You are currently viewing  “باڑ کھا گئی کھیت”

 “باڑ کھا گئی کھیت”

زیبا خان

گوپامؤ ، ہردوئی ، اتر پردیش

افسانہ

 “باڑ کھا گئی کھیت”

دس منٹ سے لگاتار بج رہی ڈوربیل کی کھنکھناتی ہوئی آواز سے صفیہ چڑ سی گئی،” کہاں مر گئی یہ رفیقن کی بچی…؟ کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے کیا.!!  فاطمہ ہولڈ کر میں ابھی آئی ۔ موبائل صوفے پر رکھ کر وہ بڑبڑاتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی۔ امی نماز سے فارغ ہو کر۔۔۔ دروازہ کھول چکی تھیں.. آؤ…صفدر  آؤ… کافی دنوں کے بعد ادھر کا رخ کیا۔ امی کے منھ سے مٹھاس بھرے لہجے میں صفدر کا نام سن کر زینے کی اور قدم بڑھاتی صفیہ سہم کر  وہیں رک گئی ۔۔اففف ۔۔۔یہاں بھی…. صفدر….

گاؤں سے شہر آے ہوئے تقریباً پانچ سال ہو رہے تھے۔ ان پانچ سالوں میں وہ گیارہ سال کی بچی سے سولہ سال کی خوبصورت لڑکی ہونے تک کا سفر طے کر چکی تھی۔ دل کے سرد خانوں میں گزشتہ سالوں کے اذیت ناک لمحوں کو چھپائے صفیہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے۔ زندگی بھی عجیب شے ہے،  اکثر اوقات زندہ رہنے کے لئے ضمیر کا خوں لازمی ہو جاتا ہے۔  بیزار لڑکھڑاتے قدموں سے کمرے کی طرف لوٹ رہی صفیہ کا جسم ماضی کی ان خوفناک یادوں سے سہر اٹھا۔ تھکے ہوئے وجود کے ساتھ آکر وہ صوفے پر لیٹ گئی۔ ادھر سے فاطمہ کی آواز آ رہی تھی۔

 ہیلو.ہیلو۔۔۔۔!!! ہیلو…  فاطمہ تو کچھ دیر بعد کال کر ۔

اوکے… لیکن تو اتنی گھبرائی ہوئی سی کیوں لگ رہی ہے؟ کیا ہوا صفیہ!! سب ٹھیک تو ہے نہ۔

ہاں میں.. وہ.. میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔لیکن ابھی تو بالکل ٹھیک تھی پھر اچانک کیا ہو گیا۔ کون آیا ہے ، کس کے لئے دروازہ کھولنے گیی تھی۔ وہ .. صف.. صفدر…!

کون صفدر… صفیہ تجھے اس نام سے پرابلم کیا ہے۔ میں نے نوٹس کیا ہے کالج میں صفدر سر کے کلاس میں تو ڈری ڈری سی رہتی ہے ۔ کون ہے یہ، کوئی پیار ویار کا چکر تو نہیں تھا، فاطمہ ہنسنے لگی ۔  پلیز.. فاطمہ اس موضوع پر پھر کبھی گفتگو ہوگی۔

نہیں صفیہ مجھے ابھی جاننا ہے۔ میں نے اکثر تجھ سے اس بارے میں بات کرنی چاہی لیکن تو ہمیشہ ٹال جاتی

 ہے۔ آج تو تجھے بتانا ہی پڑے گا۔

فاطمہ زندگی کی کتاب میں کچھ صفحات ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں ایک بار پلٹ کر دوبارہ نہیں کھولا کرتے ۔

لیکن صفیہ اگر ان صفحات کو نہ کھولا جائے تو زندگی کے بہت سے راز دفن ہوکر رہ جاتے ہیں۔ آخر ایسا کیا ہے جو تم بتانے سے قاصر ہو۔

فاطمہ یہ میرے بچپن کی کہانی ہے۔ ایک ایسی کہانی جسے سن کر شاید تم بھی اس نام سے نفرت کرنے لگو۔ مجھے یاد ہے اس وقت میں سات سال کی تھی، ابھی ابو  ایک سال پہلے ہوئی دادی کی موت کے صدمے سے نہیں نکل پاے تھے کہ دادا جی کا انتقال ہو گیا۔ چونکہ بڑے تایا ملازمت کے سلسلے میں بہت پہلے ہی گاؤں چھوڑ کر شہر میں رہائش اختیار کر چکے تھے، اس لئے گھر اور زمینداری کی ساری ذمہ داری ابو کے کاندھوں پر آ  پڑی۔ چھوٹے چاچو کی شادی دہرادون میں ہوئی تھی، وہ چاچی جان کے ساتھ وہیں رہتے تھے۔ ان سے چھوٹے صفدر چاچو ہمارے ساتھ گاؤں میں ہی رہتے تھے۔مجھ سے بڑے میرے دونوں بھائی چاچو کے پاس رہ کر دہرادون  میں ہی پڑھ رہے تھے۔

