تلاشِ خدا

عارف نقوی، برلن

تلاشِ خدا

(ذاتی تجربات پر مبنی)

         بچپن کی بعض یادیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے ذہن میں پیوست ہو کر رہ جاتی ہیں اور ساری زندگی ہمسفر رہتی ہیں۔

         ایسا ہی نیلو فر کے بارے میں ہے۔ اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے کوئی گلاب کی کلی کھلنے کے لئے بیچین ہے اور کبھی ایسا لگتا تھا جیسے

         کوئی خوبصورت چڑیا چہک رہی ہے۔ میرے والدین تو اسکی معصوم ادائوں اور بھولی بھولی باتوں پر دیوانے رہتے تھے۔ میری

         پانچ سال کی ننھی بہن نیلوفر، ہمارے گھر کی رونق۔ وہ صرف خوبصورت ہی نہیں ذہین بھی بلا کی تھی۔مجھے گھر پر پڑھانے کے لئے

         ایک ماسٹر صاحب آتے تھے، مولوی نما ،  انداز گفتگو میں اکھڑ۔ وہ مجھ سے پچھلے دن کا سبق دوہرانے کے لئے کہتے تھے۔ لیکن

         ان کی شکل دیکھتے ہی میں سب کچھ بھول جاتا تھا۔ پھر وہ میرا کان کس کر امیٹھتے اور مجھے جو کچھ یاد تھا وہ بھی بھول جاتا۔ نیلو فر

         جس نے مجھے صرف سبق یاد کرتے ہوئے سنا تھا تڑسے صحیح جواب دے دیتی اور میری شامت اور آجاتی۔

         پھر ایک دن جب وہ میرے ایک چچا وہاج الدین ، جنہیں میں ننھے چچا کہتا تھا، جو عثمانیہ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے،

         کے باغیچے میں کھیل رہی تھی تو کسی کیڑے نے کاٹ لیا اور اس کے گٹّے میں ایک دانہ پڑ گیا۔  شام ہوتے ہوتے اس کی ٹانگ

ٍ       نیلی پڑگئی۔ اسے اسپتال میں بھرتی کیا گیا ، لیکن وہ وہاں سے زندہ نہ لوٹی۔ میری والدہ اور والد صدمے سے دیوانہ ہو رہے تھے۔

         جس وقت میرے والد اسے قبر میں اپنے ہاتھوں سے لٹا رہے تھے اور وہاں پر کھڑے ہوئے لوگ ہاتھ اٹھائے کچھ پڑھ رہے تھے،

         تو میں اللہ میاں سے پوچھ رہا تھا یہ سب کیوں اور کیسے ہو گیا؟  اس نے ایسا کیوں ہونے دیا؟  وہ تو ایک معصوم گڑیا تھی، جس نے

         کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ پھر اسے کیوں واپس لے لیا؟  بعد میں سب رشتے داروں نے مجھے سمجھایا کہ اللہ اپنے نیک بندوں کو

         اپنے پاس واپس بلا لیتا ہے۔ لیکن کیوں؟ میں سوچ رہا تھا۔ نیک بندوں ہی کو کیوں ؟ برے بندوں کو کیوں نہیں بلاتا؟ تو کیا سب

         کو شریر اور برا ہونا چاہئے؟کیا سب کو زیادہ جینے کے لئے برا ہی ہونا چاہئے؟  خیالات کا ایک طوفان تھا جو کلبلا رہا تھا، لیکن کسی

         سے پوچھنے کی ہمت نہ پڑی۔

         نیلو فر کے غم نے میرے والد کی کمر توڑ دی تھی۔ وہ اب نہ ٹھیک سے کھاتے تھے نہ ہنستے تھے۔ وہ اسپورٹس مین تھے، فزیکل ٹریننگ کالج کے سربراہ ،  لیکن اب انہوں نے سگریٹ پینا شروع کر دی تھی۔ البتّہ اب میری شرارتیں کچھ بڑھ گئی تھیں۔

ایک دن میری والدہ نے، جنہیں میں امّی کہتا تھا، گھر میں کچھ آہٹ سنی: ’’چھپ چھپ‘‘  لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔آواز آتی اور بند       ہو جاتی۔  ’کہیں کوئی چور تو نہیں آگیا؟ؔ  امی نے نوکروں کو بلایا ۔ سارے گھر میں تلاشی لی گئی۔لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ پھر میرے

         والد کو خبر کی گئی۔ انہوں نے غسلخانے میں جا کر دیکھا تو ٹب میں پانی بھرا تھا اور اس میں کتّے کے دو پلّے پڑے ہوئے تھے۔

                  ’’عارف کہاں ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔  میں اس وقت ایک دروازے کے پیچھے چھپا کھڑا تھا:

                  ’’ یہ کیا حرکت ہے؟کیا ہو رہا ہے؟‘‘ پاپا نے پوچھا۔

                  ’’ گندے تھے۔ میں نہلا رہا تھا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

                  ’’ تو آپ بھی کپڑے اتارئے۔ اس طرح نہیں،  جانگیہ بھی۔ چلئے ٹب میں  نہانے۔‘‘

                  میری عمر اس وقت سات سال کی ہوگی، لیکن انا جاگ گئی تھی۔ روتا جارہا تھا اور کپڑے اتارتا جا رہا تھا۔ میری والدہ نے

         پاپا کو گھورا اور انہوں نے مجھے گود میں اٹھا لیا: ’’ بیٹے یہ بہت چھوٹے بچّے ہیں پانی میں مر جاتے۔ ایسا نہیں کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے

پیار کرتے ہوئے کہا۔

                       میں کبھی کبھی ننھے چچا کی کار میں  ڈرائیور کی بغل والی سیٹ پر بیٹھ جایا کرتا تھا۔  بڑا مزہ آتا تھا۔ ایک دن کار گھرکے سامنے کھڑی تھی،  ڈرائیور  بس  پانی پینے کے لئے نیچے اترا ۔کنجی گاڑی میں لٹک رہی تھی اور کار پہلے گیر میں تھی۔جیسےہی ڈرائیور نیچے اترا میں نے کنجی گھما دی۔ گاڑی ابھی ایک دو گز بڑھی ہی تھی کہ ڈرائیور نے دورڑ کر حادثے سے بچا لیا۔ اور تب سے

میرے اوپر سامنے کی سیٹ پر بیٹھنے کی پابندی لگ گئی۔

         کچھ عرسے بعد میرے والد مجھے اور میری والدہ کو لے کر عید منانے کے لئے لکھنئو آئے اور نمبر ۱ چکبست روڈ پر میرے     چچا اوردادی کے ساتھ قیام کیا۔ اس روز ہم لوگ بہت خوش تھے۔ پاپا نے مجھے اپنے ہاتھوں سے ریشمی شیروانی پہنائی ۔ اس پر پھنّے دار لال ترکی ٹوپی پہنائی اور سب بچّے بوڑھے مصباح چچا کی جیپ میں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھس کر نماز پڑھنے کے لئے عید گاہ گئے۔وہاں سے لوٹ کر پاپا  اور امّی مجھے لے کر میری  ننھیال میں عید ملنے ک لئے پنجابی ٹولے گئے۔ پنجابی ٹولے میں پتنگیں بہت اڑائی جاتی ہیں۔ خاص طور سے رستوگیوں کے میچ ہوتے ہیں۔ اس دن بھی آسمان پتنگوں سے بھرا تھا۔ گھر کی اوپری کھلی منزل پر میرے ماموں اور ان کے کچھ دوست چرخیاں اور پتنگیں لئے ہوئے شور مچا رہے تھے۔ پاپا بھی ان میں شامل ہوگئے۔

         لیکن پھر وہاں سے اپنا سینہ پکڑے ہوئے واپس نیچے آئے۔ انہیں دل کا دورہ پڑا تھا۔ اٹھارہ دن شاہ مینا اسپتال میں جسے King Georg Hospital         بھی کہتے تھے ڈاکٹر حمید کے زیر علاج رہے  اور ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کر لیں۔اس وقت انکی عمر صرف چالیس برس کی تھی۔ میری دادی اور والدہ کی روتے روتے بری حالت تھی۔ اور بھی بہت سے لوگوں کے رونے سےگھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ لیکن کچھ لوگ میرے سر پر ہاتھ پھیر پھیر کر سمجھا رہے تھے :

