اہمیت کا بھی قائل ہوں۔
رمیشا قمر: کچھ عشق کیا کچھ کام کیا بات تو دلچسپ ہے اورہم آپ کے عشق پر بھی بات کریں گے کسی اور موقعے پر۔۔ آپ کی ایک نمایاں حیثیت بطور سفر نامہ نگار کی بھی ہے اور آپ کے سفر ناموں میں معلومات کے علاؤہ ادبی جاذبیت بھی خوب پائی جاتی ہے۔یہ ادبی چاشنی آپ کی تحریر میں لاشعوری طور پر پیدا ہوئی ہے یا آپ نے شعوری طور پر اس کا اہتمام کیا ہے ؟
الطاف یوسفزئی: سفرنامہ بنیادی طور پرہے ہی نت نئے معلومات کی ترسیل کا ایک ذریعہ۔ اگر یہ معلومات ایک خاص ادبی رنگ و آہنگ میں ہو تو ادب پارہ ہے اور اگر نہ ہو تو پھر خبر یا اطلاع ہے۔ آپ کے سوال کے دوسرے حصے کو دیکھا جائے تو میں ذاتی طور پر ادب کو شعور اور لا شعور کی بین کا عمل سمجھتا ہوں یعنی کچھ لاشعوری کیفیات جن کو شعور کے سانچے میں ڈال کر آپ قارئین کے سامنے لاتے ہیں۔ ان میں کچھ چیز مثلاً خیال اور اس خیال کے لیے جذبے کا ابھار لکھاری کے اختیار سے زیادہ عطیہ خداوندی ہے جبکہ اس خیال کے لیے اظہاریہ دراصل وہ اسلوب ہے جس میں نکھار اکتسابی ہے جو مطالعے اور مشاہدے سے وجود میں آتا ہے۔ اسی عمل کو الطاف حسین حالی نے مقدمہ شعر شاعری میں مطالعہ کائنات کہا ہے۔ جس سے آپ کے علم، فکر اور قلب میں وسعت پیدا ہوتی ہے ۔ اس وسعت سے واقعات و حادثات کے عوامل، عناصر اور اجزا کو بہ اندازِ دِگر دیکھنے سمجھنے اور سامنے لانے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔
رمیشا قمر: مطالعہ کائنات تو بہت اہم ہے۔پروفیسر صاحب آپ کی تحریروں خصوصا سفرناموں میں مشتاق احمد یوسفی اور مختار مسعود دونوں کی نگارشات کا رنگ دکھائی دیتا ہے؟ کیاآپ اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں؟
الطاف یوسف زئی: جی بالکل مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ میں نے ان دونوں بڑے ادیبوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔میرے لیے اعزاز ہے کہ میں نے اپنی علمی و ادبی آبیاری میں ان دونوں سے خوشہ چینی کی ہے۔ میں نے ان دونوں ادیبوں کو بارہاپڑھا ہے اورہر بار ان کی تحریروں سے نئے معنی اور نیا لطف ملا ہے ۔
رمیشا قمر: ڈاکٹر صاحب ان ادیبوں کی نگارش کا جو یہ رنگ آپ کے یہاں دکھائی دیتا ہے اس کا سبب یہ تو نہیں ہے کہ آپ نے ان کے اسلوب پر کام کیا ہے؟
الطاف یوسفزئی: جی ہاں کچھ حد تک یہ بات درست بھی ہے کہ میرا تحقیقی سفر ان دو بڑے ذہنیت کے مالک ادیبوں کے ساتھ گزرا ہے مگر یہ بات بھی ہے کہ میرے تحقیق میں ایک اور ذہین آدمی رشید احمد صدیقی بھی تھے یعنی میرا موضوع رشید احمد صدیقی مشتاق احمد یوسفی اور مختار مسعود کے اسلوب کا تقابل تھا۔ مگر شاید مجھے رشید احمد صدیقی نے کچھ زیادہ متاثر نہیں کیا مجھے ان کے اسلوب نگارش میں کوئی واقعاتی گہرائی اور گیرائی نے جھنجھوڑا بھنبھوڑا نہیں، نہ ہی کوئی آفاقی فکر کا سرا مجھے ان کے ہاں سے ملا۔ رشید صدیقی جو مزاح تخلیقتے ہیں اس میں علی گڑھ کی مقامیت اس قدر زیادہ ہے کہ ہندوستان تو چھوڑیں جب تک آپ علی گڑھ کے ساختہ و پرادختہ نہ ہوں آپ ان کے اسلوب اور مزاح سے حظ نہیں اٹھا سکتے۔پھر مجھ جیسا قاری جس نے کبھی ہندوستان کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا کس طرح علی گڑھ کے مقامی تراکیب ،تشبیہات اور اصطلاحات سے محظوظ و معمور ہو سکتا ہے۔ میں یہاں رشید صدیقی کی ادبی قد کاٹ سے منکر نہیں بلکہ اپنی نارسائی اور کم مائیگی کا رونا رو رہا ہوں۔ دوسری طرف مشتاق یوسفی اور مختار مسعود کی فکری آفاقی ہے جس نے زمان و مکان کے قیود سے نکل کر اپنی آپ بیتی کو جگ بیتی بنا ڈالا ہے۔ یوسفی کا موضوعاتی تنوع اور مختار مسعود کااسلوبِ جلیل نہ صرف میرے بلکہ جس نے بھی پڑھا اس کی علمی پرواز کو رفعت بخشی۔
