You are currently viewing بیگم رقیہ کی علمی خدمات

بیگم رقیہ کی علمی خدمات

مظفر نازنین ، کولکاتا

بیگم رقیہ کی علمی خدمات

بیگم رقیہ سخاوت حسین ایک بہترین ادیبہ، دانشور، ماہر تعلیم، عظیم مصلح تھیں جنہوں نے سر زمین بنگال میں تعلیم نسواں کے فروغ کیلئے بہت کام کئے ہیں ۔ ان کی علمی و ادبی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ بیگم رقیہ کی پیدائش ۹؍دسمبر، ۱۸۸۰ میں ایک زمیندار گھرانے میں پیرابند رنگ پور (موجودہ بنگلہ دیش ) میں ہوئی۔ ظہیر الدین ابو علی حیدر صابر ان کے والد تھے۔ اور راحت النساء چودھری ان کی والدہ تھیں۔ ان کے آبا و اجداد سلطنت مغلیہ میں ملٹری اور وزارت دفاع میں تھے۔ ان کی شادی خان بہادر سخاوت حسین سے ہوئی جو موجودہ بہار کے تھے۔ اور اس بعد ان کا نام رقیہ سخارت حسین ہوگیا۔ بیگم رقیہ کے والد عربی‘ فارسی‘ اردو‘ انگریزی میں کافی مہارت رکھتے تھے اور انہیں ان زبانوں پر قدرت حاصل تھی۔ اس زمانے میں لڑکی کی تعلیم کے لیے Conservative thinking تھی۔ بیگم رقیہ کے بڑے بھائی محمد ابراہیم عبدالاسعد صابر اور ابو زیغم خلیل الرحمن صابر نے سینٹ زیویرس کالج کولکاتا میں تعلیم حاصل کی۔ لیکن بیگم رقیہ اور ان کی بڑی بہن قمر النساء کو اسکول نہیں بھیجا گیا۔ رقیہ کو Formal Educationسے دور رکھا گیا باوجود اس کے انہوں نے اپنے بھائیوں سے بنگلہ اور انگریزی سیکھ لیا۔ بیگم رقیہ نے تعلیم نسواں کےلیے کام کرنا شروع تھا۔ یہ وہ دور تا جب تعلیم نسواں کی اہمیت نہیں تھی۔

بیگم رقیہ کی شادی خان بہادر سخاو ت حسین سے ۱۸۹۸ میں ۱۸ سال کی عمر میں ہوئی جبکہ سخاوت حسین کی عمر ۳۸ سال تھی۔ سخاوت حسین بہار کے تھے اور اردو بولنے والے تھے۔ سخاوت حسین Royal Society of Agriculture کے ممبر تھے۔ انہوں نے بیگم رقیہ کو لکھنے کا مشورہ دیا ۔ شوہر کے انتقال کے ۵ماہ بعد بیگم رقیہ نے ۱۱؍اکتوبر، ۱۹۰۹ کو بھاگلپور میں ۵ لڑکیوں پر مشتمل ایک اسکول قائم کیا ۔ لیکن پھر کسی وجہ سے اسکول چل نہیں پایا۔ اور ۱۶؍مارچ، ۱۹۱۱کو ۸ لڑکیوں پر مشتمل اسکول کی بنیاد ڈالی اور اس کا نام اپنے شوہر کے نام سے منسوب کیا اور اس کام نام سخاوت میموریل گورنمنٹ گرلس اسکول رکھا۔ یہ اسکول ولی اللہ لین میں قائم کیا۔ پھر چند نامساعد حالاے کی بنا پر ۱۹۳۱ میں ۱۳؍یورپین اسالم لین اور ۱۹۳۲اور ۱۶۲؍لور سرکلر روڈ کلکتہ میں شفٹ کیا گیا۔ بالآخر ۱۹۳۸میں اسکول ۱۷؍لارڈ سنہا روڈ ، کولکاتا میں قائم ہوا اور الحمدللہ اب تک سخاوت میموریل گرلس ہائی اسکول پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ آج اس اسکول کا شمار کولکاتا کے بہترین گورنمنٹ اسکول میں ہوتا ہے۔

