You are currently viewing جگرؔمرادآبادی: حیات و خدمات

جگرؔمرادآبادی: حیات و خدمات

 

ندیم احمد انصاری

صدر شعبۂ اردو، الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن، ممبئی

جگرؔمرادآبادی: حیات و خدمات

          جگرؔ مرادآبادی کا تعارف کراتے ہوئے مولانا ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:

’’علی سکندر جگرؔ مرادآبادی اردو کے بہت بڑے شاعر تھے، کہنا چاہیے کہ غالبؔ و مومنؔ کے بعد جو دور شروع ہوتا ہے، اس میں روایتی غزل گوئی-جس کی بنیاد فارسی تغزل، نزاکتِ خیال اور معاملہ بندی پر پڑی تھی، حسرتؔ ، فانیؔ، اصغرؔ اور جگرؔ پر ختم ہو گئی، آخر میں جگرؔ ہی رہ گئے تھے جن کے سر پر اس تحتی برِ اعظم کے ادب حلقوںنے ملک الشعرائی کا تاج رکھ دیا تھا، ہندوستان اور پاکستان کے مشاعرے ان کی شرکت کے بغیر معتبر ہی نہ سمجھے جاتے، اور لکھنؤ تو اردو کا مرکز اور گونڈہ سے قریب ہونے کی وجہ سےان کے نام و کلام سے گونج رہا تھا اور ان کی شاعری اور خوش نوائی کی دھوم مچی ہوئی تھی، غرض شوکت تھانوی کے بلیغ و معنی خیز الفاظ میں ’ایک دنیا جگر کی مریض تھی‘۔[مستفاد از پرانے چراغ]

          اپریل، ۱۸۹۰ء کی کسی تاریخ میں جگرؔ کی ولادت ریاستِ اترپردیش کے شہر مرادآباد میںہوئی۔ان کی تاریخ اور مقامِ ولادت کے بارے میں اختلاف ہے، اس کا سبب خود ان کے مختلف بیانات ہیں۔ان کے خاص دوست تسکینؔ قریشی کا بیان ہے کہ میں نے جگرؔ صاحب کا سالِ ولادت اور مقامِ پیدائش تحقیقی طور پر معلوم کر لیا ہے، وہ مرادآباد میںپیدا ہوئے تھے اور تاریخ و ماہ و سال پیدائش ۱۴،۱۵؍ شعبان،۱۳۰۷ھ ہے، عیسوی تاریخ ماہِ اپریل ۱۸۹۰ء بھی صحیح طور پر تحقیق ہو چکی ہے ۔ تاریخ میں چوں کہ ۲۹،۳۰ ؍کی رویتِ ہلال کا سوال پیدا ہوتا ہے، اس لیے اگر ۳۰ ؍کا چاند مانا جائے تو ۴،۵؍اپریل ہوتی ہے اور ۲۹؍کا تصور کر لیا جائے تو ۵،۶؍سمجھیے، بہ ہرحال اس کی چنداں ضرورت بھی نہیں، صرف اپریل ۱۸۹۰ء کافی ہے۔[جگر مرادآبادی:حیات اور شاعری]

          ۱۹۱۹ء میں جگر صاحب کو ان کے ایک ایجنٹ ساتھی نے کاروباری حسد میں پڑ کر زہر دے دیا تھا لیکن جگر صاحب بچ گئے۔[ایضاً]

          جگرؔ کا تعلق مرادآباد کے مولویوں کے اس خاندان سے تھا جو اپنی امارت، وجاہت اور علم و ادب کی بنا پر مرادآباد جیسے شہر میں امتیازی حیثیت رکھتا تھا۔ شعر گوئی و شعر فہمی میں بھی ان کا خاندان ممتاز تھا۔ ان کے والد، تایا، چچا، پھوپھا، بڑے بھائی وغیرہ سب کے سب شاعر تھے۔ جگرؔ کے والد علی نظر صاحب نے ایک ضخیم تضمین ’باغِ نظر‘ کے عنوان سے لکھی تھی ان کے چچا کو وزیرؔ کے خاندان سے شرفِ تلمذ حاصل تھا، جگرؔ نے ایسی فضا میں آنکھیں کھولیں اور سنِ بلوغ کو پہنچے جس میں زندگی کی قدیم قدروں کا عزت و احترام تھا۔ جگرؔ کا بچپن اور عنفوانِ شباب، فارغ البالی میں بسر نہیں ہوا اور نہ وہ اعلیٰ تعلیم اور جدید علوم و فنون ہی سے استفادہ کر سکے لیکن ان کو خانگی، سماجی، علمی اعتبار سے ایک خوش گوار فضا ملی، جس سے جگرؔ نے خودداری سیکھی اور محنت و تحمل کا درس لیا۔ ان کے دل میںانسانی درد و محبت کے شریفانہ جذبات پیدا ہوئے۔ ان میں شاعری اور تصوف کا ذوق بھی اسی فضا سے پیدا ہوا۔ وہ شاعرانہ ماحول میںپیدا ہوئے تھے اور ان کو تمام اہلیتیں وراثت میں ملی تھیں۔[ایضاً]