         ’’ بیٹے اللہ اپنے نیک بندوں کو اپنے پاس بلا لیتا ہے؟‘‘ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مجھے

گالیاں دے رہے ہیں ، میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ میں سوچ  رہا تھا ’’ نیک بندوں کو ہی اتنی جلدی کیوں اٹھا لیتا ہے۔ برے لوگوں کو کیوں چھوڑ دیتا ہے؟ کیا وہ واقعی       اتناظالم   ہے؟‘‘

         مصباح چچا کے گھر میں ایک بڑا ساگولر کا پیڑ تھا ۔ جس پر کبھی کبھی موٹے موٹے بندر آکر بیٹھا کرتے اور گولر نیچے پھینکتے      تھے۔ گھر کا ایک مالی کبھی کبھی کہا کرتا تھا کہ’’ بھیّا اس پیڑ پر رات میں پریاں آتی ہیں۔‘‘ میں کبھی کبھی اللہ میاںکے نام کوئی الٹاسیدھاخط لکھتا اور شام کو گولر کی شاخ پر لٹکا دیتا کہ پریاں انہیں پہنچا دیں گی۔ :’’ اللہ میاں میرے پاپا کو واپس بھیج دیجئے۔‘‘ کبھی کبھی وہ خط دوسرے دن  ڈال پر نہیں نظر آتا۔ لیکن اللہ  میاں نے میرے پاپا کو واپس نہیں بھیجا۔

         میں جب اپنی ننھیال جاتا تو پنجابی ٹولے کی گلیوں میںاکثر لوگ مجھ سے ہمدردی دکھاتے ۔پاپا کی تعریفیں کرتے۔ مجھے       معصوم اور یتیم کہتے۔تو مجھے اور چڑ ہونے لگتی۔ البتّہ نانا کے ہاتھ کے آپریشن کے بعد سے مجھے ان سے ہمدردی ہو گئی تھی۔ میں انکے ساتھ بڑے شوق سے ان کے گائوں جاتا تھا۔ وہاں پیڑوں پر چڑھ کر آم اور جامن کھانے میں مزہ آتا تھا۔ لیکن جب دیکھتاکہ کسانوں کو روتے اور گڑگڑاتے ہوئے لگان دینا پڑ رہے ہیں۔ کیونکہ ان کی فصل اچھی نہیں ہوئی ہے اور ان کے بچّے بھوکےاور پیاسے ہیں ، تو پھرذہن میں ایک بار پھر لاتعداد سوالات پیدا ہو جاتے۔پنجابی ٹولے میں ایک بار پتنگ کے سوال پر لوگوں میں جھگڑا ہو گیا۔ لاٹھیاں اور بلّم نکل آئے۔جس پارک میں شیر شاہ کا مزار ہے وہاں خون خرابہ ہوا ۔پولیس آئی۔ رات کو ایک بار گھر         کے پچھواڑے شور مچا  ’’چور چور‘‘۔  احاطہ عبدالسلام میںایک کوٹھری میں گُلّی نام کا ایک غریب شخص رہتا تھا۔جودن میں خوانچہ لگاتا تھا۔ نانا نے اسے چھت پر بھیجا ۔ ’دیکھو کیا معاملہ ہے؟‘  دوسری طرف سے پڑوسیوںنے جن کا گھر ملا ہوا تھا اسے اپنی طرف گھسیٹ لیا اور پیٹنے لگے۔نانا فوراً باہر نکلے اسکو چھڑا کر لائے ۔ کئی برس  تک اس کے لئے مقدمہ لڑا لیکن پھر ایک دن جب نانا      بازار جا رہے تھے تو ان پڑوسیوں نے انہیں اپنے گھر بلایا اور سمجھایا کہ’  لڑکوں کی شرارتوں اور غلطیوںسے ہمیں اپنے تعلقات نہیں  بگاڑناچاہئیے۔ ہمارے سمبندھ پرکھوں سے بنے ہوئے ہیں۔ ہماری دوستی پر اثر نہیں آنا چاہئیے۔‘ اور  نانا نے مقدمہ واپس لے لیا۔ گُلّی کا علاج کروایا گیا ۔ وہ ٹھیک ہو گیا ۔ لیکن اس کے بچّوں کو پڑھائی کا کوئی موقع نہیںملا۔ وہ ہمیشہ خوانچہ لئے پھرتا اور پھلکیاں اور دہی بڑے بیچتا رہا۔ اور میں سوچتا تھا کہ اللہ میاں اسے اور اس کے بچّوں کو بھی ہماری طرح کے مواقع کیوں نہیں دیتے       ہیں۔  میرے نانا نہایت نیک انسان تھے ۔ حافظ قرآن تھے۔ روزہ نماز کے پابند۔ تہجد بھی پڑھتے تھے لیکن کھانے میں اگر نمک زیادہ ہوجاتا یا مسالہ کم  یا  زیادہ ہوجاتا تو گھر میں آفت آجاتی اور لوگ کانپنے لگتے۔ میری ددھیال میں چکبست روڈ پر بھی تیرہ نوکر تھے ۔ باورچی، صفائی کرنے والے،  پہرے دار، مالی وغیرہ ، جن کے ساتھ بہت اچھا برتائوکیا جاتا تھا۔ ہم بچّے انہیں لطیف بابا،  ظہور بھائی، کرامت بھائی، رمضان بھائی، چودھری بھیا اور بُوا  وغیرہ ناموں سے پکارتے تھے۔ یہاں تک کہ مصباح چچا، جو گھر  اپنے ڈرائیور ظہور بھائی کے پیچھے کھڑے ہو کر گھر میں ان کی امامت میں نماز پڑھتے تھے۔ اور ہمیں اقبال کا شعر

         ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز    نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز ‘‘ یاد آجایا

 کرتا۔  لیکن ان سب کے بچّوں کو بھی کبھی کسی اسکول میں پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ مجھے یاد ہے گھر کا ایک مالی ایک  بار اشوک کی ڈال پر چڑھ کر اسے کاٹنےکی کوشش کر رہا تھا، کیونکہ وہ ڈال گھر کی چھت پرآ رہی تھی۔ ڈال ٹوٹی اور اسکے ساتھ مالی نیچے گرا اور مرگیا۔ گھر میں سنسنی پھیل گئی۔

         مصباح چچا نے ، جو میونسپل کارپوریشن کے چیف ایکزیکیٹو افسر تھے، مالی کی بیوی کو زنانہ پارک میں ، جو میونسپلٹی کی ملکیت تھا، نوکری دلا دی مگر اس کے بیٹے کو تعلیم کی سہولت نہ حاصل ہو سکی۔ ایسے ہی نہ جانے کتنے واقعات اور حالات تھے جو میں اپنے اردگرد دیکھتاتھا اور اللہ تعلی کی ناانصافی کی دل میں شکایتیں کیا کرتا تھا۔

