ثنا
ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو ،بریلی کالج بریلی
نگراں:پروفیسر احمد طارق ، شعبہ اردو ،بریلی کالج،بریلی
جدید غزل میں واقعۂ کربلا کی معنویت و اہمیت
غزل ایک ایسی صنف سخن ہے جس نے ہر زمانے میں اپنے عہد کے مختلف حالات و واقعات کو موثر انداز میں بیان کرنے کی غرض سے اپنے دور کے اہم تاریخی و سماجی نقوش کو علامتی و استعاراتی انداز میں پیش کیا ہے۔میر و غالب سے لے کر اقبال تک مختلف شعراء نے ان نقوش کا سہارا لے کر اپنی شاعری کو بلند مقام و مرتبہ عطا کرنے کی کوشش کی ہے۔جب شاعر اپنے پیغام یا خیال کو دوسروں تک موثر انداز میں پہنچانے کا خواہش مند ہوتا ہے تو اپنی فکر کا دائرہ وسیع کر کے خیال میں عمومیت پیدا کر کے زندگی اور سماج کے پیچ و خم، کیف و کم کو علامت کے طور پر پیش کرتا ہے یا ان واقعات سے کردار مستعار لے کر ان کرداروں کے ذریعہ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔اس نقطۂ نظر سے اقبال کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو بے شمار مثالیں اس طرح کی مل جائیں گی جس میں اقبال نے روایتی واقعات سے کردار مستعار لے کر اپنا پیغام عوام تک پہنچانے اور ان کو بیدار کرنے کی سعی کی ہے۔انسان حال میں جیتا ہے لیکن اس کی سوچ و فکر میں ماضی میں پیش آئے سماجی ،سیاسی معاشرتی حالات و واقعات نیز مذہبی و تہذیبی روایات ہمیشہ پیش نظر رہتے ہیں اور جب کبھی خیر و شر ,حق و باطل کی آویزش، جنگ و جدال کے سبب معاشرے میں نئے نئے مطالبات و تباہی کی فضا پیدا ہوتی ہے تو معاشرے کے افراد نیز شاعر و ادیب یادوں کے قدیم دفینوں کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور اس طرح تاریخی ، تہذیبی اور مذہبی روایات نیز سماجی و ثقافتی لاشعور کے خزانوں میں سے حرکت و حرارت کے سامان کی تلاش و جستجو کرتے ہیں ۔ دنیا کی تقریباً تمام تہذیبوں میں اس طرح کی مثالیں موجود ہیں اور ہر مثال کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مثلا سقراط کا زہر سے بھرا پیالہ پی جانا یا شری رام چندر جی کا والد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بن باس پر جانا یا حضرت عیسیؐ کا عیسائیوں کے عقائد کے مطابق مصلوب ہو جانا۔ ہر واقعہ اپنے پیچھے آنے والی نسل کے لیے ایک پیغام چھوڑ جاتا ہے۔اسی طرح مذہب اسلام کی تاریخ میں امام حسین کی قربانی عظیم اور قابل احترام ہے جو کہ کرب و بلا کی سر زمین پر واقع ہوئی ۔ اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’پیغمبر اسلام محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور سیدۃ النساء فاطمہ زہرا اور حضرت علی مرتضےکی جگر گوشے حسین کے گلے پر جس وقت چھری پھیری گئی اور کربلا کی سرزمین ان کے خون سے لہو لہان ہوئی تو درحقیقت وہ خون ریت پر نہیں گرا بلکہ سنت رسول اور دین ابراہیمی کی بنیادوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سینچ گیا۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ خون ایک ایسے نور میں تبدیل ہو گیا جسے نہ کوئی تلوار کاٹ سکتی ہے نہ نیزہ چھید سکتا ہے اور نہ زمانہ مٹا سکتا ہے۔اس نے مذہب اسلام کو جس کی حیثیت نو خیز پودے کی تھی استحکام بخشا اور وقت کی آندھیوں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔‘‘۱؎
واقعۂ کربلا انسانی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے جس کے مضمرات انسانی زندگی کے مختلف مراحل و مدارج طے کرنے کے سلسلے میں ہدایت کی حیثیت رکھتے ہیں۔انسانی زندگی اور واقعہ کر بلا کی اہمیت اور قدر و قیمت کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر سید محمود الحسن لکھتے ہیں:
’’واقعہ کربلا محض اسلامی تاریخ کی اہم منزل نہیں ہے جس نے اس خیال کو مستحکم کیا کہ”حقا کہ بنائے لا اللہ ہست حسین”بلکہ اس نے انسانی عظمت اور معاشرے کی بلندی کے ایسے حقائق پیش کر دیے جن پر عمل کر کے آج بھی حق و انصاف،شر کے مقابلہ میں خیر اور ذلت کی زندگی سے نجات حاصل کر کے عزت کی موت کو ترجیح دینے کا شعور پیدا ہوتا ہے۔یہی سبب ہے کہ کوئی شعبہ حیات اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔چنانچہ شعراء کو جب اپنی شاعری کے ذریعے مظلوم کی آواز بلند کرنے اور انسانیت کے اور اصولوں کی تبلیغ کے لیے کوئی مثال تلاش کرنی پڑی تو انہیں صرف واقعات کربلا کا سہارا ملا‘‘۲؎
واقعہ کربلا کا بیان اردو میں رسائی ادب کا اہم حصہ رہا ہے انیس و دبیر نے سانحہ ٔکربلا اور اس کے متعلقات کو اپنے مراثی کے ذریعہ سادگی و شگفتگی کے ساتھ موثر انداز میں پیش کیا ہے ۔اسی طرح اردو غزل کی تاریخ میں بھی ان واقعات کا بیان اشاروں ،کنایوں اور علامات کی صورت میں ہوتا رہا ہے۔اسی لیے سانحہ کربلا سے متعلق موضوعات اردو غزل نیز روایتی غزل کے سرمائے میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں اس ضمن میں گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’واقعہ کربلا کے تاریخی حوالے کا استعاراتی اظہار غزل کی کلاسیکی روایت میں یقیناً ڈھونڈا جا سکتا ہے اور اس کی تلاش لاحاصل نہ ہوگی ۔‘‘۳؎
گوپی چند نارنگ نے اس سلسلے میں مثال کے طور پر میر کے اشعار پیش کیے ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ روایتی غزل کے سرمائے میں واقعہ کربلا اور اس کے متعلقات سے متعلق اشعار موجود ہیں۔علاوہ ازیں سودا ، مومن، غالب وغیرہ کی غزلوں میں اس طرح کے اشعار دیکھے جا سکتے ہیں۔
تنہا تیرے ماتم میں نہیں شام سیہ پوش
رہتا ہے صدا چاک گریباں سحر بھی
سودا
سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اٹھے
کیا علم دھوم سے تیرے شہدا کے اٹھے
مومن
بیسویں صدی میں اقبال کے یہاں واقعہ کربلا کا بیان تلمیحات کےطور پر اور اس کے متعلقات علامتی نوعیت اختیار کرتے ہوئے اپنے عہد کی مختلف مسائل کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اقبال کے یہاں سانحہ کربلا کا بیان ایک نئے اور منفرد انداز میں ہوا ہے اس سلسلے میں رشید احمد صدیقی نے مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی کتاب “نقوش اقبال” کے دیباچے میں لکھا ہے:
’’نعت شہ کونین کی طرح شہادت سید الشہداء اور سانحہ کربلا کو اقبال نے جو نئی جہت، وسعت اور رفعت دی ہے،وہ بھی اردو شاعری میں ایک اہم اور گرانقدر اضافہ ہے،مرثیہ خوانی اور مرثیہ نگاری کو جو اہمیت ہمارے ادب اور زندگی میں ہے،اس کو اقبال نے ایک نئے تصور اور تجربے سے آشنا کیا‘‘۴؎
اقبال کے کلام کے گہرے اثرات کے سبب ہی دیگر شعرا مثلاً جوش،محمد علی جوہر وغیرہ کی شاعری میں بھی سانحۂ کربلا سے متعلق تلمیحات اور استعارات کے بیان کا سلسلہ عام ہوا اس طرح ان شعراء نے سانحہ کربلا اور اس کے متعلقات کا استعمال اپنی شاعری میں اشاروں ،کنایوں،تلمیحات و علامات کی صورت میں کر کے تحریک آزادی میں روح پھونکنےنیز کاروان آزادی کے راہ روؤں کی حوصلہ افزائی کرنے کا کام کیا۔اس طرح اقبال کے بعد خیر و شر کے ذکر میں واقعہ کربلا کا استعمال بطور علامت ایک رجحان کی حیثیت اختیار کر گیا۔پھر جدید دور میں جیسے جیسے سماجی،سیاسی ،تہذیبی و ثقافتی سطح پر جبر و استحصال کا رنگ گہرا ہوتا گیا اسی تناسب میں سانحہ کربلا کی معنویت اور اہمیت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔یہی وجہ ہے کہ جدید غزل گو شعراء نے جبر و استحصال کے ذکر میں واقعہ کربلا سے متعلق ان تلمیحات و علامات کو ایک نئے اور منفرد انداز میں پیش کرنے کی سعی کی۔جدید غزل گو شعراء میں جن کے یہاں ان واقعات کا ذکر ملتا ہے ان میں عرفان صدیقی، افتخار عارف، احمد فراز، محمد علوی، منور رانا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہے۔
ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا
شکیب جلالی