رمیشا قمر: شاعر وادیب غم جاناں کو غم دوراں بنادیتے ہیں۔ یہ دونوں ادیب یعنی مشتاق احمد یوسفی اور مختار مسعود صاحبِ طرز ادیب ہیں اور ان دونوں کے رنگ کو آپ نے اپنے اندر جذب بھی کیا ہے جس کا ثبوت آپ کی تحریروں میں موجود ہے۔ میری خواہش ہے کہ اردوکے باذوق قارئین ان دونوں کے رنگ و آہنگ سے اچھی طرح واقف ہو جائیں ۔اس کے متعلق آپ رہنمائی فرمائیں ؟
الطاف یوسفزئی: جی ضرور۔۔ مگر یوسفی شناسی اور مختار مسعود فہمی کے لیے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ان کی کوئی بھی کتاب اٹھائیے،پڑھیے، سر دھنیے، لطف و حظ اٹھا ئیے۔ ان دونوں کو پڑھتے وقت آپ اس کیفیت میں نہیں ہوں جس میں میر تقی میر کا بیچاری شمع پڑ گئی تھی۔
رمیشا قمر: وہ کونسی کیفیت تھی؟
الطاف یوسف زئی: رات بھر شمع سر کو دھنتی رہی
کیا پتنگے نے التماس کیا
رمیشا قمر: اچھا۔۔۔۔۔ پھر تو ضرور پڑھنا چاہیے۔ آپ نے سفر نامے پڑھے بھی ہیں اور لکھے بھی ہیں ا ن سفرناموں کے نام بتائیں جو آپ کو بہت پسند ہیں اور اپنی پسند کی وجوہات پر روشنی بھی ڈالیں اور ساتھ ہی اپنے اس سفر نامے کا بھی ذکر کریں جو آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے۔؟
الطاف یوسفزئی: ڈاکٹر صاحبہ آپ کو بتا دوں کہ میں نے کوئی سفر نامہ نہیں پڑھا اس لیے من پسند کون ہو سکتا ہے۔ اب تو میں شعوری طور پر بھی نہیں پڑھنا چاہتا کیونکہ میرا خیال ہے کہ جس صنف میں آپ بطور تخلیق کار اپنا حصہ ڈال رہے ہیں تو پھر دوسروں کی تحریریں پڑھ کے ان کی کیفیت یا ان کے اثرات سے نکل نہیں سکتے۔ اس لیے سفر نامے نہیں پڑھے جو میرے سفر نامے ہیں اسی لیے اس کا ذائقہ یا اس کا اسلوب باقی سفرناموں سے میرے پڑھنے والے مختلف بتاتے ہیں۔
رمیشا قمر: آپ ایک ادیب ہیں اور تخلیقی فنکار بھی جو کسی قسم کی پابندی اپنے اوپر عائد نہیں کرنا چاہتا ایسے میں آپ اپنے شعبے کے انتظامی امور کی ذمہ داریاں کس طرح سنبھالتے ہیں آپ کی ذہنی آزادی اور تخلیقی روش کیا آپ کی راہ میں حائل نہیں ہوتی؟
الطاف یوسفزئی: رمیشا جی !بڑا اچھا سوال آپ نے پوچھا کہ تخلیقی عمل سے گزرتے وقت کونسی رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ رکاوٹیں بالکل پیش آتی ہیں میری انتظامی مصروفیات نے میری تخلیقی صلاحیتوں کا گلا گھونٹا ہے لیکن ایک بات کہہ دوں کہ یہ جو تخلیقی عمل ہے یہ میرا من پسند عمل ہے۔ لہذا اس من پسند عمل کے لیے چاہے چوری چھپے کہہ دیں یا اپنے آپ کو تنگ کر کے کہہ دیں میں ایسے وقت نکالتاہوں جیسے محبوب کی گلی کو جانے کے لیے ایک عاشق نکالتا ہے۔
رمیشاقمر: ڈاکٹر صاحب آپ خود درس وتدریس کے شعبے سے جڑے ہوئے ہیں ایک اچھے استاد میں کس طرح کی خوبیاں ہونی چاہیے یہ سوال میں اس لیے کر رہی ہوں کہ آج بہت سارے استاد لعن طعن کے گھیرے میں گھرے ہوئے ہیں؟
الطاف یوسفزئی: جو آپ کا سوال ہے نا اس کا جواب میں دو انداز میں دوں گا۔یعنی ایک تو ہوتا ہے استاد اور دوسرا ہوتا ہے پسندیدہ استاد۔۔ جو پسندیدہ استاد ہوتا ہے اس کے اندر کئی چیزیں ہونی چاہیے چونکہ ان سے محبت کی جاتی ہے وہ اچھا لگتا ہے ان کی گفتگو اچھی لگتی ہے ان سے سیکھا جاتا ہے ۔مطلب ہے کہ پڑھتے وقت ذرا راحت محسوس کرتے ہیں تو اس بندے کے اندر جو صلاحیت ہے ناکمال جسے آپ کہیں وہ ضرور ہونی چاہیے۔۔جو بھی چیز پڑھائے وہ اس انداز میں پڑھائے کہ دوسرا یہ کہے کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے تو تب کہیں آپ من پسند استاد ہو سکتے ہیں۔ پھر ویسے بھی استاد جو ہوتا ہے نہ یہ رہنما ہوتا ہے لیڈر ہوتا ہے اقبال نے بڑی پیاری بات کی ہے۔
ع:نگاہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز
نگاہ کی بلندی ہو یعنی آپ کے پاس بہترین نالج ہو علم ہو visionary چیزیں آپ کے پاس ہوں۔ سخن دل نواز آپ کا دل جو ہے محفل ،کلاس ،طلبہ سے جڑا ہوا ہو اور ان کی کیفیت کو سمجھنے کی صلاحیت ہو ۔کس انداز میں دلوں میں اپنی بات بٹھانی ہے اور وہ اسلوب بھی آتاہو۔ جاں پرسوز ان کے لیے پرسوز حالت بھی آپ کے اندر ہو۔ اس طرح کی چیزیں مل کر آپ کو ایک بہترین استاد کے ساتھ ساتھ ایک اچھا رہنما بناتے ہیں۔ اب مجھے نہیں پتہ میرے اندر یہ صلاحیت کس حد تک ہے اور میرے طالب علم کیا اس حد تک مجھ سے محبت کرتے ہیں ۔
رمیشاقمر: نگاہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز !خوب کہی۔۔الطاف صاحب آپ کے زیر نگرانی کئی ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے گئے ہیں۔کیا آپ اپنی زیر نگرانی انجام پانے والے تحقیقی مقالوں سے مطمئن ہیں اگر جواب نفی میں ہے تو اس کے اسباب پر پھر روشنی ڈالیں؟
الطاف یوسفزئی: محقق طلبہ کے کام کے حوالے سے آپ نے لفظ ‘انجام ’اچھا استعمال کیا ہے کیونکہ ان کا انجام کوئی اچھا نہیں ہوتا۔ بر صغیر پاک و ہند میں ،میں دیکھ رہا ہوں کہ ادب و لسانیات اسپیشلی اردو کے حوالے سے کوئی اچھا کام سامنے نہیں آرہا۔بچے بھی کنی کترا رہے ہیں ۔محقق بھی شارٹ کٹ کی طرف جاتا ہے وہ بھی چاہتا ہے کہ کوئی آسان راستہ نکلے۔ محنت نہیں کرتا۔ کچھ لوگ بائی چوائس by choice نہیں بائی چانسby chance آتے ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہ ایک آسان راستہ ہے اور بڑے آرام سے یہ ہو جائے گا لیکن ان کھٹن مراحل سے جب پالا پڑتاہے تو پریشانی لاحق ہو جاتی ہے۔۔اقبال کا ایک بڑا اچھا شعر ہے۔ اس کے معنی تو کچھ ہیں مگر میں تحریف کرکے تساہُل پسند محقق کی طرف موڑنا چاہوں گا ۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں‘‘محقق’’ ہونا
یہ جو تحقیق ہے کہ کیسے کی جائے اور کس طرح کی جائے یہ مشکل کام ہوتا ہے اور مشکل کام تک رسائی جیسے اقبال نے محبوب کی گلی میں قدم رکھنے سے تشبیہ دی ہے مشکل کام ہے ہے لیکن آج کل کے جو ریسرچر ہیں وہ اس طرف نہیں جاتے تکلیفات ِ الفت کو تکلفاتِ الفت سمجھ بیٹھے ہیں شاید اسے لیے کوئی بڑا کام سامنے نہیں آرہا۔ مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ اچھے کام بھی سامنے آئے ہیں اور میرے خیال میں اگر کوئی بہترین نتائج محقیقین نہیں دے رہے مگر بہتر نتائج پھر بھی دے رہے ہیں۔
رمیشا قمر: الطاف صاحب آپ سفر نامہ نگار بھی ہیں شاعر بھی،ناقد بھی اور مترجم بھی یہ بتائیں آپ کس صنف میں لکھ کر مطمئن ہوتے ہیں؟
الطاف یوسفزئی: شاعر تو میں اپنے آپ کو بالکل بھی نہیں سمجھتا گفتہ اقبال نغمہ کجا و من کجا۔ ہاں یہ بات ہے کہ نقد و سفر پر چند تحریریں منتقل قرطاس کر چکا ہوں اسی طرح تراجم بھی کچھ کیے ہیں۔ میرے لیے یہ ادبی جہتیں اپنی اولاد کی طرح ہیں اب بندہ کیا بتائے کہ کو نسا بچہ زیاد پسند ہے اور کون سا کم۔۔۔ ہر ایک کا اپنا ذائقہ ہے اور اپنالطف۔
رمیشا قمر: جتنے انٹڑویوز ابھی تک لیے ہیں سبھی کا تقریبا یہی جواب ہوتا ہے کہ ہمارے بچوں کی طرح ہیں کس کو اچھا کہیں کس کو نہیں ۔۔ہا ہا ہا۔۔۔الطاف صاحب یہ بتائیں ایک اچھے سفر نامے میں کن کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟
الطاف یوسفزئی: رمیشاصاحبہ آپ کا یہ سوال چونکہ اچھے سفرنامے کے اندرقارئین کیا کیا دیکھنا چاہتے ہیں اس کا جواب دینے سے میں قاصرہوں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ تو قارئین ہی بتا سکیں گے کہ کون سا سفر نامہ اچھا ہے اور کون سا نہیں۔لیکن ہر سفرنامے کا اپنا ہی اسلوب، موضوع اور خیال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ تھائی لینڈ جاتے ہیں تو وہاں کی جو رنگینیاں ہیں، جو آزاد ماحول ہے اور لوگوں کو جو لبرٹی liberty اورشخصی آزادی حاصل ہے اس حوالے سے زیادہ لکھا جائے گا جبکہ مصر کے سفرنامے میں فراعینِ مصر اور تاریخ کو پیش کیاجائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی سفر نامہ حج اور عمرے کا ہے اس میں مناسک اور احکام پر لکھا جائے گا کیونکہ مذہبی سفرنامے کا اپنا اسلوب ہونا چاہیے۔ تاریخی ممالک کے سفرنامے کا الگ طرز ہوتاہے۔اسی طرح یوروپ کا اپنا ایک سماجی نظام ہے، وہاں کا خاندانی اور تعلیمی نظام کیسا ہے۔ ترقی کی وجوہات کیا کیا ہیں سفرنامہ نگار کے بڑے موضوعات یہی ہوں گے۔ اور سفر نامہ اگر ہندوستان کے حوالے سے ہو تو ہندوستان بہت بڑا اور کثیرالمذاہب ملک ہے وہاں کی ہم آہنگی، تہذیب وثقافت،زبان,مذہب اور مشترک کلچر پر بات ہوگی۔ میری رائے ہے کہ سفرنامے کا کوئی باقاعدہ فارمیٹ proper format نہیں ہے کہ اسی format کے تحت لکھا جائے.مثال کے طور پر رضا علی عابدی کا بہت پیارا سفرنامہ ہے ‘شیر دریا’ جو دریائے سندھ کے کنارے آباد بستیوں اور وہا ں پنپنے والے تہذیبوں کے بارے میں ایک خوب صورت سفرنامہ ہے۔ دریائے سندھ کاہندوستان میں شاید کچھ اور نام ہوگا چین سے جس کا منبع نکلتاہے اور پھر لداخ سے ہو کر پاکستانی گلگت میں داخل ہوتا ہے اور پھر بحیرہ عرب میں یہ گرتا ہے۔ اب وہی شخص ”ریل کہانی” لکھتا ہے پشاور سے کلکتہ تک جو ریل کی پٹری انگریز دور میں بچھی ہے وہ کیا بدلاؤ برصغیر میں لائی ہے سماجی سفری اور معاشی طور پر۔ اب لکھاری ایک ہے سفر بھی انہی دو ممالک ہندوستان اور پاکستان کا ہے لیکن ایک دریا کے کنارے اور ایک ریل کی پٹری کے ساتھ۔ مگر پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ دونوں سفرناموں کا اسلوب الگ ہے تو میرے خیال میں کسی بھی سفرنامے کو ایک ہی فارمیٹ میں لکھنا درست نہیں ہوگا ہرسفرنامے کا مواد موضوع اور فارمیٹ الگ ہونا چاہیے اور اس کے مطابق یہ اس سماج اور ماحول کو مدنظر رکھ کر لکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکن تہذیب کا حصہ ہے اسکول سے بچے جب گھروں کو لوٹتے ہیں تو بڑے بزرگ بس میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان بچوں کو بیٹھنے کو کہتے ہیں یہ ان کی تہذیب ہے ۔ہمارے ہاں تربیت الٹ ہے ہمارے ہاں بچے اٹھ جاتے ہیں بزرگ کو جگہ دیتے ہیں۔لہذا آپ کو ہر سماج کے مطابق ان چیزوں کو پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس کو اچھا برا آپ ثابت نہیں کر سکتے یہ کام قارئین کا ہے۔آپ نے صرف اس کو لکھنا ہے کیمرے کی تصویر ان کے سامنے رکھنی ہے ذرا سا اپنا خیال اور نکتہ نظر شامل کر کے تاکہ کاربن کاپی یا روداد نہ لگے بلکہ ایک ادبی تخلیق لگے۔ اسی طرح ایک ہی منزل اور مقام پر کئی سفرنامہ نگاروں نے سفرنامے لکھے ہوتے ہیں۔ مگر وہ بھی ایک جیسے فارمیٹ میں نہیں ہوتے کیونکہ اسلوب اور فکرو نظر ہر لکھاری کا جداگانہ ہوتا ہے۔
رمیشا قمر: اسلوب کی بات سے متفق ہوں صاحب اسلوب ہونا ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں کیونکہ اس میں لگتی ہے کام سے محنت اور محبت زیادہ ۔۔الطاف صاحب آپ نے مصر،تھائی لینڈ اور ازبکستان کے ادیبوں اور دانشوروں سے ملاقاتیں اور گفتگو کی۔وہاں کی جامعات اور علمی وادبی انجمنوں کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اس حوالے سے یہ جاننا چاہوں گی کہ وہاں کے موسم،ماحول،علم ادب اور سے آپ واقف ہیں کیا آپ ادب کے موجودہ منظر نامے سے مطمئن ہیں؟
الطاف یوسف زئی : جی بالکل! ادب ان تمام سماجوں کے رہنے والوں کے کیفیات کا احاطہ کرتا ہے جن سے وہاں کے باسی گزرتے ہیں۔ ہاں یہ ہے کہ ہر سماج کے خوشی، غم اور اخلاقیات کے اپنے اپنے زائچے ہیں جس کو پرکھنے کے لیے اسی کا استعمال بہتر ہے۔مثال کے طور پر تھائی سماج اگر عورت کا بہ طور سکس ورکر کام کو اپنے ملک کی معاشی ترقی کا ضامن سمجھتا ہے اور وہ سکس ورکر خاتون بھی اپنے اس عمل کو گداگری کے عمل سے بہتر اور باعزت جاب سمجھتی ہے (جو کہ پاکستان ہندستان میں اس کی ترتیب معکوس ہے ) یا یہ کہ مصری سماج کو فرعونی تہذیب و تمدن کی تشہیر سے اس قدر محبت ہے کہ جامع الازہر کی دیواروں کے ساتھ سامری کے بچھڑے، نفرتتی، رعمسیس کے مجسموں کے سیوینی رز سیاحوں کے لیے برائے فروخت رکھیں ہیں تو ہمیں یا ازبیکستانی سماج میں مسلمان خواتین اگر سکرٹ میں گھومتی ہیں مگر چوری ،دروغ گو ئی ،بے راہ روئی سے دور رہتی ہیں۔ اور وہاں کا سماج اور ادب اگراس کے عمل کو بہتر سمجھ کر قبول کررہا ہے تو ہم ہندوستان پاکستان والوں کو یہ حق نہیں کہ اس پر طنز و تشنیع کی بارش کرے۔میرے کہنے کا مقصد یہ ہے ادب زندگی کا عکاس ہوتا ہے اور جو کچھ اس سماج اور وہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں ہو گا وہ ادب کا حصہ ہوگا۔ اس لیے میں ان تمام سماجوں پر لکھے جانے والے ادب کو غلط کہنے یا ان سے غیر مطمئن ہونے کا حق و اختیار نہیں رکھتا۔