          جگرؔ صاحب کو زمانۂ تعلیم میں بھی شاعری کا کافی ذوق تھا، لیکن وہ اس وقت تعلیمی سلسلے کی وجہ سے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا منظرِ عام پر نہیں لانا چاہتے تھے۔جگرؔ صاحب کے خاندان نے جس قدر عروج و کمال حاصل کیا اتنا ہی اسے زوال دیکھنا پڑا، یکایک پورے خاندان میں تباہی کے آثار پیدا ہو گئے، سارا گھر حوادث سے دو چار ہو گیا۔ ان مسلسل غم و آلام نے جگرؔ صاحب کے دل و دماغ کو مجروح اور احساسات کو بیدار کر دیا۔ شاعری کا جو ذوق جگرؔ صاحب کو اپنے اسلاف سے ودیعت ہوا تھا وفعتاً ابھر آیا اور وہ ہر مادّی شے سے مستغنی و بے نیاز ہو کر شعر کہنے لگے اور اس کے ساتھ ساتھ سلسلۂ نان و نوش بھی جاری کر دیا۔ جگرؔ صاحب کو ابتدا میں فصیح الملک مرزا داغؔ دہلوی سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا، اس کے بعد رساؔ اور تسلیمؔ سے کسبِ فیض کیا۔[جگر مرادآبادی: حالات، انتخابِ کلام، تبصرہ]

          جگرؔ صاحب کا بیان ہے:

’’میں نے شروع میںاستاد داغؔ دہلوی سے رجوع کیا، پھر رساؔ رام پوری سے اصلاح لی۔ رساؔ رام پوری ہی میرے استاد تھے۔ انھوں نے مجھے منشی امیر اللہ تسلیمؔ کے پاس بھیجا مگر انھوں نے کوئی اصلاح نہیں دی، بعد میں اصغرؔ صاحب کی صحبت سے فیض یاب ہوا۔‘‘[جگر: فن اور شخصیت]

          ڈاکٹر محمد اسلام صاحب کا کہنا ہے کہ جگرؔ سارے گھر کے حوادث سے دوچار ہونے کے بجائے خود اپنی زندگی کے مسلسل غم و آلام سے دو چار ہوئے، جس کی وجہ سے ان کا دل و دماغ مجروح ہو گیا تھا۔ ایک تو والدین کے انتقال کا غم، دوسرے ذریعۂ معاش کی فکر، تیسرے اپنے معاشقے میں ایک دل دوز حادثے کی وجہ سے ان کے دل و دماغ مجروح ہو گئے۔[جگر مرادآبادی:حیات اور شاعری]

          جگرؔ صاحب نے کب سے شراب شروع کی، اس کا صحیح علم نہیں ہے، لیکن قیاسِ غالب یہ ہے کہ انھوں نے پہلی بیوی کی محبت میں یہ شغل شروع اور آخری بیوی کے اشارے پر اسے ترک کیا۔[تذکرہ جگر مرادآبادی]

          بعض حضرات کا خیال ہے کہ جگرؔ صاحب جب شراب پیتے تھے اس زمانے میں وہ بغیر شراب پیے ہوئے شعر نہیں کہہ پاتے تھے، جگر ؔصاحب نے اس خیال کی تردید کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’میں شعر اسی وقت کہتا تھا، جب شراب چھوڑ دیتا تھا‘۔[جگر مرادآبادی:حیات اور شاعری]

          ۱۹۳۹ء میں انھوں نے شراب نوشی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کر دی۔[ایضاً]

          ۱۹۴۱ ءیا ۱۹۴۲ء میں ایک مختصر فلم ’آسمانی مشاعرہ‘ میں داغؔ کا پارٹ ادا کیا، لیکن محمود علی خاں جامعی صاحب نے سہواً اس فلم کا نام ’چورنگی‘ لکھ دیا ہے۔[ایضاً]

          اس دور میںجسے فلمی دور کہنا بے جا نہ ہوگا، جس شاعر نے ذرا سی شہرت کمائی فلمی لائن میں پہنچ گیا۔ ملک کے بڑے بڑے مشاہیر شعرا تک نے فلمی لائن اختیار کی، جگر صاحب کا تو ان دنوں بول بالا تھا، ہر فلم ساز اس کوشش میں تھا کہ جگر صاحب اس کے کسی فلم کے لیے کوئی غزل دے دیں، لیکن جگرؔ صاحب نے کبھی اپنے آپ کو اس سے ملوث نہ ہونے دیا، وہ اس کو گناہ سمجھتے تھے اور اسی خیال سے وہ کبھی اس گناہ کے مرتکب نہ ہوئے۔۱۹۴۵ء میں بمبئی میں ’کار دار فلم‘ ان سے دس غزلوں کے لیے شدید اصرار کیا گیا، انھوں نے ایک معاہدہ بھی کر لیا۔۔۔ لیکن پھر انکار کر دیا، اس کے بعد کسی فلم سے کبھی کوئی معاہدہ نہیں کیا۔[ایضاً]

          ۱۹۴۱ء یا ۱۹۴۲ء میں جوناگڑ میںان کو سب سے پہلا شدید وجع القلب کا دورہ پڑا۔

          جب پاکستان بناتو ہندوستان کے مسلمان، روسا و امرا و شعرا و ادیب اور اہلِ ہنر پاکستان جانے لگے، کیوں کہ یہاں کے روح فرسا حالات و حادثات کی وجہ سے بہ ظاہر مسلمانوں کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیںرہ گئی تھی اور ان کو عرصۂ حیات تنگ نظر آنے لگا تھا۔جگرؔ کے بہت سے احباب بھی پاکستان منتقل ہو گئے، جس کا انھیں بے حد افسوس رہا اور اس افسوس کا اظہار انھوں نے اپنے ہندوستانی احباب کے خطوط میں کیا۔ لیکن جگر کسی محدود وطن کے قائل نہ تھے۔ انھوںنے لکھا ہے کہ ’میں کسی محدود وطن کے تصور کا حامی نہیں ہوں، میں ساری دنیا کو اپنا وطن سمجھتا ہوں، میرے نزدیک مصنوعی حد بندیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں‘۔[ایضاً]

          ۱۹۴۹ء سے ان کی طبیعت میں بشاشت کی کمی ہونے لگی۔

          ۱۹۵۲ء میں ان کا وزن صرف سو پونڈ رہ گیا تھا۔

          ۱۹۵۳ء میں جگر صاحب حج کو گئے اور ان کا جہاز جب جدہ پہنچا تو سعودی عرب کے افسران انھیں لینے بندرگاہ پر آئے اور شاہی دعوت نامہ دیا، لیکن وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ رباطِ حیدرآباد میں مقیم ہوئے۔[ایضاً]

          ۱۹۵۶ء میںں وہ زندگی اور صحت سے جس قدر مایوس ہو گئے تھے، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔

          ۱۹۵۸ء میں ان کو دل و دماغ پر قابو نہیں رہ گیا تھا اور مسلسل علالتوں سے وہ بے حال ہو گئے تھے۔

          ۱۹۵۹ء میں ان کا ضعف اور اضمحلال انتہا کو پہنچ گیا۔اگست ۱۹۵۹ء سے مئی ۱۹۶۰ء کے درمیان وہ بالکل ناتواں ہو گئے۔

          ۱۹۶۰ء میں ستمبر کی ۹؍تاریخ کو جگر صاحب گونڈہ میں انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون[جگر مرادآبادی:احوال و اذکار]

          ۱۹۶۳ء کی ۹؍ستمبر کو تسکینؔ قریشی کی مسلسل کوششوں سے جامعہ ملیہ اسلامیہ میںگوشۂ جگر قائم ہوا، ذاکر صاحب نے تسکینؔ صاحب کو اپنے مکتوب مرقومہ ۱۳؍ستمبر ۱۹۶۳ء میں لکھا:

’’گوشۂ جگر کے جامعہ میں قائم ہونے سے مجھے بھی شاید اتنی ہی خوشی ہوئی ہے جتنی آپ کو، لیکن میری خوش آپ کے طفیل ہے اس لیے آپ کا دل سے شکر گزار ہوں۔ جامعہ میں یومِ جگر منانے اور جگر کی شاعری سے لگاؤ پیدا کرنے کے سلسلے میں جو کچھ کر سکوں گا، ضرور کروں گا۔‘‘[جگر مرادآبادی:احوال و اذکار]

          جگرؔ مرادآبادی کے شعری و نثر ی مجموعوں کی تفصیلات حسبِ ذیل ہیں:

          (۱)داغِ جگر

          یہ جگرؔ کا اولین شعری مجموعہ اور ان کے دورِاول کا کلام ہے، جسے مرزا احسان احمد ایڈویکیٹ نے ترتیب دیا اور اس پر ۴۴؍صفحات کا ایک وقیع مقدمہ بھی لکھا ہے۔[داغِ جگر، مرتبہ مرزا احسان احمد، مطبع معارف، اعظم گڑھ]مرزا صاحب نے ۱۹۲۲ء میں اس گلدستے کو سجا کر اہلِ علم و ادب کے سامنے پیش کیا۔[جگر مرادآبادی:حیات اور شاعری]

          (۲)شعلۂ طور

          اس کے اولین مطبوعہ نسخوں میں دورِ چہارم شروع میں آتا ہے، پھر سوم، دوم اور اول، لیکن محمد طفیل صاحب کے زیرِ اہتمام طبع شدہ نسخے میں اس کی ترتیب تبدیل کر دی گئی ہے۔[شعلۂ طور] ۱۹۳۴ء میں شعلۂ طور کے نام سے مکتبہ جامعہ نے دوسرا مجموعہ شائع کیا، اس میں داغِ جگر کا کلام بھی شامل تھا۔[آتشِ گل]

          (۳)آتشِ گل

          یہ جگر صاحب کا تیسرا مجموعہ ہے، اس کا پہلا ایڈیشن پاکستان میں ۱۹۵۴ء میں اشاعت پذیر ہوا اور ہندوستان میں انجمن ترقی اردو، ہند، علی گڑھ کے اہتمام سے شائع ہوا۔اس اشاعت پر مصنف کو پانچ ہزار روپے کا ساہتیہ اکادمی انعام بھی عطا ہوا۔[آتشِ گل]

          (۴)یادِ جگرؔ

          آتشِ گل کے ۱۹۵۸ء کی اشاعت کے بعد بھی جگر نے کچھ غزلیں کہی تھیں جنھیں داکٹر محمد اسلام نے حاصل کر کے یادگارِ جگر کے نام سے الگ شائع کرا دیا۔[جگر مرادآبادی:حیات اور شاعری]

          (۵)باقیاتِ جگرؔ

          یہ مجموعہ مصطفیٰ راہی کا ترتیب دادہ ہے۔باقیاتِ جگر میںں صرف وہ کلام نہیںں جو آتشِ گل کے بعد مدون ہونے سے رہ گیا تھا، بلکہ مصطفی راہی کی جگر پرستی نے ان کے ان اشعار کو بھی اس کتاب کے دامن میں سمیٹ لیا ہے جومصطفی راہی کے بقول ’مجموعوں کی ترتیب کے وقت یا تو سامنے نہیں تھے یا شاعر نے خود کسی وجہ سے نظر انداز کر دیے تھے۔ اس قسم کا حذف شدہ یا حذف کردہ کلام یادِ جگر میں بھی محفوظ نہیں ہو سکا، لہٰذا باقیاتِ جگر کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے‘۔[باقیاتِ جگر]

          (۶)مکاتیبِ جگرؔ

          یہ مکاتیب تسکینؔ قریشی کے جمع کردہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جگر صاحب کے مکاتیب کی مجموعی تعداد ۶۲؍ ہے، ممکن ہے کہ ایک دو خط نظر انداز بھی ہو گئے ہوں۔[مکاتیب جگر]

          (۷)جگرکے خطوط

          یہ مجموعۂ مکاتیب ڈاکٹر محمد اسلام کا ترتیب دادہ ہے، اس میں کُل ۱۳۸؍خطوط ہیں۔ بقول مرتب ’یہ کتاب جگر کے خطوط کی نامکمل یادگار ہے، مجھے اب تک جتنے خطوط دستیاب ہو سکے ان کو میں نے اس مجموعے میں یک جا کر دیا ہے، اب بھی جگر کے بہت سے خطوط ان کے احباب و مخلصین کے پاس محفوظ ہیں‘۔[جگر کے خطوط]

 

Leave a Reply