You are currently viewing خود گر کی واپسی

خود گر کی واپسی

سلیم ناز

خود گر کی واپسی

       بارش کے دنوں میں یونیورسٹی کے کیفے میں معمول سے کچھ زیادہ بھیڑ دیکھنے کو ملتی لیکن قسمت کا کھیل بارش کے متضاد چل رہا ہوتاجب ہم کلاس ختم کرکے کیفے جاتے تو کیفے کی کرسیاں  غیر معروف سینما   ہال کا نظارا پیش کرتیں۔کرسیاں بےترتیب اور ان کے سامنے پڑ ی ہوئی میزیں ڈسپوزیبل کپ،خالی جوس کے ڈبوں ،چائے،چٹنی اور کیچ اپ کے چھینٹوں سے مسخر نظر آتیں۔ہمارے دلوں سے اٹھنے والی حسرت کی لہریں  رشک کی آہوں سے ہوتی ہوئی حسد کی بددعاؤں تک جا پہنچتیں۔ہم آپس میں ایک دوسرے کو  واہی بکتےاور تاخیر کا موجب ٹھہراتے۔جب گپ شپ کا بھی کوئی موضوع نہ ملتا  تو چائے کی چسکی لگاکر واپسی کا راستہ لیتے۔حیرانی کو طول دینے والی یہ بات تھی کہ جب یونیورسٹی کا کیفے بےرونق ہوچکا ہے،سورج کو چھپے ہوئے دیر ہوچکی ہے،تاریکی سے نجات کے لیےمصنوعی روشنیاں روشن ہوچکی ہیں  اور عملہ واپسی کا راستہ لے رہا ہےمگرمہاوجیتا ہمیں الوداع بول کرخود روشنیوں میں کیوں گم ہورہا ہے۔میں انہی سوالوں کوخود پرسوارکیے وہیکل سٹینڈ سے اپنی موٹر سائیکل لےکر راہی ءمسکن ہوا۔

       سمیسٹر کا اختتام ہونے جارہا تھا اور امتحان کے دن قریب آرہے تھے مگر مہاوجیتااپنی روزینہ عادات پر بدستور قائم تھا۔ہم نے امتحان کے خوف اور اچھے نمبروں کے طمع میں آکر کیفے جانا بھی ترک کردیا تھا اگر کبھی اتفاقاً کچھ وقت مل جاتا تو سیدھے لائبریری جاتے اور متعلقہ کتابوں کی ورق گردانی  کرتے اور ہم سب اس بات پرنازاں تھے کہ مہاوجیتا تو تیاری ہی نہیں کر رہا اور ہم سب خوب محنت کر رہے ہیں اس لیے اغلب امکان ہے کہ اس کا ایک آدھ مضمون رہ جائے اورپھر ہم اگلے سمیسٹر میں اس کی درگت بنائیں گے۔میرے ہاتھ میں  کتاب تھی ‘‘قسمت کا قاضی اور متقاضی ’’جس کے صفحہ ۱۰۷کی یہ تحریر میرے سامنے آئی ‘‘انسان جتنا بھی تیز بھاگ لے وقت کی رفتار کے ساتھ نہیں چل سکتا اس لیے کچھ لوگ،پہلے موڑ پر،کچھ لوگ دوسرے موڑ پر  پیچھے رہ جاتے ہیں مگر ان لوگوں پرقدرے زیادہ افسوس ہوتا ہے جو عمر بھر گھسٹتے رہتے ہیں پھر بھی  نہ وقت کی رفتار کو پکڑ پاتے ہیں اور نہ ہی اپنی کوئی رفتار بنا پاتے ہیں’’۔اس اقتباس کو پڑھتے ہی مہاوجیتا میرے ذہن میں آیا اور میں نے سوچا پیپرز کے بعد اسے یہ تحریر دکھاؤں گا اور اس تحریر کا ہر لفظ نشتر بن کر اس پر برسے گا۔کتاب سے جونہی میں نے نظر اٹھائی تو کرسیوں کی ایک قطار چھوڑ کر دوسری قطار کی پہلی کرسی پروہ نیم دراز حالت میں بیٹھاایک لڑکی کو تاک رہا تھا اور لڑکی خاموشی سے نظریں جھکائے ارد گرد سے بےخبر اپنے کام میں مگن تھی۔مجھے لگا مہاوجیتااس پر محبت کی پرچھائیاں نہیں بلکہ تحفظ کی چادریں تان کربیٹھاہوا ہے جس کے سائےمیں لڑکی محفوظ اور پرسکون ہوکر اپنا کام کر رہی ہے۔اس غیر محسوس عاشقی کو دیکھ کر میں بہت محظوظ ہوا۔اس جمع نفی سے معذور عاشقی سے بہتر ہے کہ بندہ کچھ پڑھ لے تاکہ آنے کا مقصد تو پورا ہو۔میں نے جونہی کتاب کاصفحہ پلٹا تو یہ اقتباس نظروں میں آبسا‘‘جمع نفی صرف لفظ نہیں بلکہ حرص وہوس کے محل کی کنجیاں ہیں،اس محل کا ہرکمرا،نفرت،کدورت،بغض،فسق وفجور،لیت ولعل،بردہ فروشی اور طوائف الملوکی سےمنورومعطر ہے۔ان لفظوں کے سائے میں  دل ذہن کے زیرنگوں آجاتا ہے۔خواہشات خود ساختگی کی لڑی سے نکل کرتوقعات تک جاپہنچتی ہیں۔آسائشات راحت کی حدود سے نکل کرریاکاری کے وسیع وعریض میدانوں میں جابستی ہیں۔جمع ونفی محبت کوجمال سے دوراورجسمانی اتصال کےلیے مریض بنادیتی ہے۔’’میں نے اقتباس مکمل کرتے ہی نظریں اٹھاکرمہاوجیتا کی طرف دیکھا مگر وہ وہاں  موجود نہیں تھا اورلڑکی حسب معمول مطالعے میں غرق تھی۔ میں نے  کتاب واپس  ریک میں رکھی اورلائبریری سےباہرنکل گیا۔