ابو کا خواب تھا کہ ہم بھائی بہن اعلی تعلیم حاصل کر خاندان کا نام روشن کریں۔میں چار بھائی بہنوں میں تیسرے نمبر کی تھی، سارے گھر کی لاڈلی ، ہوتی بھی کیوں نا… تین بھائیوں کی اکلوتی بہن اوپر سے دو بھائیوں کے بعد جو ہوئی۔ ابو خود بھی چار بھائی تھے، لیکن خدا نے بہن کی شفقت سے محروم رکھا تھا…! ابو تو مجھ پر جان ہی چھڑکتے تھے۔ میں اپنی توتلی زبان میں ابو… ابو کہہ کر بلاتی ، ابو خوشی سے  پھولے نہ سماتے..!

مجھے بچپن سے ہی پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ پاس پڑوس کے بچے جب کاندھوں پر بستہ ٹانگے اسکول جاتے میں خوش ہوکر ان کی طرف دوڑتی ۔ ابو نے میرے اس شوق کو دیکھ کر گاؤں کے ایک پرایمری اسکول میں  میرا داخلہ کروا دیا ۔ گول مٹول چہرہ ، بڑی بڑی آنکھیں ان میں موٹا موٹا کاجل لگا کر جب امی مجھے اسکول کے لئے تیار کرتیں، تو ماتھے پر کاجل کا ٹیکا ضرور لگا دیتیں۔اور کہتی اللہ بری نظر سے بچائے۔ اسکول سے آ کر میں  دن بھر صفدر چاچو کے ساتھ ہی کھیلتی رہتی ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ امی اکیلی تھیں اور پھر میرا چھوٹا بھائی عبداللہ جو ابھی چھ مہینے کا تھا، امی کو سارا دن گھر کے کاموں سے فرصت نہیں ملتی تھی۔ ایسے میں صفدر چاچو ہی تھے جو ہمیں بہلایا کرتے تھے۔ کبھی ہم سانپ سیڑھی کھیلتے تو کبھی چاچو مجھے سائیکل پر بٹھا کر گاؤں کی سیر کراتے۔

جس وقت دادی کا انتقال ہوا تھا صفدر چاچو تیرہ برس کے تھے۔دادا جی کی طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی، ایسے میں امی دادا جی اور خاص کر صفدر چاچو کا بہت خیال رکھتیں، تاکہ انھیں ماں کی محرومی کا احساس نہ ہو۔ اپنے بیٹے کی طرح امی صفدر چاچو کی دیکھ بھال کرتیں۔ ابو نے بہت کوشش کی، لیکن صفدر چاچو نے کبھی پڑھائی لکھائی کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ دن بھردوستوں کے ساتھ سیر وتفریح کرنا، یا پھر میرے ساتھ لوڈو  کھیلنا ..!  ابو کو باہر کے کاموں سے فرصت نہیں ملتی تھی، اس لئے مجھے اسکول سے لانے لے جانے کا کام صفدر چاچو ہی کرتے تھے ۔

صفدر چاچو نے آگے سائیکل کے ڈنڈے پر میرے لئے ایک چھوٹی سی سیٹ لگوایی تھی، جس پر میں بیٹھا کرتی۔ اسکول بیگ اور ٹفن سائیکل کے ہینڈل میں ٹانگ دیتی اور دونوں ہاتھوں سے سائیکل کا ہینڈل پکڑ کر میں ادھر ادھر گھمانے کی کوشش کرتی۔ کئی بار سائیکل گرتے کرتے بچتی اور صفدر چاچو میرا ہاتھ پکڑ لیتے۔ …. کہتے واہ صفیہ تو سائیکل  چلانا سیکھ گئی، میں خوش ہو جاتی اور گھر آکر سب کو الگ الگ بتاتی۔ابو میں  سائیکل چلانا سیکھ گیی، مجھے سائیکل دلا دیجیے نا..! ابو میری اس معصومیت پر مسکرانے لگتے۔

آج بھی اسکول سے آتے وقت میں سائیکل کے ڈنڈے پر آگے بیٹھی تھی۔ تبھی مجھے پیروں پر کچھ رینگتا سا معلوم ہوا، میں گھبرا کر صفدر چاچو کی طرف دیکھنے لگی..

