طاہر طیب
” دستک”
دس گیارہ کا وقت۔۔ ۔۔چھت پر دھوپ پھیلی ہوئی ۔۔۔اور کلثوم چھت پر کپڑے سکھانے کے لیے تار پر ڈال رہی تھی کہ اس کی نظریں پڑوس کے صحن میں اپنی ہی ہم عمر لڑکی سعدیہ پرپڑیں۔۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا کیسی ہیں باجی ؟سعدیہ نے بھی مسکراہٹ کا جواب ہلکے سے تبسم سے دیااور کہا میں ٹھیک ۔۔۔ باجی آپ کیا کرتی ہیں ؟میں سکول میں استانی ہوں۔ یہ تو اچھی بات ہےاور آپ کیا کرتی ہیں؟ میں تو گھر میں ہوتی ہوں۔ کلثوم نے پوچھا ۔باجی آپ شادی شدہ ہیں؟ نہیں تو ، اور تم؟ میرے تو ماشاء اللہ دوبیٹے ہیں۔اچھا ! حیرت کی بات ہے ؟ تم تو میر ی ہی ہم عمر ہو۔ باجی میری شادی جلدی ہوگئی تھی۔ دونوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ تھوڑی دیر تک چلااور یہ کہہ کر کہ پھر ملتے ہیں ۔ خدا حافظ !کہہ دیا۔
وقت گزرتا گیا دونوں کے درمیان دوستی مضبوط ہوتی گئی اور آہستہ آہستہ بے تکلفی بھی ختم ہوگئی۔دونوں ایک دوسرے کو ناموں سے پکارنے لگیں۔اب کلثوم کو جب وقت ملتا وہ سعدیہ سے بات چیت کرنے چھت پر چلی جاتی ۔ یہاں تک کہ اپنے کھانے پینے کی چیزیں بھی ایک دوسرے کو دینے لگے۔ سعدیہ !آج میں نے گھر میں بیگن کا بھرتہ بنایا تھا۔کھا کر بتانا کہ کیسا بنا ہے؟تندور میں بنایا ہے ۔سعدیہ نے سالن سے کپڑا ہٹایا تو خوشبو سونگھی اور کہاواہ! بڑے مزے کا لگ رہا ہے ۔
سعدیہ وہ برتن لے کر اپنے کمرے میں آگئی۔اس نے اپنی بہن نادیہ کو آواز دی۔نادیہ آ جاؤ تم بھی کھانا کھالو، کلثوم نے بھجوایا ہے۔ بڑے مزے کا ہے۔دونوں نے اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھایا۔ یارواقعی مزہ آ گیا ہے ۔ شام کو سعدیہ نے کلثوم کو بتایاکہ کھانا بہت مزے کا تھا۔۔۔اچھا ایک اور بھی بات بتانی تھی ۔تمھیں معلوم ہے کہ ہمارے کمر ے اور تمھارے گھر کے درمیان روشن دان بھی ہے ۔جب بھی تمھارا دل کہے ادھر سے آواز دے دیا کرو۔۔۔ ویسے بھی ہم دیوار شریک ہیں۔میرے گھر میں تو صرف ابو ہوتے ہیں وہ بھی شام کو آتے ہیں ۔اس نے ہنستے ہوئے کہا۔جی ضرور کیوں نہیں۔ کلثوم نے سعدیہ سے پوچھا۔ تم نے کتنی جماعتیں پڑھی ہوئی ہیں ۔اس نے کہا ۔بی ۔اے کیا ہوتا ہے؟
