بے سمت قافلے
تبصرہ نگار : ڈاکٹر عرفان رشید
افسانوی مجموعہ : بے سمت قافلے
افسانہ نگار : طارق شبنم
صفحات : ۲۸۲ قیمت : ۴۵۰
پبلشر : جی ۔این ۔کے پبلکیشنز
افسانہ عصر حاضرکی ہر دل عزیز صنف ہے گرچہ یہ دور فکشن کا دور کہلاتا ہے لیکن اس میں افسانہ کو فکشن کی دیگر صورتوں میں تفوق حاصل ہے ۔اردو ادب میں بیسویں صدی کے آغاز میں متعارف ہونے والی اس صنف نے ترقی کی منزلیں بڑی تیزی سے طے کیں ۔نبیاد گزار افسانہ نگاروں نے اس صنف کوابتداء میں ہی جوان بنا کر پیش کیا ۔فن اور موضوع ہر دو سطح پر اِسے ایک مقام بخشا ۔ایسے افسانہ نگاروں میں خاص طور پر پریم چند اور یلدرم کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ پریم چند اور یلدریم اسکول نے اردو افسانے کو حقیقت اور رومان کا سبق پڑھایا ۔ انگارے کی اشاعت نے اس میں جدت پیدا کی ۔ ترقی پسند تحریک نے اسے ایسے فن کار وں سے نوازا جن کے بغیر اردو افسانے کی تاریخ رقم کرنا ممکن نہیں ہے ۔ تقسیم ہند نے افسانے کو دو اہم موضوعات عطا کیے :۔المیہ اور ہجرت ۔اُس دور میں جب پوری دنیا کا سیاسی ، سماجی اور معاشی منظر نامہ تبدیل ہورہا تھا ۔ ہر طرف نفسی نفسی کا عالم برپا تھا ،اس وقت تخلیق کاروں نے خارجی مسائل سے گریز کر کے انسان کے داخلی کرب کو ادب میں سمونے کی کامیاب کوشش کی ۔ یہ رجحان جدیدیت کے نام سے موسوم ہوا اور ہمارے افسانے کی جو نئی شکل سامنے آئی وہ جدید اردو افسانہ تھا۔بعد میں مابعد جدید افسانے نے اس صنف کو آگے بڑھایا ہے ۔
عصر حاضر میں جموں و کشمیر میں افسانہ نگاروں کی ایک ایسی پود افسانے کی زلفیں سنوارنے میں مصروف ہیں ان میں طارق شبنم کا نام اہمیت کا حامل ہیں ۔ طارق شبنم ایک ایسے فنکار ہیں جن کا پہلا افسانوی مجموعہ ‘‘گمشدہ دولت ’’ ۲۰۲۰ء میں منظر عام پر آچکا ہے ۔ زیر تبصرہ مجموعہ ان کا دوسراافسانوی مجموعہ ہے جو ‘‘بے سمت قافلے ’’ کے نام سے ۲۰۲۴ء میں شائع ہوا ہے ۔ یہ مجموعہ ۲۸۲ صفحات پر مشتمل ہیں جس میں ۴۴ افسانے شامل ہیں ۔یہ مجموعہ ان کے سابقہ مجموعے سے کافی معنوں میں بہتر ہے ۔ اس میں موضوعاتی اور تکنیکی سطح پرکافی تجربے کیے گئے ہیں ۔ زبان و بیان کا خوبصورت استعمال کیا گیا ہے ۔ نئے نئے تشبیہات ، استعارات اورعلامات سے افسانوں کا حسن بڑھ جاتا ہے ۔پہلا افسانہ ‘‘ٹھنڈا جہنم ’’ ایک خوبصورت علامتی افسانہ ہے جس میں ہند و پاک سرحد کو موضوع بنا یا گیا ہے ۔ افسانہ نگار نے مرکزی کردار وشال کے ذریعے کہانی کو روایتی بیانیہ کی صورت میں پیش کیا ہے ۔ وشال ایک فوجی ہوتا ہے جو سرحد پر تعینات ہوتا ہے اور ایک دن اچانک برف کے طوفان کی وجہ سے ان کی چوکی تہس نہس ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ اور ان کے ساتھی No Man’s Land میں پہنچ جاتے ہیں ۔جہاں پر دوسرے ملک کا آفیسر مرتے وقت ان سے مخاطب ہوکر کہتا ہے :
‘‘ ساتھیو ۔۔۔مرتے وقت کوئی جھوٹ نہیں بولتا ۔۔۔میں سچ کہتا ہوں ،یہ سب دھوکہ ہے فریب ہے ۔۔۔یہ محض جھوٹی انا کی تسکین کا مسلہ ہے ۔۔۔ورنہ یہ ٹھنڈا جہنم کسی انسان کا علاقہ نہیں ہوسکتا ۔۔۔کبھی نہیں ۔۔۔دس از نو ۔۔نومینز لی ۔۔۔لینڈ ’’
اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کہانی کار موجودہ منظر نامے کو تنقید کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں اور کئی سوالات قائم کرتے ہیں جن پر قاری سوچنے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں ۔ اس کہانی میں فلیش بیک تکنیک اور راست بیانیہ اسلوب کا بھی خوبصورت استعمال ہوا ہے ۔ زبان و بیان کا عمدہ استعمال اور موقع و محل کے اعتبار سے مکالمے بھی پیش کیے گئے ہیں ۔
