You are currently viewing تحقیق  اور  تحقیق کے مسائل

تحقیق  اور  تحقیق کے مسائل

حسین قریشی

ریسرچ  اسکولر

بامو یونیورسیٹی  اورنگ آباد،مہاراشٹر

تحقیق  اور  تحقیق کے مسائل

تحقیق کرنا ایک و قت  طلب اورچشم کشا عمل ہے۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔  یہ عمل آہیستہ آہیستہ منزل جانب سفر کرتا ہے۔ جس کا راستہ پیچیدہ ہوتا ہے۔ لیکن  اس مشکلات سے گھیرے عمل کے بے شمار فوائد بھی ہے۔  اس وجہ سے  محقیقین اس چیلینج کو بخوشی قبو کرتے ہیں۔ اور منزل پر پہنچ کر ہی دم لیتے ہیں۔  تاریخ کے اوراق سے پتہ  چلتا  ہے کہ تحقیق کے عمل کو عملی جامہ پہناتے ہوئے یورپ نے آسمانوں تک رسائی کرلی ہیں۔ ہم نے اس عمل کو بالائے طاق رکھا اس لئے ہم کنارے پر بیٹھ کر یورپ  کی ترقی نظارہ کر رہے ہیں۔ دراصل تحقیق عمل کے آغاز سے ہی اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ مقالہ نگاری کے لیے مواد کی تلاش کا انداز دیگر  نگارشات سے مختلف ہے۔مقالہ نگاری کے لیے درکار مواد کی فراہمی لائبریریوں کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔دیگر نگارشات درحقیقت ہمارے اپنے ذاتی تجربات پر مبنی ہوتی ہیں۔تحقیقی عمل انتہائی ذمہ دارانہ فعل ہے۔بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ تمام معلومات اور خیالات کا سر چشمہ کتاب،رسالہ،جریدہ  حتی کہ غیر مطبوعہ مصادر ہوتیہیں۔محقق نے اسے مرتب کرنا ہوتا ہے اور ربط کا رشتہ بنانا ہوتا ہے۔ایک معیاری تحقیقی مقالہ لکھنا کوئی آسا ن کام نہیں ہے۔ایک خاص موضوع پر موجود مواد کی جانچ کرنا،اسے منظم کرنا،مرتب کرنا اور ایک با معنی مواد تشکیل دینا ہوتا ہے۔اگرچہ یہ عمل کافی محنت طلب ہے اور اس کے راستے میں حائل مشکلات بہت زیادہ ہیں،مگر یہ عمل پرلطف بھی ہے۔اور اگر کام کو اچھے انداز میں سر انجام دے لیا جائے تو تسکین حاصل ہوتی ہے۔اور انسان مہارت حاصل کر لیتا ہے اور اپنے موضوع پر گرفت

 ہونے کی وجہ سے لوگ اس کی قدر کرتے ہیں۔

        جدت پسندی انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اسی وجہ وہ غیر موجودہ حقائق کی دریافت کرتا رہتا ہے۔ اور ساتھ ہی جو موجود حقائق ہیں اسکا ازسرِ نو جائزہ لیتا رہتا ہے۔ اسی کو “تحقیق” کہتے ہیں۔ تحقیق کا عمل مؤثر ہونے کے لئے اول تو دلچسپی کے ساتھ مثبت سوچ اور دوم مواد و وسائل تک رسائی بہم پہنچنا ہے۔ اسی کے ساتھ مشکلات سے مقابلہ کرنے کی تیاری بھی ضروری ہے۔