بی ۔اے ؟ سوری سوری۔۔۔ مطلب چودہ جماعتیں۔۔۔یہ تو بہت جماعتیں ہیں،میرا بھائی ۔ بھی چودویں کے پرچے دے رہا اور چھوٹی بہن بارہویں میں پڑھتی ۔یار میری بھی خواہش ہے کہ میرے بچے پڑھ لکھ کر استاد بن جائیں۔بن جائیں گے۔۔۔پگلی تم فکر نہ کیا کرو۔۔۔اب کلثوم اور سعدیہ کی دن میں دو تین دفعہ بات چیت ہوتی۔دونوں ایک دوسرے سےباتیں کرتیں ۔پاس پڑوس کی باتیں کم اور اپنی زیادہ ۔۔۔ایک دن سعدیہ نے کہا کہ کلثوم اگلے ہفتے میرے پرچے شروع ہو رہے ہیں ۔تیاری نہیں ہو رہی ، سکول سے آکر کھانا بناتی ہوں کھانا کھا کر سوجاتی ہوں۔۔ ۔ شام کو ابو اور نادیہ کے ساتھ بیٹھ جاتی ہوں،ٹائم بالکل نہیں ملتا۔۔۔ باجی فکر نہ کریں ۔ میں دعا کروں گی ۔اللہ میاں! آپ کو پاس کر دے گا۔ جن دنوں میرے پرچے ہوں گے ان دنوں ابو اور نادیہ کو کھانا کون بنا کر دے گا؟ باجی آپ فکر نہ کریں۔آپ کی یہ بہن ہے نا۔۔۔ جب آپ کے پرچہ ہوں ، مجھے بتادینا میں کھانا بنا دیا کروں گی ۔جو دال دلیہ ہم کھائیں گے وہی آپ کو بھی بھیج دیں گے ۔
سعدیہ کے پرچےجون جولائی میں شروع ہوئے، تو کلثو م تندور پر گرم گرم روٹیاں اور سالن بنا کر نادیہ کو دوپہر دوبجے روشن دان سے دے دیتی۔ وہ خوشی سے لیتی اور کلثوم کا شکریہ ادا کرتی ۔۔۔جتنے عرصہ پرچے رہے کلثوم کھانا بنا کر دیتی رہی ۔آخری پرچہ ختم ہوا تو سعدیہ نے کلثوم کا شکریہ ادا کیا اور کہا تم نے تو بہنوں سے بڑھ کر حق ادا کیا۔ ایک دن کلثوم دیوار کے ساتھ کھڑی
تھی کہ اچانک ا س کے کان میں سعدیہ اور نادیہ کی باتوں کی آوازیں آنے لگیں ۔ نادیہ نے سعدیہ سے کہا یہ جو تمھاری سہیلی ہے کبھی کبھی تو مجھے ان پر ترس آتا ہے ۔سعدیہ نے پوچھا: کس بات پر؟ یہ روزانہ دال سبزی کیسے کھا لیتے ہیں ؟ سعدیہ نے اپنی بہن کو کہا :بے غیرت کچھ تو شرم کرو یہ آوازیں ان تک بھی جا سکتی ہے۔ نادیہ نے تکبرانہ لہجے میں کہا۔ تو کیا ہو ا؟ میں کوئی جھوٹ بول رہی ہوں۔یہی سچ ہے اگر کسی کو برا لگتا ہو تو لگے۔ کلثوم کو یہ بات سن کر ذرا دکھ ہوا۔لیکن وہ بھی کیا کرتی ،یہی حقیقت تھی۔
غربت خود ہی انسان میں جینےکا حوصلہ پید ا کردیتی ہے۔ایک دن سعدیہ نے کلثوم سے کہا۔ کل میں نے کپڑوں کی شاپنگ کے لیے بازار جانا ہے، کیا تم میرے ساتھ بازار چلو گی ؟باجی! میں امی سے پوچھ کر شام کو بتاتی ہوں۔ شام کو کلثوم نے امی سے کہا کہ سعدیہ بازار جانے کا کہہ رہی ہے ۔امی نے کہا بیٹی چلی جانا لیکن جلدی واپس آ جانا ۔شام کا کھانا بھی بنانا ہے۔جی امی ۔کلثوم نے سعدیہ کو بتا یاامی نے اجازت دے دی۔ سعدیہ نے کہا کہ کل میں چاربجے تمھارے پاس آجاؤ ں گی۔ شام کو دروازے پردستک ہوئی تو کلثوم کے چھوٹے بیٹے نے دروازہ کھولا۔ سعدیہ نے کہا کہ کلثوم کو بلاؤ اورکہو سعدیہ آئی ہے۔ دروازہ کھلا پا کر سعدیہ اندر صحن میں آگئی ۔جہاں کلثوم کا بھائی بیٹھا پڑھ رہا تھا ۔لڑکا جلدی سے امی کو بلانے چلا گیا۔ کلثوم جیسے ہی اندر داخل ہوئی۔ اتنے میں اس کے بھائی نے کہا :کلثوم کہاں جا رہی ہو؟ ۔ بھائی میں سعدیہ کے ساتھ بازار جا رہی ہوں ،انہوں نے کپڑے خریدنے ہیں ۔بھائی :اچھا ٹھیک ہے۔ سعدیہ نے پوچھا یہ جس لڑکے نے دروازہ کھولا وہ کون تھا؟اس نے کہا وہ چھوٹا بیٹا شانی ہے اوروہ صحن میں بیٹھا نوجوان؟وہ میرا بھائی فصیح ہے۔ تمھارا بیٹا اور بھائی دونوں کیوٹ ہیں۔کلثوم کودیکھتے ہوئے ۔ ۔۔مطلب پیارے ہیں۔دونوں بازار سے واپس آئیں۔
دوستی کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔کلثوم اور سعدیہ کا آنا جانا بھی لگا رہا ۔ ایک دن کلثوم نے کہا کہ باجی اگرمیں چھوٹے بیٹے کو پڑھنے بھیج دوں ؟کیا آپ اسے پڑھا دیں گی؟ سعدیہ نے کہا:کیوں نہیں؟تم میری بہنوں کی طرح ہو بھیج دیا کرو۔اب کبھی کبھار ، سعدیہ اس کے گھر آ جاتی اور کبھی وہ۔۔۔ایک دن سعدیہ آئی تو کلثوم کے بھائی نے دروازہ کھولا۔ سعدیہ نے مسکراتے ہوئے کہا: وہ ذراکلثوم کو بلا دیں کہیں کہ سعدیہ آئی ہے۔۔۔فصیح نے آواز دی۔۔
باجی !جاؤ تمھاری سہیلی آئی ہے ۔ کلثوم !آؤ اندر آؤ۔سعدیہ نہیں جلدی سےتم آؤیہ کپڑے درزن کو دے کے آتے ہیں۔او ہو!میں نے تو امی سے پوچھا ہی نہیں۔ کہاں ہیں خالہ میں پوچھ لیتی ہوں ۔۔خالہ سلام ۔۔۔میں سعدیہ ۔۔۔ کلثوم کی سہیلی، جی بیٹی۔خالہ میں اسے درزن تک لے جاؤں؟اچھا بیٹی لے جاؤ۔
گھر سے نکلتے ہوئے دونوں درزن کے پاس چلی گئیں۔کلثوم کا بیٹا سعدیہ کے پاس پڑھنے جاتا تو نادیہ بھی ادھر ہی ہوتی ۔ وہ کبھی کبھار اس سے سودا سلف منگوا لیتی۔سعدیہ منع کرتی کہ یہ ابھی چھوٹا ہے،بازار میں گم نہ ہوجائے۔نادیہ نے کہا نہیں ہوتا۔ کیوں بیٹا! تم نے بازار تو دیکھا ہے ؟ جی باجی۔تو یہ چیزیں لکھ دی ہیں ، تم جا کر لے آؤ ۔ تھو ڑ ی دیر بعد شانی وہ چیزیں لے کر آ گیا۔ وقت گزرتا رہا،دوستی چلتی رہی ۔ایک دن کلثو م کے بھائی نے کہا :باجی وہ تمھاری سہیلی ہے نا ۔۔کون ۔۔ سعدیہ ؟جی اس سے پتا کرو یہ کتا ب شاید اس کے پاس موجود ہو۔کلثوم نے وہ کاغذ سعدیہ کو دیا جس پر کتاب کا نام لکھا ہو ا تھا۔سعدیہ نے پڑھا تو کہا :ہاں !یہ ناول میرے پاس ہے۔میں دیتی ہوں ، مسکراتے ہوئے اس نے کہا:اپنے بھائی سےکہنا کتاب گمنی نہیں چاہیے۔کلثوم نے کتاب بھائی کو دی اور سعدیہ کا پیغام بھی دے دیا۔ کچھ دنوں بعد فصیح نے کتاب واپس کی توامیر مینائی کی غزل ”سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ “اندر رکھ دی۔