         ۱۹۴۳ء میں بنگال کے بھیانک قحط کی خبریں آئیں۔ ۳۳  لاکھ لوگ بھوک اور پیاس سے مر گئے۔ اللہ تعلی نے انہیں اپنی طرف بلا لیا، حالانکہ یہ قحط سرمایہ داری لوٹ اور جنگی ہوس کا نتیجہ تھا۔ پھر دوسری جنگِ عظیم کی تباہکاریاں، ہیرو شیما پر ایٹم بم کی دوزخی آگ،  اور ملک کی آزادی کے ساتھ  لاکھوںبے زبانوں کا قتلِ عام، ٹرینوں کا جلایا جانا، بچّوں بوڑھو کا قتلِ عام عورتوں کا  بلتکار۔  سب بھگوان اور خدا کے نام پر بھائی بھائی کے ہاتھوں۔ یہ سب کیوں ہے؟  اللہ تعلی اس سب کی اجازت کیوں دے رہا ہے؟ ؟؟  غرضیکہ بچپن سے ہی سوالات کا ایک انبار تھا جس کا جواب کوئی نہیں دے رہا تھا  اور میں نوجوانی میں ہی    ناانصافی  اورسرمایہ دارانہ استحصال، ظلم و ستم، جنگ و جدل، لوٹ اور غارتگری کے خلاف جذبات میں چُور ترقی پسند اور اشتراکی تحریک سے جڑتا گیا۔ جلسے جلوس، نعرے بازیاں،  جدو جہد،  مشقت،  جان کی بازی، قربانی کا جذبہ آئندہ نسلوں کے لئے۔ مظلوموں کے لئے،  ہندو ، مسلمان، سکھ ،  عیسائی سب کے لئے۔ زندگی کا معمول بن گیا۔

         ۲۴؍ نومبر ۱۹۶۱ء کو میں برلن کے لئے روانہ ہورہا تھا۔ ہوائی اڈے پر مجھے روپیوں کے بدلے صرف ۸ ڈالر کا فارن ایکسچینج دیا گیا اور میں سوچ رہا تھا : ’یا اللہ اس میں کیسے کام چلے گا؟‘   ماسکو میں اتنی سخت برفباری ہوئی تھی کہ اسی دن  وہاں سے برلن نہ جا سکا۔ دوسرے دن جب ہوائی جہاز وہاں پہنچا  تو ہوائی اڈّے پر لینے کے لئے کوئی نہیں آیا تھا۔ مجھے جرمن نہیں آتی تھی ،    ایمیگریشن افسر کو بھی ٹھیک سے انگریزی نہیں آتی تھی۔لیکن ہاں چلتے وقت مجھے لوگوں نے دعائیں بہت دی تھیں۔ میری والدہ      نے، چچاچا چچی نے چچازاد بھای بہنوں نے ، گھر کے نو کروں نے ، بوڑھے  اور جوانوں نے ۔ میں جب بھی ان کے بارے میں سوچتا ، مجھے ایسا لگتا جیسے میرے ساتھ فرشتے چل رہے ہیں۔ چنانچہ ایمیگریشن اور اس کے بعد قیام کا مسئلہ بھی کسی طرح سے حل ہو گیا۔ ایجو کیشن منسٹری سے ایک مسٹر فشر مجھے لینے کے لئے پہنچ گئے تھے۔  دوسرے دن مجھے جرمن زبان سیکھنے کے لئے لائپزگ بھیج دیا گیا۔  چند مہینے بعد میں ڈرامے پر ریسرچ کے لئے برلن آیا ۔  پھر کچھ عرصے بعد مجھے ہمبولٹ یونیورسٹی برلن میں پڑھانے کی ذمے داری سونپ دی گئی۔ وہیں میری ملاقات انگرڈ سے ہوئی اور ہم نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن ان دنوںمیرے سینے میں سخت جلن ہوتی تھی۔میرے ایک پرانے ساتھی اجیت سین  بھی چالیس برس کی عمر میں وہاں تعلیم کے لئے آئے     ہوئے تھے، جن کا چند مہینوں کے بعد پیٹ میں کینسر ہونے کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔ میں کیونکہ شروع سے کافی حسّاس رہا ہوں       اس لئے  میں نے ڈاکٹر نی سے پوچھا کہ میرے سینے میں جلن کسی موزی بیماری کی وجہ سے تو نہیں ہے؟ اس نے جواب میں مجھے    ایک کیتھولک گرجا کے اسپتال میں بھیج دیا ۔ جہاںڈاکٹروں کا خیال تھا کہ مجھے اپنڈکس کی شکایت ہے۔ آپریشن کرنا ہوگا۔ میں     راضی ہو گیا۔ دعائیں میرے ساتھ تھیں ۔ میں نے سب کچھ اللہ تعلی پر چھوڑ دیا۔  ہیڈ وِگ اسپتال میں دن رات گوری گوری  محبت سے پیش آنے والی ملنسار نرسیںننوں کے عجیب سے کپڑوں میں ملبوس نظر آتیں۔ ہر تکلیف کا خیال رکھتیں۔لیکن ساتھ ہی ہر بات میں سخت،  وقت پر اٹھئیے، وقت پر دوا اور کھانا کھائیے۔ان سے زیادہ باتیں نہ کیجئے۔ پلنگ کے قریب ہی بائبل رکھی تھی۔

 جی چاہے تو پڑھ لیجئے۔

         ’آپریشن کب ہوگا؟ ‘‘  میں بار بار پوچھتا ۔ مگر کوئی تسلی بخش جواب نہ دیتا۔ ڈاکٹر سے پوچھتا تو کہتا : ’’جب پیٹ میں دردہوگا۔‘‘  لیکن درد کب ہوگا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔بہر حال میںشادی سے چار دن قبل بغیر آپریشن اسپتال سے رہا کیا گیا اور آج تک اس اپنڈکس کو پال رہا ہوں۔یہ جولائی ۱۹۶۴ء کا واقعہ ہے جو مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔

         کچھ سال بعد میں یونیورسٹی کی ملازمت کو چھوڑ کر ریڈیو برلن کے  ہندو ستانی سیکشن میں سینئیر مدیر کی حیثیت سے کام کر نے  لگا۔        کام بہت زیادہ تھا ۔ یونیوسٹی جا کر وہاں پڑھانا بھی پڑتا تھا اور ہندوستانی خبارات کے لئے فارن کارس پانڈنٹ کی حیثیت سے   accredited بھی تھا اس لئے ملازمت کے علاوہ بہت کچھ کام کرنا پڑتا تھا۔ میرے سر میں سخت درد رہنے لگا۔ کافی معائنہ کرنے کے بعد ریڈیو اسٹیشن کے ڈاکٹروں نے شک ظاہر کیا کہ میرے دماغ کی ایک نس پتلی ہو رہی ہے۔ اسپتال میں معائنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ مجھے سرکاری خرچے سے چیریٹی نام کے ایک مشہور اسپتال کے نیورولوجی وارڈ میں دو مہینے رکھا گیا۔اس اجازت کے ساتھ کہ میں جمعہ کو شام کو گھر جا سکتا ہوں مگر پیر کی صبح آنا پڑے گا۔ میرے آس پاس کئی ایسے مریض تھےجن کے سر میں آپریشن کیا جا چکا تھا یا کیا جانے والا تھا۔ لیکن مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی ۔ میں دیگر مریضوں کے ساتھ شطرنج بھی کھیلتا تھا اور لاٹر ی بھی اور ایک بار تو نرسوں اور ڈاکٹر کی اجازت سے اپنے ہاتھ سے مرغ کا سالن بنا کر دوسرے مریضوں اور ڈاکٹرکو بھی کھلا یا تھا۔ البتّہ اس عرصے میں جسم سے کتنا خون نکال کر ٹسٹ کیا گیا،  کمپیوٹر ٹومولوجی کس طرح ہوا ، ریڑھ کی ہڈی سے کس طرح گودا نکال کر اس کا ٹسٹ کیا گیا، کن کن مرحلوں سے گزرنا پڑا اس کے بارے میں نہ پوچھئیے۔ سب کچھ ہو جانے کے بعد ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہمیرے دماغ میںٹیومرنہیں ہے۔ بس خون کے دبائو میں کچھ کمی ہے اس لئے ’فولیڈرین‘ نام کی ایک دوا کا          استعمال کرنا  ورزش کرنا ، مساج کروانا اور کھیلوں میں خوب حصٔہ لینا چاہئیے۔فولیڈرین کی ایک ایک گولی دن میں تین بار استعمال کروں۔میری دانست میں اس کے مطلب تھے صبح، دوپہر اور شام کو دوا کا استعمال کرنا۔  نتیجہ یہ ہوا کہ رات کی نیند حرام ہوگئی۔

         جب میں نے ڈاکٹر کو اس کے بارے میں بتایا تو اس نے ’فائوسٹان‘ نامی ایک دوا لکھ دی جو

سونے کے لئے تھی۔

         گرمیوں کا موسم تھا، سنیچر کا ایک خوشگوار دن۔ ریڈیو اسٹیشن پر میرے شعبے کے سب ساتھیوں کی چھٹی تھی۔ میں اپنے کمرے میںاکیلاتھا۔ میں نے صبح کی دس منٹ کی خبریں تیار کیں، ایک تین منٹ کی کمنٹری لکھی ۔ پھر ڈیوٹی افسر کے پاس جا کر اپنا بلیٹین دکھایا۔ اسے  میری زبان نہیں آتی تھی ، مگر اس نے بغیر پڑھے اس پر دستخط کر دئے۔ پھر میں نے اسٹوڈیو میں پہنچ کرٹکنیشین کی مدد سے خبریں اور کمنٹری براڈکاسٹ کی۔ کینٹین میں جا کر ناشتہ کیا اور اپنے کمرے میں پہنچ کر دوپہر  اورسہ پہر کے بلیٹین تیار کئے ۔ دن کا کھانا کھایا اور آخری بلیٹن ریکارڈ کراکر اور ٹکنیشین کو اگلے دن کے لئے دے کر گھر جانے کی تیاری کرنے لگا۔ ریڈیو اسٹیشن اس درمیان سنسان ہو گیا تھا۔ میں اپنی چیزیں بٹور ہی رہا تھا کہ اچانک نیند کا غلبہ محسوس ہونے لگا۔ میں نے سوچا کہ یہ      خون میں دبائو کی کمی کی وجہ سے ہے، اس لئے ایک گولی ’فولیڈرین‘ کی منہ میں ڈال لی۔ پھر میں نے ٹکنیشین اور اس کے بعد ڈیوٹی افسرکو خدا حافظ کہا، جس نے میرے بلیٹنوں پر بغیر پڑھے دستخط کر دئے تھے۔ پھر گیٹ پر پہنچ کر گارڈ سے ہاتھ ملایا اور اپنی بیٹل        فوکس واگن میں جو قریب ہی کھڑی تھی بیٹھ گیااور انجمن اسٹارٹ کردیا۔ اچانک میرا سر چکرایا ۔کا ر بجلی کے ایک کھمبے سے ٹکرا گئی۔

         لیکن اسی وقت ایسا لگا جیسے کسی غیبی طاقت نے سہارا دے دیا ہو۔ میں نے جلدی سے کنجی گھما کر سوئچ بند کر دیا۔دل دھڑک  رہاتھا لیکن مجھے اپنی دادی، اپنی امّی، مصباح چچا، چچی امّاں، چچازاد بہن سعدیہ آپا اورگھر کے بڑے بوڑھوں کی دعائیں یاد آگئیں۔     کار کے سامنے کا حصّہ ضرور خراب ہو گیا تھا۔ لیکن مجھے خراش تک نہیں آئی تھی۔

         چیریٹی اسپتال میں ڈاکٹروں کو میرے دماغ میں ٹیومر تو نہیں مل پایا تھا، لیکن اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ وہاں قیام کے دوران میں نے اپنا الرجی کا ٹسٹ کروا لیا۔ معلوم ہوا کہ مجھے ۲۶  چیزوں سے الرجی ہے۔حالانکہ بعض الرجیوں کا بعد میں میں نے اپنے تجربے سے خود پتا چلایا جیسے انڈا، سیب، اسٹرا بیری، ہیزل نٹ اور بادام وغیرہ۔ بعد میں وہاں سے لوٹنے کے بعد پتہ چلا کہ میرے پیٹ میں شکایت ہے۔ چنانچہ مجھے فریڈرش ہائن نامی  اسپتال میں بھرتی کیا گیا۔اور بتایا گیا کہ بلڈر اسٹائن نکالنے کے   لئے آپریشن کرنا ہوگا۔یہ سن اسّی کے آس پاس کا زمانہ تھا۔ میری عمر اس وقت ۴۶ یا ۴۷  سال کی رہی ہوگی۔دراصل مجھے ۳۵ سے  ۴۵ برس کی عمر تک تقریباً دس سال اپنی زندگی کا کوئی بھروسا نہیں تھا۔ میرے والد کا انتقال چالیس سال کی عمر میں ہوا تھا۔ میرے   ایک چچا زاد بھائی نجم الدین نقوی کا انتقال غالباً ۳۸ سال کی عمر میں ہوا تھا۔ جب میرے والد یتیم ہوئے تھے تو وہ بہت چھوٹے تھے۔ نہ جانے کیوں یہ سب باتیں میرے ذہن میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس لئے ان دنوں مجھے اپنی زندگی پر کوئی بھروسا نہیں تھا۔ میں نے سب کچھ خدا پر چھوڑ رکھا تھا۔چنانچہ جب ڈاکٹرنی نے کہا: ’’فکر نہ کیجئے گا۔ میں آپریشن کے وقت خود وہاں موجود رہوں گی۔ تو میں نے ازراہ مذاق کہہ دیا : ’’ آپ جیسی خوبصورت ڈاکٹرنیاں رہیں گی تو میں خوشی سے آپریشن کروا سکتا ہوںَ‘‘ وہ بس ہنس دی تھی ، حالانکہ آپریشن کے بعد میں نے اسے پھر نہیں دیکھا۔ہاں اتنی شکایت

ضرور رہی کہ اس نے میرا وہ اسٹون یادگار کے طور پربھی مجھے نہیں دیا۔

         کچھ عرصے بعد میں اپنے ایک دوست سے ملنے کے لئے اپنی آئوڈی کار سے جا رہا تھا ، جو میں نے رسالہ اشپیگل کے نمائندے سے خریدی تھی۔ میں بہت اچھے موڈ میں تھا۔ گنگنا رہا تھا۔ جب کار ’دیمیتروف‘ نامی سڑک پر پہنچی تو  بھیڑ بہت تھی۔ میں  ٹرام کی لائن کو کراس کر کے بائیں طرف مڑنا چاہتا تھا، لیکن جیسے ہی لائن پر پہنچا دوسری طرف سے کاروں کا ریلا شروع ہوگیا۔ میں بیچ میں پھنسا ہوا تھا۔ اچانک دوسری طرف سے ٹرام آئی۔ اس نے میری کار کے پچھلے دروازے پر زور سے ٹکر ماری۔دروازے میں بڑا سا گڑھا پڑ گیا، لیکن مجھے خراش تک نہ آئی۔ اس وقت بھی مجھے اپنے بزرگوں، رشتے داروں اور دوستوں کی دعائیں یاد آگئیں۔ اور ایسا لگا جیسے اللہ تعلی ساتھ ہے۔

         ایک بار میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے شہر ڈریسڈن گیا تھا جو برلن سے پونے دو سو کلومیٹر دور ہے۔ میں رات     کو واپس لوٹ رہا تھا۔ تقریباً دو بج گئے تھے۔ سڑک سنسان تھی۔ آئوٹوبان پر گھپ اندھیرا تھا۔ میں تھکن سے چور تھا۔ میری مرسیڈیس سوا سو کلو میٹر کی رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی بڑے سمندر میں کوئی جہاز تیرتا ہو اچلا جا رہا ہے۔ مجھے غنودگی محسوس ہونے لگی۔ آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔ میں نے اپنے گالوں پر طمانچے مارے، ہاتھوں میں چٹکیاں کاٹیں۔ لیکن کوئی اثرنہ ہوا۔ پھر ایک لمحے کے لئے پلک جھپکی ہوگی کہ ایسا لگا کہ کسی نے سرچ لائٹ آنکھو کے سامنے رکھ دی ہے۔ میں نے گھبرا کر آنکھ      کھول دی۔کار ایک بڑے نیلے بورڈ کی طرف بڑھ رہی تھی جس پر کلو میٹر کے نشان چمک رہے تھے اور میری آنکھوں پر پڑ رہے        تھے۔میں نے کار کسی طرح سنبھالی۔ تھوڑی دور جا کر سڑک سے کچھ فاصلے پر ایک جگہ روکی دروازہ اندر سے بند کیا، کار کی چابی    نکال کر اپنی جیب میں ڈالی  اور آنکھیں بند کر لیں۔کچھ دیر بعد میری کار ہائی وے پر دوڑ رہی تھی۔ اسٹیرینگ پر میرے ہاتھ نہیں تھے۔ میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں ۔ میری کار وہیں پر کھڑی تھی۔ بس دل کی دھڑکنیں بڑھ گئی تھیں۔ مجھے اپنے رشتے داراور دوست احباب اور ان کی دعائیں یاد آرہی تھیں۔اس بار بھی ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی غیبی طاقت میرے ساتھ ہے۔

         بتانے کے لئے تو بہت سی باتیں ہیں۔ لیکن ایک واقعے کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا۔

         ایک بار مغربی جرمنی کے چانسلر (وزیر اعظم) ہیلموتھ اشمتھ مشرقی جرمنی کے صدر ایرش ہونیکر سے ملنے آئے تھے۔ برلن سے تقریباً سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک جھیل کے کنارے ہونیکر کی شکار گاہ اور مہمان خانہ تھا ۔ وہیں دونوں کی ملاقات تھی۔ میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کی طرف سے اسے کور کرنے کے لئے گیا تھا۔ جاڑوں کا موسم تھا۔ واپسی میں کافی دیر ہو گئی تھی۔ سڑکوں پر رات کا سناٹا تھا۔ مشرقی جرمنی میں ویسے بھی اتنی کاریں نہیں ہوتی تھیں۔ برف کی ہلکی ہلکی پھواریں پڑنا شروع ہو گئی تھیں۔ میں چاہتا تھا کہ جلد سے جلد گھر پہنچ جائوں۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ سڑک پر پھسلن بڑھ گئی ہے۔ سوچا کار کی رفتار    کم کر لوں۔ غیر ارادی طور پر میرا پیر بریک پر پڑا ۔ کار لٹّو کی طرح  ناچنے لگی ۔ اتفاق سے آگے پیچھے کوئی دوسری کار نہیں تھی۔ میں      نے کار کی رفتار پھر بڑھا دی اور وہ قابو میں آگئی۔اس بار بھی ایسا لگا جیسے کوئی غیبی طاقت میرے ساتھ

 ہے۔ مجھے اپنی دادی، والدہ،    چچا، چچی  اور رشتے داروں اور دوستوں کی دعائیں یاد آگئیں۔

         ایک بارمیں پولینڈ کی کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس کی رپورٹنگ کے لئے پی ٹی آئی کی طرف سے وارسا گیا تھا۔جو اس کی         آخری کانگریس ثابت ہوئی۔ لندن سے پی ٹی آئی کا مستقل نمائندہ بالو بھی آیا تھا۔ ہم لوگ انٹرنیشنل پریس سنٹر میں بیٹھے تھے ، جہاں دوسری میزوں پرمختلف ممالک کے صحافی چہک رہے تھے۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میرے پیر کے نیچے کوئی لفافہ ہے جس میں کئی سو  ڈالروں کے نوٹ تھے۔میں نے بالو سے پوچھا تو اس نے نفی میں گردن ہلا دی۔آس پاس کے لوگوں سے پوچھا۔ ان کی بھی کوئی چیز نہیں کھوئی تھی۔  انفارمیشن کائونٹر پر جاکر اعلان کروایا ،  لیکن کوئی لینے کے لئے نہیں آیا۔ اب میں نے لفافے کو ٹھیک سے کھول کر دیکھا اس میں فن لینڈ کے بنک کے کچھ کاغذات بھی تھے۔قریب ہی کی ایک میز کے ارد گردفن لینڈ کے پانچ چھ صحافی بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا:

         ’’کولیگ، تمھار اکوئی لفافہ تو نہیں گم ہو گیا ہے۔ ‘‘  انہوں نے اپنی جیبیں ٹٹولیں اور ہنسنے لگے ۔ جیسے میں نے کوئی احمقانہ       سوال کر دیا ہے۔میں کھسیا کر اپنی جگہ پر واپس آگیا۔تھوڑی دیر کے بعد انھیں میں سے ایک صحافی بوکھلایا ہوا میرے پاس آیا۔

         ’’کولیگے، میرا لفافہ۔۔۔اس میں ڈالر ہیں۔‘‘

         ’’کتنے؟‘‘ جب مجھے تسلّی ہو گئی تو میںنے وہ لفافہ اسے واپس کر دیا۔ اس نے جھپٹ کر لفافہ لیا اور اپنے ساتھیوںکے پاس واپس چلا گیا۔ بالو نے مجھ سے کہا: ’’ نقوی ،  تم اس کے لئے اتنا پریشان ہو رہے تھے اس نے شکریہ تک ادا نہیں کیا‘‘۔

         ’’چھوڑو یار، اپنا اپنا طریقہ ہے۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔

         تھوڑی دیر کے بعد وہی صحافی میرے پاس آیا:  ’’ کولیگے، معاف کرنا ، میں شکریہ بھی ادا نہیں کر پایا، بہت exited       تھا۔اس میں سے تم کچھ اپنے پاس رکھ لو۔‘‘ اس نے لفافہ بڑھاتے ہوئے کہا۔ میں نے لفافہ واپس کر دیا : ’’چھوڑو یار اس سب کو بھول جائو۔‘‘

         چند دن بعد مجھے ہندوستان جانا تھا۔ سوچا تھا کہ پاکستان ہوتا ہوا جائوں۔ اس لئے ٹرانزٹ ویزا کی درخواست دے رکھی        تھی۔ پاسپورٹ جمع کرادیا تھا۔  دن میں تین بجے بلایا گیا تھا۔ کیونکہ اگلے دن ہی میری فلائٹ تھی اس لئے میں نے مغربی برلن

         ا کر ڈائچے بنک سے اپنے ڈالر نکلوائے جو پی ٹی آئی نے مجھے بھیجے تھے،  پھر مشرقی برلن کے بنک سے پیسے لئے اورفریڈرش اسٹراسسے نامی سڑک پر ’لنڈن کورزو‘ نامی ایک کیفے ٹیریا میں جہاں میں اکثر بیٹھتا تھا، جاکر کافی پینے اور اخبار پڑھنے لگا۔میری کار بغل کی ایک گلی میں جہاں عام طور سے اجازت نہیں ہے کھڑی تھی۔  میری کار پر صحافیوں والی نیلی پلیٹ QA25-01 نشان   کے ساتھ تھی جو ہندوستانی صحافی ہونے کی نشانی تھی۔ اچانک خیال آیا کہ تین بج رہے ہیں ۔ مجھے  سفارت خانے میں پہنچنا چاہئے۔  میں اپنی کار میں بیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کرنا ہی چاہتا تھا کہ ایک جرمن نے قریب آکر کار کے شیشے کو زور سے کھٹکھٹایا۔ مجھے عجیب سا لگا۔ سوچا اب کہے گا کہ یہاں گاڑی پارک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سمجھتا ہوگا میں غیر ملکی ہوں ،مجھے یہاں کے    قاعدے قانون معلوم نہیں۔ لکچر دے گا۔ لیکن اس نے مجھے ایک چھوٹا سا کالا چمڑے کا بیگ دکھایا جو میرا تھا۔ اس میں میرے سارے ڈالر، مارک اورہوائی جہاز کا ٹکٹ تھا، جن کے بغیر میں دوسرے دن سفر نہیں کر سکتا تھا۔  وہ آدمی مجھے بیگ دیتا ہوا مسکرا رہا   تھا۔ میں سفارت خانے سے ویزا لینے کے بعد پھر اس کیفے ٹیریا میں گیا کہ اگر وہ وہاں ہو تو اس کا شکریہ ادا کردوں اور اسے کافی پلائوں، لیکن وہ وہاں نہیں تھا۔ کئی سال بیت گئے ہیں۔ میں بارہا وہاں جا چکا ہوں لیکن وہ آدمی مجھے نظر نہیں آیا ۔