رمیشا قمر: اسی لیے تو ادب کو حیات انسانی کی تفسیر کہا گیا ہے جناب !میں خود بحیثیت استاد اس سوال سے گزرتی ہوں طلبہ اکثر یہ پوچھتے ہیں کہ اردو پڑھ کر کریں گے کیا۔ یہ سوال ان کے والدین اور گارجین کے منہ سے بھی اکثر و بیشتر اچھلتا رہتا ہے حالانکہ یہ سوال کبھی ہندی اور انگریزی کے سلسلے میں نہیں اٹھتا جبکہ وہ بھی ملازمت کی گارنٹی نہیں دیتیں۔میں آپ سے جاننا چاہوں گی کہکیا زبانیں روز گار کے حصول کے لیے پڑھی جاتی ہیں یا ان کے سیکھنے اور پڑھنے کا کوئی اور مقصد ہے؟پھر یہ بھی کہ اس طرح کی شرط صرف اردو کے ساتھ ہی کیوں دوسری زبانوں اور دوسرے سبجیکٹ کے ساتھ کیوں نہیں؟
الطاف یوسفزئی: رمیشا جی آپ کا سوال درست ہے۔اردو زبان روزگار میں کس طرح معاون ہے انگریزی اور ہندی جس طرح آپ نے کہا کہ ان زبانوں کے حوالے سے سوال نہیں اٹھائے جاتے۔دیکھیں کوئی بھی زبان جو ہے اس سے روزگار کی فراہمی نہیں ملتی اور اس کو اداروں میں برائے روز گار پڑھایا جائے گا تو سوال تو ہوں گے پھر ان پڑھنے والوں کا بنیادی مقصد اگر روزگار ہے پھر تو ظاہر ہے یہ سوال ان خاندانوں،والدین اور ان بچوں کا اپنی جگہ پر درست ہے کہ کیا آگے جا کر ہم مارکیٹ میں اس سے کچھ کما سکیں گے۔ اس سے کوئی فائدہ حاصل کر سکیں گے۔ آپ نے انگریزی اور ہندی کا کہا ہندوستان ایک بڑا ملک ہے اور ہندی آپ کی قومی اور سرکاری زبان ہے۔دوسری طرف انگریزی بین الاقوامی زبان ہے اور ہم مجبوری میں سہی یہ زبان سیکھتے بھی ہیں یہ کمال تو ہمیں ماننا پڑے گا انگریزی کا کہ اس نے پوری دنیا کو مجبور کر دیا ہے کہ اگر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو یہ زبان سیکھیں۔بہرحال اس کے opposite بھی بڑی مثالیں موجود ہیں جیسے چین روس اور جاپان جنہوں نے اپنی زبان میں ترقی کی ہے۔ بہرحال یہ ایک بحث ہے لیکن اگر میں روزگار کے حوالے سے ہندوستان اور پاکستان کی بات کروں بالخصوص اردو کے حوالے سے تو اگر مارکیٹ کے ساتھ ہم نے اسے منسلک نہیں کیا تو یہ سوال آئیں گے اور ہمیں اس سے پریشان ہونا بھی چاہیے کہ ہم ہی تو اداروں میں پڑھانے والے ہیں آپ بھی پڑھاتی ہیں ،میں بھی پڑھاتا ہوں، اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کس حد تک اس کو مارکیٹ کی زبان بنا سکتے ہیں۔ اب جدید ٹیکنالوجی نے اس کے لیے آسانی کر دی ہے اب بہت سارے لوگ وی لاگز بناتے ہیں، یوٹیوب چینل بناتے ہیں اور اس میں اردو زبان کو بطور میڈیم استعمال کر کے بہت کچھ حاصل کر رہے ہیں۔ یہ بات میں مانتا ہوں کہ وہ روزگار جو انگریزی زبان کے بچوں کو جلدی ملتا ہے وہ ہمارے بچوں کو بہت کم ملتا ہے تو ہمیں اس حوالے سے سوچنا ہوگا کہ اردو کا مارکیٹ سے انسلاک ضروری ہے اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ہندوستان کا تو چلیں آپ کو زیادہ علم ہوگا۔ لیکن پاکستان میں بہت سارے چینلز ہیں اخبارات ہیں جہاں بہتر روز گار کا حصول ممکن ہے۔ ہمارے ملک میں انگریزی والوں کے لیے مسئلہ ہے کیونکہ انگریزی پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے جبکہ اردو والوں کی تعداد سندی علوم و تحقیق تک بہت کم لوگ پہنچتے ہیں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل لوگ بھی کم ہیں اسی لیے ان کو نوکریاں جلدی مل جاتی ہیں جس ادارے میں میں پڑھا رہا ہوں میرا کوئی پی ایچ ڈی بے روزگار نہیں ہے ۔ایم فل کے کچھ بچے ہیں جو بے روزگار ہیں۔مگر وہ بھی پرائیویٹ سیکٹر میں کھپ جاتے ہیں یا گورنمنٹ سیکٹر میں آ جاتے ہیں کچھ سوشل میڈیا میں چلے جاتے ہیں تو اردو والوں کے لیے میں نہیں سمجھتا کہ روزگار نہیں ہے .
