You are currently viewing جگر کا ٹکڑا

جگر کا ٹکڑا

شاہ تاج خان (پونہ)

جگر کا ٹکڑا

افسانہ

’’اوں ہوں ںں۔آج کی چائے میں بالکل مزا نہیں آرہا ہے۔‘‘پروفیسر نائٹرو نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا تو اچھے میاں نے چونک کر جواب دیا

’’آںںں۔نہیں پروفیسر صاحب !چائے تو ہمیشہ کی طرح آپ نے بہترین بنائی ہے۔‘‘سوچوں میں غرق اچھے میاں نے سنبھلتے ہوئے جواب دیا

’’نہیں اچھے میاں!چائے کے ساتھ اگر آپ کے چھوٹے بڑے سوالات نہ ہوں تو مجھے چائے میں لطف نہیں آتا۔آپ ٹھیک تو ہیں؟کس سوچ میں غرق ہیں؟کیا آپ مجھے نہیں بتائیں گے؟‘‘پروفیسر نائٹرو نے اچھے میاں کو ٹٹولتے ہوئے کہا

’’پروفیسر نائٹرو! میں یہ نہیں سمجھ پا رہا ہوں کہ میرے ذہن میں ہلچل پیدا کرنے والی بات آپ سے کہوں یا نہ کہوں؟میں جانتا ہوں کہ سائنس کے تعلق سے کہی گئی آپ کی بات غلط نہیں ہو سکتی۔‘‘اچھے میاں نے جھجکتے ہوئے کہا

’’اچھے میاں!سب سے پہلے تو آپ یہ جان لیجئے کہ سائنس میں کوئی بھی بات آخری نہیں ہوتی۔ریسرچ لگاتار جاری رہتی ہے۔تحقیق اور تجربات کے ذریعے ہر روز نئے نئے انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔کل کہی گئی بات آج رد ہو سکتی ہے اور آج کے تجربات کی بنیاد پر اخذ کیے گئے نتائج آنے والے کل میں سوالات کے گھیرے میں آسکتے ہیں۔اِس لیے بے جھجک آپ اپنی بات کہئے۔‘‘پروفیسر نائٹرو کی بات نے اچھے میاں کو حوصلہ دیا۔انہوں نے کہنا شروع کیا

’’آپ نے بتایا تھا کہ ہمارے جسم کا سب سے بڑا عضو ہماری جلد ہے۔‘‘اچھے میاں نے تصدیق کے لیے پروفیسر صاحب کی جانب دیکھا

’’جی ! بالکل درست کہا۔‘‘پروفیسر صاحب کے جواب سے اچھے میاں نے پریشان ہو کر کہا

’’میرے پوتے کے اسکول میں اگلے ہفتہ سائنس کوئز ہے۔جس کی تیاری کے لیے ایک کتابچہ دیا گیا ہے۔میں اُس کا مطالعہ کر

رہا تھا کہ ایک سوال کے جواب نے مجھے چونکا دیا۔اُس میں لکھا تھا کہ ہمارے جسم کا سب سے بڑا عضو جگر(liver)ہے۔‘‘اچھے میاں نے اپنی بات مکمل کرنے کے بعد سوالیہ نظروں سے پروفیسر صاحب کی جانب دیکھا تو پروفیسر صاحب نے کہا

’’یہ بھی درست ہے۔‘‘اچھے میاں نے پریشان ہو کر کہا

’’یہ کیسے ممکن ہے۔ایک سوال کے دو جوابات کیسے ہوسکتے ہیں؟‘‘اچھے میاں کے چہرے پر الجھن نمایاں طور پرنظر آرہی تھی

’’ہوسکتے ہیںاچھے میاں!صرف تھوڑا سا گھما کرسوال کرنے سے جواب بدل جائے گا۔جیسے اگر میں آپ سے پوچھوں کہ جسم کا سب سے بڑا عضو کون سا ہے؟تو آپ کا جواب ’جلد(skin)‘ ہوگا۔لیکن اگر میں پوچھوں کہ ہمارے جسم کے اندرونی اعضاء میں سب سے بڑے عضو کا نام کیا ہے؟تو آپ کا جواب ’جگر(liver)‘ہونا چاہئے۔‘‘اچانک اچھے میاں کی آنکھیں چمکنے لگیں

’’یعنی ہمارے جسم کے اندر سب سے بڑا عضو جگر ہے۔اور کل ملا کر سب سے بڑا عضو جلد ہے۔اِس کا مطلب پہلے نمبر پر جلد اور دوسرے نمبر پر جگر کو رکھنا چاہئے۔ کیا میں نے ٹھیک کہا؟‘‘پروفیسر صاحب نے مسکرا کر جواب دیا

’’جی اچھے میاں!کوئز میں کچھ گھما پھرا کر ہی سوال کئے جاتے ہیں ۔اِسی لیے سوال کو دھیان سے سننا ضروری ہوتاہے۔‘‘اچھے میاں اب اپنے سوالوں کے لیے تیار تھے۔انہوں نے کہا

