ڈاکٹر احسان اللہ دانش
اسسٹینٹ پروفیسر
ہی جی ڈپارٹمنٹ ارود۔ مرزا غالب کالج گیا
جدید اُردو غزل کا معمار:سلطان اختر
سرزمین سہسرام نہ صرف یہ کہ صوفی سنتوں کی آماجگاہ رہی ہے بلکہ ابتدا سے ہی یہ شہر علم و ادب کا گہوارہ بھی رہا ہے۔تاریخی اعتبار سے اس شہر کی اپنی الگ شناخت ہے۔ماضی اور حال میں تقریباً تمام شعبہ جات میں اپنے کارناموں سے جس طرح مختلف شخصیتوں نے سہسرام کا نام روشن کیا ان شعبوں میں ایک اہم ترین شعبہ اُردو شاعری کا بھی ہے۔مانوسؔ سہسرامی سے لے کر عصر حاضر تک اُردو شاعری کی ایک مستند اور توانا روایت موجود ہے۔اسی روایت کی ایک کڑی سلطان اختر ہیں،جنہوں نے اپنی تخلیقی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا اور اس صنف کو بام عروج پر پہنچا دیا۔
سلطان اخترکا اصل نام سلطان احمدہے لیکن اپنے قلمی نام سلطان اخترسے ہی وہ شعر و ادب کی دُنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں اور شاعری میں اخترؔتخلص فرماتے ہیں۔سلطان اخترکا تعلق علم و ادب کی زرخیز سرزمین سہسرام کے ایک معزز خانوادہ سے ہے۔ان کے والد کا نام محمد شرف الدین اور والدہ کا نام رابعہ خاتون ہے۔سلطان اخترکی پیدائش ۱۶؍ ستمبر۱۹۴۲ء کو سہسرام میں ہوئی اور مشرقی و روایتی انداز میں ابتدائی گھریلو تعلیم کے بعد’’مدرسہ خیریہ نظامیہ‘‘میں ان کا داخلہ کرایا گیا،جہاں سے انہوں نے مولوی کی سند حاصل کی۔سہسرام ہائی اسکول سے میٹرک کے بعد انہوں نے اپنا تعلیمی سفر تھوڑا ہی آگے بڑھایا تھا اور انٹر کے بعد ایس۔پی۔جین کالج سہسرام سے بی۔ اے۔ کرنا شروع کیا ہی کیا تھا کہ اسی دوران انہیں جمشید پور کے لیبر ڈپارٹمنٹ میں ملازمت مل گئی اور ان کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ستمبر۱۹۶۸ء میں پٹنہ سکریٹریٹ کے شعبۂ حوالات میں مستقل ملازمت مل جانے کے بعد انہوں نے پٹنہ میں بود و باش اختیار کرلیا اور ۳۰؍ ستمبر ۲۰۰۰ء میں اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔
شاعری جذبات و محسوسات کی آئینہ دار ہوتی ہے،نئی سوچ پرانی شاعری میں نہیں سما رہی تھی،اس لیے جدید شاعری نے جنم لیا،جب سیلاب آتا ہے تو اپنے ساتھ خس و خاشاک بھی بہاکر لاتا ہے اور تب نہ سیلاب کی سمت کااندازہ ہوتا ہے اور نہ رفتار کا، یہی حال ابتدا میں جدید شاعری کارہا،نئے پن کے نام پر اور فیشن کے طور پر جو جدید شاعری وجودمیں آئی اس نے سیلاب جیسی صورت حال پیدا کردی اور اچھے برے کی پہچان مشکل ہوگئی مگر جب وقت گزرا،خس و خاشاک تہہ نشیں ہوئے تو اصل جدید شاعری سامنے آئی،اپنے پورے حسن اورتابناکی کے ساتھ۔
بہار شروع سے شعر و ادب کا گہوارہ رہا ہے ۔یہ اور بات ہے کہ اسے اسکول کا مرتبہ نہ حاصل ہوسکا مگر ہر دور میں بہار کے شعرا ہندوستان کے دیگر شعرا کے شانہ بہ شانہ علم و ادب کا چراغ جلائے رہے،جب جدیدیت کا فروغ ہوا تو بہار کے شعرا نے بھی یہ خوشگوار تبدیلی محسوس کی مگر بہت سوچ سمجھ کر،اندھی تقلید کے طور پر نہیں،اس لیے ہمیں بہار کے شعراء کے کلام میں فیشن پرستی نظر نہیں آتی بلکہ انہماک اور عبادت جیسی سنجیدگی نظر آتی ہے۔ہمارے جن شعرا نے ابتدا میں ان اثرات کو قبول کیا وہ کلاسیکی شاعری کے علمبردار تھے اور انہوں نے ترقی پسندی کی نعرہ بازی کو ادب کے لئے مضر سمجھ کر نظر انداز کردیا تھا،مگر جدید شاعری میں خارجی سے زیادہ داخلی کوائف کے اظہار اور شگفتہ بیانی نے انہیں متاثر کیا،حسن نعیم اور مظہر امام جیسے شاعروں نے بہت سوچ سمجھ کر جدیدیت کو قبول کیا،جس کا اچھا اثر ان کے بعد کی نسل پر پڑا اور ان کے بعد جو نسل سامنے آئی اس نے بھی جدیدیت کے صحت مند اثرات کو قبول کیا۔