کیا ہوا صفیہ..؟ صفدر چاچو نے سائیکل وہیں پر روک دی، اور میرے پیروں کی طرف دیکھ کر بولے ۔

وہ  چاچو …کچھ ….کچھ تھا میرے پیر پر..!!

کچھ نہیں صفیہ…..تم ڈرو نہیں میں ہوں نا…!

لو گھر آ گیا ۔۔۔ ابھی ہم لوگ چل کر لوڈو کھیلیں گے ۔ تمھیں سانپ سیڑھی کھیلنا پسند ہے نا صفیہ؟  ہاں چاچو…اور جب سانپ کھا جاتا ہے نا آپ ہار جاتے ہیں ۔میں نہیں ہارتی…میں کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

سانپ۔۔۔۔چاچو میرے پیر پر وہی سانپ تو نہیں تھا..؟ میں ڈر سے کانپنے لگی۔

نہیں صفیہ وہ سانپ تو کاغذ پر ہوتا ہے۔۔۔۔!

سانپ کاغذ پر ہوتا ہے… تو پھر اس دن  نجمہ آنٹی امی کو یہ کیوں بتا رہی تھیں کہ شرما کی بٹیا نے پتا نہیں کس سنپولے کے بچے کو جنم دیا ہے۔ اس وقت میرے ننھے سے ذہن میں سانپ سیڑھی کے چھوٹے بڑے سارے سانپ گھوم رہے تھے۔

گھر آکر میں دیر تک اپنے پیروں کو دیکھتی رہی۔ رہ رہ کر مجھے اپنے پیروں پر سانپ کی سرسراہٹ محسوس ہو رہی تھی ۔میں  نے ٹھیک سے کھانا بھی نہیں کھایا تھا کہ صفدر چاچو  دالان میں پڑی چارپائی پر لوڈو لے کر بیٹھ گئے ۔ آؤ صفیہ.. ہم سانپ سیڑھی کھیلتے ہیں۔ لیکن چاچو..وہ سانپ…!! چاچو نے مجھے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیا ۔ دیکھو صفیہ یہاں کوئی سانپ نہیں ہے، تم بے کار ڈر رہی ہو..میں ہوں نا..!! میرے  ماتھے پر تھپکی دیتے ہوئے صفدر چاچو مجھے پریوں کی کہانی سنا رہے تھے، میں ان کی گود میں جانے کب کی سو چکی تھی۔

ہمارا ہر روز کا یہی معمول تھا ، اسکول سے آکر کھانا کھایا اور کھیل میں لگ گئی۔ چاچو مجھے بہلانے کے لئے کبھی

بازار توکبھی کھیتوں کی سیر کراتے۔کھیلتے وقت میرے پیروں پر ہاتھ پھیرتے،.. کہتے تو کتنی موٹی ہو گیی ہے صفیہ…میں غصے سے منھ پھلا لیتی۔ صفدر چاچو پیار سے میرے غبارے جیسے گالوں کو پکڑ کر بوسہ دیتے۔ میں کھلکھلا کر ہنس پڑتی ۔

یہ سلسلہ تقریباً تین سال چلتا رہا۔ اکثر… مجھے کھیلتے وقت  اپنے جسم پر ایک عجیب سی سرسراہٹ محسوس ہوتی۔ سانپ سیڑھی کھیلتے کھیلتے اچانک مجھے ایسا لگتا جیسے کوئی سانپ  لوڈو سے نکل کر میرے پیروں سے چڑھ کر پیٹھ پر رینگ رہا ہو، میں ڈر کر کھیلنا بند کر دیتی۔