‘‘اڑن طشتری ’’ ایک اور افسانہ ہے جس میں سائنس کے موجودہ منظر نامے کو پیش کیا گیا ہے ۔ ا س افسانے کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح آج کل کے ممالک ترقی کے نام پر ایٹم بم ،ہائی ڑروجن بم اور نیکولیر بم پر کھربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں وہیں دوسری طرف عام عوام بھوک ، افلاس اور غربت سے جوجھ رہی ہیں۔کئی ممالک دوسرے سیاروں پر آباد ہونے کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں اور ادھر دھرتی کے باسی فوٹ پاتھوں پر اپنی جانیں دے رہی ہیں ۔ افسانہ ‘‘نیا شہر ’’ ایک اور افسانہ ہے جس میں افسانہ نگار ایک خیالی شہر کی تصویر کھینچتا ہے جس میں امن ، سکون اور شانتی ہے جہاں مکین لوٹ مار ،چوری چکوری اور ڈاکہ زنی سے ماورا ہیں ۔ کشمیر کے موجودہ سیاسی منظر نامے کے حوالے سے ‘‘آئینہ فروش ’’ ایک خوبصورت افسانہ ہے جس میں موصوف نے علامتی پیرایہ اظہار کو اپنایا ہے ۔اس افسانے کے ذریعے افسانہ نگار نے کئی سوالات قائم کیے ہیں جن پر قاری سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ آئینہ فروش یہاں کا وہ ادیب ہے جو کئی دہائیوں سے وادی کے سیاسی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہے اور اب اس کو شرمندگی اور افسوس ہورہا ہے کہ ‘‘میں ایک ناکام آئینہ فروش ہوں ۔۔۔میرے سارے آئینیناکارہ ہیں ’’ ۔
افسانہ ‘‘شکور بھنگی ’’ ایک عمدہ افسانہ ہے جس میں افسانہ نگار نے عصر حاضر کے سماج پر طنز کے تیر چلائے ہیں ۔ اصل میں کہانی کچھ اس طرح سے ہیں کہ شکور ایک بھنگی ہوتا ہے جو احسان احمد کی مل میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام کرتا ہے ۔احسان احمد ہر سال قرعہ اندازی کر کے کسی ایک مزدور کو حج کے لیے بھیجتا تھا ۔اس طرح سے قرعہ اندازی میں شکور بھنگی کا نام نکلتا ہے جس پر مل کے سبھی مزدور اسے تانے دیتے ہیں اس طرح سے شکور حج کے لیے راضی نہیں ہوتا ۔ لیکن جب مل کا مالک احسان احمد اسے ایک سال کا بونس کی لالچ دیتا ہے تو شکور بھنگی راضی ہوجاتا ہے ۔ جب شکور بھنگی حج کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے تو احسان احمد بھی ان کے گھر جاتا ہے اور ان کی بیوی سے ملتا ہے ۔شکور کی بیوی انہیں سارا معاملہ سمجھاتی ہے اور کہتی ہے کہ اصل میں شکور ایک بیوہ کی مدد کرتا ہے اور بیوہ ہر روز انہیں دعا دیتی ہے :
‘‘جا میرے بھائی ،میرے مدد گار ۔۔۔اللہ تمہیں حج کی سعادت نصیب فرمائے اور تمہارا خاتمہ ایمان پر کر دے ’’۔
یہ واقعہ سن کر احسان احمد کو شکور بھنگی کی شخصیت پر رشک آجاتا ہے اور جب شکور حج کا فریضہ ادا کرکے سجدے میں مرجاتے ہیں تو احسان احمد کی زبان سے بے ساختہ الفاظ نکلتے ہیں :
‘‘یا میرے مولٰی۔۔۔مجھ گناہ گار کو بھی شکور احمد جیسی موت عطا فرماؤ۔’’
اصل میں افسانہ نگار سماج پر طنز کرتے ہیں کہ جو لوگ دین کے ٹھیکدار بنے ہوئے ہیں وہ دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔اس کہانی کے ذریعے کہانی کار قارئین کو احسان دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی کو حقارت اور ذلت کی نظروں سے نہیں دیکھنا چاہیے کیا پتہ کب کس بندے پر اللہ مہربان ہوجائے وہ اللہ ہی جانتا ہے ۔
