ڈاکٹرجہاں گیر حسن مصباحی
ایڈیٹر ماہنامہ خضرراہ، سیدسراواں، الہ آباد
تربیت العشاق کا صوفیانہ مطالعہ
صوفی کا لفظ سنتے ہی دل و دماغ میںایک سوال اُبھرتا ہےکہ صوفی کون ہوتا ہے اوراُس کی زندگی کا اصل مقصد کیا ہوتا ہے ؟
صوفی کون ہےاور اُس کا مقصد کیا ہے؟
اب تک صوفی کی جتنی بھی تعریفیں کی گئی ہیں، اُن سب سے قطع نظر جہاں تک میں سمجھتاہوں کہ ایک صوفی کو’’اِنسان‘‘ اور ’’ایمان ‘‘ کا عطرمجموعہ کہاجاسکتا ہے ۔اِنسان کہ جس کے خمیر میں اُنسیت ومحبت اوراُخوت و مروت شامل ہے اور مومن کہ جس کے خمیر میں رضائےالٰہی کی آرزو،اورمخلوق کی خیرخواہی شامل ہے تو معلوم ہوا کہ ایک صوفی دراصل اُنسیت و محبت، اُخوت و مروت اور خیرخواہی و انسان دوستی ، رضائے الٰہی کا پیکر جمیل ہوتا ہے، اور یہی وہ سبب ہے کہ ایک صوفی کی نظر میں کسی بھید بھاؤ،اعلیٰ/ ادنیٰ،مسلم/ غیرمسلم، امیر/غریب اور میںوتو کا گزر نہیں ہوتا،بلکہ اُس کی نظر میں سب مخلوق اللہ کے بندے ہوتے ہیں اور تمام مخلوق کو فائدہ پہنچانا وہ اپنا فرض منصبی سمجھتا ہےکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک فرمان ہے:تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کی بارگاہ میں وہ بندہ سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے جو اللہ کے کنبے کو سب سے زیادہ نفع اور فائدہ پہنچاتا ہے۔(۱)
مختصر یہ کہ ایک صوفی کا مقصد حیات ہی اللہ و رسول کی تابعداری اور مخلوق کی خدمتگاری ہوتا ہے۔نہ اُس کی اپنی کچھ مرضی ہوتی ہے اورنہ اُس کی اپنی کچھ خوشی ہوتی ہے، وہ بہرحال رضائےالٰہی پر راضی رہتا ہے۔ جیساکہ شاہ سیدمحمدذوقی قدس سرہٗ فرماتے ہیں:
’’ ہم دوزخ سے نہیں ڈرتے۔ اگر وہ ہمیں دوزخ میں ڈال کر خوش ہوتا ہے تو ہم خوشی سے دوزخ میں جانے کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں اپنی خوشی مطلوب نہیں ہے۔ ہماری خوشی اس میں ہےکہ وہ خوش ہوجائے۔‘‘(۲)
شاہ سید محمدذوقی قدس سرہٗ کس قدر فقیدالمثال شخصیت تھےاِس کے لیےبس اتنا جان لینا کافی ہے کہ آپ قدیم و جدید علوم و فنون اور تہذیب وتمدن کے حسین سنگم تھےاور دین و دنیا دونوں میں ایک رہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔آپ نےملازمت بھی کی، تجارت بھی کی، ادارت بھی فرمائی اور پھر تبلیغ و ارشاد کے مقام پر بھی فائز رہے۔ بقول سید شریف الحسن:
’’وہ ایک طرف دنیاوی خوبیوں کے مالک تھے، مثلااچھے مقرر، اچھے ادیب، قانون داں اور کامیاب تاجر، تو دوسری طرف ایک بلند پایہ درویش اور خدا رسیدہ بزرگ تھے۔‘‘ (۳)
’’تربیت عشاق‘‘آپ کے ملفوظات اورسوانح و سیرت کا’’ریاض الجنۃ‘‘ ہے۔ یہ درج ذیل تین حصوں پر منقسم ہے:
پہلا حصہ ملفوظات، دوسرا حصہ سیرت اورتیسرا حصہ بھی ملفوظات پر مشتمل ہےجسے بالترتیب شاہ شہیداللہ فریدی،سید شریف الحسن اورکپتان واحد بخش سیال نے تالیف کیے ہیں،جب کہ اِن سب کو محمد حسین بَرےنے مرتب کیا ہے۔
یہ مجموعہ پانچویں بارمحفل ذوقیہ، کراچی سےسال ۱۴۲۵ھ / ۲۰۰۳ء میں شائع ہوا ہے۔
ہم کیا اور ہماری مجال کیا کہ ’’تربیت العشاق‘‘ یا اِس جیسے دوسرے ملفوظات پر کچھ خامہ فرسائی کرسکیں مگراِس اُمید کے ساتھ ہم نے اِس کے صوفیانہ پہلو پرکچھ کہنےکی جسارت وہمت کی ہے کہ گھڑی بھر کے لیے ہی سہی ہماری شقاوت حرماں نصیبی بھی،سعادت و خوش بختی کا لبادہ اوڑھ لے کہ’’ذکر کی مجالس میں بیٹھنے والاشقی نہیں ہوتا۔‘‘
چنانچہ جہاں تک ہوسکا ہم نے ’’تربیت العشاق‘‘ کا مطالعہ کیا تو بجاطورپر پایا کہ واقعی یہ صوفیانہ منہج کا نمونہ ہے، بلکہ میری ناقص رائےمیں اگراِسے صوفی گر بھی کہاجائےتو کچھ غلط نہ ہوگا۔
آئیے ایک نظر اِس پر ڈالیں اور یہ دیکھیں کہ ہم نے کہاں تک اپنے عنوان سے انصاف کیا ہے۔
صوفیانہ طرزِ اصلاح
کپتان واحد بخش سیال بیان کرتے ہیں:
’’ایک دن رسالوں اور مضامین کے ذریعے تبلیغ پر گفتگو ہورہی تھی، ارشاد فرمایا: حسن نظامی نے اپنی ایک لڑکی کی شادی کی جن کا ابھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے، اس تقریب پر اُنھوں نے جو اپنے احباب کو جاری کیے اس کا مضمون کچھ اس طرح تھا:’’اس محبت کی بنا پر جو مجھے آپ سے ہے آپ کی خدمت میں لڑکی کی شادی میں شمولیت کی استدعا کرتا ہوں تاکہ آپ کی تشریف آوری میرے لیے خوشی کھ باعث بنے۔ تشریف آوری پر آپ کا اسٹیشن پر استقبال کیا جائےگا۔ اسٹیشن پر سواری موجود رہےگی۔ قیام کے لیے نہایت آراستہ و پیراستہ مکان دیا جائےگا اور عمدہ عمدہ کھانے پیش کیے جائیںگے۔ غرضیکہ ہر قسم کا آرام بہم پہنچایا جائےگا۔ لیکن چوںکہ آپ کو تشریف لانے میں اور مجھے یہ انتظامات کرنے میں کافی دقت کا سامنا ہوگا، اس لیے عرض کیا جاتا ہے کہ آپ تشریف آوری کی زحمت گوارا نہ فرمائیں تو اچھا ہے۔ بہرحال آپ کو یہ معلوم ہوہی گیا ہوگا کہ میرے دل میں آپ کی کتنی وقعت ہے۔ آپ تشریف لاتے تو آپ کی خاطر کیا کیا انتظامات کیے جاتے۔ــ‘‘
فرمایا: اس قسم کا دعوت نامہ ہمارے پاس بھی آیا تھا۔ ایک دفعہ کسی جگہ ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ عرس کا زمانہ تھا۔ ہم نے اُن سے کہا:’ـ’امسال
اجمیر شریف عرس پر ضرور تشریف لائیے غریب خانہ حاضر ہے۔ ہرقسم کا انتظام ہوگا۔ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہوگی، عمدہ عمدہ کھانوں کے علاوہ قوالی وغیرہ کا بھی انتظام ہوگا۔ لیکن چوں کہ آپ کو تشریف لانے میں اور ہم کو یہ سارے انتظامات کرنے میں تکلیف ہوگی، اس لیے مناسب یہی ہے کہ آپ تشریف نہ لائیں۔ بہرحال آپ کو تو معلوم ہوہی گیا ہوگا کہ میرے دل میں آپ کے لیے کس قدر محبت ہے۔‘‘(تربیت العشاق،ص:۵۸۰، مطبوعہ:محفل ذوقیہ، کراچی، ۲۰۰۳ء)
یعنی اصلاح میں موقع و محل کا خیال رکھا جانا چاہیے ، ورنہ بسا اوقات اچھی اور قابل اصلاح باتیں بھی دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ حسن نظامی اِنشا پرداز تھے اور کافی حد تک طبعی ظرافت کے بھی مالک تھے، اس لیے دعوت نامہ ملتے وقت اُن کے دعوتی اندازو اسلوب پر اُنھیں کچھ نہ کہا ،لیکن جیسے ہی موقع ملااور ایسا موقع کہ اس میں انشاپردازی کاطرزِ ادابھی قائم رہے اور طبعی ظرافت کی شان بھی باقی رہے،توفوری طورپر اپنے مقصد کی بات کہہ دی۔یہی صوفیانہ طرزِ اصلاح ہے کہ اس کے آگے بڑے بڑوں کو دم مارنے کی ہمت وقوت نہیں ہوپاتی ہے۔
کپتان صاحب مزید بیان کرتے ہیں :
بالواسطہ طریقے سے کسی اور کو مخاطب کرکے بتانا چاہیے تاکہ وہ اُسے سن کر اپنی اصلاح کرلے۔ فرمایا: ایک دفعہ حضرت امام حسین عراق میں تھے۔ مسجدمیں دیکھا کہ ایک شخص غلط طریقے پر وضو کررہا ہے۔ آپ نے حضرت امام حسن علیہ السلام سے فرمایا: ’’ دیکھیے وہ شخص غلط وضو کررہا ہے۔ اب میں جاکر اُسی طرح وضو کرتا ہوں اور آپ مجھے بتانا کہ یہ طریقہ غلط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح وضو فرمایا کرتے تھے۔ــ‘‘چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ جب اس آدمی نے دیکھا تو کہنے لگا: ’’اوہو! میں بھی اسی طرح غلط وضو کررہا تھا۔‘‘(۴)
یعنی اِصلاح میں کوئی ایساطرز اختیار نہ کیاجائے جس کےسبب قابل اِصلاح افراد اپنی سبکی محسوس کریں ۔
بحث ومباحثہ صوفیانہ طرز نہیں
سید شہیداللہ فریدی کا بیان ہے:
’’ایک دفعہ ارشاد فرمایاکہ سالک کو چاہیے کہ کسی کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرے۔ مناظرہ سے دل سخت ہوتا ہے۔ للہیت جاتی رہتی ہے اور نفسانیت آجاتی ہے۔ خیال کرتا ہے کہ میں نے یہ کہا اور میں نے وہ کہا، اس لیے اگر کسی سے بات چیت ہوجائے تو ٹھنڈے دل سے حق بات کہہ دے اور ذرا قوت قلب سے اس کے دل کی طرف متوجہ ہوجائے، جوش میں آنے کی ضرورت نہیں ہے، اور جب دیکھے بحث چھڑ جانے والی ہے تو خوب صورتی سے اُسے ٹال دے۔‘‘(تربیت العشاق،ص: ۳۵۶،مطبوعہ:محفل ذوقیہ، کراچی، ۲۰۰۳ء)
ایسا ہی ایک معاملہ پیش آیا تو سید ذوقی میاں نے بڑی خوب صورتی سےاُسے ٹالا، جیساکہ کپتان واحد بخش سیال کا بیان ہے:
’’ارشاد فرمایاکہ ایک دفعہ آگرہ میں ایک یورپ زدہ نوجوان یہ سن کر کہ ہم نےعلی گڑھ میں تعلیم پائی ہے ہم سے ملنے آئے، مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ نماز کا تذکرہ آیا، کہنے لگے :’’اسلام میں نماز واقعی بڑی اچھی چیز ہے، میں اسے پسند کرتا ہوں مگر یہ وضو کا بڑا جھنجھٹ ہے۔ کف اور کالر کاتو ستیا ناس ہوجاتا ہے۔ بھئی سچ تو یہ ہے کہ وضو کی قید سے جی گھبراتا ہے۔‘‘ ہم نے کہا اچھا تم بلا وضو نماز پڑھ لیا کرو۔ اس پر وہ کچھ بحث کرنے لگے۔ ہم نے کہا اس کا عذاب ہمارے گردن پر تم شروع تو کردو۔غرضیکہ ہم نے اُن سے بےوضو نماز پڑھنے کا وعدہ لے لیا اور وہ چلے گئے۔ اتفاق سے اس وقت ایک مولوی صاحب بھی تشریف فرما تھے، وہ ہماری گفتگو سن کر اندر ہی اندر کھول رہے تھے، لیکن لب کشائی کی ہمت نہیں پڑتی تھی اس لیے کہ وہ صاحب ایک اعلیٰ سرکاری افسر تھے ۔ اُن صاحب کے جاتے ہی مولوی صاحب ہم سے اُلجھ گئے، کہنے لگے کہ واہ صاحب! اب تو آپ لوگ شارع کے حکم میں بھی اپنی مرضی چلانے لگے۔ دین میں رخنہ ڈالنا شروع کردیا۔ ہم نے کہا مولوی صاحب آپ نے بڑا کرم کیا جو اُس وقت نہیں بولے۔ میں اِس کا جواب ان شااللہ وچند دنوں کے بعد دوں گا۔ غرضیکہ کوئی پندرہ دن کے بعد وہ صاحب پھر آئے، حسن اتفاق سے اُس دن بھی ،مولوی صاحب ہمارے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے اُن سے پوچھا، کہیے کیا حال ہے؟ نماز شروع کی یا نہیں؟ کہنے لگے شکر ہے، اور آپ کی اطلاع کے لیے یہ خوشخبری سناتا ہوں کہ اب میں باوضو نماز پڑھ لیتا ہوں۔ ہم نے کہا، کیا اب کف اورکالرخراب نہیں ہوتے؟ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہاکہ واقعی نہیں ہوتے، اِس لیے کہ صبح جب غسل کرتا ہوں تو اُس کے ساتھ ہی وضو بھی کرلیتا ہوں، اس میں کیا ہےذرا Formality(مخصوص طریقہ) برت لیتا ہوں، وضو ہوجاتا ہے، وہی وضو ظہر تک بلکہ عصر تک قائم رہتا ہے۔ ہم لوگوں کی عادت ہے کہ دفتر سے چھوٹنے کے بعد ہاتھ منھ دھوکر کپڑے تبدیل کیے،چائے پی اور تفریح کے لیے نکل گئے۔ اس وقت بھی Formality سے ہاتھ منھ دھولیتا ہوں اور اُسی وضو سے مغرب اور عشا پڑھ لیتا ہوں اور مجھے کوئی دقت نہیں ہوتی۔ــ
یہی واقعہ مولوی محمد حسین نے بھی سنا تھا اور عرض کیا تھا کہ اگر اُن میں یہ تبدیلی نہ ہوتی اور اسی طرح بلا وضو پڑھا کرتے تو معاملہ نازک ہوجاتا۔ اس پر حضرت مسکرائے اور فرمایا کہ ہم نے تو متوجہ الی اللہ ہوکراُس سے کہا تھا اور پچھلے پہر اپنے خاص مشاغل کے وقت خاص طورپر عرض کیا تھا کہ باری تعالیٰ آپ کے دروازے اُسے لے آیا ہوں، اب ہدایت بھی فرما خوب گڑاگڑا کر عرض کیا تھا۔ اس نے قبول فرمالیا۔ (۵)
اس میں تین باتیں قابل عبرت ہیں اور صوفیانہ منہج کی علمبردار ہیں:
۱۔’’ اس کا عذاب ہمارے گردن پر تم شروع تو کردو‘‘ یہ جملہ ایک صوفی صفت اور خدادوست ہی کہہ سکتا ہےکہ وہ دوسروں کو تکلیف میں دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ہما شما کے بس میں یہ جملہ کہنے کی ہمت و صلاحیت نہیں ہوسکتی ہےکہ جو ہمیشہ دوسروںکو تکلیف دینے کے درپے رہتا ہے۔
۲۔مولوی صاحب کا الجھنا کہ یہ دین میں رخنہ ڈالنا ہے مگرجواباً یہ کہاجاناکہ دس پندرہ دنوں کے بعدجواب مل جائےگا، بحث ومباحثہ اور مناظرہ سے بچنا ہی تو ہے۔ورنہ تو آج علمائے محض کایہ حال ہے کہ کسی کی بات اعتراض برداشت کرلینا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں کہ جب تک سامنے والے کو خاموش نہ کردیاجائے پیچھے ہٹنے کانام نہیں لیتے۔
۳۔گڑگڑکر اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرنا، اس سے واضح ہوتا ہےکہ جو کچھ ہوگا اللہ کی مرضی ہی سے ہوگا۔یعنی ایک صوفی اپنے عمل کی کامیابی اللہ ہی کی طرف سے جانتا اور مانتا ہے۔
صوفیانہ طرزِ جزا
ـبدلہ دینے کا صوفیانہ مشرب و منہج کیا ہےاس تعلق سے شاہ شہیداللہ فریدی بیان کرتے ہیں کہ سیدذوقی میاں نے فرمایا:
’’ایک دفعہ ایک بزرگ رات کو کہیں جارہے تھے۔ اُن کے ساتھ چار پانچ آدمی اور تھے، راستے میں چور مل گئے۔ اُنھوں نے ان کے کپڑے وغیرہ ٹٹولے لیکن کچھ نہ ملا اور اُس ناکامی سے غصہ میں آکر اُن کو مارنے لگے۔ جب وہ پٹ چکے تو لوگوں نے اُن بزرگ سے کہا:’’آپ اُن کے لیے بددعا کیوں نہیں کرتے؟‘‘
چنانچہ اُنھوں نے ہاتھ اُٹھائے اور کہا:’’ یااللہ! اُنھیں دنیا اور آخرت کی بھلائی نصیب کر۔‘‘
وہ دعا قبول ہوگئی اور سب کے سب تائب ہوکر اُن کی خدمت آئے اور ابدالوں کا مرتبہ پایا۔‘‘(تربیت العشاق،ص:۳۴۰-۳۳۹)
ظلم کا بدلہ ظلم سے دینا نہ اللہ کو پسند ہے اور نہ رسول کو،اور چوں کہ بزرگانِ دین تجلیات الٰہی اور فیضانِ نبوت کے مظاہر ہوتے ہیں، اِس لیےاُن کے یہاں بُرائی کا بدلہ خیر خواہی کے ساتھ دینا ہی محبوب و مقبول ہے۔غرضیکہ صرف اور صرف خیرخواہی اور خیرسگالی ہی صوفیانہ مشرب و منہج ہے۔
صوفیانہ فتویٰ
شاہ شہیداللہ فریدی کا بیان ہےکہ ذوقی میاں نےفرمایا:
’’ تعزیہ کے جلوس سے انگریز بہت ڈرتے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں تلواریں وغیرہ استعمال کی جاتی ہیں اور فوجی جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ شاہ عبدالعزیز صاحب نے فتویٰ دیا کہ تعزیہ نکالنا بدعت ہے۔ جب دہلی کے چیف کمشنر نے سنا تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور دریافت کیا:’’کیا آپ نے یہ فتویٰ دیا ہے؟‘‘فرمایا:’’ اگر تو پوچھنے آیا ہے تو میں یہ کہوںگا کہ تعزیہ نکالنا فرض ہے۔‘‘(۶)
اِس طرح کا فتویٰ ایک صوفی عالم و مفتی ہی دےسکتا ہے۔
صوفیانہ طرزِ فکر
ایک صوفی کس طرح سوچتا ہے اس سلسلے میں کپتان واحد بخش سیال کا بیان ہے کہ ذوقی میاں نےفرمایا:
’’ بعض لوگ یزید پر لعنت بھیجتےہیں، اس لیے کہ اس نے اہل بیت پر ظلم کیا، اور بعض لوگ اُسے لعنتی کہنے سے احتراز کرتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام رحمۃ للعلمین صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ نے یزید کو معاف کردیا ہو۔ ایک دفعہ کسی نے خواجہ قطب صاحب سے دریافت کیا:
’’یزید پر لعنت بھیجنے سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
آپ نے فرمایا: ’’ بھائی! مجھے آج تک یہ نام لینےکا اتفاق نہیں ہوا۔‘‘
اس کے بعد فرمایاکہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ دوسروں کی بُرائیوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ اس سے یہ نقصان ہوتا ہےکہ اگرچہ وہ خود اس بُرائی کے مرتکب نہیں ہوتے لیکن ہروقت بُرائی کے تخیل سے دل میں تاریکی آجاتی ہے۔ جیسے ایک آدمی اگر کھانا کھا رہا ہے اور دوسرا آدمی اس کے سامنے کسی گندی چیزمثلا پاخانہ پیشاب کا ذکرکرے تو کھانا کھانے والا کہےگاکہ بھائی! ذرا ہمیں کھانا کھا لینے دو۔ بعینہ دوسروں کے عیوب تلاش کرنے، بیان کرے یا سننے سے اپنا قلب بھی ان برائیوں کے تعفن سے متاثر ہوجاتاہے، اس لیے انسان کو چاہیے کہ نہ کسی کی بُرائی کرے اور نہ سنے۔(۷)
یہی سبب ہے کہ ایک صوفی کبھی بھی بدگمان نہیں ہوتا ، کیوں کہ اسے حمدباللہ اور ذکرباللہ سےفرصت کہاں کہ وہ دوسروں کے عیبوں کو تلاش کرتا پھرے۔
صوفیانہ عقل و شعور
ایک دفعہ ارشاد فرمایا: جب شیطان دیکھتا ہے کہ اللہ کے نیک بندہ پر اس کا داؤ نہیں چلتا تو وہ ایک اور چال چلتا ہے۔ وہ یہ کرتا ہےکہ اس کو اعلیٰ عبادت سے ہٹاکر ادنیٰ عبادت میں مشغول کردیتا ہے۔ کیوں کہ عبادت کے ادنیٰ اور اعلیٰ ہونے کی پہچان بہت مشکل ہے۔ ایک دفعہ چند اولیائے کرام بیٹھے گفتگو کررہے تھے، رابعہ بصریہ بھی موجود تھیں۔ اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ عاقل کون ہے؟ سب نے کہا: ’’عقلمند وہ ہے جو نیکی اور بدی میں تمیز کرسکے۔‘‘
حضرت رابعہ بصریہ نے فرمایا:’’ غلط ہے، یہ کام تو کتا بھی کرلیتا ہے۔ کتے کی طرف ہڈی پھینکو تو آتا ہے اور پتھر پھینکو تو بھاگ جاتا ہے، یہ کون سی بڑی بات ہے۔ــ‘‘
سب نے کہا: ’’اچھاآپ بتائیےعاقل کون ہے؟‘‘ اُنھوں نے کہا: ’’ عاقل وہ ہے جو دونیکیوں میں تمیز کرسکے کہ اُن میں افضل کون سی ہے ،اور دو بُرائیوں میں تمیز کرسکے کہ اُن میں سے بدترین کون سی ہے۔ـ‘‘(۸)
