افسانہ نگار فوزیہ مغل . جرمنی
افسانہ
سیاہ نامہ
٭ سرسبز و شاداب لہلہاتے درخت ٹھنڈے میٹھے پانی کی بل کھاتی ندیاں ہر طرف امن ہی امن تھا بس مالک نے ایک جانب وادی میں جانے سے منع فرمایا تھا خاتونِ اول بھی بہت خوش تھی اپنے محبوب ہمسفر کے ہمراہ اور محبوب ہمسفر بھی بہت زیادہ خوش اور اپنے مالک کاشکر گزارتھا۔کیونکہ ان کا چند دن تنہائی کے کرب ناک عذاب سے گزر ہوا تھا اور مالک نے جلد ہی اس اذیت سے نجات دلائی ان کے وجود کے ایک حصے سے ان کی ہمسفر ہمراز تخلیق فرمائی یوں مردِ ائول ہر پل اپنی خاتون ائول کو خوشی سے دیکھ کر مالک کے گیت گاتاجس نے اسے یہ سب عنایت فرمایا تھا ۔
مالک کے دل میں بھی تو محبت کا جذبہ سمایا تھا تب ہی تو اسے یہ وادی بنانے کا خیال آیا تھا ۔جب وادی بن گئی تو اسے ہر زاویے سے دیکھا گیا اسکی آرائش و جمال اور امن و سکون کیلئے کئی اقدامات کئے گئے وادی جب ہر طرح سے آراستہ و پراستہ ہو گئی تو اس میں مردِ ائول کو اتارا گیا۔
مالک نے اپنے تمام شعبوں سے وابستہ اہم اراکین کو مدعو کیا اور مردِائول کا تعارف کروایا سب نے مالک کے اس شاہکار کو سراہا مگر شاشین و تبلیث کے لختِ جگرنے غرور میں آ کے آپنے دونوں جہاں پل بھر میںسیاہ کر لئے وہ مالک کی کرم نوازی کو اپنی ذاتی قابلیت سمجھ بیٹھا جسے مالک کے حکم پروری و عبادت گذاری کی وجہ سے پہلے آسمان والے عابد دوسرے آسمان والے زاہد تیسرے آسمان والے عارف چوتھے آسمان والے ولی پانچویں آسمان والے تقی چھٹے خاشع اور ساتویں عزازیل القاب سے پکارتے تھے اُس دن کے بعد وہ مالک کے فرمابرداروں کی فہرست سے نکل کر دوسری قطار میں جاکھڑا ہوا اور اس کے بعد اس کا تعارف سیاہ نامہ کی حیثیت کے طور سامنے آیا اور اس کا کام مالک کے مخالفین کی مدد کرنا ٹھہرایعنی امن وسکون کو تباہ و برباد کرنا۔
وادی میں خاتونِ ائول اور مردِ ائول بہت پر سکون رہتے ہر پل اپنے مالک کا شکر ادا کرتے ہر طرف امن و سکون کا راج تھا ۔جو کہ سیاہ نامہ کو ہر گز نہ بھاتا وہ وہ ہرطرح کوشش کر چکا کے کسی طرح یہ سکون و امن برباد ہو آخر ایک ترکیب اس کے سازشی ذہن میں آئی وہ اس پر عمل پیرا ہو گیا اس نے معصوم خاتونِ ائول کے ذہن میں یہ بات ڈالی اُس جانب بھی جایاجائے،خاتون ائول مردِ ائول سے میری سمجھ سے یہ بات بالا تر آخر مالک نے اتنی خوبصورت وادی بنا کے ہمارا انتخاب فرمایا ہمیں عزت و احترام بخشا پھر ہم پر اعتماد کیوں نہیں کیا اور ہمیں اس جانب جانے سے منع فرمادیا ۔
مردِائول ایسی کوئی بات نہیں اس میں مالک کا کوئی خاص راز ہی ہو گا،خاتونِ ائول مردِ ائول کا ہاتھ تھام کے اس حد کوپار کر گئے ۔
جب آنکھ کھولی تو سیاہ نامہ کا اونچا قہقہ تھا . نہ وہ حسین وادی نہ محبوب ہمسفر کا ساتھ بس پتھریلی زمین تھی سورج کی تپش تھی سال ہا سال آہ و پکار میں گزر گئے آخر مالک نے رحم فرمایا اور بابِ رحمت کا در وا فرما دیا۔
سیاہ نامے کے قہقے رک گے سیاہ نامے کا اب ہر وار ضائع ہونے لگا کئی سال سیاہ نامہ نے سوچ و بچا کر روپ بدلنے کا فیصلہ کیا اور وہ روپ دھارنے کا سوچا جو مردِ ائول اور خاتونِ ائول کی اولاد کو سب سے زیادہ قابلِ احترام اور قابلِ اعتبار روپ تھا۔
سفید، سبز،سیاہ، اورنجی چولا چہرے پر نقلی متانت کبھی ماتھے پر معراج تو کبھی تلک کبھی سینے پر صلیب تو کبھی ہاتھ میں منکے۔مگرسینے میں سیاہ دل اور سوچ میں انتشار اب وہ بہت جلد اپنے سیاہ کاموںکو انجام دینے میںکامیاب ہو گیا معصوم و بے گناہوں کی لاتعداد لاشیں گرتی اور وہی معصوم و بے گناہ مجرم بھی ٹھہرائے جاتے ۔کیونکہ ان معصوم سادہ لوح لوگوں کو سیاہ نامہ اپنا آلہ کار بناتا جنت کا لالچ دیتا حورو کا بہلاویا دیتا اس طرح کوئی بھی سیاہ نامہ کا نام نہ لیتا جنت کے دروازے کے باہر تڑپتی ہوئی ماں ،سسکتا ہوا باپ،روتی ہوئی نئی نویلی دُلہن معصوم بچے جن کو ابھی چلنا بھی نہیں آتا تھا اپنی اپنی درخواست کے ساتھ مالک کا انتظار کر رہے تھے ۔
اتنے میں ایک گوشت کا لوتھڑا جو سر سے پائوں تک ریزہ ریزہ وجود کے ساتھ آیا اور آتے ہیں بولا تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو جاو اپنے اپنے ٹھکانے پر رضوان ابھی صرف میرے لئے یہ دروازہ کھولنے والاہے حوریں میرا انتظار کر رہی ہے۔تڑپتی ہوئی ماں بولی ہم دروازہ کھولنے کا انتظار نہیں کر رہے ہم تو بس اپنی اپنی عرضی مالک تک پہچانے آئے ہیں۔گوشت کا لوتھر میں نے مالک کے حکم کی تعمیر کی ہے اپنے قیمتی وجود کی پرواہ نہیں کی ناپاک لوگوں سے زمین پاک کی ہے شہید کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اس کی روح جنت میں پہنچ جاتی ہے تمہاری وجہ سے جنت کا رضوان میرا لئے بھی ردوازہ کھولنے میں دیرکر رہا ہے۔
سسکتے ہوئے باپ نے ہمت کی اور جواب دیا تم نے مالک کے حکم کی تعمیر نہیں کی میرا مالک کیسے تمہیں اس بات کی اجازت دیتا تم میرے بڑھاپے کا سہارا میرے جوان بیٹے کے وجود کے ٹکرے کر دو,تڑپتی ہوئی ماں بھی بولی اٹھی ہاں تم جھوٹ بول رہے ہومیں ایک ماں ہوں میرے سینے میں ایک دل جو مجھے ایک پل چین نہیں لینے دیتا مالک تو ستر مائوں سے بھر کر اپنے بندہ سے پیار کرتا ہے۔
تم نے اپنے وقتی اختیاط کا غلط استمال کیا ہے مالک تم سے راضی نہیں اتنے میں نوبیاہتی دُلہن بھی بولی کئی سالوں کے انتظار کے بعد ہم ایک ہوئے تھے میرے ہاتھوں کی ابھی مہندی بھی نہیں اتری تھی میرے سہاگ کا سارا بدن ٹکروں میں بٹ گیا اس کا تو وہ ہاتھ بھی نہیں مل سکا جس سے اس نے مجھے قبول کرتے ہوئے دستخط کئے تھے چھوٹے معصوم بچے بھی روتے ہوئے بولے تم جھوٹے ہو مالک نے کب تمہیں کہا تھا میرے ماں باپ کو مار دو وہ توہمارے رزق کا بندوبست کرتے تھے دھرتی پر وہ مالک کاروپ تھے ہر پل ہمارا خیال رکھتے تھے ۔ گوشت کے لوتھڑا کی خون آلودہ آنکھوں میںاب خوف کے سائے صاف نظر آ رہے تھے کہ اتنے میں۔دوسری طرف دوزخ کی جانب سے سیاہ نامہ کے قہقوں کی اونچی آوازیں آنا شروع ہو گئی اور گوشت کے لوتھڑا کو مخاطب کر کے بولا ارے نادان تواُدھر کیا کر رہا ہے اِدھر آ میرے پاس تُو میرا چیلا تھا تیری جگہ میرے قریب ہے۔