۱۹۹۰ میں کشمیر میں جو حالات گزرے ہیں اس تناظر میں ایک ایسا افسانہ لکھا گیا ہے جو ‘‘بے سمت قافلے ’’ کے نام سے شامل ہیں حالانکہ اس مجموعے کا نام بھی یہی ہے ۔ اس افسانے کو فلیش بیک تکنیک میں پیش کیا گیا ہے ۔اسے ایک کردار ‘شوقی ’ کے ذریعے آگے بڑھا یا گیا ہے ۔کس طرح سے یہاں کے سینکڑوں خاندان اجڑ گئے ہیں جنہیں اس بات کا علم بھی نہیں تھا کہ وہ اس وادی کو چھوڑ کر کہاں جائے ۔واقعی میں وہ اس وقت اس قافلے کی طرح تھے جو بے سمت تھے ۔جو ابھی تک رئیس اور سرمایہ دار تھے لیکن دیار غیر میں فقیروں کی مانند زندگی گزارنے پر مجبورہیں ۔ ‘‘لاڑلا ’’ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں ایک ایسی کہانی کو پیش کیا گیا ہے جسے پڑھ کر باشعور قاری سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ اس کہانی میں تربیت اولاد پر زور دینے کی کوشش کی گئی ہے اور عصر حاضر کے ان والدین پر طننر کیا گیا ہے جو اپنے لاڑلوں کو سر پر چڑھائے ہوئے ہیں ۔
‘‘وہ کہاں جاتا ہے ؟کیا کرتا ہے؟ کن لوگوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے ؟ والدین کو اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا نہ انہوں نے کبھی جاننے کی کوشش کی ۔ہمیشہ اس کی غلطیوں کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے ’’
اصل میں طارق شبنم موجودہ والدین کو باور کرانا چاہتا ہے کہ انہیں کس حد تک اپنے بچوں کی پرورش کرنی چاہئے ۔لاڑپیار میں آکر آج کل کے بچے خرافات میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔اس کہانی میں اقبال جو ایک چھوٹا لڑکا ہوتا ہے اپنے والدین خاص کر اپنی ماں کے لاڑ پیار کی وجہ سے Drugsکی لت لگ جاتی ہے ۔
اس کہانی کی زبان نہایت کی فصیح ہے ،مناسب محاورات اور تشبیہات کا استعمال کیا گیا ہے ۔ منظر کشی کے حوالے سے بھی یہ ایک کامیاب افسانہ ہے ـ:
‘‘ رات کے سناٹے لمحہ بہ لمحہ گہرے ہوتے جارہے تھے۔ موسم انتہائی خوشگوار تھا ، سسکیاں بھرتے ہوئے ہوا کے لطیف جھونکے ،نیلے آسمان پر تاروں کے جگمگاتے ہوئے ہیرے جواہرات اور چاند کی نرم و سبک روشنی ماحول کی اورزیادہ دلکش بنا رہے تھے ۔شہر کے مکین سکون سے نیند کی میٹھی باہنوں میں جھول رہے تھے۔’’
‘‘علی بابا ’’ ایک اور افسانہ ہے جس میں ایک انوکھے موضوع کو چھوا گیا ہے کہ کس طرح سے عورتیں فقیروں اور پیروں کی دی ہوئی مٹی اور تعویز کے چنگل میں آجاتی ہیں ۔اس میں توہم پرستی کاری ضرب لگائی گئی ہے ۔‘‘جنگلی آدم ’’ تمثیلی اسلوب میں لکھا ہوا ایک خوبصورت افسانہ ہے جس میں جنگلوں اور پہاڑوں کے مکینوں کو شہر اور دیہات کے بسنے والے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ اللہ کے سامنے حسب اور نسب معنی نہیں رکھتا ہے بلکہ ان کے سامنے آپ کی پرہیز گاری اور تقوی کو اہمیت ہے ۔
اس کے علاوہ اس مجموعے میں کئی اور افسانے ہیں جو لائق مطالعہ ہیں ۔ مجموعے میں متعدد ایسے افسانے ہیں جوافسانے کے فن پر پورا اترے ہیں ۔ کشمیر کے معاصر افسانہ نگاروں میں طارق شبنم ایک اہم نام ہیں ۔ ان کا کینوس وسیع ہے اور تکنیکی سطح پر بھی کامیاب نظر آتے ہیں ۔ اس مجموعے میں متعدد افسانے راست بیانیہ میں لکھے گیے ہیں ۔اس میں ٹیپنگ کی غلطیاں بھی ہیں جن کو دوسرے اڈیشن میں ٹھیک کیا جاسکتا ہے ۔ بہرحال یہ مجموعہ اردو افسانے میں ایک اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے اوراس حوالے سے طارق شبنم مبارکبادی کے مستحق ہیں اور مجھے امید ہے کہ قارئین اور خاص طور پر وہ اسکالرس جو جموں و کشمیر کے اردو افسانے پر کام کر رہے ہیں وہ اسے پڑھ کر مستفید ہوں گے ۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ !
پتہ : آکاش انسٹیوٹ راج باغ ،سرینگر190006
irfanrasheedf@gmail.com
9622701102 cell: