کومل شہزادی
” تیسری جنس”
فٹ پاتھ پر بیٹھ کر آنکھیں آنسووں سے بڑھی ہوئی۔اردگرد رواں دواں گاڑیاں اور ہجوم بھی ثریا کو اپنی جانب مائل نہ کرسکا۔بلکہ وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی دنیا میں مگن اپنے وجود کو مٹتا اور نیست ونبود ہوتا محسوس کررہی تھی۔جسے اس کے علاوہ کوئی اور محسوس نہیں کرسکتا تھا۔
اے ثریا دیکھ خواجہ سرا تیرے لیے برگڑ لایا ہے۔
آج پھر کسی نے کچھ کہہ دیا جو پھر رورہی ہے۔
خواجہ سرا نے ایک قہقہہ لگایا اور کہنے لگا عادت ڈال لے۔ہمیں دیکھو سب ہی مسکراتے مسکراتے برداشت کرلیتے ہیں۔
ثریا نے انتہائی افسردہ آواز میں کہا
“مرد اور عورت کے علاوہ دنیا میں جو تیسری مخلوق ہے وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔یعنی تیسری جنس کو تسلیم نہ کرنا اسی معاشرے کا المیہ ہے۔ناجانے انسان ہونے کے ناطے ایک انسان ہی اس مخلوق کی تذلیل کرتا ہے۔یہ مخلوق بھی اچھے جذبات اور دل رکھتی ہے جو معاشرہ ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔یہ جنس انسانوں کے معاشرے میں کس طرح اذیت کی زندگی گزارتے ہیں۔یہ جنس کمزور نہیں ہے بلکہ ذہانت اور محنت سے کامیابی کے اعلیٰ مراحل بھی عبور کرنے کا ظرف رکھتی ہے۔”
“
“حنیف “!مسکراتے ہوئے اپنی بیگم سے پوچھ رہا تھا تمہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔
صادقہ جو شادی کے تیسرے ماہ ہی اس کی کوکھ میں ایک کلی نمودار ہونے لگی ۔جلد ہی اس کی گود میں اولاد جیسا سکھ آیا۔
یہ سکھ کب دکھ میں بدل جائے گا صادقہ اس سے بے خبر تھی۔صادقہ کا وقت نزدیک آگیا تھا جس دن کے لیے حنیف اور صادقہ دونوں بے چین اور خوش تھے ۔۔۔ہاتھ کی ہتھیلی میں اٹھانے والا حنیف صادقہ سے نظریں چرا کر دور ہوگیا۔صادقہ فکرمند ہوئی اور اپنی روح کی سب تکلیف بھول کر بے چین سی ہوگئی کہ آخر حنیف ایسا کیوں کررہے ہیں۔۔صادقہ کے دل میں وسوسے اٹھنے شروع ہوئے۔۔ڈرپ لگانے والی نرس آئی تو اُس سے صادقہ نے پوچھا میرا بچہ ٹھیک ہے کوئی پریشانی والی بات تو نہیں ہے۔۔۔نرس نے جس وقت صادقہ کو بتایا آپ نے ایک ہجڑے کو جنم دیا ہے۔۔صادقہ کا چہرہ پیلا پڑگیا اور آواز ایسے کسی نے کھینچ لی ہو۔۔اس نے بنا کوئی آواز نکالے سسکیوں سے خودکو کوسنے لگی۔۔اور خداسے شکوہ کرنے لگی کہ آخر میرا قصور کیا ہے۔۔۔دودن بعد حنیف صادقہ کو لے کر گھر آیا تو صادقہ نے اپنا بچہ دیکھنے کے لیے ہسپتال میں بھی تذکرہ کیا لیکن حنیف نے اُسے عجیب تاثرات سے دیکھا۔۔۔۔خیر گھر آنے کے بعد صادقہ نے حنیف سے بچے کاپوچھا تو حنیف نے کہا!
ہسپتال ہی چھوڑ آیا ہوں۔۔۔صادقہ نے زوردار آوازسے رونا شروع کردیا جس سے حنیف نے زوردار تھپڑرسید کرکے صادقہ کو خاموش کروایا اور کہا رشتے دار سب کیا کہیں گے ۔۔۔سب ہمارامزاق بنائیں گے کہ ایک خواجہ سرا کو پیدا کیا ہے۔۔۔چند دن کی ناراضگی اور رویے سے تنگ آکر حنیف ہسپتال سے بچے کو گھرلے آیا جو اس نے ہسپتال والوں کو کہا تھا کہ کسی ادارے کو بچہ دے دیں۔۔چار سال گزرگئے لیکن حنیف نے ثریا کو نہ کبھی پیارکیا اورنہ کبھی باپ کے لہجے سے بات کی۔۔صادقہ کی بات مان کر وہ ثریا کو لے تو آیا لیکن وہ اس فیصلے سے چارسال میں بھی نہ بدل سکا۔۔ثریا نام بھی صادقہ نے رکھا تھا۔۔ایک دن صادقہ کے کچھ ہمسائے اکٹھے ہوکر آئے کہ اپنا یہ بچہ کسی اورجگہ لے جاوٴ ہمارے بچوں اور محلے کے سب بچوں پر برے اثرات پڑیں گے۔۔صادقہ نے اتنے سال ثریا کو پاس رکھا لیکن آخر وہ دن آہی گیا کہ اس کو اس سے دورہونا ہی پڑا۔۔حنیف روز روز کے لعن طعن اورطنزیہ جملوں سے تنگ آکر صادقہ کو طلاق دینے کا ارادہ کیا کہ یا وہ ثریا کو چھوڑ دے ورنہ میں اسے طلاق دے دوں گا۔
صادقہ حنیف کے فیصلے کے آگے ہارتسلیم کرتی ہے۔حنیف ثریا کو ایک ادارے کے حوالے کردیتا ہے۔ثریا جو ابھی معصوم ناسمجھ ذہن خوشی سے اپنے باپ سے دور ہوجاتی ہے۔حنیف کے چہرے پر کوئی شکن اوراداسی نہیں تھی۔ثریا جو ابھی اپنی شناخت سے بھی لاعلم تھی وہ ان حواجہ سراکے جھرمٹ میں رہ کر بھی انکی طرح نہ بنی ۔پڑھائی کو اپنا شوق بنایا اورچودہ برس گزاردیے۔زیست اسے کن کن امتحان سے گزارنے والی تھی ،ثریا اس سے لاپتہ تھی۔
ثریا کو بھیک مانگنا بالکل پسند نہیں تھا۔یہ اکثر کہتی تھی وہ حواجہ سراکی طرح بھیک مانگ کر اور ناچ کرزندگی نہیں گزارے گی۔بھیک مانگنے کے وقت ثریا یہ ہی الفاظ دہراتی تھی۔
“کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا اور مانگنا عزت نفس کو ریزہ ریزہ کرنے کے مترادف ہے۔”
وقت گزرتا جاتا ہے لیکن انتھک محنت ثریا جاری رکھتی ہے حواجہ سرا کے ساتھ مانگنے جانا اور ناچنا اسے پسند نہ تھا اس لیے یہ ایک معمولی سے سکول میں پرائمری کے بچوں کو پڑھاتی رہی اور جو تنخواہ ملتی وہ جوڑ کر کچھ کتابیں خریدتی اور ایسے پڑھائی جاری رکھتی رہی ۔۔۔۔۔وہ دن بھی آگیا کہ ثریا نے گریجویشن کمپیوٹر سائنس میں کی اور ریگولر والوں سے زیادہ عمدہ نتائج آئے۔اس سے ثریا نے اچھے سکول میں نوکری کے لیے اپلائے کیا تو اسے ہائی سکول میں نوکری مل گئی۔اب ثریا نے کٹھن محنت کی اور تین سال دن ورات پڑھائی کی اور پی ایم ایس کا امتحان دیا جس میں ثریا کامیاب رہی۔ثریا کی ٹریننگ کے بعد اُسی علاقے میں ڈی ایس پی کی سیٹ پر پوسٹنگ ہوئی جہاں سے وہ تیسری جنس ہونے کی بنیاد پر نکالی گئی تھی لیکن وہ آج وہیں ایک قابل احترام عہدے پرتھی۔ثریا ٹریننگ سے پہلے ہی اپنا سارا سامان باندھ کرلے آئی تھی جس میں اُس کی بچپن کی تصاویر بھی تھیں اور بھی تصاویر جو ہجڑوں نے اس کے آنے پر بنائیں تھیں۔انتہائی خوشی کے ساتھ غمی کا بھی سماہر طرف چھایا ہواتھا ۔۔۔تمام حواجہ سرا ثریا کو باری باری مل رہے اور ساتھ کامیابی کی دعائیں بھی دے رہے تھے۔۔۔ثریا کی آنکھیں نم تھیں لیکن وہ خوش تھی کہ وہ ایسی مخلوق میں رہ کر ہی اپنی اصل پہچان بنا گئی ہے۔۔۔۔وہ ساری تصاویر ثریا نے اپنے دفتر میں دیوار پر لگادیں ۔۔۔ثریا تصاویر لگاکر تیسری جنس کو مضبوط ثابت کرنا چاہ رہی تھی۔۔۔۔۔