ہر سال جون کی چھٹیوں میں، میرے دونوں بھائی اصغر اور کامران گھر آتے ۔ میں بہت خوش ہوتی ،سارا دن بھائیوں کے ساتھ کھیلتی رہتی۔ صفدر چاچو ہم تینوں کو گاؤں کی سیر کراتے ۔کبھی آموں کا باغ دکھاتے تو کبھی مکے کے ہرے بھرے کھیتوں میں  ٹہلاتے۔رنگ برنگے پھول اور طرح طرح کے پیڑ دیکھ کر ہم لوگ بہت خوش ہوتے ۔ تبھی کھیت کے چاروں طرف لگی کنٹیلی جھاڑیوں کو دیکھ کر میں حیرت سے پوچھتی۔چاچو یہ کیا ہے … اس کا یہاں کیا کام ..؟؟  صفدر چاجو ہمیں پیار سے سمجھاتے یہ باڑ ہے، کھیتوں کی حفاظت کے لیے لگایی جاتی ہے۔  یہ کیسے ہمارے کھیتوں کی حفاظت کرسکتی ہے، جبکہ یہ نہ چل سکتی ہے نہ بول سکتی ہے ۔ میں راستے بھر یہی سوچتی رہتی اور گھر آ جاتا۔اسی طرح کب دن گزر جاتا پتا ہی نہ چلتا ۔

ان دنوں بھی جون کی چھٹیاں تھیں۔ کہہ کر صفیہ کا گلا بھر آیا۔  آج صبح سے ہی موسم کچھ خراب تھا، ہلکی سی بارش بھی ہو گیی تھی۔اصغر بھائی اپنے کسی دوست کے یہاں گیے ہوئے تھے۔  دوپہر میں کھانے کے بعد عبداللہ کے پیٹ میں اچانک تیز درد اٹھا امی اور ابو اسے لے کر ہاسپٹل چلے گئے۔ کامران بھائی بھی اپنے کمرے میں جاکر سو گئے۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی میں برآمدے میں ٹہل رہی تھی کہ صفدر چاچو آ گئے۔

کیا ہوا صفیہ..تم سوئی نہیں..؟ چاچو مجھے نیند نہیں آ رہی …!

چلو کوئی بات نہیں آؤ ہم لوگ سانپ سیڑھی کھیلتے ہیں۔ صفدر چاچو مجھے اپنے ساتھ لے گئے، جب وہ کمرے کا دروازہ بند کرنے لگے تو میں بول اٹھی.. ‌چاچو.. لیکن… دروازہ…. کیوں …؟؟ اور …وہ..

اس سے پہلے میں کچھ اور بولتی سانپ سیڑھی کے سب سے بڑے سانپ نے…لوڈو سے باہر نکل کر..مجھے ڈس لیا… اور میں آؤٹ ہوکر ذیرو پر آ گئی۔

فاطمہ، اس حادثے کے بعد مجھے کھیلوں سے نفرت سی ہونے لگی، میں مزید اب اور وہاں نہیں رہنا چاہتی تھی۔ میں نے ابو سے بھائیوں کے ساتھ شہر جاکر پڑھنے کی ضد کی۔ ابو مجھے اکیلے شہر نہیں بھیجنا چاہتے تھے ، اور پھر ابھی میری عمر ہی کیا تھی۔ ابو نے دہرادون میں چاچو سے کہہ کر ان کے گھر کے قریب ہی ایک چھوٹا سا دو روم کا فلیٹ کرائے پر لے لیا۔ میں امی اور عبداللہ کے ساتھ دہرادون آ گیی۔  ابو ہفتے میں ایک بار آکر ہم

لوگوں کو دیکھ جایا کرتے اور ہماری ضروریات کا سامان خرید کر دے جاتے تھے۔

شہر آکر میں ان خیالات کو بھولنے کی کوشش کرنے لگی۔ اور پڑھائی کی طرف اپنا ذہن مرکوز کر دیا۔لیکن آج اچانک۔۔۔۔۔ اتنے دنوں بعد…صفدر چاچو کا نام سن کر ماضی کے وہ زخم پھر تازہ ہو گیے۔امی کی آواز  سے میں چونک گئی، صفیہ چایے بنا کر لاؤ.. دیکھو تمہارے صفدر چاچو کتنے دنوں بعد تشریف لائے ہیں۔

  فون رکھ کر میں کسی طرح خود کو گھسیٹتے ہوئے کمرے سے  کچن تک لے آئی، چولہے پر چائے چڑھا دی اور ناشتہ لگانے لگی۔میرے ذہن میں کتنے ہی سوالات تھے جو چولہے پر رکھی چائے کے مانند ابل رہے تھے ، باہر آنے کو بیتاب ہو اٹھے۔۔۔۔۔۔ رشتوں کا چکرویوہ توڑنا کتنا مشکل ہے……. چائے کا کپ صفدر چاچو کی طرف بڑھاتے ہوئے میری نظر ان سے ٹکرا گئی اور پھر… سانپ سیڑھی کے سارے سانپ  میرے جسم سے آکر لپٹ گئے……!

***

Leave a Reply