کلثوم یہ لو کتاب اپنی سہیلی کو دے دینااورشکریہ بھی ادا کرنا۔کلثوم نے کتا ب روشن دان سے واپس کر دی اور ساتھ ہی بھائی کا پیغام بھی دیا۔ سعدیہ نے کہا۔ بھائی سے کہنا زیادہ فارمل ہونے کی ضرورت نہیں ۔ فارمل کیا ہوتاسعدیہ ؟اس نے کہا کچھ نہیں بس تم ایسے ہی کہہ دینااپنے بھائی سے ۔ دونوں میں اب دن میں دو تین بار بات چیت ہوتی،کبھی روشن دان ،کبھی چھت اور کبھی تو ایک دوسرے کے گھرپر۔کچھ دنوں بعد،سعدیہ کلثوم کےگھر آئی ،اب کی بار فصیح نے دروازہ کھولا،دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔با جی !باجی !وہ تمھاری سہیلی آئی ۔ ہاں !بھائی تم کیوں بوکھلائے ہوئے ہو۔ شرماتے ہوئے :نہیں باجی ایسی تو کوئی بات نہیں۔کلثوم سعدیہ کو لے کر کچن میں چلی گئی۔ میں جلدی سےتمھارے لیے چائے بناتی ہوں۔کلثوم چائے بھی بناتی رہی اور وہ دونوں مزے سے باتیں بھی کر تیں رہیں ۔فصیح دونوں کی باتیں سنتا رہا اورکَن اَنکھیوں سے سعدیہ کو دیکھتا رہا۔جاتے ہوئے دونوں کی ایک دفعہ پھر سے آنکھیں چار ہوئیں اور یوں خاموش محبت کا آغاز ہوا۔ایک دن باتوں باتوں میں کلثوم نے کہا :سعدیہ تم بہت اچھی ہو، میری خواہش ہے کہ میری بھابھی بھی تم جیسی ہو۔جو میری دوست بھی ہو۔سعدیہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ توتم مجھے اپنی بھابھی بنا لو پھر۔کلثوم نے رات کو اپنی امی کے پاس گئی اور کہا امی میرے ذہن میں ایک بات آئی ہے کیوں نا ہم فصیح کے لیے سعدیہ کا ہاتھ مانگ لیں ۔امی نے کہا کہ بیٹا وہ فصیح سے بڑی ہے۔کلثوم نے کہا :امی کچھ نہیں ہوتا۔ اتنے میں فصیح آیا تو اماں نے کہا: کیوں بیٹا تری بہن نے تمھارے لیے سعد یہ کو پسند کیا ہے ۔ تمھارا کیا خیال ہے؟ فصیح نے شرماتے ہوئے کہا۔ ماں جیسے آپ کی مرضی ۔ کچھ دنوں کے بعد فصیح کا رشتہ لے کر اس کی ماں سعدیہ کےگھرگئی۔ سعدیہ نے دروازہ کھولا۔خالہ آپ؟ جی بیٹی !ابو ہیں آپ کے؟ جی ابو ہیں ،آپ اندر آئیں۔ انہوں نے سلام دعا کے بعد بات چیت شروع ہوئی تو فصیح کی ماں نے کہا :میں سعدیہ کا ہاتھ اپنے بیٹے فصیح کے لیے مانگنے آئی ہوں۔سعدیہ کے باپ کا رنگ اڑ گیا نہیں بہن۔۔ اس نے ٹالتے ہوئے کہا :آپ کو تو پتا ہے کہ ہم ذات برادری سے باہر رشتہ نہیں کرتے ۔۔۔یہ کہہ کراس کا باپ اٹھ کر باہر چلا گیااور سعدیہ سے کہا بیٹا خالہ کو چائےپلا دینا۔فصیح کی ماں اٹھی اور جانے لگی تو سعدیہ نے روکنے کی کوشش کی مگر انہوں نے کہا بیٹا چائے پھر سہی۔۔۔میں چلتی ہوں۔خداحافظ!
کلثوم کی ماں غصہ میں گھر آئی توبیٹی نے کہا اماں خیر تو ہے ؟ ہاں! انہوں نے انکار کر دیا۔اماں کیوں؟ہم خاندان سے باہر رشتہ نہیں کرتے ۔اماں یہ کیا بات ہوئی؟ بس بیٹا وہ لوگ ہم سے ذرا امیر ہیں اس لیے۔ اتنے میں فصیح بھی بول پڑاذات پات کا نظام تو ہندوانہ رواج ہے۔جب ہم سب آدم کی اولاد ہیں تو ؟بس بیٹا یہ سب پیسے کا کھیل ہے۔۔۔
وہ تو نےان شاہوں کو نہیں دیکھا جن سے ہم دودھ لیتے ہیں ۔ہاں اماں! وہ بھی پیسہ آتے ہی سید بن بیٹھے۔۔ اصل میں ان کی ماں تو کمھارن تھی۔اس نے شاہ جی سے نکاح کر لیا۔شاہ جی کے مرنے کے بعد ساری زمینیں اور جائیدادئیں ان کے بھائیوں نے لے لیں اور یہ کمھار سے سید بن گئے۔۔۔۔
شام کو سعدیہ سے بات چیت ہوئی توکلثوم نے کہا:امی کو میں نے ہی بھیجا تھا،مجھے اگر پتا ہوتا تو میں نہ بھیجتی۔نہیں کلثوم ایسی کوئی بات نہیں ، مجھےخود بھی نہیں معلوم کہ ابو نے ایسا کیوں کیا؟رات کو سعدیہ نے ابو سے کہا :ابو یہ آپ نے اچھا نہیں کیا، ایسے بھی کوئی کرتا ہے۔نادیہ بھی بیج میں بول پڑی ہاں ابو! سعدیہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔فصیح اچھا شریف لڑکا ہے۔باپ نے یہ سنا تو کہا :بیٹی ہم خاندان سے باہر رشتہ نہیں کرتے ۔ کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں؟نادیہ بولی: تو خاندان میں کوئی ڈھنگ کا لڑکاہے ہی نہیں جس سے ہم رشتہ کریں۔سارے نکٹو اور نالائق ہیں۔۔۔سعدیہ کا باپ خاموش ہو گیا۔کلثوم اور سعدیہ کی اب بھی بات چیت اسی طرح ہوتی رہی ۔کلثوم نے سعدیہ سے کہا کہ :تم میری بھابھی نہ بھی بنو، تب بھی ہماری دوستی اور پیار اسی طرح رہے گا۔۔۔سعدیہ نے کہا!بالکل ایسا ہی ہو گا۔
وقت گزرتا رہا،دوستی چلتی رہی۔ایک دن سعدیہ نے رات کو کلثوم کوروشن دان سے آواز دی اور کہا۔کلثوم جی ، وہ تم سےمیں نے ایک بات کرنی تھی ۔ بولو سعدیہ ۔ تم کیا اپنی امی ایک مرتبہ پھر ہمارے پاس بھیج سکتی ہو۔ہم نے ابوکو راضی کر لیا ہے۔ اچھا میں امی سے بات کرکے دیکھتی ہوں ۔
رات کو کلثوم نے اپنی امی کو بتایا کہ سعدیہ اس طرح کہہ رہی تھی۔فصیح بھی سن رہاتھا۔ اماں نے کہا بیٹا اب میرا دل نہیں چاہتا۔فصیح نے کہا :امی !کوئی بات نہیں آپ چلی جائیں۔ سعدیہ اچھی لڑکی ہے۔ماں نے کہا اچھا اچھامیں دیکھتی ہوں۔ جمعے کو پھر فصیح کی ماں چلی گئی۔اب کی مرتبہ خوب آؤبھگت کی گئی۔ تھوڑی دیر بعدجب فصیح کی ماں نے بات شروع کی تو سعدیہ کے ابو نے کہا :ٹھیک ہے بہن سعدیہ آپ کی بیٹی ہے۔بات پکی ہوگئی ،کچھ عرصے بعد تاریخ رکھنے کی باری آئی ۔فصیح کی ماں دوبارہ گئی تو سعدیہ کے ابو نے کہا: میری ایک شرط ہے کہ آپ اپنا گھر سعدیہ کے نام کر دیں ۔ یہ بات سنتے ہی فصیح کی ماں خاموش ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ ہم آپس میں مشورہ کرکے بتاتے ہیں۔فصیح کی ماں واپس آئی ،فصیح نے خوشی خوشی دروازہ کھولا، ماں داخل ہوئی تو اس نے کہااماں کون سی تاریخ دی انہوں نے؟ بیٹا انہوں نے شرط رکھی ہے کہ یہ مکان سعدیہ کے نام کر دیں۔میں یہ مکان کیسے سعدیہ کے نام کرسکتی ہوں؟یہ تم چاربہن بھائیوں کی ملکیت ہے۔ میں کیسے کسی ایک کو دے دوں؟ماں نے کلثوم کو بلایااور کہا بیٹا تم سعدیہ کو بتادو کہ یہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔کلثوم نے رات کو اماں کا فیصلہ بتایا۔تو سعدیہ کہنے لگی کہ خالہ سے کہو کہ میں نے بڑی مشکل سے ابو کو راضی کیاہے،آپ مان جائیں ۔شادی کے بعد میں دوبارہ گھر آپ کے نام لکھ دوں گی۔فصیح کی ماں بھی زمانہ شناس تھی۔ اس نے کہا:بیٹی یہ میرا تجربہ ہے کہ شادی کے بعد کوئی نہیں کرتا۔ہمارے پاس لے دے کے یہی گھر ہی تو ہے۔وہ بھی ان کے حوالے کردیں۔ ۔۔خیربات یہیں ختم ہوگئی۔ فصیح ملازمت کے لیے دوسرے شہر چلا گیا۔
وقت گزرتا رہا، دونوں کی دوستی چلتی رہی حتیٰ کہ پانچ سال گزر گئے۔اسی دوران نادیہ کو کسی سے محبت ہوگئی۔اس نےباپ کو بتائے بغیر چھپ کر نکاح کر لیا۔ کیونکہ اسے یقین تھا کہ ابانہیں مانیں گے۔یہ بات تب سامنے آئی جب اس نے ایک دن سعدیہ کو کہا ۔ایک گڑبَڑ ہوگئی ہے ؟ بتاؤ ،میں امید سے ہوں۔۔۔ سعدیہ نے کہا یہ کیا بک رہی ہو ؟ میں نے خورشید سے نکاح کر لیا ہے ۔وہ میرے ساتھ آفس میں کام کرتا ہے۔سعدیہ نے طریقے سے رات کو ابو سے بات کی کہ ایک لڑکا ہے جو نادیہ کے دفتر میں کام کرتا ہے اوراسے پسند بھی کرتا ہے ۔اس کے گھر والے آنا چاہتےہیں ۔ اب خدایا انکار نہ کیجیے گا۔۔۔باپ نے کہا بیٹی بڑی تو تم ہو؟ پہلے تمھاری شادی ہونی چاہیے۔لوگ کیا کہیں گے؟ابا بس ! لوگ کیا کہیں گے؟لوگ اب بھی بہت کچھ کہتے ہیں ؟خورشید کے گھر والے آئےاور کچھ دونوں بعد نادیہ کی شادی ہوگئی۔نادیہ کی شادی جوائنٹ فیملی میں ہوئی ،گھر میں کمانے والا صرف خورشید ۔انہوں نے خوشی خوشی نادیہ کے لیے ہاں کر دی تھی کہ دو تنخواہوں سے گزرا اچھا ہو جائےگا۔شادی کے کچھ عرصہ بعد۔۔ خورشید کی ماں نے نادیہ کی پوری تنخواہ اپنے قبضے میں کر لی اور کہاکہ جو گھر میں دال دلیہ بنے گا وہی تم کھاؤ گی۔
سعدیہ کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی باپ ریٹائر ہو گیا اور پریشان رہنے لگاکہ اس کی عمر نکلے جارہی ہے۔ایک دن اس کا دوست فہیم آیا ۔باتوں باتوں میں اس نے ایک رشتہ بتایا کہ نقوی صاحب نے اپنے بیٹے کے لیے سعدیہ کا رشتہ مانگا ہے ۔ تو اس نے کہا کہ یاران کا مسلک تو ہم سے الگ ہے۔ اور وہ عمر میں بھی کافی بڑاہے۔سعدیہ یہ باتیں سن رہی تھی۔ فہیم نے کہا یار دوست محمد اس مسلک کا پیچھا چھوڑواور ہاں کر دو، اب سب باتیں کہاں پوری ہوتی ہیں۔دوست محمد چپ ہو گیا۔ فہیم کے جانے کے بعد سعدیہ نے کہا ابو آپ انہیں ہاں کر دیں۔مجھے کوئی اعتراض نہیں۔کچھ عرصے بعدسعدیہ کی شادی ہوگئی۔۔۔
وقت گزرتا رہا۔۔۔کلثوم کے بڑے بیٹے کی نوکری ہوگئی اور اس نے اپنے بیٹے کے ساتھ لاہورجانے کا ارادہ کر لیا تھا۔ جانے سے پہلے وہ اپنی سہیلی سعدیہ کے پاس ملنے اس کے گھر گئی تو حیران ہو گئی سعدیہ جو نت نئے فیشن کے کپڑے پہنتی تھی آج اسے پرانے کپڑوں میں دیکھ کر کلثوم کوبہت افسوس ہوا۔اس نے گلے ملتےہوئےسعدیہ کو بتایا کہ میرے بڑے بیٹے کی لاہور میں جاب ہوگئی اور ہم یہاں سے جا رہے ہیں۔زندگی رہی تو پھر ملاقات ہوگی۔ رخصت ہوتے ہوئے دونوں کی آنکھیں نم تھیں۔
ایک دن دوست محمداور فہیم دونوں ہوٹل میں بیٹھے باتیں کرر ہے تھےکہ سامنے سے فصیح اپنی گاڑی سے باہر نکلا۔اس نے سلام کیا اورحال چال پوچھ کر رخصت ہوا تو دوست محمد نے کہا یار فہیم تمھیں پتا ہے میرے سے بڑی بھول ہو گئی تھی۔دس سال پہلے فصیح کا اچھا بھلا رشتہ آیا تھا۔ میں نےزعم میں آکر انکار کر دیا۔ میری تو اب ہر کسی کو یہ نصیحت ہے کہ جو پہلی دستک آئے اس پر ہاں کہہ دینی چاہیے۔نہیں تو پچھتاوا رہ جاتا ہے۔
***