You are currently viewing تشنہ لبی

تشنہ لبی

طاہر طیب

’’تشنہ لبی ‘‘

فہمیدہ اور گڈو دونوں سگی بہنیں۔گڈ واپنی بہن سے دس سال چھوٹی ہے۔ ماں باپ نے دونوں کو بڑے لاڈ پیار سے پالا۔پہلی بیٹی فہمیدہ پیدا ہوئی  توگھر میں جشن کا سما ں تھا۔سب گھر والے بڑےخوش تھے۔منتوں مرادوں سے دس   سال بعد ان کے ہاں دوسری بیٹی گڈو کی پیدائش ہوئی۔فہمیدہ نےاپنی  چھوٹی بہن کےخوب ناز  نخرے اٹھائے۔  پڑھائی کے ساتھ اس کی  دیکھ بھال بھی  کرتی،ماں کی طرح اس کاخیال رکھتی ۔غرض اس پرجان چھڑکتی ۔

 گڈو اپنے چھوٹے ہونے کا خوب فائدہ اٹھاتی۔بعض اوقات اس کی ہر جائز    و            ناجائز خواہش بھی  پوری کر دی جاتی۔ فہمیدہ نے بی اے کیا تو اس کی شادی عاصم سے ہوگئی۔وہ دونوں اپنے گھر میں   بھرپور طریقے سے زندگی  گزار رہے تھے۔ شادی کے دوسال بعد ان کےہاں پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی تو عاصم سمیت اس کے گھر والے  بڑے خوش ہوئے کہ ان کے خاندان کا وارث پید ا ہو گیا۔سب اسے بڑا پیار کرتےتھے ۔۔۔کہا جاتا ہے کہ عورت کے  ہاں پہلے  بیٹے کی پیدائش سے   گھر میں اس کی  عزت  بڑھ جاتی ہے۔فہمیدہ کےساتھ    بھی کچھ ایسا  ہی ہوا۔ تین سال بعد    بیٹی کی پیدائش ہوئی۔

ادھر گڈونے  ایف سی کے امتحان  میں  اچھے   نمبرلیے ۔تو اس نے پڑھائی کے لیے کراچی جانےکی ضد کی۔۔ ۔ باپ نے کہا :بیٹی! حیدر آباد بھی کوئی چھوٹا شہر نہیں ۔۔تم یہاں داخلہ  لے لو۔۔۔لیکن گڈوکی ضد کے آگے ماں باپ کی ایک نہ چلی۔  اب وہ  کراچی  پڑھنے چلی گئی ۔ذہین اور ایکٹیوہونے کی وجہ سےوہ اپنی   کلاس کی سی آر بن گئی۔  شروع میں وہ  یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہی۔  لیکن اسے وہاں  مزہ نہ آیا۔کچھ دنوں میں اس نے کئی ایسی لڑکیوں سے دوستی کر لی  جن کا تعلق اپر کلاس فیملی سے تھا۔ان میں  منزہ    جو اس کی بیسٹ فرینڈ تھی   اس کے ماں باپ دوبئی میں رہتے   تھے۔ویسے تو اس کا اپنا گھر ڈیفنس میں تھا ،باپ نے  رہنے کے لیے فلیٹ  اور گاڑی لے کر دی ہوئی تھی ۔منزہ نے گڈو کو اپنے فلیٹ میں رہنے کی آفرکی ۔جسے اس نے خوشی خوشی قبول کر لیا۔ وہ  ماڈرن خیالات کی مالک تھی ، جہاں رشتوں سے زیادہ خواہشات کی  اہمیت تھی ۔روپے پیسے کا رعب بھی عجیب اور   ظالم شے ہے۔ وقتی طور پر یہ ہرچیز کا  نعم البدل فراہم کر دیتا ہے۔۔۔رشتے ناتے سب اسی کی بدولت قریب ہوتے جاتے ہیں  ۔

