You are currently viewing تین نثری نظمیں

تین نثری نظمیں

وقاراحمد

گوجرانولہ، پاکستان

تین نثری نظمیں

بیٹی کے باپ سے کچھ سوالات

بابا!

جب میں پیدا ہوئی

کیا آپ کو بہت خوشی ہوئی تھی؟

لگتا ہے اسی خوشی میں میرا نام

’’خشبو‘‘ رکھا گیا تھا؟

بابا!

جب میں پیدا ہوئی

کیا میں بھی اپنے بھائی کی

طرح کالی تھی؟

جو کچھ دن پہلے اس دنیا میں آیا ہے

جس کا نام ’’محمد گلاب‘‘ ہے۔

بابا!

کیا میرے پیدا ہونے پر بھی

پورے گاؤں میں جلیبیاں بانٹی

گئی تھیں؟

جیسے بھائی کے آنے کی

خوشی میں بانٹی جا رہی ہیں؟

بابا!

مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی

جو چمک آپ کو

بھائی کی آنکھوں میں نظر آرہی ہے

وہ میری

آنکھوں میں کیوں نہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تین آنسو اور آج کا دن

ماں!

تم کہہ رہی ہو کہ آج کا دن

بہت خوشگوار گزرا ہے

آج ہم نے پیٹ بھر کر روٹی کھائی ہے

آج ہمیں جتنی خوشیاں ملی ہیں

اتنی پہلے کبھی نہیں ملیں

تم مجھے تسلی نا دو

میں سب جانتی ہوں

میں ناسمجھ نہیں ہوں

میری عمر سات سال ہونے والی ہے

مجھے علم ہے غم کیا ہوتے ہیں

مجھے علم ہے خوشیاں کیا ہوتی ہیں

میں آنسوؤں کو اپنے اندر چھپانا جانتی ہوں

مجھے پتہ ہےایک آنسو کی قیمت کیا ہے

میں نے آج تین بار تمہارے آنسو زمین پر گرتے دیکھے ہیں

جہنیں تم چھپانے کی کوشش کر رہی تھی

مجھے پتہ ہے ان آنسوؤں کا دکھ

تمہارے اندر رس بس گیا ہے

ماں!

میں بتانا چاہتی ہوں

تمہارے ان تین آنسوؤں کے بارے

جو آج میری وجہ سے زمین پر گرے ہیں

تاکہ تمہیں پتہ چلے

تمہارے آنسوؤں کو سمجھنے والا بھی کوئی ہے

ماں!

آج تمہارا پہلا آنسو نو بجے زمین پر گرا تھا

جب تم نے میرج ہال سے بچا ہوا کھانا چرانا چاہا

تو ویٹر نے دیکھ لیا

اس نے تمہارے سفید بالوں کا بھی حیا نا کیا

اور تمہیں مارنے لگ گیا

ماں!

آج تمہارا دوسرا آنسو دو بجے زمین پر گرا تھا

جب تم نے مجھے میلے میں ایک دوکان پر

کھلونے سے کھیلتے دیکھا

تو تم سمجھ گئی کہ یہ مجھے پسند ہے

تم نے اس کھلونے کو میرے لئے چرانا چاہا

تو دوکان والے نے دیکھ لیا

اورتمہیں مارنے لگ گیا

ماں!

آج تمہارا تیسرا آنسو چار بجے زمین پر گرا تھا

جب ہم قصائی کی دوکان کے پاس سے گزر رہی تھیں

تو تم سمجھ گئی

کہ میرا دل گوشت کھانے کو کر رہا ہے

تم نے قصائی سے نظریں بچا کر

گوشت کے دو ٹکڑے چرا لٸے

پر قصائی کے کتے نے تمہیں دیکھ لیا

وہ تمہاری طرف لپکا

اس نے گوشت کے ٹکڑوں کو چھیننے کے ساتھ ساتھ

تمہارا ہاتھ بھی زخمی کر دیا

ماں!

مجھے تمہارے ہاتھوں پر

ماں!

مجھے تمہارے چہرے پر

ماں!

مجھے تمہارے بدن پر

زخم نظر آرہیں ہیں

جو آج کے دن تمہیں اس سماج سے

ملے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس اب

میں نے مٹی کے برتن بنائے

اس نے توڑ دیے

میں نے مٹی کی گڑیا بنائی

اس نے توڑ دی

میں نے مٹی کا گھر بنایا

اس نے توڑ دیا

پھر میں نے بیزار ہو کر

مٹی سے اپنی مورتی بنائی

اب وہ اسے بھی

کمزور سمجھ کر توڑ

دینا چاہتا ہے

لیکن میں اب ایسا نہیں

ہونے دوں گی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

تعارف

میرا نام وقاراحمد ہے اور میں پاکستان کے شہر گوجرانولہ سے ہوں۔میں اردو ادب کا طالب علم ہوں اور سرگودھا سے اسی سال ایم اے اردو کیا ہے۔پنجابی اور اردو اور ہندی ان تین زبانوں پر دسترس رکھتا ہوں۔پنجابی اور ہندی فکشن اور شاعری کا اردو میں ترجمہ کرتا رہتا ہوں۔اور تخلیقی سطح پر نثری نظمیں لکھتا ہوں۔تین نثری نظمیں ترجیحات کو بھیج رہا ہوں۔

Leave a Reply