         دہلی میں میرا ایک دوست ہے ڈی پی وشست، شارب ردولوی بھی اسے جانتے ہیں۔ وہ کبھی عوامی دور میں کچھ عرصے کےلئے منیجر بھی رہا ہے۔ میرے ساتھ چپلیں  چٹخاتااور تھری وھیلر میں بیٹھ کر گھومتا تھا۔ اب کروڑ پتی ہے اور گریٹر کیلاش میں رہتا ہے۔ایک بار میں اس کے گھر پر ٹھہرا ہوا تھا۔ اس نے کہا چلو تمھیں  ایک جگہ لے چلیں۔ میں سمجھا وہ مجھے اپنا دفتر دکھانا چاہتا ہے،

         جو اس نے ان دنوں ایرپورٹ کے قریب کھول رکھا تھا۔لیکن وشست کی کار ’مالچہ مارگ  فارسٹ‘ غالباً یہی نام تھا میں داخل ہوئی۔

         جنگل کے بیچ میں ایک ایسی جگہ تھی جہاں کئی قبریں تھیں۔ وہیں ایک بزرگ خواجہ مول

الدین چشتی کا مزار تھا۔اس کے مجاور منّا خاںصابری صاحب تھے۔، جنہیں وشست بابا کہتا تھا۔ اس نے بابا کے آشیرواد لئے اور مجھے ان سے ملایا، یہ کہکر کہ میں اتنی دور سے      ان کے پاس آیا ہوں۔ میں نے بابا سے مصافحہ کیا۔ مزار پر فاتحہ پڑھی۔ انہوں نے مجھے ایک ہری چادر پیش کی اور دعائیں دیں۔بعد میں میں نے وشست سے پوچھا کہ تم پیری مریدی کے چکر میں کیسے پڑ گئے؟

         اس نے بتایا کہ اس کے کاروبار میں برابر گھاٹا ہو رہا تھا۔ ایک دن اس کا ایک دوست  (جو ہندو تھا)  اسے وہاں لیکرگیا، تب سے کاروبار میں فائدہ ہو رہا ہے۔ اور وہ اکثر وہاں جاتا ہے۔   بزرگوں کا احترام کرنا ، خاص طور سے صوفی بزرگوں کا احترام میں نے اپنے بزرگوں سے سیکھا ہے۔ میں جب بھی دہلی جاتا ہوں تو نظام الدین اولیہ  اور امیر خسروکے مزار پر فاتحہ ضرور پڑھتا ہوں اور پھر دور سے غالب کو سلام کرتے ہوئے نظام الدین سے لوٹتا ہوں۔ جس سے مجھے بڑا روحانی سکون حاصل ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ دیکھ کر افسوس بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگ وہاں سر ٹیک کر اور سجدے کرکے بے حرمتی کرتے ہیں۔ لیکن خیر اپنا اپناطریقہ ہے۔  چند دن بعد جب میں لکھنئو پہنچا تو صبیحہ کے گھر پر علی گنج میں ٹھہرا۔ میں سامنے کے کمرے میں سوتا تھا۔ صبیحہ اپنےچھوٹے بیٹے کے ساتھ اندرونی کمرے میں سوتی تھی۔ایک دن صبیحہ نے مجھے پلاسٹک کا ایک جھولا دیا اور کہا : ’’ بھائی جان اپنےمیلے کپڑے اس میں ڈال دیجئیے گا۔ کل دھل جائیں گے۔‘‘ میں نے وہ جھولا اپنے سرہانے رکھ لیا۔ اپنا  چمڑے کا ایک بیگ بھی پلنگ کے پاس سرہانے رکھ لیا اور پنکھا تیز کرکے سو گیا۔وہیں پر سرہانے دیوار پر پنکھے کا ریگو لیٹر لگا ہوا تھا۔بڑی اچھی نیند آرہی تھی۔ میں محو خواب تھا۔اچانک ریگو لیٹر میں سے چنگاریاں نکلنے لگیں اور شعلوں میں بدل گئیں۔ ایسا لگا جیسے چنگاریاں میرےاوپر برس رہی ہیں۔ جلتا ہوا ریگو لیٹر میرے پلنگ پر گرنے والا ہے۔ میری آنکھ کھل گئی ۔ واقعی ریگو لیٹر میں سے چنگاریاں نکل رہی   تھیں،مگر شعلے نہیں تھے۔  میں نے صبیحہ کو آواز دی۔ اس کا کمرہ بند تھا۔ نہ اس نے آواز سنی نہ سیف نے۔  میں نے اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جلدی سے اپنے کمرے میں واپس آیا ۔ اپنے اونی گائون اور ہینڈ بیگ سے آگ بجھانے کی کوشش کی۔ ریگو لیٹر نیچے گر پڑا مگر آگ کسی طرح قابو میں آگئی۔ہینڈ بیگ اور گائون بھی کچھ جل گئے تھے۔ بیگ میںمیں برلن سے کچھ تصویریں لایا تھا وہ بھی بہت کچھ جل گئی تھیں۔ لیکن کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوا ۔ اس بیچ صبیحہ اور سیف بھی وہاں آگئے۔ میں نے ان سے کہا پہلے سوئچ بند کر دیں۔ کمرے میں دھواں بھر گیا تھا، لیکن ہم نے کھڑکیاں نہیں کھولیں، تاکہ چنگاریاں پھر شعلے بن کر نہ بھڑکنے لگیں ۔مین سوئچ بند کر دینے کے بعد ہم نے پلنگ اور تخت کے نیچے بچی کھچی چنگاریاں ڈھونڈیں ۔فرش کو پانی سے صاف کیا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ کوئی خطرناک حادثہ نہیں ہوا ہے۔ (صبیحہ اور اس کا بیٹا سیف جو اب بڑا ہو گیا ہے ، چشم دید گواہ ہیں۔ )کچھ دن بعد جب میں برلن لوٹنے کے لئے دہلی پہنچا اور وشست کے وہاں ٹھہرا تو وہ مجھے ایک بار پھرمالچہ مارگ فارسٹ میں خواجہ مول الدین چشتی کے مزار پر بابا سے ملانے کے لئے لے گیا۔ میں نے فاتحہ پڑھنے کے بعد بابا سے،جو صرف ایک لنگی اور کرتا پہنے ٹوپی لگائے اور گردن میں      ایک رومال باندھے تھے، دیر تک گفتگو کی۔ وہ خواجہ صاحب کی کرامتوںکے بارے میں بتا تے رہے۔میری زبان سے یونہی       نکل گیا ، کہ لگتا ہے خواجہ صاحب آجکل مجھ سے کچھ ناراض ہیں۔ بابا نے فوراًجواب دیا :

         ’’نہیں آپ سے تو بہت خوش ہیں۔آپ اتنی دور سے ا ن کے پاس آتے ہیں۔ آپ کے وہاں کوئی آگ لگی تھی۔ خواجہ صاحب اس وقت وہاں موجود تھے۔‘‘   مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔پھر انہوں نے مجھے دیر تک دعائیں دیں۔  بعد میں میں نے وشست سے پوچھا کہ اس نے تو انہیںنہیں بتایا تھا؟  لیکن وشست کا کہنا تھا کہ اس نے کچھ نہیں بتایا تھا۔بابا کے الفاظ        میرے لئے معمّہ تھے ، آج تک معمّہ ہیں۔  خیر میرے لئے یہی بہت  ہے کہ ان کی دعائیں میرے ساتھ ہیں۔ اللہ تعلی میری  مدد کرتا رہتا ہے۔