درج بالا شعر میں واقعہ کربلا سے متعلق حضرت عباسؐ کے کردار کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرت عباسؐ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے دریا تک پہنچ جاتے ہیں لیکن وہ پانی نہیں پیتے ہیں دریا کو ندامت ہے کہ انہوں نے اپنے ہونٹ تک تر نہیں کئے اور پیاسے لوٹ گئے۔سبب یہ تھا کہ امام حسینؓ پیاسے تھے،سکینہ پیاسی تھیں ،اطہار اہل بیت پیاسے تھے۔حضرت عباسؓ اپنے اصول پر قائم رہے ،اس سے ان کی ثابت قدمی،انسانی تہذیب کے اعلیٰ اقدار جو شہدائے کربلا کی ذات میں موجود تھے ،کا پتہ چلتا ہے۔دور حاضر میں انسانی عظمت و اقدار انسانی رشتوں میں بحران و انتشار کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ دور حاضر کے انسان میں وہ اعلیٰ اقدار تلاش کرنا تقریباً مشکل ہے۔
پھر کربلا کے بعد دکھائی نہیں دیا
ایسا کوئی بھی شخص کہ پیاسا کہیں جسے
منور رانا
دور حاضر میں ایسے افراد کی تلاش یقینامشکل امر ہےجن کے قول و فعل میں انسانی تہذیب کی اعلیٰ خصوصیات مثلاً ثابت قدمی ،صبر و استقلال اور قوّت برداشت وغیرہ موجود ہوں ۔
دل ہے پیاسا حسین کے مانند
یہ بدن کربلا کا میداں ہے
محمد علوی
کل جہاں ظلم نے کاٹی تھیں سروں کی فصلیں
نم ہوئی ہے تو اسی خاک سے لشکر نکلا
وحید اختر
ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آ گئی
وہ اک دیا بجھا تو سینکڑوں دئیے جلا گیا
احمد فراز
کربلا کی سر زمین پر ایک ایسی جنگ برپا ہوئی جس میں بظاہر امام حسینؐ کی شکست ہوئی لیکن ان کی شہادت نے، ان کے کردار کے اعلیٰ اوصاف نے ،نہ صرف مذہب اسلام کی تاریخ میں بلکہ اِنسانی تاریخ میں بھی اپنی جگہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لی۔ان کے کردار کی خصوصیات مثلاً شجاعت،بہادری،ثابت قدمی صبر و استقامت وغیرہ نے تقریباً ہر دور میں انسانیت کو راہ حق پر ثابت قدم رہنے کا حوصلہ دیا ہے۔
بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی
افتخار عارف(
دعا دل سے کی جاتی ہے اس کے لیے ہاتھوں کو اٹھانا لازمی نہیں ہے۔شاعر نے ہاتھوں میں زنجیر کو دعا نہ مانگ سکنے کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔اطہار اہل بیت کے دعا نہ مانگنے کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر وہ دعا مانگتے تو ان کی دعا میں ایسی شدت ہوتی کہ دشمن کا پورا لشکر تباہ و برباد ہو جاتا اس لئے انہوں نے صبر و رضا ،استقامت سے کام لیا۔اب اگر دور حاضر کا انسان کسی مصیبت،پریشانی یا کشمکش میں مبتلا ہوگا تو تقریباً سب سے پہلے خدا سے مدد کا طلبگار ہوگا اور اپنے حق میں دعا کرےگا ۔ دعا کرنا بر حق ہے لیکن اپنی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کو خدا کی آزمائش تصور کرتے ہوئے اپنے آعمال پر غور کرنے کے ساتھ صبر بھی اختیار کرنا چاہیے۔
سلام ان پہ تہ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے
مجید امجد
ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو حیرت ہے
کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں
عرفان صدیقی
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور انسانی تاریخ کا عجیب و غریب واقعہ ہے کہ امام حسین لاکھوں کی فوج کے نرغے میں تھے باوجود اس کے نہ تو وہ خوف زدہ ہوئے نہ انہوں نے غلامی جبر و استبداد کے آگے اپنا سر خم کیا۔انسانی آزادی کا جو تصور مذہب اسلام نے دیا تھا اس تناظر میں حضرت حسینؓ کا کردار انسانی آزادی کا روشن استعارہ ہے ۔
سانحہ کربلا اور اس کے متعلقات بھی ہمیں یہی درس دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی زندگی کے مختلف مسائل اور پیچیدگیوں سے مایوس و بیزار ہونے کے بجائے صبر اختیار کرتے ہوئے خدا کی رضا میں اپنے لیے نفع کا پہلو تلاش کرنا چاہیے۔لیکن دور حاضر کے انسان میں قوت برداشت ،قوت صبر تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے اگر بیسویں صدی سے ہی دور حاضر کا موازنہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ خطوط کے دور میں لوگوں میں کتنا صبر ہوا کرتا تھا چونکہ ایک خط کا جواب آنے میں مہینوں لگ جاتے تھے لیکن انسانوں کے درمیان محبت، اخلاق و ہمدردی کے جذبات برقرار رہتے تھے آج ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں فاصلے کم ہوئے ہیں وہیں لوگوں کے درمیان دوریوں اور باہمی رنجشوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
جب بھی ضمیر و ظرف کا سودا ہو دوستو
قائم رہو حسین کے انکار کی طرح
احمد فراز
درج بالا شعر میں شاعر نے واقعہ کربلا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے قارئین و سامعین کو پیغام دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ مثلاً اگر ہمارا ضمیر ہمیں کسی کام کو کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے تو ہمیں حسینٌ کے انکار کی مانند اپنے قول و قسم پر قائم رہنا چاہیے ۔
تم جو کچھ چاہو وہ تاریخ میں تحریر کرو
یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا
عرفان صدیقی
جس طبقے یا گروہ کے ہاتھ میں کسی ملک و قوم کا اقتدار ہوتا ہے وہ تاریخ میں اپنے نظریات کے مطابق ترمیم و اضافہ کر سکتا ہے لیکن ہر واقعہ اپنے پیچھے اپنے ظہور پزیر ہونے کے نقوش چھوڑ جاتا ہے جو کہ اس واقعہ کی اصلیت تک پہنچنے کے سلسلے میں دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جن کو مٹانا مشکل کام ہے۔
بے ردا بے سرو پا ایک المناک صدا
زندگی قافلۂ شام غریباں جیسے
عرفان صدیقی
درج بالا شعر میں شاعر نے دور حاضر کو شام غریباں سے تعبیر کیا ہے وہی ظلم، وہی جبر ،وہی لوٹ جو کہ شام غریباں کی شناخت ہے اور اس کے نتیجہ میں بے ردائی ،بے سروپائی اور بے حرمتی وجود میں آئی ۔اس شام کا جو درد انگیز منظرنامہ تھا اس سے شاعر نے دور حاضر کے مسائل و پیچیدگیوں کو تعبیر کیا ہے۔
اس مختصر جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ واقعۂ کربلا اور اس کے متعلقات کا استعمال ہر عہد کی غزل میں علامات، اشارات اور تلمیحات کی صورت میں ہوتا رہا ہے۔جدید غزل میں یہ علامات اپنے لغوی و تاریخی معنی و مفہوم سے باہر نکل کر موجودہ عہد کی صورتحال کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔اس طرح جدید غزل میں یہ علامات ایک تخلیقی رجحان کی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں جدید غزل گو شعرأ ان علامات و اشارات کے ذریعہ نہ صرف اپنے عہد کی صورتحال کے خلاف احتجاج کرتے ہیں بلکہ موجودہ صورتحال کے مختلف مراحل کو صبر و استقلال کے ساتھ طے کرنے کا حوصلہ بھی دیتے ہیں۔ غرض کہ روایتی غزل کے ساتھ جدید غزل کے سرمائے میں بھی واقعۂ کربلا کی معنویت و اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
***
حواشی:
۱۔ص۔۱۸ سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ ۔گوپی چند نارنگ ۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی۔1986
۲۔ص ۷ اردو شاعری میں واقعات کربلا چند تاثرات۔پروفیسر سید محمود الحسن مشمولہ اردو شاعری میں واقعات کربلا از ڈاکٹر نسیم نکہت۔نظامی پریس لکھنو۔2013
۳۔ص۔۲۵ سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ ۔گوپی چند نارنگ ۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی۔1986
۴۔ص۔۱۷ دیباچہ نقوش اقبال از رشید احمد صدیقی مشمولہ نقوش اقبال از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی۔ ترجمہ شمس تبریز ۔مجلس نشریات اسلام کراچی۔1975
۵۔www.rekhta.org
SANA , Research scholar, Department of Urdu ,Bareilly College Bareilly ,UP
Supervisor :PROF AHMAD TARIQ ,Department of Urdu , Bareilly college Bareilly, UP
M.J.P Rohilkhand University Bareilly .UP