رمیشا قمر: سوشل میڈیا نے آمدنی source of incomeاور erningکے مختلف ذرائع پیدا تو کیے ہیں ہمیں بس لوگوں تک ان ذرائع کے متعلق شعور کو بیدار کرنا ہے تاکہ وہ اس سے استفادہ کرسکیں ۔۔الطاف صاحب یہ بتائیں کہ تنقید لکھتے وقت آپ کا مخاطب ادب کا قاری ہوتا ہے یا ادیب۔ آپ ادب کو قاری کی حیثیت سے پڑھتے ہیں یا نقاد کی حیثیت سے؟
الطاف یوسفزئی: رمیشاصاحبہ آپ کا سوال بڑا valid ہے یہ ایک بحث ہے کہ آیا کوئی بھی تخلیق ہو تو اس کو قاری کے تناظر میں پڑھا پرکھا جائے،یا تخلیق کار کو مدنظر رکھ کر، یا یہ کہ متن کے حساب سے پڑھا پرکھا جائے۔ یعنی تنقید کو جب ہم دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں یہ قاری اساس تنقید ہے یا یہ متن اساس تنقید ہے۔جہاں تک میرا سوال ہے تو میں سب سے پہلے کسی بھی فن پارے سے حظ اٹھاتا ہوں۔ شخصیت بہت بعد میں سامنے لے کے آتا ہوں اور اس متن سے اور مواد سے لطف لیتا ہوں۔کس اسلوب اور پیرائے میں باندھا گیا پھر سر دھنتا ہوں کیونکہ ادب کا بنیادی کام ہی تو حظ پہنچانا ہے۔ میں میرؔ کے شعر سے پہلے لطف لیتا ہوں پھر میرؔ کو تصور کرتا ہوں میرؔ کا زمانہ میرؔ کا ماحول اور ان چیزوں کو بعد میں ذہن میں لے کر آتا ہوں کیونکہ میرا پہلا کام تو یہی ہے کہ میں ان کے فن پارے کو پڑھ رہا ہوں نہ کہ ان کی شخصیت کو جن کی یہ تخلیق ہے۔ ویسے بھی تخلیق کار اگر کسی بھی فن پارے میں اپنے ہونے کا اظہار یہ بار بار لے کر آتا ہے تو وہ فن پارہ ٹوٹ جاتا ہے وہ لامکانی اور لازمانی نہیں رہتا پھروہ مکان اور زمان کے قیود میں بند ہو جاتا ہے۔ میر ؔکے کلام کو اگر ہم فقط دلی کے اجڑنے سے منسوب کرتے ہیں اور فقط دلی کے ماحول کو تصور میں لاتے ہیں تو پھر ہم نے ان کی فکر اور خیال کو محدود کر دیا ۔دلی ہی نہیں اور بھی شہر اجڑے ہیں۔ اب بھی اجڑتے ہیں اور ان کے اجڑنے کا طریقہ بھی ایک جیسا ہوتا ہے انسان مرتے ہیں، معیشتیں تباہ ہوتی ہیں، تہذیب روایات اقدار سب کچھ ملیا میٹ ہوجاتا ہے ،بچے خواتین بزرگوں کو زچ پہنچتی ہے، وہ مر جاتے ہیں ،ہر جگہ ایسا ہی المیہ و جود میں آتا ہے۔ لہذا میرؔ کا وہ شعر ”یہ نگرسو مرتبہ لوٹا گیا ”یہ شعر صرف دلی کے لیے نہیں ہے بلکہ ہر اس شہر پر صادق آتاہے جہاں پر کوئی حملہ کیا گیا اور ظالم نے ظلم کے پہاڑ ڈھائے ہوں۔ اسی لیے میں تو ادب اور فن کو اسی تناظر میں دیکھتا ہوں نہ کہ مکانی وزمانی تناظر میں۔ ہر شہر کے اجڑنے کی تاریخ اور کردار مختلف ہوتے ہیں مگر شہر آشوب یکساں ہوتے ہیں۔
رمیشاقمر: فن ہی تو فن کار کے مقام اور حیثیت کا تعین کرتا ہے میں بھی اس بات سے متفق ہوں کہ فن پارے پر بات کی جائے نہ کہ فنکار پر۔ الطاف صاحب اگر ہم مغربی ادب پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں کے ادیب بیک وقت تخلیق اورتنقید سے اپنا رشتہ قائم رکھتے نظر آتے ہیں جبکہ مشرقی ادب میں ایسا بہت کم ہوتا ہے شاید اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ تنقید کا وہ معیار ہم قائم نہیں کر پائے۔سنجیدہ تنقید کمیاب ہے اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
الطاف یوسفزئی: پہلی بات تو یہ ہے رمیشاجی ہم نے مغرب کے ادب کو یا مغربی تنقید کو کتنا پڑھا ہے۔ یہ سنی سنائی باتیں ہیں جو ٹریول travel کرتی ہم تک پہنچی ہیں۔ چونکہ ہم مغرب سے متاثر ہیں وہ ہمارا حاکم رہا ہے اور ہم غلام لہذا غلاموں کو آقاؤں کی ہر بات بھلی اور اچھی لگتی ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ وہاں کا نقاد تخلیق سے بھی جڑا ہے اور تنقید سے بھی۔ اس میں کس حد تک ہماری جانکاری صحیح ہے اور ہمارے پاس کتنی معلومات ہیں۔ اگر میں بحیثیت مجموعی دیکھوں تو بر صغیر کاجو مزاج ہے وہ بت بنانے کا ہے۔ ہم ادب میں بھی بت بناتے ہیں بت تراشتے ہیں حالانکہ تنقید جو ہے وہ دو چیزوں کا مرکب ہے۔ اس میں اچھائی بھی دیکھی جاتی ہے برائی بھی۔ خامیاں بھی اور خوبیاں بھی۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں جب کوئی بڑے قد کاٹھ کا ادیب سامنے آتا ہے تو ہم اس کے آگے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں جیسا میں نے پہلے کہا کہ ہم صنم تراش لوگ ہیں بت تراشتے ہیں اور اس کے آگے خود ہی سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔یہی ادب میں بھی ہے ہم بڑا بت بنا کر پیش کرتے ہیں اور مجال ہے کوئی اس کے خلاف بات کرے۔ ہمارے پاس اردو میں اقبالؔ، غالبؔ اور میرؔ یہ بڑے نام ہیں لیکن اب اگر کوئی ان کے کلام میں نقص نکالے نا،پھر دیکھنا یہ سماج اور ادیب ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔گو کہ یگانہ چنگیزی نے غالب شکنی کے حوالے سے نام کمایا یا اسی طرح اقبال کے مخالفین سامنے آئے۔ لیکن دوسری طرف وہ مخالفت بھی کوئی معقول مخالفت نہیں ہوتی بلکہ ذاتی بغض اورعناد کی بنا پر ہوتی ہے۔ نقاد کاپہلا کام یہ ہے کہ وہ غیر جانبدار رہے مگر ہمارے یہاں نہ نقاد غیر جانبدار ہیں اور نہ تخلیق کار کے پیروکار۔ وہ تخلیق کار کے چیلے ہوتے ہیں جو ادب کو صحیح طریقے سے پروان چڑھنے نہیں دیتے۔تو یہ بر صغیر کا بے شک المیہ ہے کہ یہاں پر ہم تخلیق کار کے ہاں غلطی کی گنجائش نہیں رکھتے اور ادھر سے ہی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔یورپ میں ایسا نہیں ہے جو چیز غلط ہے تو غلط ہے جو ٹھیک ہے سو ٹھیک ہے اسی لیے وہاں پر تنقید صحیح طریقے سے پروان چڑھی ۔