سلطان اخترؔکی شاعرانہ زندگی تقریباً ساٹھ برسوں کا احاطہ کرتی ہے۔۱۹۵۷ء سے اپنی شاعری کا آغاز کرنے والے سلطان اخترؔنے ابتدامیں مانوسؔ سہسرامی اور جعفر علی خاں اثرؔ لکھنوی سے اصلاح لی اور پھر اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ شاہراہ سخن پر اپنے نقوش تاباں ثبت کرتے چلے گئے یہاں تک کہ انہیں’’سلطان غزل‘‘کہا جانے لگا۔سلطان اخترکی پہلی شعری تخلیق’’فانوس‘‘کٹیہار ۱۹۶۱ء میں شائع ہوئی ۔ سلطان اخترکا تعلق جدید غزل اور جدید نظم نگاری کے اس تیسرے دور سے ہے،جس کا آغاز بہار میں ۱۹۶۵ء کے آس پاس ہوتا ہے۔ان کی غزل گوئی کے اعتبار و استناد کا اندازہ یوں ہوسکتا ہے کہ ’’فنون‘‘لاہور نے اپنے ’’جدید غزل نمبر‘‘میں ان کی دس غزلیں شامل کیں اور شمس الرحمن فاروقی کی مرتبہ کتاب’’نئے نام‘‘میںبھی ان کی غزلیں شائع ہوئیں۔
شمس الرحمن فاروقی نے’’جدید اُردو غزل کا رنگ آشنا‘‘کے عنوان سے لکھے اپنے مضمون میں سلطان اخترؔکی غزلیہ شاعری کو اپنے وقت میں’’جدید اُردو غزل کی سب سے توانا اور نمایاں آواز‘‘بتایا ہے اور انفرادی حقیقت کی تلاش کواصل شاعرانہ خلوص سے تعبیر کرنے والے شعراء میں سلطان اخترؔ کو ایک اہم مقام کا حامل قرار دیتے ہوئے مزید وضاحت کی ہے :
’’انہوں نے نظام فکر اور تصورات حیات کی جگہ لمحاتی حقائق کو گرفت میں لینے کی سعی کی ہے۔معاصر دُنیا اور فوری ماحول اورشاعر کی ذات میں ایک محاربہ برپا ہے اور اس محاربے کی روداد سلطان اختر ؔکی غزل میں ملتی ہے۔‘‘ (مضمون:’’جدید اُردو غزل کا رنگ آشنا‘‘)
سلطان اختر ؔکی اہمیت کا اس بات سے بھی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ’’شب خون‘‘میں ان کی ۸۸ غزلیں بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ فاروقی صاحب نے شائع کیں۔متنوع اصناف سخن میں سلطان اختر کی باقیات اپنی جگہ لیکن سچائی یہ ہے کہ ان کی اصل پہچان ان کی جدیدیت بداماں غزلیہ شاعری سے ہی ہے۔بلاشبہ انہیں جدید غزل کی آبرو کہنا محض مبالغہ نہیں حقیقت ہے۔ان کا شمار جدید غزل کے اہم شعرا میں خصوصیت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ان کے تذکرے کے بغیر جدید غزل گوئی کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔اس سلسلہ میں پروفیسر وہاب اشرفی کا قول ملاحظہ فرمائیں:
’’ان کے یہاں جدیدیت کی ا چھائیاں تو موجودہیں مگر جدیدیت کی خرابیوں خصوصاً چیستانی ابہام سے انہیں دور کا بھی واسطہ نہیں۔ان کے یہاں جدیدحسیت کے ساتھ الفاظ و استعارات کا منفرد استعمال ملتا ہے۔‘‘
سلطان اختر بلاشبہ مرنجان مرنج شخصیت کے مالک ہیں اور ہمیشہ ہی انہوں نے اُردو کے فروغ و تحفظ پر اپنے مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے اور زبان کی بقا و ترقی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔
معروف محقق،تذکرہ نگار اور نقاد پروفیسر محمد منصور عالم نے اپنے ایک مضمون میں سلطان اختر کے لفظیاتی اور معنوی نظام کو سامنے رکھتے ہوئے خاص طور سے ان کے فن ِ آئینہ گری اور پیکر تراشی کے ہنر کو مرکزِ نگاہ رکھتے ہوئے اپنے ان خیالات کا اظہار کیا ہے:
’’شاعری کا فن انسانی تخئیل اور گویائی کے امکانات کو روشن کرتا ہے۔اس میں افکار و احساسات اور زبان و بیان کی ہم آہنگی کے جو بہتر ین نمونے ملتے ہیں،ان سے انسان گویا کی اشرفیت معتبر ہوتی ہے۔ سلطان اختر نے بعض فکر انسانی کو وہ زبان دی ہے جس سے احساس کو نیا قالب مل گیا ہے۔‘‘
(’’چند شاعروں کے جائزے‘‘محمدمنصور عالم)
اُردو کے معبتر محقق اور ناقد پروفیسر صفدر امام قادری نے سلطان اختر کی شاعری کے بڑے حصے کو اگرچہ جدیدیت کا زائیدہ قرار دیا ہے مگر انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سلطان اختر نے ہر دور میں کلاسیکیت کے اوصاف سے اپنی جدت اور عصریت کو متوازن بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔انہوں نے دوسرے جدید شعرا کے مقابلے میں سلطان اختر کی زبان کے کلاسیکی رنگ کو امتیازی اہمیت عطا کی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے عہد میں نئے اسلوب کے بنیاد گزار بن جاتے ہیں۔ان کی نتیجہ خیز گفتگو کا اندازہ ذیل کے جملوں سے ہوجاتا ہے۔
’’ سلطان اختر نے اپنے عہد کے مفاہیم اور استعاروں کو ملحوظ نظر تو رکھا لیکن اُردو غزل کی کلاسیکی بنیادوں سے مکمل طور پر انحراف کرنے کے انداز کو دوسرے شعرا کی طرح ضروری نہیں سمجھا۔ہر بڑے شاعر کو ماضی اور حال کے منظرنامے سے ایک نیا محلول تیار کرنا ہوتا ہے جس کے بغیر اس شخص کا انفراد ظاہر نہیں ہوسکتا۔ سلطان اختر نے اپنے رنگِ سخن کو جدیدیت اور کلاسیکیت کی آمیزش سے کچھ اس انداز سے صیقل کیا کہ ان کی شاعری اقبالؔ اور ان کے عہد کے دوسرے لکھنوی شعرا سے تومختلف ہوئی اسی کے ساتھ یہ بھی رہا کہ ترقی پسند تحریک کے کسی سرخیل سے بھی ان کے شعر گوئی کا واضح سلسلہ جڑتا ہوا نظر نہیںآتا۔‘‘(مضمون:’’ سلطان اختر -غزل کے قصر میں شاید ہو آخری آواز‘‘صفدر امام قادری )
غزل گوئی سے الگ سلطان اختر نے رباعیات،نظم گوئی اور دوہے کی طرف بھی توجہ کی اور ان شعری اصناف میں بھی انہوں نے اپنے تخلیقی جوہر کے اچھے نمونے پیش کئے۔ ان کی غزلوں میں لطافت اور شیرینی کا احساس ہر قدم پر ہوتا ہے اور ان کی ہر غزل میں کثرت سے ایسے اشعار ضرور مل جاتے ہیں جس سے ان کی درد مند دل کی کیفیت نمایاں ہوتی ہے۔
سلطان اختر آج اُردو کے ایک اہم شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں وہ اپنے معاصرین میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ان کی شاعری کا اعتراف ہر زمانے میں کیا جائے گا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی شاعری کا غائر مطالعہ کیا جائے اور پورے انصاف اور دیانت داری کے ساتھ ان کی شاعرانہ خصوصیات کا محاسبہ کیا جائے تاکہ ان کی شاعری کے کچھ نئے نکات بھی قاری کے سامنے آسکیں۔
٭٭٭