یعنی ایک صوفی کی نظر محض عبادت پر نہیں ہوتی بلکہ اس کی نظرہمیشہ افضل ترین عبادت پر ہوتی ہے، اور ایک صوفی کے نزدیک عقلمند اور باشعور وہی شخص ہے جو ہمیشہ افضل ترین عبادت کے فراق میں رہتا ہے۔
صوفیانہ اندازِ تفہیم
چوں کہ ایک صوفی کا قلب و دماغ اور فکر و نظر نورِ ایمان سے منور رہتا ہے،اس لیے وہ مخاطب کے مزاج و فہم کے مطابق ہی گفتگو کرتا ہے، تاکہ آسانی سے مافی الضمیر مخاطب تک پہنچ سکے۔ جیساکہ کپتان واحد بخش سیال بیان کرتے ہیں :
فضل الحق برکلے ایک نومسلم انگریز تھے جو ایک دفعہ حضرت اقدس سے اجمیر شریف میں ملے تھے۔ ارشاد فرمایاکہ ایک دفعہ وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے: ’’ لوگ کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب ہمارا دین و ایمان ہیں، کیا یہ کہنا شرک نہیں ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’ آپ اتنے سخت اور کھرے کیوں ہوگئے ہیں، کیا آپ اقلیدس کی تھیوری نہیں جانتے:
If two things are equal to the same thing they are equal to each other
یعنی اگر دو چیزیں ایک ہی چیز سے مساوی ہیں تو وہ ایک دوسرے سے مساوی ہیں۔ اللہ تعالیٰ خواجہ صاحب کا دین و ایمان ہے۔ اب اگر خواجہ صاحب ہمارا دین و ایمان ہیں تو اس کا یہی مطلب ہے کہ دراصل اللہ تعالیٰ ہمارا دین و ایمان ہے۔
یہ سن کر وہ کہنے لگے: ’’ آج میں اپنے آپ کو ایک نئی دنیا میں محسوس کررہا ہوں۔‘‘(۹)
یہ صوفیانہ منہج کہ جس مذاق فناور معیارفہم کا اہل سوالی ہوتا ہے اسی کے اعتبار سے اُس کا جواب بھی دیا جاتا ہے کہ اگر نومسلم انگریز کو قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیا جاتا تو شاید وہ اور بھی کنفیوزن کا شکار ہوجاتا ۔ اِس سلسلے میں عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیاگیا ہے کہ ہم لوگوں سے اُس کی سمجھ اور شعور کے اعتبار سے گفتگو کریں۔ (۱۰)
خلاصہ کلام یہ کہ ’’تربیت العشاق ‘‘ملفوظاتی ادب میں ’’ریاض الجنۃ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے جس کے پاس سے گزرنے والا بغیر کچھ حاصل کیے نہیں رہ پاتااور اپنے لیے زادِ راہ بھی بناتا ہے اور زادِ دنیا بھی ۔
حوالہ جات اور مصادر ومراجع
۱۔شعب الایمان:حدیث:۷۰۴۶
۲۔تربیت العشاق،ص:۷۳، مطبوعہ:محفل ذوقیہ، کراچی، ۲۰۰۳ء
۳۔تربیت العشاق،ص:۴۷۲
۴۔تربیت العشاق،ص: ۴۱۵
۵۔تربیت العشاق،ص:۵۲۶-۵۲۵
۶۔تربیت العشاق،ص:۳۹۰
۷۔تربیت العشاق،ص: ۶۲۲
۸۔تربیت العشاق،ص: ۶۹۸
۹۔تربیت العشاق،ص: ۷۱۳
۱۰۔مسندالفردوس، حدیث:۱۶۱۱
***