         ایک بار میں برلن سے کولون گیا تھا ایک تقریب میں شرکت کے لئے۔ سخت برفباری ہو رہی تھی۔ اس روز شام کو میں نےپروفیسر اسلم سید اور ان کی اہلیہ کشور مصطفی کے ساتھ قیام کیا، جو پہلے برلن میں ہماری اردو انجمن اور کیرم ایسوسی ایشن کی سکریٹری ہوا کرتی تھیں اور اب بون میں ڈائچے ویلے کے اردو شعبے میں کام کرتی ہیں۔ اس شام انہوں نے اپنے کچھ ملاقاتیوں کو گھر پر بلا کرمیرے ساتھ ایک ادبی نشست بھی رکھی تھی۔ دوسرے دن جب میں برلن لوٹنے لگا تو اسلم صاحب نے کہا چلئے میں کولون تک ٹرین         میںآپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ کشور مجھے اپنے بون کی خوبصورتی بھی دکھانا چاہتی تھیں، اس لئے انہوں نے کہا ہم اسٹیشن تک ٹہلتے ہوئے چلیں۔ دور نہیں ہے۔ میں سخت تھکا ہوا تھا۔ مجھے شہر دیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ لیکن تکلف میں چلنا پڑا۔ ان دونوں کو برف     پر چلنے میں مزا آرہا تھا ،لیکن میں بڑی احتیاط سے چل رہا تھا کہ کہیں برف پر پھسل نہ جائوں۔ خیر جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو ٹرین        لیٹ تھی۔جب ٹرین آئی تو لوگ جلدی جلدی اس میں سوار ہونے لگے ۔ اسلم صاحب نے جلدی سے میرے لئے بھی سیٹ ریزروکر لی۔ لیکن جب میں سوار ہونے لگا توکسی نے اس زور کا دھکا مارا کہ میرا پیر پھسل گیا۔ میںایک ہاتھ سے دروازے کے ہینڈل کو پکڑے          دوسرے ہاتھ میں اپنا بیگ لئے  لٹکا ہو تھا۔ میرے پیر پلیٹ فارم کے نیچے لٹک رہے تھے اور میں پوری طاقت لگاکر اوپر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ٹرین وہاں دو منٹ رکتی ہے  لیکن نہ جانے کیوں اسٹارٹ نہیں ہوئی۔اس بیچ ایک آدمی نے میرا بیگ سنبھال لیا اور مجھے اوپر آنے میں مد د کی۔ میں ڈبّے میں داخل ہو کر اسلم صاحب کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گیا جو انہوں نےمیرے لئے ریزرو کر رکھی تھی۔

         ’’نقوی صاحب آپ کے پیر سے تو خون نکل رہا ہے۔‘‘ اچانک انہوں نے کہا۔ مجھے اب بھی احساس نہیں ہوا۔ میںموٹے اونی موزے پہنے ہوئے تھا۔ انہیں ہٹا کر دیکھا تو پیر لہو لہان تھا۔

         ’’ آپ سفر نہیں کریں گے ۔‘‘ انہوں نے فیصلہ کن لہجے میں کہا اور جیسے ہی دوسرا اسٹیشن آیا  مجھے لے کرریلوے کے انکوائری  مرکز پر پہنچ گئے ۔ ان لوگوں نے فوراً ایمرجنسی ایمبولنس بلوائی اور ہم لوگوں کو اسپتال پہنچا دیا۔ وہاں پیر صاف کرکے دائیں پیر میں گھٹنے کے نیچے کئی ٹانکے لگائے گئے۔ وہ رات بھی میں نے اسلم صاحب کے ساتھ گزاری ۔ دوسرے دن جب میں بیساکھی کے سہارے ٹرین سے برلن پہنچا تو انگرڈ اور نرگس مجھے کار سے لینے آگئے تھے۔ کئی ہفتے مجھے برلن کے ایک کلینک میں علاج کے لئے جا نا پڑا،  مہینوں بیساکھی  کے سہارے چلنا پڑا ۔ آج بھی پیر میں ٹانکوں کے نشان ہیں اور پیر کا رنگ بدلا ہوا ہے ۔ لیکن اس واقعہ نے اللہ پر میرے اعتبار کو مضبوط بنا دیا ہے۔اس کے بعد سے مجھے کوئی ڈر نہیں محسوس ہوتا ہے۔ جب کوئی مشکل نظر آتی   ہے تو زبان سے نکل جاتا ہے:

         منجدھار میں ہے نائو تو پتوار ہاتھ میں     میرا خداہے ساتھ مجھے ڈر نہیں کوئی (عارف)

         ایک بار میں کیرم کے ایک انٹرنیشنل ٹورنامنٹ  میں آئی سی ایف کے صدر کی حیثیت سے کولمبو گیا ۔میری اہلیہ ساتھ تھی۔ واپسی میں ہم لو گ کویت میں اپنے ایک بھانجے صلاح الدین اور اس کی فیملی کے ساتھ کئی دن گزارتے ہوئے لوٹے۔

          وہاں سے استنبول جانا تھا۔ جہاں سخت برف باری شروع ہو گئی تھی۔میری اہلیہ کو پیدل چلنے کا بہت شوق ہے۔استنبول ترکی کا ایک بہت خوبصورت شہر ہے۔ سمندری نظاروں، محلوں اور خوبصورت مسجدوں کا شہر۔رونق سے بھر پور۔ اس لئے استنبول میں ہم برف باری میں بھی میلوںپیدل چلتے رہے، حالانکہ میرے پاس وہاں جاڑوں کے جوتے نہیں تھے۔جب برلن پہنچا ہوں تو پیروں کی        بری حالت تھی۔ اسپتال میں ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد کہا کہ میری ران میں خون کی نس میںبلاکیج ہے۔آپریشن کرنا ہوگا۔

           ساری کوششوں کے بعد جب آپریشن کا موقع آیا  تو اسپتال کی ایک ڈاکٹرنی نے آکر مجھے بتایا کہ میری پوری ٹانگ سے        ایک بڑی نس نکال کر میری دوسری نس اسی جگہ پر لگانی ہوگی، تاکہ دل سے پیر تک خون کی روانی نہ رکنے پائے۔ معاملہ کٹھن  ہے۔میری اجازت ضروری ہے۔میں

نے اسے اجازت دے دی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ، کیونکہ اس وقت بھی میرے ذہن میں یہی تھا:

         میرا خدا ہے ساتھ مجھے ڈر نہیں کوئی۔

         میں کراچی کی آرٹس کونسل کی انٹرنیشنل اردو کانفرنسوںمیں تین بار شرکت کر چکا ہوں  سن ۱۶، ۱۷  اور سن ۱۸ میں۔ سن ۱۷ میں جس دن میںرات  گئے برلن لوٹنے والا تھا،  میرے ایک دوست راحت سعید نے پرانے کراچی کے ایک ہال میںترقی پسند مصنفین کی طرف سے میرے ساتھ  ایک جلسہ رکھا تھا، جس میں مجھے بولنا تھا۔ میں کانفرنس کے بعد دو دن کے لئے اپنے ایک    کزن معین فاروقی کے گھر پر ٹھہرا ہوا تھا ، جن کی بہن Happy Homes کے نام سے وہاں اسکول چلاتی ہیں۔ معین کا ڈرائیور مجھے راحت سعیدکے گھر پر لیکر گیا ۔ وہاں سے ہم جلسہ گاہ کی طرف چلے گئے۔جلسہ دلچسپ تھا  دیر تک چلتا رہا۔ پھر چائے کا دور شروع ہوا۔میں نے معذرت کی  چائے نہیں پی سکتا ہوں۔ مجھے جلدی گھر پہنچ کر اپنا سامان باندھنا ہے۔

