You are currently viewing دیوندر اسّر کی تنقید نگاری

دیوندر اسّر کی تنقید نگاری

محمد رضوان

ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ

دیوندر اسّر کی تنقید نگاری

بدلتے ہوئے حالات اور وقت کے مطابق ادب اور ادبی تنقید کے دھارے بھی بدلتے رہے ہیں ۔اس کی شکل اور نوعیت میں مسلسل تبدیلیاں واقع ہوتی رہی ہیں ۔مختلف جماعتیں وجود میں آتی رہی ہیں اور ان تبدیلیوں کی بنیاد ان نئے افکار و خیالات پر مبنی رہی ہے جو وقت کے ساتھ ابھرتے اور دبتے رہے ہیں حالانکہ عملی اعتبار سے یہ ایک مثبت پہلو ہے چونکہ حرکت میں رہنا اور تغیرات سے گزرنا ہی کسی بھی چیز کے زندہ رہنے کی علامت ہے ، چاہے اس کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہو ۔ لیکن تغیرات اور بدلتی ہوئی تمام صورتِ حال سے گزرتے ہوئے اور ان سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے اعتدال و توازن کی ایک راہ متعین کر لینا ایک مشکل مگر اندھی تقلید سے ماورا ، دانش مندانہ اور منفرد عمل ہوتا ہے ۔ لہٰذا ادب اور ادبی تنقید کے سلسلے میں جن ادیبوں اور نقادوں نے اس راہ کا تعین کیا ہے ان میں ایک نام دیویندر اسر کا بھی ہے ، جو ایک متوازن حیثیت کا حامل ہے ۔ اسر کا علمی و ادبی سفر ترقی پسندی سے ہوتا ہوا جدیدیت اور ما بعد جدیدیت پر آکر ٹھہرتا ہے ۔ ادبی و سیاسی اعتبار سے ان کا یہ سفر تحریکات و رجحانات کے ایسے دور سے ہوکر گزرا ہے جو افکار و نظریات کی عالمی سطح پر ایک دائرے میں سمٹ جاتا ہے ۔

دیویندر اسر اپنے عہد کے ان نقادوں میں شمار ہوتے ہیں جو مغرب و مشرق دونوں اعتبار سے ایک وسیع مطالعہ کے مالک ہیں ۔ وہ بنیادی اعتبار سے تو ایک تخلیق کار ہیں اور فکشن ان کا میدانِ عمل ہے مگر جس پائے کے وہ تخلیق کار ہیں ، وہی مقام ان کا تنقید میں بھی محفوظ ہے ۔اپنے دور کے بہت سے ناقدین سے الگ کسی مکتبِ فکر یا کسی خا ص د ائرے میں اپنی علمیت و صلاحیت کو محدود کرنے کے بجائے انہوں نے کھلے ذہن کے ساتھ مغربی و مشرقی تناظر میں ہر تھیوری ، ہر نظریے کو اپنی فکر کا حصہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔

دیویندر اسر کی اردو ، ہندی ، پنجابی اور انگریزی چاروں زبانوں میں ۵۰ سے زائد کتابیں موجود ہیں جو ان کی علمیت کا ثبوت فراہم کرتی ہیں ۔ اردو میں ان کے چار افسانوی مجموعے ، چھہ تنقیدی مجموعے ،ایک ناولٹ اور بہت سے مضامین منظرِ عام پر آئے ۔ تنقیدی مجموعے ، فکر اور ادب ، ادب اور نفسیات ، ادب اور جدید ذہن ، مستقبل کے روبرو ،ادب کی آبرو اور ۔۔۔۔نئی صدی اور ادب کے نام سے شائع ہوئے ، جو اردو کے تنقیدی سرمائے میں اپنی ایک اہمیت رکھتے ہیں ۔ ان تمام کتابوں کا اگر ہم جائزہ لیں تو بقول پروفیسرعتیق اللہ :

