محمودہ قریشی
ریسرچ اسکالر ، دہلی یونیورسٹی
خود مختاری
افسانہ
شادی شادی شادی،کیا ہوتی ہے یہ شادی۔؟بس آپ کو اس کے علاوہ بھی کچھ دکھائی دیتا ہے،کتنی بار منع کیا ہے آپ اس موضوع کو زیر بحث نہ لایا کریں ۔گھن آتی ہے مجھے اس لفظ سے۔
پاگل ہوتی ہیں وہ لڑکیاں جو شادی کرکے اپنی زندگی کو جہنم بنا لیتی ہیں۔ ان کی تمام صلاحتیں محدود ہو جاتی ہیں۔اور ان کے مقدر میں صرف غلامی رہ جاتی ہے۔میں خود مختار ہوں خود سے اپنا اور اپنے سے وابستہ افراد کا بھی پیٹ پال سکتی ہوں۔پھر مجھے کیا ضرورت ہے شادی کی۔؟ شادی تو ان لڑکیوں کے لئے ضروری ہے جو خود اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتیں اس لئے مرد کا آثرا چاہتی ہیں۔دراصل اصل فائدہ تو مرد کو ہوتا ہے۔عورت کے لئے تو شادی کا مطلب چوبیس گھنٹے کی ملازمہ اور بچے پیدا کرنے کی مشین ہے۔شادی کے بعد وہ مرد کے لئے صرف جسم رہ جاتی ہے۔اس پر یہ وہ نو ماہ تک مرد کے بوجھ کو اٹھائے پھرتی ہے۔جس میں اس کی خود مختاری کہاں گم ہو جاتی ہے۔کچھ معلوم نہیں۔اتنا ہی نہیں یہ عمل مرد اس کو بار بار دہرانے پر مجبور کر دیتا ہے۔‘‘
زینت ایک خوبصورت ،ذہین اور بے باک لڑکی ہونے کے ساتھ نڈر اور سفاک بھی ہے۔یہ صفت اس کی شخصیت کا منفرد پہلو اْجا گر کرتا ہے۔کسی کی پروا کئے بغیر دلائل کے ساتھ اپنی بات پیش کرنا اسے خوب آتا ہے۔اپنی اسی منفرد شخصیت کے سبب وہ ہمیشہ گھر اور باہر موضوع بحث رہتی ہے۔پہلی ملاقات میں کوئی بھی اس کا قصیدہ خواہ بن جائے لیکن جب اس کے خیالات سے دو چار ہو تو اصل حقیقت واضح ہو جائے۔زینت اپنی خود مختاری کے سبب مغرور بھی سمجھی جاتی ہے۔لیکن زینت مغرور بالکل نہیں ،صرف چڑتی ہے تھی تو شادی اور جنسی رشتوں سے جب بھی کوئی دوست رشتہ دار یا اس کی امی اس موضوع پر بات کرتیں یا اسے شادی کرنے کے لئے سمجھاتے تو وہ چڑ جاتی ہے۔اور اس طرح کے الفاظ اس کی زبان سے نکلتے ہیں۔امی کو تو وہ کبھی نرمی کبھی سختی سے سمجھا دیتی ہے۔لیکن کسی اورکو صفائی دینا وہ ضروری بھی نہیں سمجھتی تھی۔
زینت متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جہاں شادی نہ کرنا عیب سمجھا جاتا۔اس لئے یہ فکر زینت کی امی کو ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کو تھی زینت کی امی کبھی اسے غصے سے تو کبھی پیار سے سمجھاتے ہوئے کہتی۔
’’بیٹا ، شادی تو قدرت کا نظام ہے ۔اور نبی کی سنت اور خود عورت کا وجود شادی سے ہی مکمل ہوتا ہے۔تم میرا کتنا خیال رکھتی ہو دنیا سے میرے لئے لڑ جاتی ہو۔تو کیا تمہیں حق نہیں کہ تمہیں بھی یہ سکھ ملے۔؟
امی نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے زینت کی تلخی کو سمجھا اور سر پر ہاتھ پھیرا اور محبت بہرا لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا ،میں جانتی ہو ں میری بیٹی بہت سمجھ دار ہے۔وہ پوری طرح سے خود مختار بھی ہے۔ اچھا کماتی ہے۔پوری طرح سے اپنے پیروں پر کھڑی ہے۔لکین میری بچی تجھے پوری زندگی گزارنے کے لئے ایک مرد کے سہارے کی ضرورت تو پڑے گی ہی ؟‘‘
ایک دم سے امی نے فکر مند لہجہ اختیار کر لیا اور کہا۔
’’میری طرف بھی تو دیکھ بیٹا اس بڑھاپے میں تیرا کب تک خیال رکھ سکتی ہوں؟
مجھے تیری بہت فکر رہتی ہے میرے بعد تیرا کون خیال رکھے گا۔اور میں قبر میں کیا یہ ہی فکر لے کر جاؤنگی۔؟میری بیٹی کس کے سہارے رہے گی؟‘‘
زینت نے امی کی ہمت کو ٹوٹتا ہوا دیکھ کر اپنے غصے پر قابو کرتے ہوئے کہا۔
’’امی آپ مجھے چھوڑ کر کبھی نہیں جانے والی، بس آپ یہ خواہ مخواہ کی فکریں کرنا چھوڑ دیجئے۔
مرد صرف عورت کو سہارا دینے کے لئے ہی شادی نہیں کرتا بلکہ وہ…خیر ….