       پیپرز کے دوران مطالعے میں اور بھی زیادہ وقت کھپ رہا تھا اس لیے کیفے میں بیٹھنے کی کسی کو نہ سوجھتی تھی۔ایک دن پیپرسے ذرا پہلےمجھے ایک بال پوائنٹ کے لیے کیفے جانے کی نوبت آئی،کیفے میں داخل ہوتے ہی دیکھتا ہوں کہ مہاوجیتا بےخوف وخطر  ساکن حالت میں کرسی پر براجمان ہے اور دروازے سے داخل ہونے والی ہرلڑکی پرنظریں جماکریوں دیکھتا ہے جیسے اسی لڑکی کا انتظار کررہا ہو۔مہاوجیتا  مجھے دیکھتے ہی گویا ہوا‘‘ابے تم یہاں کیا کر رہے ہو،ان دنوں تو پڑھاکو لوگ کلاس روم میں دفن رہتے ہیں’’۔اچھا اس کا مطلب یہ ہے کہ تم پڑھنے کے لیے نہیں آتے صرف یہاں گھومنے پھرنے آتے ہو اور آنکھوں سے رس کشید کرکے دل کو طمانیت بہم پہنچاتے ہو۔‘‘سالے ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہوجا،تو نے میری حاضری مس کروادی’’۔یار تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسی حاضری!!حاضری تو کلاس روم میں لگتی ہے جس  کو تم نے آج تک کبھی اہم سمجھا ہی نہیں۔‘‘یار تم لوگ جاہل کے جاہل ہی رہو گے وہ حاضری لگانا ٹیچر کا کام ہے اور یہ حاضری میری زندگی کے سلیبس کوپایہ ءتکمیل تک پہچانے کے لیے ضروری ہے’’۔مہاوجیتا کی یہ بات سن کرلائبریری میں زیر مطالعہ کتاب‘‘قسمت کاقاضی اورمتقاضی’’ کا ایک اور اقتباس یاد آیا۔‘‘زندگی اور آزادی مترادف ہیں اور جس انسان کے پاس زندگی یعنی آزادی ہو وہ ہرقدرکاخالق ہوسکتاہے۔انسان اپنی آزادی،فیصلہ اورانتخاب عمل کے لیے ساری انسانیت کا ذمہ دارہے بشرطیکہ کے وہ اس آزادی کو جمالیات کی قدروں کو بنانے،سمیٹنے،سنوارنے اور بانٹنے کے لیے وقف کردے۔آزادی کے بعد جمال کی پہلی قدر یہ ہے انسان جمال کی تلاش شروع کردے،جمال کوپاکراس کی تحسین کے لیے وسیع الفاظ کاذخیرہ مجتمع کررکھے’’۔میں  نےبال پوائنٹ خرید کرلوٹتے ہوئے مہاوجیتاسے کہایارچائے توپلاؤ،تم تو اس کیفے کی حدود میں ہمارے میزبان ہو۔‘‘سالو تم لوگ ساری زندگی ندیدے ہی رہو گے’’۔مہاوجیتا اٹھا جاکر چائے کی پرچی لی اور چائے لا کرمیرے سامنے رکھ دی اور کہا‘‘جلدی جلدی چائے پیو اور کلاس میں جاؤتم لیٹ ہورہے ہو’’۔یار تم نے مجھے اپنے پاس سے بھگانا ہے تو ویسے ہی کہہ دو میں چلاجاتا ہوں مگر ایسے لیت ولعل کی ضرورت بالکل بھی نہیں۔‘‘تم عجیب انسان ہو،کس قدر غلط اور من گھڑت مطلب اخذ کیا ہے حالانکہ میرا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ نمبروں کے لیے پڑھتے ہواگر لیٹ جاؤ گے تو کوئی سوال رہ جائے گا اور پھر نمبر کم آئیں گے۔’’ یار پھر تم عجیب بات کر رہے ہو،ہم دونوں ایک ہی کلاس میں ہیں اور ایک ہی وقت ہمارا پیپر سٹارٹ ہوگا پھر  تم لیٹ کیوں نہیں؟۔‘‘یار تم سے دماغ کھپانا فضول ہے اس لیےمیں مزید کچھ نہیں کہتا۔