حنیف کھانسی کرتے ہوئے بیگم سے کہہ رہا تھا آج ہمیں یہ سب مل کر اس گھر سے نکال دیں گے۔۔۔۔انتہائی افسردہ آواز میں صادقہ حنیف کو کہنے لگی یہ وہی رشتے دار ہیں جن کی وجہ سے آپ کو اپنی اولاد کو تن سے جدا کرنا پڑا ۔۔۔۔کاش ہماری اولاد تیسری جنس ہی تھی لیکن اولاد تو تھی آج ہمارا سہارا تو ہوتی ۔یوں اس طرح دربدر تو نہ ہورہے ہوتے ہم۔۔۔۔حنیف کی آنکھوں میں آنسو تھے ساتھ آواز بھی سہمی ہوئی ۔۔۔۔۔۔
“کاش دوسرے کی باتیں نظرانداز کرلی جاتیں تو اولاد جیسی بھی تھی اُسے اپنے پاس رکھتے۔۔۔”
صادقہ اور حنیف دونوں کو اپنی اولاد کھونے کا پچھتاوا تھا۔
” ہماری اولاد نہیں جو ہماری وراثت کی مالک ہوتی تو شائد ہماری مال وجائداد پر سب رشتے ایسے قابض نہ ہوتے۔”
حنیف اور صادقہ ایف آئی آر درج کرواتے ہیں جس پر علاقے کا ایس ایچ او ان کی بات نہیں سنتا تو حنیف ڈی پی او سے پاس کرواکر ایف آئی آر درج کرواتا ہے کہ ہمارے گھر پر ناجائز قبضہ کیا جارہا ہے۔ڈی پی او کے پاس حنیف اورصادقہ حاضر ہوتے ہیں تو ثریا دفتر میں کرسی پر بیٹھ کر ان کی پوری بات سنتی ہے اوران کے حق میں فیصلہ کرتی ہے اور حکم صادر کرتی ہے کہ ان کے گھر کو خالی کرواکردیا جائے۔حنیف اور صادقہ اُٹھ کر دفتر سے باہر جانے لگتے ہیں توان کی نظر دیوار پر لگی تصاویر پر پڑتی ہے۔حنیف اورصادقہ سہم سے جاتے ہیں اور ایک نظر ثریا کی جانب دیکھتے ہیں اور ایک نظر تصاویر کی جانب دیکھتے ہیں۔
حنیف میڈم سے پوچھتا ہے کہ میڈم یہ تصاویر کس کی ہیں۔۔۔ثریا کو حیرت ہوتی ہے لیکن بے ساختہ ہوکر کہتی ہے۔” یہ وہ تیسری جنس کی تصاویر ہیں جسے معاشرہ کمزور سمجھتا ہے جسے معاشرہ جینے نہیں دیتا۔۔۔۔جسے خاندان اوروالدین بھی قبول نہیں کرتے اور کہیں شرمندہ نہ ہوں اسی لیے ایسی اولاد کو دور پھینک دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔”
ثریا انتہائی جذباتی ہوکربول رہی تھی ۔حنیف اورصادقہ زوروشور سے آنسو بہانا شروع ہوگئے اور ثریا سے معافی مانگنے لگے!!!
ثریا نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں پوچھا آپ لوگ میرے سے معافی کیوں مانگ رہے ہیں۔۔۔حنیف اور صادقہ سسکیوں بھری آواز میں بولے وہ بنصیب ہم ہی ہیں جو اپنی اولاد کو تیسری مخلوق سمجھ کر اپنے آپ سے جدا کردیتے ہیں لیکن کیا علم جس معاشرے اور رشتوں کے لعن طعن سے بچنے کے لیے ہم نے ایسا کیا آج وہی ہمارے دشمن بنے ہیں۔۔۔۔!
حنیف نے ثریا کو ساری کہانی سنائی اور اس کو اپنے والدین کے ساتھ رہنے کا کہا لیکن ثریا نے صاف انکار کردیا۔۔۔
” میں جس زندگی کی عادی ہوگئی ہوں وہ زندگی کے ہر مراحل کو اکیلے عبور کرنے والی ہے۔۔۔۔۔!”
اگر آپ دونوں میرے پیدائشی والدین ہیں اُس حیثیت سے میں آپ کادھیان لازم رکھوں گی ،اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے لیکن ساتھ نہیں رہوں گی۔۔۔۔. !!!
***