راجہ یوسف
بند کھڑکی کا کرب
میری بے چینی بے سبب نہیں تھی ۔ذہن و دل میںایسا طلاطم بپا تھا جو مجھے ایک پل بھی سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔میں اپنی کھڑکی سے سامنے والے گھر کی تیسری کھڑکی کو بار بار دیکھ رہی تھی۔ یہ پچھلے پانچ دن سے لگاتار بندپڑی تھی۔ حالات کتنے بھی خراب ہوجاتے ، تنائو کتنا بھی بڑھ جاتا ، پر یہ کھڑی دیر سویر کھل ہی جاتی تھی اور ایک گھنگریالے بالوں والا لڑکا کھڑکی سے باہرجھانکتا رہتاتھا۔ وہ سبزخط چہرا، وہ آنکھوں میں بلا کی مقناطیسی کشش رکھنے والامن موہک جس کے ہونٹوں پرہمیشہ جان لیوا مسکراہٹ سجی رہتی تھی، اس کا سراپا ’’کامہ دیو‘‘ سے بھی زیادہ پُرکشش اور پُرفتنہ تھا ۔۔۔ اور سب سے بڑی بات ۔۔۔۔۔۔۔!
پانچ دن پہلے اچانک کرفیو کا اعلان ہوا تھا۔ پولیس کی گشت بڑھا دی گئی تھی۔ ہر گلی کوچہ فوجیوں کے بھاری جوتوں کی گونج سے لرزرہا تھا۔لوگ گھروں کے اندر دبک کے بیٹھ گئے تھے اور میں کھڑکی کے شیشوں سے سامنے والی تیسری کھڑکی کی طرف بار بار دیکھتی رہتی تھی۔۔۔ جو بند تھی۔۔۔ اب جوکرفیومیں ڈھیل دے دی گئی اور پھر پوری طرح سے کرفیو ہٹا بھی دیا گیا تھامگر سامنے والی کھڑکی ابھی بھی بندپڑی تھی۔۔۔ اور میری بے چینی، بے قراری بڑتی ہی جارہی تھی ۔۔۔
سامنے والا گھر ہمارے پڑوسی رحمان چاچا کا تھا۔ اس گھر کے کرایہ داروں سے اگرچہ ہمارا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا تھا لیکن چند مہینے سے رہ رہے ایک کرایہ دار سے میرا لگائو سا ہوگیا تھا ۔ اس کے ساتھ اور کون رہتا تھا یہ مجھے نہیں معلوم۔ لڑکا شاید پڑھتا بھی نہیں تھا کیونکہ میں نے کبھی بھی اس کے ہاتھ میں قلم یا کتاب ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی تھی۔ یاشاید یہ کوئی کام دھندا کرتا تھا جویہ دن میں نہیں دِکھتا تھا۔ بس صبح شام ہی کھڑکی پر نظرا ٓتا تھا۔
جب پہلی مرتبہ میری نظر اس کھڑی کی طرف گئی تو تب وہ وہاں کھڑا تھا اور ارد گرد کا ماحول دیکھ رہا تھا۔ وہ اتنا پُر کشش تھا کہ میں بار بار کھڑکی پر آر ہی تھی ، جارہی تھی ۔۔۔ پھرایک بار ہماری نظروں کا تصادم ہوا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ اُبھر آئی تھی۔ جو ہوا میں ہچکولے کھاتے ہوئے میری آنکھوں سے ٹکراکرسیدھے دل میں اُتر گئی تھی۔ اس مسکراہٹ کا لمس میرے انگ انگ میںپھیل گیا تھا۔ اب آنکھوں کو اس کے سوا کچھ اور دیکھنے کی چاہ نہیںرہی تھی اور دل کو اسے دیکھے بنا قرار نہیں آتا تھا۔ میری کچی عمر کی محبت ا ٓہستہ آہستہ پروان چڑھ رہی تھی ۔ جب تک کھڑکی بند رہتی تھی، میرا صبروقرار چھن جاتا تھا۔ میرے دل میں ہزار وسوسے جنم لیتے تھے ۔ پھر یہ انجانہ رشتہ طول پکڑتا گیا ۔ ہم دونوں اپنی اپنی کھڑکی پر آجاتے تھے۔ وہ اپنی معصوم مسکراہٹ میری طرف اچھال دیتا تھا اور میں دو دو ہاتھوں سے اس بکھری مسکراہٹ کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیتی تھی ۔ اسی طرح وہ میری مسکراہٹ کو اپنے سینے سے لگانے کے لئے اپنے دونوں بازو پھیلادیتا تھا ۔ اور میں ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو جاتی تھی۔
مجھے نہیں معلوم اس کا نام کیا تھا اور شاید وہ بھی میرے نام سے نا آشنا تھا ۔ ہمارا پیار ابھی بس اشاروں ، کنائیوں تک ہی محدود تھا۔ ابھی عہدو پیماں باندھنے تھے ۔ جینے مرنے کی قسمیں کھانی تھیں ۔ اور جنم جنم تک ساتھ نبھانے کے وعدے کرنے باقی تھے ۔۔۔
میری بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ میں پانچ دن سے اُسے دیکھے بنا جئے جا رہی تھی۔ یہ بند کھڑکی شاید میری جان ہی لے لے گی ۔۔۔ جب ذہن ودل میں آندھیاں چل رہی ہوں۔۔۔ آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب امڈ آرہا ہو اور منزل سامنے ہوکر بھی ہزاروں میل دور لگے تو کچھ اہم فیصلے لینا ایک انسان کے لئے ناگزیر بن جاتا ہے۔ یہ صورت حال ہزار ہا سماجی پابندیوں کے باوجود سماج سے بغاوت کرنے پر اکساتی ہے۔ میرا بھی ایسا ہی کچھ ارادہ تھا۔ میں نے سرپر برقعہ ڈال دیا اور گھر سے باہر آگئی ۔
یہ تیسری کھڑکی رحمان چاچا کے گھر کی پچھلی طرف والی کھڑکی تھی۔ گھر کے سامنے آنے کے لئے مجھے ایک لمبا چکر کاٹنا تھا۔ اس کے لئے مجھے کئی گھر چھوڑ کر ایک دوسری گلی سے گزرناتھا۔ میں گھر کی سامنے والی گلی میں پہنچ گئی جہاں رحمان چاچا کی دکان پر اب نان بائی بیٹھتا تھا۔ اس وقت دکان پر اس کی موٹی بیوی بیٹھی تھی۔ باقی گلی سنسان ہی تھی۔ اکا دکا لوگ ہی گذر رہے تھے۔ میں نے گلی کے ایک دو چکر کاٹے تو مجھے لگا نان بائی کی بیوی مجھے گھورنے لگی ہے۔ میں نے وا پس ا ٓنا ہی مناسب جانا ۔۔۔
اب یہ میرا روز کا معمول بن چکا تھا۔ میں صبح و شام کئی بار اس بند کھڑکی کی طرف ضرور دیکھتی تھی ۔ پہلی اور دوسری کھڑکی میں لگاتار چہرے بدلتے رہتے تھے۔ پر یہ کھڑکی اس کے بعد کبھی نہیں کھلی تھی یا شاید پھر اس کمرے میں کوئی نیاکرایہ دار آیا ہی نہیں تھا ۔
میں نے ہائیرسکنڈری کا امتحان پاس کیا اور کالج میں داخلہ لے لیا۔ پھر کالج کو خیرباد کہہ کے یونیورسٹی میں آگئی ۔ یہاں تک آتے آتے زندگی کا مفہوم ہی بدل چکا تھا۔ یہاں آئے دن سمینارز ہوتے تھے۔ ڈبیٹس اور ڈسکشنز ہوتے تھے۔ جلسے جلوس ، میٹنگز ۔ غرض زندگی ایک ہنگامہ بن کر رہ گئی تھی ۔ آج یونیورسٹی میں ہیومن رائیٹس ڈے تھا۔ نیشنل اور انٹرنیشنل لیول کے مندوبین آئے تھے ۔ سیمنار میں میرا بھی مضمون شامل تھا۔ میں نے مضمون پڑھا اور بہت ساری داد بھی وصول کرلی۔ سیمنارکا اختتام ہوگیا اور مہمان ہال سے باہر آرہے تھے۔ ہال کے دروازے کے باہر سینکڑوں عورتیں ہاتھوں میں بینر اور فوٹو لئے احتجاج کررہی تھیں۔ یہ وہ مائیں اور بیٹیاں تھیں جن کے نوخیز بیٹے ، جوان بھائی اور کمائو شوہر پچھلے کئی برسوں سے لاپتہ تھے۔ جنہیں گھروں سے تو اٹھایا گیالیکن معلوم نہیں کہ انہیں مارا گیا ہے یا وہ غاصبوں کے تعذیب خانوں میں موت وحیات کی کشمکش میں جی رہے ہیں ۔ بے بس عورتیں چلارہی تھیں ۔ نعرے بلند کررہی تھیں۔ کچھ کی آنکھیں نم تھیں اور کئیوں کی آنکھوں کے سوتے خشک ہوچکے تھے۔ میں بھی مندوبین کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہی تھی اور ان لاچاروں کی آہ وبکاہ سے کانپ رہی تھی۔ میری نظر ایک بوڑھی عورت کی طرف گئی جس کی آنکھیں خشک تھیں اور ہونٹوں پر یاس اور ناامیدی کی کایا جم چکی تھی۔ وہ کمزور ہاتھوں سے فوٹو اپنے سینے سے چپکائے بار بار مندوبین کو اپنی درد بھری آواز سے متاثر کررہی تھی ۔ فوٹو اب میلی اور پرانی لگ رہی تھی لیکن نہ جانے کون سی کشش تھی جو ہر مندوبین کو اس عورت کی طرف کھینچے لے جارہی تھی ۔ ۔۔ اور میں ان سب سے آگے تھی ۔۔۔
میں ۔۔۔ میں اسے کیسے نہ پہچان پاتی ۔ وہی ناک نقشہ ۔ وہی گھنگریالے بال۔ وہی ہلکی لکیری مونچھیں اور چہرے پر پھوٹی خشخشی ڈاڑھی ۔۔۔۔۔ وہ شکن آلودہ فوٹو میں بھی میری طرف اپنی معصوم مسکراہٹ اچھال رہا تھا اور میں اپنے انگ انگ میں اس کی خوشبو کو محسوس کرنے لگی تھی ۔۔۔’’ کامہ دیو ۔۔۔ ‘‘ میرے منہ سے ایک زوردار چیخ نکل گئی ۔۔۔
***