’’ایک ایسے تنقیدی ذہن سے ہمارا تعارف ہوتا ہے جو ہمیشہ کرید میں رہتا ہے ۔ نئے نئے علمی اور فلسفیانہ نظریوں ، تھیوریوں ،تیزی سے بدلتی ہوئی قدروں اور تقاضوں سے جسے ہمیشہ سروکار رہا ہے ‘‘ ( ۱ ) ۔

دیویندر اسر نے اپنے عہد کی نئی نئی تھیوریوں پر کافی غور و خوض کیا ہے ۔اسر کی ذہنی تربیت ترقی پسندی کے فوراً بعد جدیدیت کے ماحول میں ہوئی ۔ ادبی و سماجی اعتبار سے جس کی اپنی الگ نوعیت رہی ہے ۔ ان کی ذہنی تربیت میں بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل کے ایسے دور نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ جس میں نئی نئی تبدیلیاں تیز رفتاری کے ساتھ رونما اور سائنسی بنیادیں مستحکم ہو رہی تھیں ، جو سماج ، کلچر ،تہذیبی و اخلاقی اقدار ، ادب و فن اور دوسرے تمام شعبوں پر اثر انداز ہو رہی تھیں ۔ اس کے علاوہ نفسیاتی ، مارکسی اور دوسرے بہت سے نظریات برابر سماجی اور ادبی اقدار کو متاثر کر رہے تھے ، اسی ماحول میں دیویندر اسر نے اپنی تنقید کے اصول اخذ کئے جو تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہوئے مستحکم ہوتے چلے گئے ۔

دیویندر اسر کا زور سائنس و تکنالوجی کے ان مضر اثرات پر رہا ہے جو سماجی ، معاشرتی ، تہذیبی ، اخلاقی اور ان کے ساتھ ساتھ ادبی اقدار کو بھی کمزور کرنے کے ذمہ دار رہے ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں سمجھنا چاہئے کہ اسر روایت پرست ہیں ، وہ نہ تو روایت کے پرستار ہیں اور نہ ہی اس کے انکاری ، وہ نئی تبدیلیوں کو قبول کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے مگر وہ ان نئی تبدیلیوں کے ساتھ پیدا ہونے والے ان منفی عناصر کا انکار کرتے ہیں جو انسانی اقدار اور ان کی بقا کے لئے خطرہ ہو ۔ ان کے نزدیک ردّ و قبول کا ایک ایسا نظام ہونا چاہئے جو بدلتے ہوئے دور میں نئے اور پرانے تقاضوں کے مدِّ نظر ، منفی و مثبت پہلوئوں پر غور و خوض کے عمل سے گزر کر ، سماجی ، تہذیبی ،اخلاقی اور ادبی اقدار کی تشکیل کرتا ہوا آگے بڑھے ۔ وہ لکھتے ہیں :

’’آج سوال ماضی کو حا ل کے حوالے سے دیکھنے کا ہی نہیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حال کو مستقبل کے حوالے سے اور مستقبل کو حال کے حوالے سے اپنے تجربے کا حصہ بنائیں ۔ ہمیں اپنے ادب کو مستقبل میں پروجیکٹ کرنا ہے کیونکہ مستقبل حال میں داخل ہو چکا ہے ‘‘ ( ۲ ) ۔