       امتحانوں کے دوہفتے بعد رزلٹ  کا اعلان ہوا،رزلٹ کو دیکھنے کے بعد سب کو باری باری حیرانی کے دورے پڑے مگر سب سے بڑا حیرانی کادورہ یہ تھا کہ مہاوجیتا اپنی شاندار کامیابی اور کلاس میں پہلی پوزیشن دیکھ کربھی  حسب سابق رہا اور اس کا چہرہ تاثرات سے بالکل خالی تھا۔ہم سب مہاوجیتا کے سر ہوگئے کہ یار آج تمہاری طرف سے شاندار پارٹی کا اہتمام ہونا چاہیے۔اس نے پارٹی سے تو انکار نہیں کیا مگر رزلٹ کی خوشی میں  میں کچھ کھلانے پلانے سےانکارکردیا۔سب نے استفہامیہ نگاہوں سے مہاوجیتا کی طرف دیکھا ۔ اس نے ایک بار پھر زور قہقے سے خاموشی کا بندھن توڑتے ہوئے کہا‘‘سالو تم سب نے جس مقصد کے لیے محنت کی وہ بھی پورا نہیں ہوا اور میں نے جس مقصد کو وقت دیا وہ بھی حد درجہ پورا ہوا اور امتحان بھی بن مانگی دعا کی طرح ثمرباررہا’’۔مہاوجیتا کی یہ بات سن کر مجھے لائبریری والی کتاب ‘‘قسمت کاقاضی اور متقاضی ’’سےحسب موقع ایک اور اقتباس یادآیا۔‘‘خود طےکردہ مادی مقاصد انسان کی آزادی کوروندکرتعفن زدہ پھل کی طرح بنادیتے ہیں۔دنیا کی سب نعمتوں میں سے بڑی نعمت آزادی ہے اور آزادی کی قدرتحصیل جمال اور تحسین جمالیات میں ہے۔انسان آزاد پیداہوتاہے مگر آزاد ہوتے ہوئے بھی وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا رہتا ہے۔پاس نعمت کو بھی غیرموجود پاتا ہے اور غیر موجود کے لیے پل پل تڑپتا رہتا ہے۔پل پل کی تڑپ انسان کی روح کو مضطر بنادیتی ہے ۔اس اضطراب سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ لمحہ موجودمیں سے دل کوتسکین دینے والی خوشبو کشیدکرکے خود کوآزاد چھوڑدیاجائے’’چائے اور پکوڑوں سے خدمت کرتے ہوئے مہاوجیتا نے ہمیں بتایا کہ‘‘مقاصد کی گٹھڑیوں کے بوجھ تلے کوئی شخص بھی زندگی نہیں جی سکتا سو تم لوگ بھی زندگی سے خوشیوں کے پھول سمیٹنا سیکھو نہ کہ زندگی کومقاصد کے نام کرکے بربادکردو۔میں نے تین بار مقابلے کے امتحان پاس کیے مگر ایک باربھی امتحان بذات خود مقصد نہیں رہا بلکہ ان امتحانوں کی کامیابی کے پیچھے وہ سینکڑوں کتابوں کامطالعہ جن کو میں نے ذہنی طمانیت اور دلی تشفی کے لیے زیر مطالعہ رکھا تھاوہی ہر بارمیری کامیابی کی ضامن رہیں۔آج میں  فیڈرل گورنمنٹ میں ایک کلیدی پوزیشن پر ہوں مگر روح کا سکون اور دل کاچین  آفس  میں کرسی پر بیٹھ کر حکم چلانے میں نہیں  بلکہ فطرت سے آنکھیں ملانے میں اور جمال کوسراہنے میں ہے’’۔واہ یار تم تو چھپے رستم نکلے،ہم تو تمہیں نگھرا سمجھتے تھے مگر تم تو  لچھمی کے سرتاج اور فلسفے کے دل راج نکلے۔‘‘پورے دن کی حاضریوں کاستیاناس کردیا ،اب تم اپنی راہ لو اور مجھے کام کرنے دو’’۔ہنستے مسکراتے لال،گلابی اورسفید چہروں میں گم ہوتے ہوئے مہاوجیتا کودیکھ کرہم سب خودگری کی دنیا کا ایک نیاباب ازبر کرچکے تھے۔

***

Leave a Reply