You are currently viewing بازگشت جدید  تنقید و تحقیق کا عمدہ مجموعہ

بازگشت جدید  تنقید و تحقیق کا عمدہ مجموعہ

نعمان نذیر

روالپنڈی

بازگشت جدید  تنقید و تحقیق کا عمدہ مجموعہ

ہمارے ہاں ہنوز خواتین لکھاریوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ خصوصا نثر کی بات کی جائے تو اس میدان میں مرد و خواتین دونوں کی نسبت شاعری کے میدان میں زیادہ تعداد نظر آتی ہے۔ سوشل میڈیا کی بھرمار نے شعرا کی کثیر تعداد پیدا کر دی ہے ۔عمومی رویہ بھی یہی دکھائی دیتا ہے کہ لوگ شاعر بننے کو ترجیح دیتے ہیں ۔یہ الگ معاملہ ہے کہ کیا محض خواہش کا ہونا ہی کافی ہے یا معیار اور کوشش، مہارت بھی۔۔۔؟

بات تحقیق و تنقید کی کی جائے تو خواتین نقادوں اور محققین کی تعداد زیادہ دکھائی نہیں دیتی۔ ادب سے جڑی نوجوان نسل ایسا راستہ اپنانے کو ترجیح دیتی ہے جو زندگی کے دوسرے معاملات کی طرح ان کو برق رفتاری  سے شہرت کی سیڑھیاں چڑھا کر کو ہ کے سر پہ لا بٹھائے۔ تحقیق و تنقید ایک مشکل اور کٹھن مرحلہ ہے۔ قاری متن کو پڑھتے ہوئے خود بھی المیے اور کرب سے گزر کر نئے راستے تلاش کرتا ہے ۔متن کو پڑھنا اور اس میں سے مختلف پہلوؤں کی بازیافت کرنا جو بسا اوقات مصنف کے بھی مدد نظر نہیں ہوتے ۔جو مصنف کے لیے بھی نئے انکشافات کا باعث بنتے ہیں۔

اقبال کی سرزمین کو ادب سے جو نسبت ہے اس کا فیض ہنوز جاری و ساری ہے۔کومل کلیم جن کا ادبی نام کومل شہزادی ہے شہر اقبال کی ایک ایسی محنتی اور قابل نوجوان محقق اور مصنفہ ہیں ۔جنہوں نے کتاب سے اپنا گہرا رشتہ استوار کر رکھا ہے۔ کئی۔ کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں اور متواتر کئی برسوں سے ان کی تحقیقات، تخلیقات، مضامین تبصرے ملکی اور بین الاقوامی رسائل و جرائد کی زینت بن رہے ہیں۔افرا تفری اور مفادات پرستی کے اس دور میں محض کورس کی کتابوں تک محدود رہنے کے بجائے کلاسیکی ،جدید اور ما بعد جدید فکشن کی مختلف اصناف کا مطالعہ ان کا مشغلہ خاص ہے۔ تنقیدی مضامین ہی نہیں بلکہ ایک باشعور سکالر جو مختلف تصورات کو مد نظر رکھتے ہوئے متون کا مطالعہ اور عناصر کی بازیافت کرتی ہیں ۔زیر نظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔اس کے مضامین خالصتا اردو ادب کے قاری  ہی سمجھ سکتا ہے۔باز گشت حال ہی میں منظر عام پہ آنے والا ان کا تحقیقی و تنقیدی مجموعہ ہے ۔جن میں مختلف اصناف پہ لکھے گئے تنقیدی اور تحقیقی مضامین شامل ہیں ۔ان کے مضامین میں مثبت پہلو یہ ہیں کہ ایک باقاعدہ سکالر کا انداز اور محققانہ بصیرت دکھائی دیتی ہے۔ محض فرمائشی مضامین اور تبصرے کا انداز نہیں جس کا چلن آج کل عام ہوتا جا رہا ہے۔ادبی تھیوری کے تناظر میں انہوں نے مختلف نثری اور شعری اصناف کا تجزیہ کیا ہے۔

اکیسویں صدی میں بطور خاص ناول کی صنف کو مصنفہ نے موضوع تحقیق بنایا ہے۔ دور حاضر کے نامور ناول نگار حفیظ خان عاصم  بٹ اور حال ہی میں اکادمی ادبیات کے ایوارڈ یافتہ ناول نگار  حسن منظر کا ناول اور اکادمی ادبیات  کا ناول نمبر پہ مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین کی اکثریت مستند ادبی جرائد کا حصہ بن چکے ہیں۔

اکیسویں صدی کے ناول پہ مصنفہ کی گہری نگاہ ہے تیسری صدی میں ناول نگاروں کے ہاں موضوعات کا تنوع اور کثرت نظر آتی ہے۔ ایسے میں ناول اور ناول نگاروں کا انتخاب بھی گہری بصیرت کا غماز ہے۔ ناول نگاروں کے ہاں مابعد جدید تصورات کی کھوج انہوں نے اپنی علمانہ اور محققانہ  بصیرت سے کی ہے۔ شاعری کے موضوعات کو بھی انہوں نے اپنی گرفت میں لیا ہے ۔تانیثی تھیوری کو ایک عورت ہونے کے ناطے سمجھنا ایک خوشگوار اضافہ ہے۔ ہمارے ہاں مردو خواتین ادیب بھی رائج تصورات کی آنکھ سے ہی ادب اور سماج کو پر رکھتی ہیں اور آخر میں تذکرہ اس بات کا کہ انہوں نے اقبال کے شہر کی نسبت سے اقبال کو بھی اپنی اس کتاب میں ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ “اردو شاہرات کی شاعری پہ اقبال کے اثرات” اور “عہد حاضر کے شعراء پر اقبال کے اثرات( با حوالہ لاہور کے شعراء )کے عنوان سے مقالے بھی کتاب میں شامل ہیں۔کومل نہ صرف اقبال کے تصورات سے واقف ہیں بلکہ عہد حاضر کے شعراء اور شاعرات کے کلام سے بھی واقفیت رکھتی ہیں. ان کی یہ کتاب اردو کے قارئین اور یونیورسٹیوں میں تحقیق کرنے والے طالب علموں کے لیے خاص تحفے سے کم نہیں۔دعا گو ہوں کہ ان کا علمی سفر کامیابی سے جاری و ساری رہے ۔

***

Leave a Reply