ان کے نزدیک آج بدلتے ہوئے دور میں سائنس و تکنالوجی کے ساتھ ساتھ دوسرے بہت سے منفی محرکات نے انسان اور اس کی تہذیبی و اخلاقی اقدار کے ما بین ایک خلا قائم کر دیا ہے جو روز بہ روز وسیع ہوتا جا رہا ہے ۔ در اصل اسر نے چیزوں کو منفی نقطۂ نظر سے زیادہ فوکس کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آئیندہ وقت میں رونما ہونے والی نئی صورتِ حال اور اس سے منتج ہونے والے نتائج تک آسانی سے رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور اسی بنا پر ادب کی معنویت اور اس کی بقا کو لے کر وہ سوالات کا ایک لمبہ سلسلہ بھی قائم کر دیتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ سوال یہ ہے کہ کیا ٹکنولوجی ادب اور فن کو ختم کر دے گی یا انھیں ارتقا اور وسعت کی نئی جہتوں سے روشناس کرائے گی۔ کیا الیکٹرانکس اور کمپیوٹر ادبی تخلیق اور مطالعے کے لئے مہلک ثابت ہوں گے ؟ کیا ٹیلی وژن اور ویڈیو ، پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو کم کر دیں گے؟ شاید نہیں ۔ الیکٹرانکس نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ انسان کی زندگی کے کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جن کو کاغذ، قلم اور روشنائی اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہی پُر اثر طریقے سے پیش کیا جا سکتا ہے نا کہ ویڈیو کے ذریعے ۔ لیکن مستقبل میں کیا ہوگا اس بارے میں کچھ بھی یقینی طور پر نھی کہا جاسکتا ۔ فی الحال تو ہم یہ جانتے ہیں کہ ادب کی جو یہ خصوصیت تسلیم کی جاتی تھی کہ محض وہی ذاتی تجربے کو حساس طریقے سے پیش کرسکتا ہے اب ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ آڈیو ۔ ویڈیو ذرائع اور کمپیوٹر نے انسان کے اظہار کو ایسی جامع وسعت عطا کی ہے اور ترسیل کے نئے طریقوں اور آلات کا استعمال کیا ہے کہ دنیا سمٹ کر ہمارے گھر کی دیواروں کے اندر داخل ہوچکی ہے ۔ ایف ۔ ایم ریڈیو ، کیبل ٹیلی ویژن ، ویڈیو کیسٹ ، ریکار ڈنگ ، ویڈیو ڈسکس ، سیٹلائٹ، مائیکرو فلم ، کیپسول ، ویڈیو ٹیکسٹ وغیرہ کے باعث انسان کا تجربہ اور اس کا اظہار اب نت نئے روپ اختیار کر رہا ہے ۔ وی ۔ ڈی ۔  ٹی (ویڈیوڈس پلے ٹرمینل ) اور کمپیوٹر کے با ہمی عمل سے ہم براہ راست وی ۔ ڈی ۔ ٹی ۔ پر سب کچھ پڑھ سکتے ہیں ‘‘ (۳ ) ۔

اسر کے مطابق اس تیز رفتاری اور تجدید کاری کے عمل میں جو سماجی تناؤ پیدا ہو رہے ہیں ، ان کو دور کرنے کے لئے نئی طرزِ فکر اور نئے شعور کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے موجودہ دور کے ادب کو مستقبل کے تناظر میں پرکھنے کی کوشش کی ہے ۔ اور ادب کی اعلیٰ اقدار پر بار بار آواز اٹھائی ہے ۔ انہوں نے نئے عہد کے تقاضوں کے تحت سائنس و تکنالوجی سے دور ہونے کی نہیں بلکہ ان سے ہم آہنگ ہونے کی بات کہی ہے ۔ انہوں نے نئی تبدیلیوںکے مثبت پہلوؤں پرزور دیا ہے ۔ وہ اس صورتِ حال میں ایک ایسا ذہنی توازن قائم کرنے کی بات کرتے ہیں، جس میں شعوری قوت موجود ہو ۔

 دیویندر اسر سے یہاں پورے اتفاق کی گنجائش ہے ۔ یہ سہی ہے کہ ہم روشنیوں کے شہر میں تبدیل نہیں ہوئے اور یہ بھی کہ نئی صدی میں نیا سورج طلوع نہیں ہوا مگر اتنا ضرور ہے کہ انسان کی ذہنی و داخلی نوعیت میں بڑی حد تک تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جن سے اب نہ سہی مگر آیندہ مستقبل کی شکلیں لازمی طور پر بدل جائیں گی اور یہی ذہنی و داخلی نوعیت ان تبدیلیوں کی بنیاد قرار پائے گی۔

اسر کے نزدیک نئی صورتِ حال سے نبر د آزما ہونے کے لئے ہمیں ذہنی ، سماجی اور تکنیکی طور پر تیار ہونے کی ضرورت ہے ۔ جس میں شعور کو خاص دخل ہے اور جب تک شعوری طور پر مثبت ترجیحات کو عملی شکل نہیں دی جائے گی تب تک انسان مستقبل کا اصلی چہرہ نہیں دیکھ سکتا ۔ دیویندر اسر نے مستقبل سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے Future Shock، The Third Wave اور Power Shift جیسی کتابوں کے ذریعے پیش کئے گئےAlvin Toffler کے افکار و خیالات سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے اور یہی نہیں بلکہ     George Orwell کے ناول ’۱۹۸۴ ء ‘سے بھی انہوں نے واقف کرایا جس نے مستقبل کی ایک بھیانک تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ علاوہ ازیں اسر نے اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالوں کو اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے جنہوں نے مستقبل کے امکانات کو واضح کرنے کی سعی کی ہے ۔

دیویندر اسر نے نئی صورتِ حال کے زیرِ اثر انسان ، سماج اور کلچر کے مسائل کے ساتھ جو اہم مسئلہ اٹھایا ہے وہ ادب اور فن کا مسئلہ ہے ۔ کیونکہ ان تمام حالات سے ادب اور فن بے حد متاثر ہوتا ہے ۔ ادب اور سماج ایک دوسرے پر اثر اندازہوکر انسان اور اس کی ذات و شناخت کی تشکیل کرتے ہیں ۔ جب دیویندر اسر نے نئی صورتِ حال میں ادب کا جائزہ لینے کی کوشش کی تو انسان اور اس کی حقیقت کا ایک نیا چہرہ ، نیا روپ ابھر کر سامنے آیا ۔ اور یہ تبدیلی کوئی نئی تبدیلی نہیں بلکہ انسان کا بدلتا ہوا تصور تاریخ کا مستقل ایک حصہ رہا ہے جس کا گواہ ادب ہے اس ضمن میں حقیقت اور انسان کے تصورکو جن محرکات سے ہوکر گزرنا پڑا ان میں وقت کے ساتھ ابھر نے والے وہ تمام نظریات ہیں جن کو رومانیت ، مارکسیت، فرائیڈین ازم ، جدیدیت ، وجودیت ، مابعد جدیدیت اور اس کے بعد ، بعد از مابعد جدیدیت کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ اور ان نظریات کے زیرِ اثر فطرت نگاری ،واقعیت نگاری ، حقیقت نگاری ، سماجی حقیقت نگاری ، نفسیاتی حقیقت نگاری ، سرریلزم، شعور کا بہائو ، تاثر پرستی ، علامت پرستی ، اینٹی سٹوری اور نہ جانے بہت سے نئے تصورات نے جنم لیا ، جو ادب میں نئی نئی تحریکوں کے باعث بنے ۔دیویندر اسر نے ان تصورات کو بالخصوص فکشن کے حوالے سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے ، جس میں انہوں نے انسان کا تصور ، حقیقت کا تصور، اینٹی ہیرو اور اینٹی اسٹوری جیسی اصطلاحات پر قلم اٹھایا اور سماجی و ادبی اقدار کی حقیقتوں سے پردہ اٹھانے اور ایک حساس قاری کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ادب اپنی حقیقی اور اصل اقدار سے دوربہت سی گمراہیوں میں مبتلا ہوکر ایک غیر اخلاقی کلچر کی علامت کا روپ اختیار کر گیا ہے ۔ جس کا ذمہ دار سماج اور اس میں ہونے والی سرگرمیاں ہیں ۔ اسر کے مطابق سائنس اور تکنالوجی کے علاوہ نظریاتی اعتبار سے یہ تمام محرکات بھی انسانی سماج اور ادب و فن کو متاثر کرنے میں پیش پیش رہے ہیں ۔

بیسویں صدی خاص طور پر اِن تمام صورتِ حال کی ذمہ دار رہی ہے اور با لخصوص ادبی تناظر میں ترقی پسندتحریک ، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت جیسی اصطلاحات نے عملی اور نظریاتی اعتبار سے ادب اور فن کے ساتھ ساتھ دوسرے بہت سے شعبوں میں نئے ذہن ، نئے رویوں ،نئی قدروں اور نئی صورتِ حال کو جنم دیا ہے ، جس میں کسی بھی شے کو متعین کرنا ایک چیلنج بن گیا ہے ۔

دیویندر اسر نے اپنی تنقیدی تحریروں میں ما بعد جدیدیت پر سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔ اس اعتبار سے ان کو اردو میں ما بعد جدیدیت کی ایک ہمہ گیر اصطلاح کو متعارف کرانے والوں میں ایک اہم مقام حاصل ہے ۔ ان کے مطابق ما بعد جدیدیت عصرِ حاضر کی فکر ، تہذیب اور جمالیات کی نشان دہی کرنے والی ایک ہمہ گیر اصطلاح ہے ، اس میں تضادات کی کمی نہیں ۔ اس کے ہمہ جہت اور دور رس اثرات کا اندازہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ اس میں زندگی کا ہر شعبہ ، ہر شے ، ہر علم ، تاریخ ، فلسفہ ، معاشرہ ، میڈیا ، ادب بلکہ سب کچھ سمٹ گیا ہے ۔ اور یہ اصطلاح عصرِ حاضر کا نیا منظرنامہ بن کر ابھری ہے ، جس کے اپنے مفروضات ، تعصبات اور تصورات ہیں ۔

اسر کے مطابق موجودہ دور میں ما بعد جدیدیت بھلے ہی ایک ہمہ گیر ڈسکورس ہے اورزندگی کے تمام شعبے اس میں سمٹ آئے ہیں مگر جدیدیت سے گزر کر جب انسان ما بعد جدیدیت میں داخل ہوا تو وہ اپنے مقام ، مقصد اور اپنی شناخت سے اتنا دور ہو گیا کہ اس کی موت کی خبر سنا دی گئی ۔ اور ایسا انتشار پیدا ہو گیا کہ وہ فطرت کو بھول کر اس سے پوری طرح عاری ہو گیا ۔ غرض جدیدیت اور ما بعد جدیدیت دونوں تناظر میں اٹھنے والے بہت سے سوالات سے گزرتے ہوئے دیویندر اسر انسان کی سماجی اور ادبی اقدار کو اخلاقی سطح پر بلند کرتے ہوئے ان کی معنویت اور بقا کا مسئلہ اٹھاتے ہیں ۔

اسر کے نزدیک یہ ایک ایسا دور ہے جس میں سب کچھ پوسٹ ہو چکا ہے ۔ پوسٹ انڈسٹریلزم ، پوسٹ کولونیلزم ، پوسٹ مارکسزم ،

پوسٹ ماڈرن ازم ، پوسٹ اسٹرکچرل ازم اور پوسٹ ہسٹری یعنی اب ہسٹری کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے ، جس کا گواہ  Francis Fukuyama ہے ۔ اسر لکھتے ہیں :

’’ اس دور میں ماضی ، حال اور مستقبل اور تاریخ پر جتنی بحثیں ہوئیں ہیں ، شاید ہی کسی گزشتہ دور میں ہوئی ہوں ۔ عہد ِ حاضر کی تاریخ اتنی برق رفتاری سے بدل رہی ہے کہ اب پوسٹ پوسٹ اسٹرکچرل ازم اور پوسٹ پوسٹ ماڈرن ازم ، کی چرچا بھی شروع ہو گئی ہے ‘‘ ( ۴ ) ۔

یہاں بہت سے سوالات پیدا ہو جاتے ہیں ، جن پر قلم اٹھایا جا سکتا ہے ۔جیسا کہ پوسٹ ماڈرن ازم کے بعد کی نوعیت کو پوسٹ پوسٹ ماڈرن ازم کی اصطلاح کے نام سے تحریر کیا گیاہے تو ایک سوال یہاں ابھر کر سامنے آتا ہے کہ جب پوسٹ پوسٹ ماڈرن ازم بھی ختم ہو جائے گا تو اس کے بعد کیا ہوگا اور پھر اس کے بعد ؟ خود دیویندر اسر نے بھی اس طرف توجہ مبذول کرائی ہے اور ابھی تک رائج انسانی تاریخ اور تہذیب کے تمام تصورات کی معنویت پر بہت سے سوالات قائم کئے ہیں جو ادبی تحریروں اور تفسیروں میں سمٹ کر آج کی نئی صورت ِ حال کی نشان دہی کر رہے ہیں ۔