رمیشا قمر: نقاد کا غیر جانبدارہونا انتہائی ضروری ہے جو کچھ تم کہو اس میں سچائی اور بے باکی ہونی چاہیے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمارے ادیب و شاعر نقاد اور تنقید کے مفہوم سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور دوسری طرف نقاد اپنے اہم فرائض سے غافل ہیں۔۔ڈاکٹر صاحبہ اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کے کن ادیبوں نے متاثر کیا اور کیوں؟
الطاف یوسفزئی: میں نے اردو کے علاوہ بہت سارے مختلف ادیبوں کو پڑھا ہے پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ اردو پر اثرات براہ راست فارسی کے ہیں میں نے رومی کو پڑھا ہے حافظ کو پڑھا ہے۔ یہ بڑی زبان کے بڑے شاعر ہیں اور ان کے یہاں کسی بھی فن پارے اور کسی بھی مواد کو برتنے کا ایک بہتر طریقہ ملتا ہے ایک عام خیال کو کس طرح منفرد بنا کر پیش کرتے ہیں بلا شبہ ان ادیبوں کے یہاں موجود ہے۔ ازبک زبان کے ایک بڑے شاعر ہیں علی شیر نوائی جو فارسی میں بھی لکھتے رہے ہیں میں نے ان کو بھی پڑھا ہے اور بہت کچھ سیکھا ہے۔اِن کے علاوہ یورپ کی طرف جائیں تو شیکسپیئر کو پڑھا ہے المیے کو اپنے ڈراموں میں جس انداز میں انھوں نے پیش کیا ہے کم ہی ادیبوں کو یہ ملکہ حاصل ہے۔
اس کے علاوہ کئی یورپین ادیب ہیں جن کے تراجم میں نے پڑھے ہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔میری مادری زبان پشتو ہے اور پشتو میں بڑے شعراء اور ادیب ہیں جن سے میں نے استفادہ کیا ہے پشتو زبان کے ایک بڑے صوفی شاعر رحمان بابا ہیں ان کا کلام ایک پُرسوز کلام ہے۔ان کو میں جب بھی سنتا ہوں نئے معنی اور تازہ فکر حاصل کرتا ہوں۔ اسی طرح ایک اور شاعر غنی خان جو کہ ایک سیاسی گھرانے کے سپوت ہیں (ان کے والد باچا خان انگریز سرکار سے ہندوستان کی آزادی میں پیش پیش رہے ہیں گاندھی جی اور گانگرس سے قریبی مراسم تھے) الفاظ کو برتنے اور نئے معنی نکال لینے میں کمال مہارت رکھتے ہیں سے میں نے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی ہے۔لہذا میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے فقط ایک ہی چشمے سے علمی آبیاری نہیں کی بلکہ میں نے ادبی حوالے سے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔
رمیشاقمر: واقعی آپ کا مطالعہ وسیع اور کثیر الذبان رہا ہے ادیب کو گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا چاہیے ۔۔یہ بتائیں پروفیسر صاحب فن اور مواد میں اہم کیا ہے؟
الطاف یوسف زئی: یہ بڑا منفرد سوال ہے آپ کا فن اور مواد میں اہمیت کا۔ اصل میں مواد کو سلیقے سے برتنے اور پیش کرنے کا ہنر فن کہلاتا ہے اب اگر بے تحاشہ مواد موجود ہے لیکن سلیقے سے پیش کرنے کا ہنر پاس نہیں ہو تو یہ ایک ڈھیر تو ہے لیکن کوئی اچھی تخلیق سامنے نہیں آتی اس کی افادیت سامنے نہیں آئے گی اور اگر فن آپ کے پاس موجود ہے اور مواد نہیں ہے تو اپ کیا پیش کریں گے لہذا دونوں لازم و ملزوم ہیں۔
رمیشا قمر: میری مادری زبان اردو ہے اور آپ کے ملک کی قومی زبان۔۔ ساتھ ساتھ یہ ہماری روزی روٹی کی بھی زبان ہے اور ہماری اس پیاری اور شیریں زبان کے متعلق کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ یہ دم توڑ رہی ہے۔بس آخری سانسیں لے رہی ہے اور اس کے لیے وہ تدبیریں بھی نہیں کی جا رہی ہے کہ یہ زندہ رہ سکے۔ غیر تو غیر اس کے اپنے بھی اس کی بقا کے تئیں سنجیدہ نہیں ہیں اس کے برعکس ایک دوسری رائے بھی گشت کرتی رہتی ہے کہ اردو خوب پھل پھول رہی ہے۔ بڑے بڑے مشاعرے ہو رہے ہیں۔بین الاقوامی سیمنار منعقد کیے جا رہے ہیں۔ زوم پر آن لائن پروگرام ہو رہے ہیں ۔ ہزاروں ادبی و لسانی فورم کام کر رہے ہیں۔آپ بتائیے کہ موجودہ دور میں اردو کی صحیح صورتِ حال کیا ہے؟ ہم اردو والوں کو اپنی زبان کے لیے خوش ہونا چاہیے یا فکر مند؟