’’اور میں آپ سے پوچھتی ہوں امی ،کیا کوئی مرد اپنی جنسی خواہشات کو چھوڑ کر صرف مجھے سہارا دینے کے لئے مجھ سے شادی کرسکتا ہے ؟ صرف وہ میری روح سے محبت کر سکتا ہے؟ ‘‘
امی زینت کی باتیں سن کر خاموش ہو گئیں ۔اس کے اس اٹل فیصلے سے امی پوری طرح سے ٹوٹ چکیں تھی اور ایسی بکھری کہ پھر کبھی بستر سے نہ اٹھی۔زینت نے ان کی خدمت میں کوئی کمی نہیں رکھی۔اور ان کو بچانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی۔لیکن اپنے فیصلے پر عمل پیرا رہی ماں کی بیماری بھی اسے اپنی رائے بدلنے پر مجبور نہیںسکی ۔اور امی زینت کی شادی کا ارمان لے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔یو بھائیوں اور بھابھیوں کے ساتھ زینت کا رہنا دشوار ہو گیا تو وہ گھر چھوڑ کر اپنے فلیٹ میں چلی گئی۔تاکہ ہمیشہ سکون سے جی سکے- جہاں وہ ہمیشہ خود کو بے چین محسوس کرتی رہی۔دوست احباب صرف کام تک محدود رہتے۔وہ ترقی کرتے کرتے منیجر کی پوسٹ پر فائز ہو گئی لکین قلبی سکون کو ہمیشہ ترستی رہی۔یہ غصہ وہ اپنی کام والی بائی پر نکال لیتی۔ایک روز زینت کا خلوص بھرا رویہ دیکھ کر کام والی مرئیم نے زینت سے کہا۔
’’بی بی آپ میرے پر وجہ بلا وجہ غصہ ہوتی ہو۔اور ہر ایک چھوٹے سے چھوٹا کام کرانے کے لئے مجھ پر ہی تمہاری آنکھیں ٹکی رہتی ہیں۔ میں آپ کا ہر ایک کام کرتی ہے ۔
میں یہ نہیں کہتی کہ آپ اس کا مجھے پیسہ نہیں دیتی بلکہ میں آپ سے صرف اتنا کہنا چاہتی ہے کہ۔
آپ پڑھی لکھی ہو ،اپنے پیروں پر کھڑی ہو۔
لیکن بی بی جی کچھ کمی زندگی میں صرف مرد ہی پوری کر سکتا ہے۔بی بی جی آپ برا نہ مانے تو آپ شادی کر لیجئے۔‘‘
مرئیم کے منھہ سے وہی الفاظ سن کر زینت کو پھر سے غصہ آ گیا لیکن زینت نے اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا تیرا مرد شراب پی کر گھر میں پڑا رہتا ہے۔اور تجھے کام پر بھیجتا ہے۔اور پھر بچوں کی زمیداری بھی تو ہی اٹھاتی ہے- اسکول کی فیس ،اور کھانے پینے اور کپڑے سے لے کر اسی لئے تو ایسا بول رہی ہے۔کیا یہ ہی کمی پوری کرتا ہے مرد؟‘‘
زینت کی باتیں سن کر مریم سہم گئی ۔
اچھا بی بی جی میں چلتی ہوں کہہ کر مرئم سیدھی اٹھ کر چلی گئی۔اور باہر جا کر فھفک فھفک کر رونے لگی۔زینت کے اس طرح روز روز کے رویے سے مریم بھی کام چھوڑ کر چلی گئی۔اور دوسری کوئی بھی بائی آتی وہ بھی زیادہ وقت نہیں ٹک پاتی۔اب زینت کو گھر کے چھوٹے موٹے کام بھی اکثر خود ہی کرنے پڑتے۔آفس میں پوسٹ بڑھنے کے ساتھ زمیداری بھی بڑھ گئی تھی۔اور پھر گھر کے کام کے لئے کوئی ٹک نہیں پا رہا تھا۔اکیلے گھر اور آفس کی زمیداری اٹھاتے ہوئے۔ وہ پوری طرح سے تھک چکی تھی لکین اس نے ابھی ہار نہیں مانی تھی ۔
ایک رات زینت کے پیٹ میں اس زور کا درد اٹھا کہ جس کو برداشت کر پانا زینت کے لئے مشکل ہو گیا تھا۔زینت نے ڈاکٹر کو فون ملایا لیکن اس کا فون بند جا رہا۔
“number currently switch of please try again late”
زینت نے دوسرے ہی لمحہ اپنی خاص دوست فرح کو فون ملایا اس نے اتنی رات کو زینت کا فون دیکھ کر جلد فون ریسو کیا۔
’’ہیلو زینت اتنی رات کو فون کیسے؟ کیا ہوا سب خیریت تو ہے؟‘‘فرح نے ایک ہی سانس میں کہا۔
’’ خیریت ہی تو نہیں ہے فرح۔‘‘زینت نے درر بھری آواز میں جواب دیا۔
’’کیوں کیا ہوا تجھے؟‘‘ فراح نے پھر سوال کیا۔
بات دراصل یہ ہے کہ میرے پیٹ میں کچھ دن سے ہلکا ہلکا سا درد ہو رہا تھا۔میں نے کام کے سلسلے میں کچھ توجہ نہیں کی اب اچانک درد اتنا بڑھ گیا ہے کہ جس کو میرے لئے برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہے۔میں نے ڈاکٹر کو فون کیا لکین ان کا فون بند جا رہا ہے تم پلیز کچھ کروں ۔ مجھ سے درد بالکل بھی برادشت نہیں ہو رہا ہے۔زینت نے التجا کر تے ہوئے کہا۔
زینت دیکھوں میں سمجھ سکتی ہو لیکن مجھے اتنی رات کو تمہارے گھر چھوڑنے جانے کے لئے یہ کبھی راضی نہیں ہونگے تمہارے فلیٹ کے قریب ہی ایک دوائی کی دکان ہے۔ تم وہاں جا کر کوئی ٹیبلیٹ لے لو میں صبح تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر چلونگی ابھی میں فون رکھتی ہوں یہ ناراض ہو رہے ہیں۔اچھا اپنا خیال رکھنا۔فرح کی باتیں سن کر زینت کو غصہ تو آیا لیکن یہ اس کی بھی مجبوری تھی۔
دوسرے ہی لمحہ زینت نے دوائی والے کو فون ملا دیا۔کسی نوجوان نے فون رسیو کرتے ہوئے کہا
’’ہیلو کون ؟‘‘
زینت نے اپنا تعارف پیش کراتے ہوئے کہا۔
’’ہیلو میں زینت بول رہی ہوں۔آپ کے میڈیسن سٹور سے کچھ دوری پر میرا فلیٹ ہے۔مجھے اچانک پیٹ میں درد اٹھا ہے کیا کوئی میڈیسن مل سکتی؟ اور اگر بھیا میڈیسن میرے گھر تک پہنچا دیں تو آپ کی مہربانی ہوگی۔میری حالت ایسی نہیں کہ میڈیسن لینے بھی آ سکوں۔
دیکھئے میڈم۔اتنی رات میں ہمارے یہاں ہوم ڈیلوری نہیں دی جاتی ہے۔جیسا کہ آپ کہہ رہی ہیں آپ کا گھر کچھ ہی دوری پر ہے۔تو پڑوسی ہونے کے ناطے میں دکان کھول کر صرف آپ کو میڈیسن دے سکتا ہوں۔
آپ کسی کو بھیج کر منگوا لیجئے ؟زینت نے ضبط کرتے کہا۔
’’بھیا کوئی نہیں ہے ہمارا آپ پلیز دیکھ لیجئے۔‘‘
’’میڈم سوری‘‘کہہ کر اس نے فون کاٹ دیا۔
زینت پوری رات کروٹیں بدلتی رہی اسے کھڑے رہ کر نہ بیٹھے چین تھا۔
آٹھ بجتے ہی فرح دروازے پر نمودار تھی۔اور زینت کے پیٹ میں درد کی وجہ سن کر اسے ایک (Gynecologist) ماہرِ اَمراضِ نِسواں، کے پاس لے کر گئی۔ڈاکٹر نے فوراً سارے چیک اپ کرانے کا مشورہ دیا اور زینت کو ہدایت کرتے ہوئے کہا یہ پریشانی جب تمہیں اتنے وقت سے ہے تو کیا ضرورت تھی تمہیں تکلیف کو بڑھانے کی اور تم تو خود پڑھی لکھی ہو۔اچھے سے جانتی ہو تکلیف کو بڑھانا نہیں چاہئے بلکہ اس کا علاج تلاش کرنا چاہئے۔
فراح نے ڈاکٹر سے پوچھا۔
ڈاکٹر صاحب ، پریشانی والی کوئی بات تو نہیں؟ زینت کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی پھر اس کے ساتھ ایسا کیوں۔
ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
یہ دوائی میں لکھ رہی ہوں اسے بلا نغہ لیتی رہیں۔اکثر لیڈیس کے ساتھ بھاری وزن اٹھانے کی وجہ سے یہ پروبلم ہو جاتیں ہیں ۔اس لئے گھبرانے والی کوئی بات نہیں ۔ہاں آئندہ اس بات کا خیال رکھئے گا کہ کبھی بھی بھاری وزن نہیں اٹھانا ہے۔‘‘
زینت نے ڈاکٹر کے مطابق ساری باتوں پر عمل کیا اور دو روز میں ہی بہتر محسوس کرنے لگی۔اور جلد فراح کے ساتھ شاپنگ کا منصوبہ بھی بنا لیا تاکہ ذہنی طور بھی سکون محسوس کر سکے۔
تیار ہونے کے بعدگھر سے نکلتے وقت فراح کو فون ملایا اور کہا۔
’’ہیلو فراح، تم نکل گئے گھر سے تمہیں اور کتنا وقت لگے گا ؟ ‘‘
’’نہیں یار یہ، مجھے اپنے کسی دوست کے گھر لے کر جا رہے ہیں۔میں تمہارے ساتھ نہیں چل سکتی۔ سوری یار میں نہیں جا سکتی ۔‘‘فراح نے نادم ہوتے ہوئے جواب دیا۔
’’ایک کام کرو تم اکیلے ہی کیوں نہیں ہو آتیں ؟‘‘زینت نے اوکے کہتے ہوئے فون رکھ دیا۔
اور خود اکیلے ہی شاپنگ کے لئے مول کا رخ کیا وہاں پہنچ کر زینت نے اپنی ضروریات کی سبھی چیزیں خریدی اور بار بار پریشان نہ ہوناپڑے یہ سوچ کر راشن کا سامان بھی اپنی ٹرالی میں ڈال لیا۔اور کاؤنٹر پر جا کر پے منٹ کرنے کے بعد جب سامان کا جائزہ لیا تو اتنا سارا سامان دیکھ کریہ فکر پیدا ہوئی ڈھیرسارا سامان گھر تک کون لے کر جائے گا ؟
سامنے کاؤنٹر پر جا کر سب سے پہلے اپنا ایڈریس کارڈ دیکھاتے ہوئے زینت نے درخواست کی۔
’’ہیلو میم یہ سامان اس ایڈریس پر پہنچانا ہے۔‘‘
کاؤنٹر پر ہلکی سی پنک ٹی۔شرٹ اور کالی پینٹ میں نہایت ہی حسین ،جمیل لڑکی بیٹھی ہوئی تھی اس نے مخاطب ہو کر مسکراتے ہوئے کہا۔
’’سوری میم ہمارا مول ابھی شروع ہوا ہے سٹاف زیادہ نہیں ہے اور آج بہت سے لوگ چھٹی پر ہیں۔
ہم آپ کی مدد نہیں کر سکتے۔‘‘
’’ارے آپ کو ہوم ڈلوری کی سیوا تو رکھنی چاہئے۔‘‘زینت نے ہدایتی طور پر کہا۔اب اس کی فکر دوبالا ہو گئی اس لئے وہ کبھی خود کو دیکھ رہی تھی اور کبھی سامان کا جائزہ لے رہی تھی کہ وہ کس طرح اس سامان کو گھر تک لے کر جائے گی۔؟ اس وقت اس کے سامنے یہ بہت بڑا مسئلہ تھا۔ چونکہ ڈاکٹر نے بھاری وزن اٹھانے کے لئے سختی سے منع کر رکھا تھا۔ اور اگر وہ پھر سے بیمار ہو گئی تو کون اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جائے گا۔یہ فکر اس پر الگ سے طاری تھی۔
اس پرسنلٹی کو دیکھ کر کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا کہ اس کو بھی کچھ پریشانی ہو سکتی ہے۔ اس لئے کسی سے مدد کی اْمید رکھنا بھی بے کار تھا۔ اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اتنی چھوٹی سی بات بھی اتنا بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔وہ سامان چھوڑ کر باہر گئی اور اپنی ایکٹیوا سٹارٹ کی لیکن معلوم نہیں اکٹیوا کیوں سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی جب دیکھا تو پٹرول ختم ہو چکا تھا ، آس پاس کوئی پٹرول پمپ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔
اووں سٹ، کہہ کر زینت نے اکٹیوا وہی کھڑی کر اندر جا کر ایک ایک تھیلا سامان باہر نکال کر رکھنے لگی۔لیکن ن دور دور تک کوئی رکشہ ،آٹو بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔وہ بہت دیر کھڑی رہنے کے بعد کچھ آگے بڑھ کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ دور تک کا دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔جون کی گرمی ،او ر دھوپ کی شدت کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جون کی گرمی میں دھوپ کے قہر سے بچنے کے لئے سب دور کہی جا کر چھپ گئے ہیں۔لیکن ن زینت بھی کہاں ہار ماننے والی تھی آخیر کار دور سے میلی سی صافی سر پر ڈالے ایک ضعیف رکشے والا دکھائی دیا قریب آتے ہی زینت نے اس سے بات کی مول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’بابا وہاں سے سامان اٹھا کر گھر چھوڑنا ہے۔‘‘
ٹھیک ہے بیٹا لیکن مجھ بوڑھے سے زیادہ سامان نہیں کھینچ سکے گا۔
ارے نہیں بابا میں بھی تو مدد کرونگی۔‘‘
جیسے تیسے کرکے زینت اور رکشے والے نے سارا سامان رکشے میں لاد دیا اور خود بھی رکشے میں دھکا لگانے لگی کبھی خود بھی رکشے پر سوار ہو جاتی لیکن ضعیف بزرگ رکشے والے کا خیال آتا تو نیچے اتر کر سامان میں دھکہ دینے لگتی – اور یو گھر آ گیا وہ بزرگ رکشے والا اس کو گھر کے دروازے تک چھوڑ گیا۔لیکن اب زینت کے سامنے یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ چار منزل پر اتنے سارے سامان کو اوپر کون چڑھائے۔اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی کوئی شخص مل جائے جس کی مدد سے سامان کو اوپر تک لے جانے میں کچھ مدد مل سکے لیکن یہاں آج تک زینت نے کسی سے بات نہیں کی تھی اور نہ ہی کبھی کسی کی خیریت معلوم کرنے کی کوشش کی ہمیشہ اپنے میں گم رہنے والی کو آج ہمسائیوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔؟ویسے بھی جون کی تپتی دوپہر میں اپنا آرام چھوڑکر کوئی کیوں اس انجان لڑکی کی مدد کرنے کے لئے آگے آئے گا۔ آفس سے کسی سروینٹ کو بلانے کے لئے دل گوارہ نہیں کیا۔ پتہ نہیں کوئی کیا سوچے گا کہ اپنے ذاتی کام بھی کرائے جا رہے ہیں -اپنے آپ کو کمزور پڑتا دیکھ خود کو سنبھالتے ہوئے زینت خود سے ہے گھسیٹ گھسیٹ کر سامان چار منزل تک لے گئی بار بار زینہ چڑھنے اور اترنے سے وہ بری طرح ہانپ رہی تھی۔با مشکل وہ سارا سامان دروازے تک لے آئی اور۔اس کے پیٹ میں درد شروع ہو چکا تھا۔وہ پانی پانی کرتے ہوئے وہ وہی صوفے کے پاس ڈھیر ہو گئی۔لیکن گھر میں کوئی نہ ہونے کے سبب کسی نے بھی اس کی نہیں سنی .