مواد کی دو قسمیں ہیں۔

ابتدائی Primary   و ثانوی    Secondary

داخلی Internal   اور    خارجی     External

         ان اقسام کی مناسبت سے مسائل بھی مختلف درپیش ہوتے ہیں۔ مواد کے مقامات پر پہنچنا وہاں پر عنوانات کے حوالے سے مواد کا دستیاب ہونا ضروری ہوتاہے۔ مگر ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں مخصوص مقام تک رسائی اور وہاں موجود اردو تحقیقی مواد ملنا بہت مشکل امر ہے۔ کیونکہ تحقیق کے لئے ہمارے یہاں کی زمین ابھی ہموار نہیں ہے اور اسے ہموار ہونے میں شاید اور کئی دہائیاں لگ جائیں۔ لائبریری ریسرچ کی اگربات کی جائے تو تحقیق سے دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کو احساس ہوگا کہ ہمارے ملک کی بیشتر لائبریریاں سائنٹفک اور جدید اصولوں کے معیار پر کھری نہیں اترتیں۔ جس کا خمیازہ بالآخر محقق کو ہی اٹھاناپڑتا ہے۔لائبریری ریسرچ کے تحت کتابیں، رسائل وجرائد اور متعلقہ مضامین ہی اہم ماخذ کے بطور تسلیم کئے جاتے ہیں اس لیے جب ان ماخذتک سبک رسائی کاموقع ایک محقق کو نہیں ملتا تو وہ غیر ضروری وآزمائشوں کا شکار ہو تا ہے۔ وہ ذہنی تناؤ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

اردو آن لائن لائبریریوں کا فقدان:-

         لائبریریوں میں دستیاب کتب کے مکمل اشاریے کا فقدان ایک محقق کولائبریری کی گرد چھاننے پر مجبور کردیتا ہے۔بعض دفعہ خود لائبریرین کو علم نہیں ہوتا کہ کون سی کتابیں ان کی لائبریری میں موجودہیں اور کون نہیں۔ جس کی وجہ سے ایک محقق کو ادھورے وناقص کیٹلاگ اور رجسٹر کی ورق گردانی کے بعد الماریوں میں مطلوبہ کتب کی تلاش میںاپنا وقت صرف کرنا پڑتا ہے،عملوں کی کمی کی شکار لائبریریوں میں تو بنیادی اندراج تک نہیں ہوتا۔ کیٹلاگنگ اور آن لائن کیٹلاگنگ کی باتیں تو ایسے میں دور کی کوڑی ہی لگتی ہیں۔ جبکہ ان ماخذ تک آن لائن رسائی ایک محقق کے کام کو کس قدر آسان بنا دے گی، اس کا تصور ایک ترقی پذیر ملک میں بیٹھ کر نہیں کیا جا سکتا۔

حوالہ جات کتب کا مسئلہ :-

اگر مواد کے ماخذ کی بات کی جائے تو اس کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

(الف) مطبوعہ

 (ب)غیر مطبوعہ یعنی قلمی یا خطی

مطبوعہ مواد بنیادی طور سے دو طرح کے ہوتے ہیں۔

(۱)حوالہ جاتی کتب

(جیسے انسائیکلو پیڈیا،لغات، اشاریہ اور کتابوں کی ڈائرکٹری وغیرہ)

(۲)عام کتب

ہمارے یہاں سب سے بڑا مسئلہ حوالہ جاتی کتب کو لے کریہ ہے کہ انسائیکلو پیڈیا کے نام پرقومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے شائع’’جامع اردو انسائیکلو پیڈیا‘‘ موجود ہیں۔ مگریہ اپڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم بین الاقوامی سطح کی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں انسائیکلوپیڈیا ہر سال اپڈیٹ کیا جاتا ہے۔ اور باقاعدہ اسکی تفصیل نشر کی جاتی ہے۔

مستند لغت کی عدم دستیابی:-

          ہمارے یہاں مستند ترین لغات کی کمی سے بھی اردو محققین کو گزرنا پڑتا ہے۔ کسی ایک لفظ کے صحیح تلفظ اور بنیادی مطالب کی رسائی کے لئے کئی کئی لغات کی طرف رجو ع کرنے کے باوجود کامیابی نہیں ملتی۔فرہنگ آصفیہ، نور اللغات اور مہذب اللغات جیسے معتبر لغات کے تازہ ترین ایڈیشن کی سن اشاعت کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے لغات کتنے ادھورے ہیں۔ انگریزی اور دیگر زبانوں کے لغات کی ہرتازہ اشاعت بین الاقوامی خبر بنتی ہے۔کیونکہ کس زبان سے کتنے الفاظ انگریزی نے اور دیگر زبانوں نے قبول کئے،ایسی خبریں سبھوں کی دلچسپی کی باعث ہوتی ہیں۔لیکن اردو لغت کے معاملے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔

عام کتب کی فراہمی کا مسئلہ :-

         حوالہ جاتی کتب کے بعد عام کتب کی بات کی جائے تویہاں بھی ایک محقق کو معیاری موضوعاتی موادکی کمی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔سہل پسندی کی وجہ سے سالہا سال تک کتابیں ہمارے یہاں چھپتی رہی ہیں اور اب بھی چھپ رہی ہیں جن کا مواد تحقیقی معیار پر کھرے نہیں اترتے۔سنی سنائی باتوں کو نقل کردینے کی عادت ہمارے یہاں کے مصنفین کی بہت پرانی ہے۔’’آب حیات‘‘کے مولانا محمد حسین آزاد، نصیر الدین ہاشمی اور ڈاکٹر مختارالدین احمد جیسی برگزیدہ اور تحقیقی شخصیات کے یہاں بھی اس طرح کی بے شمار کوتاہیوں کی نشاندہی کی جا چکی ہیں۔ ان کے کتنے ہی نظریات اور رائیں اب بالکل باطل قرار پاچکی ہیں۔ ایسے میں ایک محقق کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ انہیں مواد کے ردو قبول میں حد درجہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ جس سے ظاہر ہے مسائل میں اضافے ہوتے ہیں۔

مطبوعہ کتب کی قارئین تک رسائی :-

         عا م کتب کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ طباعت کے زیور سے آراستہ ہونے کے با وجود ایک قاری کی رسا ئی ان تک مشکل سے ہو پاتی ہے۔ کیوں کہ اردو ناشرین جدید مارکیٹنگ کے اصولوں کو اب تک اپنا نہیں سکے ہیں۔ دیگر زبانوں کے ناشرین کی طرح ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کتاب کی ہارڈ کاپی کے ساتھ ساتھ وہ سافٹ کاپی کی تجارت کو بھی اپنا ئیں۔ اس سے جہاںقاری کے لیے اپنے مطلوبہ مواد تک جلد رسائی ممکن ہوپاتی وہیںکاغذ کی بچت اور طباعت کے خرچ کے کم ہونے سے ناشر اور قاری دونوں کی جیب پر بوجھ بھی کم پڑتا اور علم کو فروغ حاصل ہو پاتا۔ ساتھ ہی کاغذ کی تیاری میں ہزاروں پیڑ کٹنے سے بچ جاتے جو ظاہر ہے ما حولیات کے تحفظ کی راہ کو آسان بناتا۔ہارڈ کاپی کی فروخت کے روایتی طریقے کو ہی اردو ناشرین اپنا ئے ہوئے ہیں۔ یعنی کتب فروش کی دکا ن پرجسمانی طور سے لازما پہنا جائے۔