الطاف یوسفزئی: ڈاکٹر صاحبہ اردو کہیں دم نہیں توڑ رہی،اس سماج سے کہیں جا نہیں رہی۔ اردو یہاں پر موجود ہے۔ اس میں دخیل الفاظ آگئے ہیں دوسری زبانوں کے لیے تو یہ زندہ زبان کی مثال ہے۔آپ سنسکرت کی مثال لے لیں سنسکرت اب ناپید ہے کتابوں میں ہے یا تاریخ کے جھروکوں میں آپ کو ملے گی۔عوامی زبان نہیں رہی اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں دخیل الفاظ کو روکا گیا دخیل الفاظ اگر نہ روکے جاتے اور دوسری زبانوں کے لفظ اس میں آتے تو یہ عوامی زبان ہوتی۔اردو ایک عوامی زبان ہے۔ اس میں گیت لکھے جا رہے ہیں۔ اس میں مشاعرے ہو رہے ہیں۔ آپ نے ٹھیک کہا اس میں جدید ٹیکنالوجی کا بھی استعمال ہو رہا ہے۔جدید ابلاغی ذرائع کے توسط سے اردو بولنے والوں کو اکٹھا کیا جا رہا ہے۔میرا نہیں خیال کہ اردو دم توڑ رہی ہے میں تو کہوں گا اردو پنپ رہی ہے نئے کپڑے پہن رہی ہے اردو ایک نئے ملبوس کے ساتھ سامنے آرہی ہے۔جو لوگ کسی ناسٹیلجیائی کیفیت میں ہے وہ کہیں گے نہیں ہمیں تو متروک الفاظ والی اردو چاہئے نئے الفاظ زیادتی ہے میں سمجھتا ہوں یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں زندہ زبانیں کروٹیں بدلتی رہتی ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ سماج اور بود باش میں جو بدلاؤ آتا ہے اس کے اثرات زبان قبول نہیں کرے گی۔ کیا لوگ جدید ذرائع کو استعمال نہ کریں اور زبان میں ان ذرائع کو جگہ نہ ملے ایسا ممکن نہیں۔مثال کے طور پر میر کے زمانے کی جو اردو ہے ۔
ع:ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
ابھی ٹک کا جو لفظ ہے اب وہ اردو میں مستعمل نہیں ہے اس کی جگہ اور لفظ آگئے ہیں۔تو اب ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ اردو ٹھیک تھی اور یہ نہیں ہے۔ اردو جو ہے اُس وقت اپنے ماحول سماج کے ساتھ جس بھی انداز میں بولی جا رہی تھی درست تھی اور اب جو بولی جارہی ہے یہ بھی درست ہے۔ اب اگر اردو میں فارسی اور عربی کے الفاظ کم ہو گئے ہیں اور انگریزی کے الفاظ زیادہ در آگئے ہیں تو وہ بھی آقاؤں کی زبان تھی جن کے زبانوں حروف اور لفظ ہماری زبان میں در آئے تھے اب انگریزی بھی دنیا کی حکمران زبان ہے جو دنیا بھر کی زبانوں کو اپنے لفظ دے رہی ہے۔ یہ اردو کی صلاحیت ہے کہ وہ اپنے اندر جذب کر کے ان الفاظ کو اپنے معنی پہنانے کی کوشش کرتی ہے جس میں بڑی حد تک اردو زبان اور اس کے بولنے والے کامیاب بھی ہیں۔
رمیشاقمر: میں اپنا ایک شعر سنانا چاہوں گی
میں شیدائے اردو رمیشا قمر ہوں
زمانے میں ممتاز بولی ہے میری
اردو زبان میں انجذابی قوت ہے اور دنیا کے تقریبا ہر خطے میں بولی جاتی ہے ۔۔۔آخری سوال کسی بھی ادب میں انٹرویو کی کیا اہمیت ہے انٹرویو ادب اور ادیب کو سمجھنے میں کس حد تکامعاون و مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟
الطاف یوسفزئی: انٹرویو کو ہم مصاحبہ کہیں تو بہتر ہوگا یہ صحبت سے ہے۔آپ اکٹھے بیٹھتے ہیں۔ بہت ساری چیزوں پر بات کرتے ہیں تو اس میں بنیادی چیز مکالمہ ہے۔ مکالمہ کرتے ہیں، سوال اٹھائے جاتے ہیں ،جواب دیے جاتے ہیں یہ تو بہت بڑا کام ہے۔ دیکھیں اگر آپ یونان کو سامنے رکھیں نا تو یونانیوں نے سب سے پہلے ایک بات کی تھی کہ بات کیا کریں،بولا کریں،سوال اٹھایاکریں۔سقراط کو زہر کا جو پیالہ دیا گیا تو ان کا قصور کیا تھا ان کا گناہ یہی تھا نا کہ انہوں نے نوجوانوں کو سمجھا یا کہ بات کریں ایشوز پر بات کریں۔ یہ جو مصاحبے ہوتے ہیں اس میں بھی مسائل اور ایشوز پر بات ہوتی ہے۔ ادیب سے انٹرویو میں ایک اور بھی فائدہ ہے وہ یہ کہ جب ہم ان کی کسی تخلیقی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں چاہے شاعری ہو،افسانہ ہو،ناول ہو تو اس میں وہ عوامی یا روز مرہ کے اسلوب میں بات نہیں کر سکتا جبکہ انٹرویو میں وہ روزمرہ میں بات کرتا ہے اور آسانی اور روانی سے بات کر سکتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں یہ بہت بڑا کام ہے۔ میرے خیال میں آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ انٹرویو کی روایت پر لمبے عرصے سے اوس پڑی ہے۔ میں تو رمیشا جی ا ٓ پ کا ممنون ہوں اورآپ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ نے اس روایت کو پھر سے زندہ کردیا۔بات سے بات نکلنی چاہیے سامنے آنی چاہیے انٹرویوز ہونے چاہیے۔ مصاحبے ہوں گے تب تو اچھے اور برے کی پہچان سامنے آئے گی اور اس سماج میں جو گھٹن ہے وہ ختم ہوگی۔
رمیشا قمر: الطاف صاحب آپ سے مصاحبہ کرکے اچھا لگا ۔بہت شکریہ۔
الطاف یوسفزئی : آپ نے بہت ہی اچھا سلسلہ شروع کیا ہے اس کے لیے میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور مجھے سننے اور سمجھنے کے لیے یہ خوبصورت سوال جواب ہوئے اس کے لیے ممنون ہوں ۔
رمیشاقمر: الطاف صاحب آپ نے میرے لیے وقت نکالا ۔میرے سوالوں کے تسلی بخش جواب دیے مجھے بہت اچھا لگا بہت شکریہ۔اللہ حافظ۔
***