You are currently viewing خواہشِ وصالِ چاند

خواہشِ وصالِ چاند

مبین لطیف،ایم فل اسکالر

 

خواہشِ وصالِ چاند

 

اے چاند۔۔۔دل کا قافلہ تیری اوڑھ چل پڑا

دن کی روشنی سے ڈرتا ہے

تو جو خیال رکھتا ہے

دیکھ تیری دہلیز پہ پہنچے تو سلام کرنا،احترام کرنا

کہ اک عرصے سے تیرے وصال کی قسم کھائی ہے

یہاں خواہشوں کا اک جنگل آباد ہے

یعنی تاریکی کے خوف کا رقیب روشنی کا متلاشی نکلا

اے چاند۔۔۔کہیں تجھ تک پہنچتے پہنچتے کھو نہ جائیں

میری جو صرف میری ہیں

بے بسی،مایوسی،ناامیدی،خوفِ زوال

کہ اب یہ میری نگری کے باسی ہیں

لیکن کیوں؟

میں چھوڑ دوں گا انہیں راستے کے کسی موڑ پر

مجھے تیری جانب بس تیرا خواب و خیال لانا ہے

مجھے ہجر کو زیر کرنا ہے

وقتِِ وصال کے لمحے کو لمس کی زنجیروں میں قید کرنا ہے

پھر ہر روز اسی لمحے میں جینا ہے

اے چاند۔۔۔مجھ سے آنکھیں دوچار کرنا

ذرا سی مہلت دے کر پھر تماشا سرِ عام کرنا

کہ یہی میں چاہتا ہوں

قافلہ منزل سے جب لوٹ آئے

تیری روشنی چراغ کی لو میں ڈھل جائے

اندھیرے کے خوف پہ تو غالب آجائے

کہ دن کی مستی میں تیرے چرچے ہوں

اے چاند۔۔۔تیری چاندنی کی چمک کا نظارہ کمال ہو گا

ہم تیرے روبرو اور تو ہمارے ہم نشیں ہو گا

سب ڈھونڈھتے رہیں گے ہمیں اے کششِ مہتاب۔۔۔

اور ہم کہ اسی اک لمحے میں گم ہو کر تیرا ہاتھ تھامے

اپنی دنیا محض اپنی دنیا ساتھ لے کر

اس زمیں سے تیری زمیں تک

تجھے ہم سفر بنا کر،تجھ سے محوِ گفتگو ہو کر

پھر سے تیری جانب چل پڑیں گے

پھر سے تیری جانب چل پڑیں گے

***

Leave a Reply