جب اسے ہوش آیا تو وہ ہاسپٹل کے بیڈ پر تھی
’’یہ میں کہا آ آگئی؟‘‘
کہہ کر اس نے خود سے اٹھنے کی کوشش کی تو اسے محسوس ہوا کہ اس کا نیچے کا حصہ تو ساتھ نہیں دے رہا۔
نرس نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ارے ارے یہ آپ کیا کر رہیں ہیں ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو آپ کا آپریشن ہوا ہے۔اس طرح سے ابھی نہیں اٹھہ سکتی ہے آپ ۔‘‘
آپریشن ،آپریشن میرا آپریشن اور کس چیز کا آپریشن ،مجھے یہاں کون لے کر آیا۔؟ اور کس نے کیا میرا آپریشن ؟ پلیز مجھے کچھ بتاؤ۔میم
وہ دراصل آپ کو ایک رکشے والے نے ایڈ میٹ کرایا ہے۔
رکشے والے، رکشے والے کو میں کہاں ملی ؟زینت نے پھر سوال پیش کیا۔
آپ کے فیملی کے لوگوں کو بھی فون کرکے بلا لیا گیا تھا۔وہ سب باہر موجود ہیں۔ان کے دستخط بھی لے گئے تھے۔‘‘
’’نرس نے ہدایت کرتے ہوئے کہا آئندہ سے خیال رکھئے گا بھاری وزن اٹھانے سے گریز کیا کریں۔‘‘ اچھا یہ انجیکشن لیجئے پھر میں چلتی ہوں۔آپ پریشان نہ ہوئے میں آپ کے کسی فیملی میمبر کو بھجتی ہوں اب آپ آرام کیجئے۔”
زینت زینت یہ سب کیا اور کیسے ہو گیا مجھے تو فون کرنا چاہئے تھا فراح روتی ہوئی ان الفاظ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔
لیکن زینت کچھ بھی حرکت نہیں کرتی ہے۔ وہ ایک دم سے خاموشی اختیار کر گئی۔فراح زینت کا چہرہ دیکھ کر سمجھ گئی زینت کو گہرا صدمہ ہوا ہے۔اوپر سے یہ تکلیف۔
فراح نے اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کیا۔
’’زینت تم زیادہ فکر نہیں کرنا۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ارے یہ پریشانی تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے۔ ہاں تم خود مختار ہوں لیکن ہو تو ایک عورت ہی مرد تو نہیں۔؟
زینت نے کراہئی ہوئی آواز میں ہوں ،۔۔۔کرتے ہوئے آہستہ سے ’امی…‘کہا۔اور اپنے آنسؤ کو جزب کرتے ہوئے فراح سے مخاطب ہوئی ۔
’’فراح میں ایک بات کہوں ؟ ‘‘
وہ دراصل …میں۔
،پھر زینت نے ہمت کرکے ایک ہی سانس میں کہا۔
کیا مری شادی ہو سکتی ہے۔؟
’’کیا فراح تم میری شادی کرا سکتی ہو ؟‘‘زینت نے سوالیہ نظروں سے فراح کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’امی صحیح کہتی تھی عورت کتنا ہی خود مختار کیوں ہو جائے اسے مرد کے سہارے کی ضرورت پڑھتی ہی ہے۔میں یہ بات آج اچھے سے سمجھ گئی ہوں کہ مرد کے بغیر زندنگی بہت مشکل ہے۔‘‘
فراح نے روتے ہوئے کہا۔
’’بہت دیر سے سمجھ میں آیا زینت تیرے۔ہاں تو اب مکمل عورت بن سکتی ہے۔لیکن خود مختار ما…نہیں۔‘‘
ختم شْد
غیر مطبوعہ
Mehmooda Qureshi
Research Scholar, Department of Urdu
Dehli University, Dehli