         وہاں پر موجود سبھی لوگ اس قدر مہربان تھے کہ کوئی میرا کتابوں کاجھولا اٹھا رہا تھا، کوئی میرا بیگ۔ کوئی مجھے سیڑھیوں سے نیچے اترنے میں سہارا دے رہا تھا۔ آناًفاًسارا سامان کار کی ڈکی مین رکھ دیا گیا۔ اور ہم وہاں سے روانہ ہوگئے۔ جب معین کے گھر        پہنچے اور کار کی ڈکی کھولی تو دیکھا کہ کتابوں کا جھولا اور دیگر سامان تو موجود ہے لیکن میرا چھوٹا سا بھورا بیگ، جسے میں عام طور سے کندھے پر لٹکائے رہتا تھا، نہیںہے۔ میری جان نکل گئی۔ اس میں میرا پاسپورٹ، ہوائی جہاز کا ٹکٹ اور ساری کرنسی تھی۔ اس        کے بغیر میں سفر نہیں کر سکتا تھا۔  لیکن میں نے گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا۔  راحت سعید کو فون کیا تو کسی نے نہیں اٹھایا ۔ِ  میں نے ڈرائیور سے کہا  بھیّا وہیں واپس چلو۔اسی جگہ۔ لیکن ڈر رہا تھا کہ کہیں ہال اب بند نہ ہو گیا ہو۔ راستے سے راحت سعید کو پھر فون کیا تواپنے مخصوص انداز میں ہنس رہے تھے۔ ہاں میاں تمھار ا بیگ میں لے آیا ہوں۔ یہیں گھرپر ہوں ۔ تم یہاں آجائو۔ میں نے خدا        کا شکر ادا کیا۔ اور اس بات پر حیرت بھی کہ وہ قدم قدم پر میرا خیال رکھتا ہے۔

         اس بار دسمبر میں جب میں انٹرنیشنل اردو کانفرنس میں شرکت کے لئے گیا تو وہاں سے کولمبو ہوتا ہوا دہلی پہنچا۔  راستے میں ہوائی جہاز میں بیٹھے بیٹھے ہاتھ پیر میں سخت اینٹھن شروع ہوئی ۔ کبھی دائیں ہاتھ میں، کبھی بائیں ہاتھ میں۔ کبھی پیر میں جہاں آپریشن ہو چکا ہے ۔ کبھی کبھی درد برداشت کے باہر ہوجاتا۔ لگتا جان نکل جائے گی۔ لیکن اس وقت میں شدید درد کے باوجود        آنکھیں بند کر لیتا اور دل میں دوہرانے لگتا :

         منجدھار میں ہے نائو تو پتوار ہاتھ میں     میرا خدا ہے ساتھ مجھے ڈر نہیں کوئی۔

         پھر میری انکھیں بند ہوگئیں۔ نیند آگئی۔ دہلی پنچتے پہنچتے میرے جسم کی اینٹھنیں دور ہو گئی تھیں۔میں خود کو نارمل پا رہا تھا۔

         دہلی سے مجھے لکھنئو جانا تھا۔ وہاں شارب ردولوی کے جشن میں شرکت کرنا تھی، شعاع فاطمہ گرلس کالج کی تقریبات میں حصہ لینا تھا۔ میرٹھ جاکر ایک اردو سیمینار میں شرکت کرنا تھی ۔ لکھنئو میں میرے مضامین کی کتاب کی رسمِ اجراء تھی جسے ڈاکٹر اسلم جمشید پوری  نے مرتب کیا تھا۔اس کے علاوہ یوپی کے گورنر رام نائک جی کے ساتھ ایک ڈنر اور انٹگرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر وسیم اختر صاحب کی دعوت میں شرکت کرنا تھی  اور دہلی میںجواہر لعل یونیورسٹی کے شعبہء اردو میں بولنا تھا۔

         میں ۳۰ نومبر کی رات کو دہلی سے لکھنئو میل سے رونہ ہوا ۔اپنا ہینڈبیگ جس میں میرا ٹکٹ، پاسپورٹ اور کرنسی تھی میں نے          اپنے سرہانے رکھ لیا تاکہ محفوظ رہے اور میںصبح بھول نہ جائوں۔ پھر جب گاڑی لکھنئو پہنچی تو قُلی کی فکر ہوئی۔ وہ کافی دیر سے ملا۔ مجھے یہ بھی فکر تھی کہ عمّار رضوی کی گاڑی مجھے لینے آئی ہو گی۔ وہ لوگ مجھے اسٹیشن پر ڈھونڈھ رہے ہوں گے۔ چنانچہ میں پلیٹ فارم پر گاڑی سے نیچے اتر گیا اور ایک قلی سے کہا کہ میرا سامان ڈبّے سے نکال لے۔ پھر دیر تک پلیٹ فارم پر انتظار کیا۔ سوچا باہر نکل کر دیکھوں کوئی آیا ہے یا نہیں۔ ورنہ ٹیکسی لیکر جانا پڑے گا۔میں اسٹیشن سے باہر نکل آیا۔ وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ سوچا فون کر         لوں۔ لیکن میرا موبائیل فون تو میرے  چھوٹے ہینڈ بیگ میں ہے جو میں لٹکائے رہتا ہوں ۔ وہ میرے کندھے پر نہیں ہے ۔ جان نکل گئی۔ میں نے قلی سے کہا چلو واپس گاڑی کی طرف چلو۔ ڈر رہا تھا کہ کہیں گاڑی چلی نہ گئی ہو۔ کہیں کوئی اور بیگ کو لیکر نہ چلا گیا ہو۔ میری بائیں ران میں جب سے بائی پاس ہوا ہے تیز نہیں چل پاتا ہوں، لیکن اس وقت پیروں میں بجلی لگ گئی تھی۔ راستے میں اسی کمپارٹمنٹ کا ایک آدمی ملا۔ اس سے پوچھا ۔ تو اس نے کہا گاڑی ابھی کھڑی ہے ، چلئے میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ ہم وہاں پہنچے ڈبّہ اندر سے بند تھا۔ کافی کھٹکھٹایا تو ایک ریلوے ملازم نے کھولا ۔ میرا بیگ اسی جگہ پڑا تھا جہاں میں نے اسے چھوڑا تھا۔دل سے کس طرح اللہ کا شکریہ ادا کر رہا تھا اس کا اظہار الفاظ سے نہیں ہو سکتا۔

         لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ لکھنئو میں میرا آخری دن تھا۔ میرے ایک بھانجے محسن اقبال نے مجھے اس دن پنجابیٹولے جانے کے لئے اپنی کار  دے دی تھی۔ میں نے ڈرائیور سے کہا تھا کہ سڑک پر انتظار کرے میں پنجابی ٹولے والی گلی میں اپنی کزن نکہت سے مل کر آتا ہوں۔ نکہت کی شکایتیں کافی لمبی ہوتی جارہی تھیں۔ مجھے فکر تھی کہ ڈرائیور انتظار کر رہا ہوگا۔ میں نےرخصت لی جلدی سے اسے خدا حافظ کہا اور سڑک کی طرف چل دیا۔ نکہت نے پوچھا، بھائی جان آپ کو سڑک تک چھوڑ آئوں۔ میں نے کہا نہیں تم پریشان مت ہو ، میں چلا جائوں گا۔ پھر جوں ہی میں کار میں بیٹھنے والا تھا کہ نکہت وہاں پہنچ گئی۔ اس کے ہاتھ    میںمیرا بیگ تھا۔ ’’بھائی جان آپ کرسی پر بھول آئے تھے۔‘‘ اس نے ہانپتے ہوئے کہا۔’’ میں دوڑتی ہوئی آرہی ہوں۔‘‘  میری جان میں جان آئی۔ اس میں میری کرنسی اور پاسپورٹ تھا۔

         اور میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کا شکرکس طرح ادا کروں۔ وہ ہمیشہ میرا ساتھ دیتا ہے۔چنانچہ اس پر میرا بھروسا پختہ ہوگیا ہے۔وہ خدا جس کی تلاش میں بچپن سے کرتا آرہا تھا مجھے مل گیا ہے۔ کسی کے بتانے سے نہیں بلکہ خود اپنے تجربات سے اور میں نے اپنے آپ کو اس پر چھوڑ دیا ہے۔

ٍٍ     اکثر میرے قریبی دوست مجھ سے پوچھتے ہیں۔ ’’تم اب کافی سن رسیدہ ہو گئے ہو

،  ہندوستان، پاکستان  اور دور دراز کے ملکوں تک سفر کیسے کر لیتے ہو؟  اورمیرا جواب ہوتا ہے:

                  منجدھار میں ہے نائو تو پتوار ہاتھ میں

                  میرا خدا ہے ساتھ  مجھے ڈر نہیں کوئی

***

Leave a Reply