’’ہم اکثر دل،دماغ،گردے،پھیپھڑے اور جلد کی بات تو کرتے رہتے ہیں۔جیسا آپ نے مجھے ابھی بتایا کہ جگر جسم کے اندر موجود سیکڑوں اعضاء میں سب سے بڑا ہے تو اِس کے بارے میں ہماری معلومات اتنی کم کیوں ہیں؟کیا یہ صرف سائز میں ہی بڑا ہے ؟کیایہ کوئی خاص کام نہیں کرتا؟جسم میں یہ کہاں پر ہوتا ہے؟اِس کا سائز کتنا ہوتاہے؟‘‘پروفیسر نائٹرو نے کہا

’’بتاتا ہوں ۔بتاتا ہوں۔آپ نے تو سوالوں کی بوچھار ہی کر دی۔لیکن یہ آپ نے صحیح کہا کہ ہم اپنے جسم کے اتنے اہم عضو کے تعلق سے بہت کم بات کرتے ہیں۔چلئے آج ہم اسی عضو کے تعلق سے بات کرتے ہیں۔ہمارے جسم میں جگر کا وزن تقریباً1.3-1.59 کلو گرام یا3.1-3.5پاؤنڈ ہوتا ہے۔یوں سمجھ لیجئے کہ یہ ایک فٹ بال کے سائز کا ہوتاہے۔دائیں پسلیوں کے نیچے اور معدے کے اوپر موجود ہوتا ہے۔اِس کا کچھ حصّہ بائیں جانب تک بھی پہنچتا ہے۔یہ پردہ شکم (diaphragm)کے فوراًبعدسرخی مائل بھورے (reddish brown)رنگ کا ہوتا ہے۔آپ کو یہ جان کر اور حیرانی ہوگی کہ یہ جسم میں تقریباً 500کاموں میں مدد کرتاہے۔ اور ہاں!اِس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اگر اِس کے خراب حصّے کو کاٹ کر نکال دیا جائے تو یہ واپس اپنی پہلی حالت میں خود کو لانے کی قابلیت رکھتا ہے۔جگر اپنی تجدیدی صلاحیت کے حوالے سے کافی مشہورہے۔میڈیکل سائنس نے پایا ہے کہ کسی مریض کی جب پیوندکاری کے دوران تین چوتھائی جگر تبدیل کیا گیا تو اُن کا جگر ایک برس میں اپنے پرانے سائز کے برابر خود بڑھ گیا۔‘‘اچھے میاں حیرانی سے پروفیسر صاحب کی باتیں سُن رہے تھے۔پروفیسر صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا

’’ہمارا جگراستحالہ یا تحوّل(کسی حیاتی نظام میں نامیاتی مرکبات کی تخریب و تعمیر کے مجموعی عوامل کو تحوّل کہتے ہیں۔)یا عملِ استقلاب (metabolism)کو برقرار رکھنے میں بہت اہم رول نبھاتا ہے۔اور ہاں!اگر ہمارا جگر اپنا کام کرنا بند کردے تو ہم چوبیس گھنٹے سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے۔‘‘یہ بات سُن کر تو اچھے میاں کی آنکھیں حیرانی سے مزیدپھیل گئیں

’’کیایا یا یا؟‘‘پروفیسر صاحب نے کہا

’’جی اچھے میاں! ہمارا جگر گودام،فیکٹری اور دربان کی طرح دن کے چوبیس گھنٹے بنا رکے کام کرتا رہتاہے۔میں نے جگر کو گودام اِس لیے کہا کہ یہ پروٹین،کاربو ہائیڈریٹ،چربی،وٹامنA,D,E,K,,B12اور نمکیات کے ڈپو کی طرح کام کرتا ہے۔جسم کو جب اِن کی ضرورت ہوتی ہے تب جگر اِس کی سپلائی کرتا ہے۔یہ فیکٹری بھی ہے۔جگر کے دو اہم ترین کام خون صاف کرنا اور ہاضمے میں مدد دینا ہیں۔جگر کے خلیات چکنائی کو توڑ پھوڑ کر توانائی میں تبدیل کرتا ہے۔جب معدے سے غذا جگر تک پہنچتی ہے تو جگر اُسے چھانتا ہے۔اِس کے علاوہ جگر کے ذمہ حیاتین(vitamins)کو محفوظ کرنا،خامرات ((enzymes کو قابو میں رکھنا،خون کو بہنے اور منجمد کرنے والے اجزاء کو کنٹرول میں رکھنا،دواؤں کے زہریلے اثرات کو دور کرنے کی ذمہ داری بھی جگر ہی سنبھالتا ہے۔خون کو پتلا کرتا ہے،اور جسم میں جو حرارت پائی جاتی ہے وہ بھی جگر کی ہی مرہونِ منت ہے۔‘‘پروفیسر نائٹرو تھوڑا رکے تو اچھے میاں نے کہا