ابتدائی  سمسٹرز میں گڈو کا  جی پی آر اچھا آتارہا لیکن   اب اس کا  پڑھائی میں دل  نہیں  لگتا ۔راتوں کودونوں  موویز دیکھتیں ویکنڈ کو خوب  انجوائے کرتیں۔۔۔۔ گڈوچھٹیوں میں جب گھر آتی تو راتوں کو جاگتی اور دن میں سوئی رہتی ۔ باپ نے کئی دفعہ منع کیا لیکن ماں کی سپورٹ نے اسے اور چوڑا کر دیا۔ماں کہتی  کچھ دنوں کے لیے تو آئی ہےپھر ہاسٹل چلی جائے گی۔ ادھر فہمیدہ کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش ہوئی  تو گڈو   چھٹیاں گزارنے  اپنی بہن  فہمیدہ کے گھر میں چلی آئی ۔گڈودل پھینک اور موقع پرست  لڑکی ۔۔۔ اسے دل ہی دل میں عاصم اچھا لگنے لگا۔  ایک دن اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں تو یہاں بور ہو رہی ہوں ۔فہمیدہ نے عاصم سے کہا: اسے آپ کہیں باہر آؤٹینگ پر   لے جائیں ۔ میری ایک ہی ایک بہن ہے۔عاصم نے ہنستے ہوئے کہا  کہ سالی بھی تو آدھی گھروالی ہوتی ہے ۔اگلے دن گڈو   عاصم کے ساتھ گاڑی پرچلی گئی۔صبح سے شام خوب سیرکی۔ پانی پوری ،دہی بھلے،گول گپے۔۔۔۔۔پیزہ   وغیرہ غرض ہر  چیزکھائی    اور واپسی پر شاپنگ بھی کی۔گڈوکو یہ سب کچھ اچھا لگ رہا تھا۔

 عورت یاتو موم ہوتی یا پھر پتھرلیکن  کچھ عورتیں تو اعتدال کا پیکر بھی ہوتی ہیں ۔۔۔فہمیدہ بھی انہی میں سے  ایک تھی۔ جب کہ گڈوجذباتی طور پر مو م ثابت ہوئی۔مرد بھی عجیب شے ہے۔ زیادہ پھسلن پر بھی خود کو سنبھال لیتا ہے۔  اور گرنے پہ آئے تو ہلکی سی پھسلن پر ڈھیر ہو جاتاہے۔عاصم بھی انہی مردوں میں سے  تھا۔

اب گڈو خوبصورت چست لباس پہنے، سلیقے سے بالوں کا جُوڑا بنائے، چہرے پر ہلکا سا  میک اپ کیےعاصم کے   آگے پیچھے منڈلاتی رہتی ۔۔۔ایک دن کافی  دیتے ہوئے اس نے   اپنے   آنچل   کےپلو کو گرا دیا۔۔۔۔آہستہ آہستہ دونوں میں بے تکلفی ختم ہوگئی ۔گڈونے عاصم سے محبت بھری نظروں سے کہا :کہ ہم دونوں کی عادتیں کتنی ملتی ہیں ۔عاصم نے مسکراتے ہوئے کہا یہ تو ہے ۔اب عاصم  جب باہر جانے لگتا گڈو کو بھی ساتھ لے جاتا اور گڈو تو جیسے پہلے سے تیار بیٹھی ہوتی۔وہ   اپنے گلیمر کو خوب کیش کراتی ۔۔۔فہمیدہ گھر اور بچوں میں اتنی مصروف ہوئی کہ اسے یہ پتاہی  نہ چلا کہ عاصم گڈو کے ہاتھوں کھیل رہا ہے۔وہ  شک بھی کیسے کرتی ،اس نے گڈو کو  اپنے ہاتھوں سے پالا پوسا  تھا۔وہ تو اسے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتی تھی۔

چھٹیاں ختم ہوئیں تو گڈو واپس چلی گئی ۔اب گڈو اور عاصم کے  درمیان فون پر باتیں ہوتیں،واٹس ایپ پر چیٹ ہوتی رہتی ،سیلفیاں شیئر کی جاتیں،ایک دوسرے کی تعریفوں کے گن گائے جاتے۔۔۔ نوبت اظہار ِمحبت تک آپہنچی ۔

گڈو کے ذہن میں ہر وقت  عاصم  کی تصویرابھرتی رہتی۔اس   کا رنگ گورا، بال سیاہ کالے ، سرمئی آنکھیں ، کلین شیو ، نفیس ہاتھ پاؤں،سلم فٹ شرٹ اور  رانوں پر کَسی پتلون میں  کھڑا ہو ا وہ  کتنا سمارٹ لگتا ہے ؟اس نے منزہ کو بتاتے ہوئے کہاکہ اسے کسی سے محبت ہو گئی ہے ۔منزہ نے تصویر دیکھتے ہوئے کہا :واہ بھئی !تمھاری چوئس کی داد دینی پڑے گی۔ کچھ دنوں کی رفاقت نے اسے عاصم کا عادی بنا دیا تھا۔

کسی کی عادت کا  ہوجانا محبت ہو جانے سے زیادہ خطرناک ہے۔۔۔

 بی ایس کا چھٹاسمسٹر چل رہاتھا اور کچھ عرصے میں فائنل امتحان  شروع ہونے والے تھے۔مگر گڈونے پڑھائی چھوڑنے کا ارادہ کر لیا تھا۔اب کی بار گڈو نے عاصم کو کراچی بلایا اور  منزہ کو بتایا کہ وہ اس کا   منگیترہے ۔ جس سے وہ محبت کرتی ہے۔منزہ نے عاصم کو  ویلکم کیا۔خوب گپ شپ ہوئی۔منزہ نے  پوچھا کہ آپ دونوں  شادی کب کر رہے ہو ؟گڈو نے ہنستے ہوئے کہا: گھر والے ابھی تک نہیں مانے۔منزہ نے ہنستے ہوئے کہا کہ جب لڑکا لڑکی راضی تو کیا کرے گا  قاضی ۔۔ جب تم  دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہو  تو خاموشی سے شادی کرلو۔۔۔۔یہ بات نجانے اس کے دل پر ثبت ہوگئی۔

  عاصم   کچھ دنوں کے بعدگڈو سے ملنے کراچی آتا۔فہمیدہ کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ کلائینٹ سے ملنے  کراچی جانا پڑتا ہے۔گڈونے عاصم کو پوری طرح اپنے کنٹرول میں کر لیا تھا۔اس نے عاصم سے پوچھا کیا تم مجھ سے محبت کرتے ہو ؟

ہاں یار تم سے ہی محبت  کرتا ہوں۔تو ہم  شادی کب کر رہے ہیں؟عاصم نے کہا :یار !مجھے سوچنے دو، سب کیا کہیں  گے     ؟ اس نے کہاکچھ نہیں ہوتاہم اپنا اچھا برا خود سوچ سکتے ہیں۔۔۔اور فہمیدہ۔۔۔ ۔ وہ  تمھاری بہن ہے ۔   سو واٹ؟تم اسے طلاق دے دو۔طلاق؟۔ ۔۔میرے بچے بھی تو ہیں۔۔۔تم افورڈ کر سکتے ہودوسری شادی ،اور انہیں ہر ماہ مناسب خرچ بھیجتے رہنا۔بات شادی کی نہیں سب کیا کہیں  گے ؟تمھارے اور میرے گھر والے،اچھا یہ تو تمھیں پہلے سوچنا چاہیے تھا۔۔۔اب کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔تم جلد کوئی فیصلہ  کرو۔۔۔۔ مجھے خوف کے ساتھ  جینا مشکل اور بے معنی لگتا ہے ۔۔۔میں کچھ نہیں جانتی۔

بعض اوقا ت جب کچھ غلط ہوتا ہے۔۔۔ تو وہ  ہوتا ہی چلا جاتاہے۔۔۔ انسان کو کچھ سوجھائی نہیں دیتا۔۔۔بلکہ یوں کہیں  عقل پر پردے پڑ تے چلے جاتے ہیں۔

 عاصم  بہت ڈسٹرب  رہنے لگاتھا۔ راتوں کو پریشان رہتا، فہمیدہ کے پوچھنے پر ٹال مٹول سے کام لیاکہ کچھ نہیں،بزنس کے ایشوز ہیں ۔۔۔تم ان میں نہ پڑو تو بہتر۔۔۔بار بار گڈو کے میسجز آتے ۔۔۔اب وہ اس سے پوچھتی کہ تم نے کیا فیصلہ کیا؟جب  مجھے کوئی اعتراض نہیں تو تمھیں کیا مسئلہ ہے؟عاصم نے اپنےقریبی دوست زین سے مشورہ کیا ،زین نے جواب دیا:یار جو بھی کرنا سوچ سمجھ کے کرنا۔

عاصم نےفہمیدہ کو کہا :کہ اسے بزنس کے لیے  تین چار ماہ کے  لیے دوبئی   جاناپڑے گا۔ تم بچوں کے ساتھ  اپنی امی کے پاس چلی جاؤ۔ گھر میں اکیلے کیسے رہو گی؟ فہمیدہ   :میں اپنی امی  کے پاس چلی جاؤں؟ہاں!میں نے تمھارے اکاؤنٹ میں  پیسے ٹرانسفر کر دیئے ہیں ۔مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں۔ فہمیدہ نے جواب دیا۔

عاصم :نہ جانے کون، کہاں اور کس وقت بچھڑ جائے؟۔۔۔یہ آپ کیسی باتیں کر رہےہیں؟عاصم نے کہا کچھ نہیں ویسے ہی کہا ہے خیر تم ان باتوں کو چھوڑو جلدی سے میری پیکنگ کر دو۔ مجھے صبح نکلنا ہے۔ اس نے بچوں کو پیار کیا۔۔ فہمیدہ کے دل میں آج پہلی بار شک کا اکھوہ پید ا ہوا۔جب اس نے سوچا تواسے   بے چینی  محسوس  ہو ئی۔،اگلے دن  فہمیدہ   اپنی امی  کے پاس چلی گئی۔

عاصم اب کراچی چلا گیا،جہاں اس کی ملاقاتیں  تواتر کے ساتھ گڈو سے  ہونے لگیں۔۔۔۔گڈو نے عاصم سے کہاکہ ہم اس ہفتے شادی کر رہے ہیں۔مجھے نہیں پتا۔بس تم فہمیدہ کو طلاق دے دو۔

 عاصم نے فہمیدہ کو گھر کے ایڈریس پر طلاق نامہ  بھیجوا  دیا۔ساتھ ہی ایک رقعہ بھی لکھ بھیجا۔۔۔۔ اگلے دن دس گیارہ بجے کے قریب دروازے پر کورئیر والے نے  دستک  دی ۔۔دروازہ کھلاتو اس نے کہا کہ فہمیدہ  کے نام کا لیٹر آیا  ہے ۔۔ فہمیدہ  حیران ہوئی کہ اس کے نام کا لیٹر!۔۔۔۔  وصول کرنے کے بعد اس نے جب لفافہ کھولا تو اتنے میں ماں نے پوچھابیٹی کون تھا ؟ اندر سے طلاق نامہ اور ایک رقعہ نکلا۔۔۔جس میں لکھا تھاکہ گڈو اور میں شادی کر  کے دونوں دوبئی جا رہے ہیں۔

فہمیدہ کے قدموں تلے زمین  سرک گئی ۔۔۔اس  نے شدید کرب کی حالت میں چیخنا چاہا  لیکن اس کی  چیخ اس کے  اندر کہیں دب سی گئی ۔۔۔ اس کے دماغ کی رگیں سن ہو گئیں اور عجیب کپکپی سی طاری ہو گئی۔۔۔یہ سوچ سوچ کر کہ گڈو بھی  ایسا کر سکتی ہے؟۔۔۔ ۔یہ  لمحہ اس کے  لیے  اذیت سے  کم نہ تھا ماں نےروتی ہوئی بیٹی کو سینے سے لگایا۔۔۔اس نے سسکتے ہوئے کہا ۔۔۔اماں!میں تو اسے بددعا بھی نہیں دے سکتی۔۔۔۔کراچی جیسے بڑے شہر میں رہنے کے  با وجو د ۔۔  اس ذلیل اور کمینی کو کیا عاصم  ہی  ملا تھا؟۔۔۔شادی کے لیے

***

This Post Has One Comment

  1. Uzma Noreen

    عصر حاضر میں رشتوں کی بے حسی پر ایک نفیس انداز میں جنجھوڑتا ہوا طنز

Leave a Reply