غیر مطبوعہ یعنی قلمی یا خطی کتب کے ایڈیشن کا مسئلہ :-

           اب بات کی جائے غیر مطبوعہ یعنی قلمی یا خطی کتابوں کی،جسے ایک لفظ میں مخطوطہ بھی کہا جاتا ہے۔جب کسی موضوع پر مطلوبہ مواد کی فراہمی کا انحصار انہی مخطوطات پر ہوجاتا ہے تو ان کی اہمیت دو بالا ہوجاتی ہے۔ یا پھر کتاب اشاعت پذیر تو ہوئی  لیکن اس کے مختلف ایڈیشنوں کے مابین باہم تضاد پایا جاتا ہو تو بھی مخطوطوں کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔کیونکہ ان کی طرف رجوع کئے بغیر مسئلے کی عقدہ کشائی نا ممکن ہوجاتی ہے۔کیونکہ ہمارے دورِ غلامی میں ہماری علمی وراثتوں کی منتقلی مختلف حیلے بہانوں سے یورپ کی لائبریریوں میں ہوتی گئی تھیں۔ پھر جو مخطوطے ہندوستان میں ابھی بھی موجود ہیں، ملک بھر میں بکھرے ہونے کی وجہ سے ان تک رسائی بھی آسان نہیں ،بلا شبہ رضالائبریری رام پور، خدا بخش لائبریری پٹنہ، انجمن ترقی اردو ہندی لائبریری دہلی، مسلم یونیورسٹی لا ئبریری علی گڑھ، گورنمنٹ اور ینٹل مینوا سکریٹ لائبریری حید رآباد، ،انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹیٹوٹ بمبئی، جامع مسجد بمبئی اورنیشنل لائبریری کلکتہ وغیرہ میں مخطوطات کا ایک قابل ذکر ذخیرہ موجود ہے،لیکن یہ اس قدر بکھرے ہو ئے اور بے ترتیب ہیں کہ اس سے استفادہ عام حالات میں مشکل ہے۔یہاں موجود مخطوطات میں سے بیشتر کا اب تک مائکروفلمز بھی تیار نہیںہوپا ئی ہے، جس سے اس کے رکھ رکھائو اورقابل استعمال ہونے کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

مصنفین کے ذاتی کاغذات کی فراہمی :-

         ان سب کے علاوہ مسودے، ڈائریاں، میونسپل رجسٹر، اسکول رجسٹر، مصنف کے منتشر کاغذات، خطوط،تاریخی دستاویزات ،قانونی دستاویزات بشمول مقدمے کی مِسَل ،وصیت نامے، بیع نامے، زائچے( جنم پتری) ،درس گاہوں میں داخلے اور امتحانات کے فارم، ملازمت سے متعلق رکارڈ، ان کم ٹیکس رکارڈ، طبی کارڈ، پاسپورٹ ،راشن کارڈاور ڈرائیونگ لائسنس بھی حقائق تک پہنچنے کے معتبر ذرائع ہو تے ہیں۔لیکن شاید کہنے کی ضرورت نہیں کہ جب کسی مصنف کے وارثین نے ان کے قیمتی مخطوطات کی حفاظت میں بخالت سے کام لیاہو تو ان چیزوں کی حفاظت میں ان کی دلچسپی کس قدر رہی ہوگی، یہ اظہر من الشمس ہے۔لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ اکیسویں صدی کے مصنفین ڈیجیٹل دنیا سے برابر جڑرہے ہیں، جس سے ان کی تخلیقات کے ساتھ ساتھ یہ ساری چیز یں بھی آن لائن محفوظ ہورہی ہیں۔ مستقبل کے محقق کو ان سے متعلق تحقیقات میں کم سے کم پریشانیوں کا سامنا کرناپڑے گا۔

 الغرض موضوع کے انتخاب سے لے کر مواد کی فراہمی کے بعد اس کے منظر عام پر آنے تک کئی صبر آزما مواقع آتے ہیں جن کاایک محقق کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس لئے اگر قاضی عبدالودود صاحب نے کہا کہ ’’تحقیق خون تھوکنے کے مترادف ہے، جوخون تھوک سکے، وہی تحقیق کی رہ گذر میں آئے‘‘تو غلط نہیں کہا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اردو تحقیق کی راہ انتہائی کانٹوں بھری ہے لیکن اپنی زبان کو عالمی ادب میں ایک بلند مقام پر دیکھنے کی خواہش محقق کو ہر مرحلے پر ثابت قدم رہنے کی ترغیب دیتی ہے اور وہ ہر مشکل کو آسان بناکر اپنے سفر کو منزل تک پہنچاکر ہی دم لیتا ہے۔

***

Leave a Reply