’’میں تو جگر کو صرف الکوحل کا استعمال کرنے والوں کے تعلق سے ہی جانتا تھا۔کہ شراب پینے کی وجہ سے لیور خراب ہو جاتا ہے۔مجھے معلوم

 ہی نہیں تھاکہ یہ جسم میں اتنے اہم کاموں میں مدد کرتا ہے۔لیکن میری سمجھ میں ایک بات نہیں آئی کہ جب معدے میں غذا ہضم ہوتی ہے تو نظامِ انہضام میں جگر کیسے مدد کرتا ہے؟مانا کے دونوں آس پاس ہیں مگر ۔۔!‘‘اچھے میاں نے اپنا سر کھجاتے ہوئے کہا

’’میں آپ کی الجھن سمجھ رہا ہوں۔ہوںںں! میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ہمارا جگر ایک خاص جوس تیار کرتا ہے جسے صفرا(bile)کہتے ہیں۔یہ جوس کھانا ہضم کرنے میں کام آتا ہے۔یہ صفرا پتّہ (gallblader)  میں جمع ہوتا ہے۔بوقتِ ضرورت پتّہ کی نالی(bile duct)کے ذریعے آنتوں میں پہنچتا ہے اور غذا کو مزید تحلیل ہونے میں مدد کرتا ہے۔خاص طور پرچربی یا شحم (fats)کو پگھلانے میں کافی سہولت فراہم کرتا ہے۔اب سمجھے ؟‘‘اچھے میاں نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا

’’اگر کچھ باتیں مختصر طور پر بتاؤ تو میں لکھ لوں گا۔تاکہ اپنے پوتے کو بتا سکوں۔‘‘پروفیسر نائٹرو نے ایک لمحہ کے لیے کچھ سوچا اور پھر کہنا شروع کیا

’’۔بائل کی پیداوار، جو کہ غذا ہضم کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔

۔اضافی گلوکوز کو گلائیکوجن(glycogyn)میں تبدیل کرکے محفوظ کرنا۔

۔مختلف خطرناک مادوں کا خون سے اخراج۔

۔خون کو فلٹر ((filterکرتا ہے۔اسے عملِ تقطیرکہتے ہیں۔‘‘ابھی پروفیسر نائٹرو کچھ اور بھی بتانا چاہتے تھے کہ اچھے میاں نے مشکل اصطلاح سے گھبرا کردرمیان میں کہا

’’پروفیسر صاحب !اتنی معلومات میرے لیے کافی ہیں۔جو باتیں مجھے سمجھ آگئی ہیں  میں اُن سے ہی کام چلا لیتا ہوں۔‘‘تبھی اچھے میاں کے ذہن میں ایک سوال کوندھا

’’ارے ہاں یہ تو بتائیے کہ اگر جگر کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو کس ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے؟کیونکہ آپ ہی کہتے ہیں کہ ایکسپرٹ کو دکھانا بہتر ہوتا ہے۔‘‘اچھے میاں نے مسکرا کر کہا

’’جگر کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر کوHepatologistکہتے ہیں۔اُسی کے پاس جانا چاہئے ۔‘‘پروفیسر نائٹرو کے جواب کے ساتھ ہی اچھے میاں کا اگلا سوال تیار تھا ۔ انہوں نے پوچھا

’’ہمارا جگر ٹھیک سے کام کرتا رہے اُس کے لیے ہمیں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے؟‘‘پروفیسر نائٹرو نے کہا

’’یہ اچھا سوال کیا ہے۔حالانکہ جگر کا خیال رکھنے کے لیے کوئی خاص محنت کی ضرورت نہیں ہے۔بس ورزش کیجئے،صحت مند غذا (healthy food)، اور الکوحل سے دور رہنا چاہئے۔ساتھ ہی خوب پانی پیجئے تاکہ آپ کا جگر اپنی ذمّہ داریوں کو بہتر طریقے سے نبھا سکے۔ارے آپ پھر کہیں کھو گئے؟کیا سوچ رہے ہیں؟‘‘اچھے میاں کو کسی سوچ میں غرق دیکھ کر پروفیسر نائٹرو نے پوچھا

’’جگر کی اِن معلومات کے بعد ،آج سمجھ آیا کہ میری والدہ کیوں مجھے اپنے ’جگر کا ٹکڑا ‘کہا کرتی تھیں۔‘‘پروفیسر نائٹرو نے کہا

’’جی اچھے میاں!ہر لفظ کی ساخت میں معنی کا ایک خزانہ پوشیدہ ہوتا ہے۔اِس خزانے کو تلاش کرنے کے لیے لگاتار مطالعہ کرنا ضروری ہے۔جیسے آپ کرتے ہیں۔‘‘اچھے میاں نے فوراً کہا

’’میں مطالعہ نہیں بلکہ مکالمہ کرتا ہوں ۔وہ بھی صرف آپ سے پروفیسر صاحب!‘‘اور پھر دونوں مسکرا دئیے

***

Leave a Reply