اور یہ اتفاق ہے کہ راقم الحروف کا تعلق بھ یسخاوت میموریل گورنمنٹ گرلس ہائی اسکول سے رہا ہے ۔ اور ۱۹۸۶ میں یہاں سائنس Class XI & XII کی طالبہ رہی ۔ یہ ۸۶-۱۹۸۵کی بات ہے جب سخاوت میموریل اسکول میں اردو سیکشن الگ نہیں تھا ۔ بنگال میں سی پی ایم کی حکومت تھی اور اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ اس وقت اردو اور بنگلہ طالبات کے کلاسز ایک ساتھ ہوا کرتے تھے۔ Medium of Education دراصل Bengali تھے۔ ہمارے زمانے میں Class XIاور Class XII میں اور بقیہ کلاس میں ۳۰ طالبات ہوا کرتی تھیں۔ جن میں صرف ۵ مسلم طالبات تھیں بقیہ غیر مسلم ۔ اور ان ۵ طالبات میں صرف دو (راقم الحروف اور ایک) Urdu Speaking تھے ۔ بقیہ ۳ بھی bengali speaking تھیں ۔ گویا Muslim Urdu Speaking  کی تعداد بہت کم تھی اور تمام کلاسیز فزکس ، کیمسٹری، بائیولوجی، ریاضی، انگریزی ایک ساتھ ہوتے تھے۔ صرف فرسٹ لنگویج جو اردو تھی اردو طالبات کی اور بنگلہ طالبات کا بنگلہ تھا۔ باقی تمام سبجیکٹ میں سوالات کے جوابا Urdu Speaking Students کو انگریزی میں لکگنا پڑتا اور بنگلہ طالبات بنگلہ یا انگریزی میں لکھتیں۔ اردو طالبات چونکہ تعداد میں بہت کم تھیں اس لئے فرسٹ لنگویج کے پیریڈ ہم لوگ اردو زبان والے پہلی منزل پر ایک روم تھا جسے ہم اردو روم کہتے تھے، وہاں آجایا کرتے تھے اور صرف دو طالبات پر مشتمل کلاس ہوا کرتا تھا۔ یہ ۸۶-۱۹۸۴ کی بات ہے ۔ اور اردو روم کیا۔ گویا ایک دبستان چاروں طرف کتابوں کی الماریاں جہاں نادر اور نایاب کتابیں موجود تھیں۔ اس زمانے میں اردو کیلئے سینئر کلاسیز کیلئے صرف ایک ٹیچر تھیں۔ محترمہ حسن آرا بیگم جو پروفیسر عبدالسبحان صاحب (پروفیسر شعبہ فارسی ، مولانا آزاد کالج، کولکاتا) کی ہمشیرہ تھیں، سکنڈری سیکشن میں اردو پڑھاتی تھیں۔ اردو بقیہ سبجیکٹس ہم ایک ساتھ بنگلہ طالبات کے ساتھ ہی کرتے اور جوابات انگریزی میں لکھنا پڑتا تھا۔ جب کبھی پیریڈ آف ہوتا یا سنیچر کو گیمس کاسیز ہوتے، اردو روم ہمارے لئے کھلا رہتا تھا۔

سخاوت میموریل اسکول سے میرے ماضی کی یادیں جڑی ہیں ۔ یہ اسکول اردو، بنگلہ اور انگریزی تہذیب کا منارۂ نور ہے ۔ گورنمنٹ اسکول ہے۔ معیارِ تعلیم شاندار ہے۔ ایجوکیشن کے ساتھ کلچرل پروگرام ہوا کرتے تھے۔ سرسوتی پوجا، Van Mahallsaw، رابندر جینتی ، Fresher Welcome، بڑے ہی شان بان سے منایا جاتاتھا۔ سال میں ایک بار شاندار پروگرام رابندرسدن آڈیٹوریم میں ہوتا تھا رابندرسدن میں انگلش ، بنگلہ اور اردو ڈرامے ہوتے تو اردو سیکشن کی ذمہ داری صرف اردو طالبات جو تعداد میں بہت کم تھیں کے ذمے ہوا کرتی تھی۔ ہم اردو طالبات کی تعداد صرف ۴ تھی کلاس XI میں دو سائنس میں اور Humanities میں تو یہ ہماری ذمے میں ہی آتا ۔ منیرا گوہا اسکول کی پرنسپل تھیں۔ اس وقت رابندر سدن میں ایک شاندار ڈرامہ The Arabian Night ہوا جسے اردو طالبات نے ہی پیش کیا تھا۔ سال میں ایک بار Educational Lour کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ جو بہت سود مند ثابت ہوتا جس میں عموماً طالبات کو Bidhan Chandra Krishi Viswa Vidyalaya کی سیر کرائی جاتی تھی۔

آج سخاوت میموریل گورنمنٹ گرلس ہائی اسکول ، ۱۷،لارڈ سنہا روڈ پر پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے، ایک دانش کدہ ہے، ایک ایسی جولانِ گاہ ہے۔ جہاں سے علم و آگہی کے آبلے پھوٹ رہے ہیں۔ علم کا وہ سر چشمہ ہے جہاں سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں طالبات علم کے اتھاہ سمندر سے سیراب ہورہی ہے۔ اور مختلف شعبہ ہائے زیست میں نمایاں کارکردگی انجام دے رہی ہے۔

فیس بہت کم، شاندار معیارِ تعلیم، Extra Curricular Activities، اس کے Music، Dance اور Physical Activities ، اردو ، بنگلہ اور انگریزی کی ملی جلی تہذیب ، خوشگوار ماحول، بہترین ٹیچر کی رہنمائی۔ جو ایک Student Over All Departmentکیلئے ضروری ہے۔ سخاوت میموریل اسکول میں پورے اسکول میں پورے طور پر موجود ہے۔ ہمارے زمانے میں یعنی ۱۹۸۶ء؁ میں ٹرام چلتی تھی۔ برلا پلانیٹیریم کے سڑک کے دونوں جانب سبزہ لہلہانے تھے، یہ سنہرے ماضی کی داستان ہیں۔ آج ملٹی پلیکس کے بڑھتے رجحان کا اثر ہے۔ لیکن سنہرے ماضی کی یادیں ذہن میں آج بھی پیوست ہیں جو کبھی کبھی تحت الشعور سے نکل کر شعوری سطح پر منتقل ہوتی ہیں اس درخشاں اور تابناک ماضی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ رقیہ بیگم !

’’یہ سخاوت ہے یا شاکھاوت‘‘ہے تو جولانِ گاہِ ادب۔ اس کی سنگِ بنیاد کو نہیں بلکہ یہ دیکھئے کہ آج آپ کی کوشش کا ثمرہ ہے کہ اس چمن کے پھول کیسے کیسے کتنے خوبصورت ہیں اور کہاں کہاں خوشبو بکھیر رہے ہیں۔ آج یہ جمہوری ہندوستان ہے۔ اور بلا تفریق ہیں۔ ہندو مسلمان ایک ساتھ رہنے ہیں۔ ہم میں کسی طرح کا بھید بھاؤ یا تفریق نہیں ہے۔

رابندر سنگیت، نذرل گیتی کا شاندار اہتمام ہوا کرتا تھا۔ بنگال کی سرزمین تعلیم کے لیے بہت زرخیز ہے۔ یہ علم و فن کا گہوارہ ہے۔ ہم بھلا نہیں سکتے۔ فراموش نہیں کرسکتے اپنے مادرِ علمی (Mother Institute) کو ہم بھلا نہیں سکتے سخاوت میموریل گورنمنٹ گرلس ہائی اسکول کو جس کا ہمارے Education اور Career پر زبردست رول ہے۔

تو ہم بھلا نہیں سکتے بیگم رقیہ کے علمی خدمات کو اور وہ بیگم رقیہ تھیں جو بنگال میں تعلیم نسواں کی پہلی خاتون پیش روتھیں ۔ شہر کولکاتا کی معروف ادبی شخصیات جن میں محترمہ ڈاکٹر سیدہ مہناز وارثی صاحبہ کو بیگم رقیہ ایوارڈ سے نوازا گیا اور امسال محترمہ نور جہاں شکیل کو بیگم رقیہ ایوارڈ سے نوازا گیا۔

بیگم رقیہ کا مشن تھا کہ بنگال میں تعلیم نسواں کو فروغ دیا جائے۔ انہوں نے اس سلسلے میں بہت کام کیا اور ۹؍دسمبر،۲۰۲۰ کو علم کی خدمت کرتے ہوئے دارِفانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرگئیں۔ لیکن ایک ایسی جولانِ گاہ اور دانش کدہ تعمیر کرگئیں جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ آج بلاشبہ ان کے مشن پر عمل کی ضرورت ہے۔

Mobile – 9088470916

Email – muzaffar.niznin93@gmail.com

Leave a Reply