اسر نے ان تمام صورت ِ حال کا جس دور میں جائزہ لینے کی کوشش کی ہے ہم اس سے تھوڑا آگے نکل کر اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اکیسویں صدی کا ایک چوتھائی حصہ گزر چکا ہے اور ہم آج وقت کے ایسے دھارے پر کھڑے ہیں جہاں دیویندر اسر اور بہت سے فیوچرسٹ کے قائم کردہ امکانات پر غور وخوض کرنے کی شدید ضرورت ہے ، انہوں نے جن امکانات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے وہ سماجی ، معاشرتی ، اخلاقی اور ادبی اعتبار سے کہاں تک عملی شکل اختیار کر گئے ہیں یا آج ان کی نوعیت کیا ہے ؟ اگر ان امکانات اور موجودہ صورت ِ حال میں ایک حد ِ ّ فاصل قائم ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسر یا دوسرے تمام لکھنے والوں سے اتفاق جائز نہیں بلکہ ان امکانات کی روشنی میں ان جڑوں کو تلاش کرنا ضروری ہے جو ذہنی و فکری طور پر مستقل ایسے رجحانات کی تشکیل کر رہی ہیں جو مسلسل ان امکانات کو حقیقت سے قریب تر کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔

دیویندر اسر کے نزدیک ادبی تخلیق کا سب سے بڑا مسئلہ حقیقت کا بدلتا ہوا تصور ہے جو ننگی آنکھ سے نظر نہیں آتا ۔ گزشتہ پچاس برسوں میں حقیقت نے بہت سے روپ بدلے ہیں جس کے باعث ادب میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ حقیقت سے علامت تک کا سفر ، جدیدیت (وجودیت ) اور ساختیات سے ہوتے ہوئے پس ساختیات اور مابعد جدیدیت کی منزلوں تک ادب نے بڑے پلٹے کھائے ۔ جس کا گواہ خود ادب ہے ،جس نے انسان ، اس کی ذات و شناخت کو مٹاکر بے کردار تخلیق کو پیش کیا اور اینٹی ہیرو کا جنم ہوا ۔ با کردار ادب کا تصور اور نفسیاتی گہرائی جیسی کسی حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا ۔ اور یہ تمام صورتِ حال سماجی و تہذیبی زوال کی بھی نشان دہی کرتی نظر آئیں ۔ انگلینڈ میں اینگری ینگ مین اور امریکہ میں بیٹ نسل نے اس کو پروان چڑھایا ۔

اسر کے نزدیک آج کے دور میں جو سب سے اہم مسئلہ ہے وہ اقدار کے انحطاط کا ہے اور اس کے ذمہ دار وہ تمام محرکات ہیں جن کا اسر نے اپنی تحریروں میں احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان میں سیاسی ، سماجی ، اخلاقی اور معاشرتی نظام اور ان کی حقیقت کا کھوکھلا پن ثابت ہوتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جبر و تشدد اور سیاسی استبداد نے انسان کو ہمیشہ کمزور کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں اس کے داخلی اور خارجی نظام کے ما بین ایک خلا نے جنم لے کر اسے بہت سی الجھنوں کا شکار بنایا ہے اور انسان کی اسی داستان کا نچوڑ دیویندر اسر کی تحریروں میں موجود ہے ۔

اسر نے انسان کی داخلی اور خارجی دونوں اعتبار سے پیدا ہونے والی نئی اور خترناک صورت ِحال کے پس پشت عالمی سطح پر رونما ہونے والے ان تمام واقعات و سانحات کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے جو پوری طرح عالمی برادری کے لئے بھیانک ثابت ہوئے ۔ اس میں اہم کردار سائنس و تکنالوجی کا رہا جس نے انسان کو جنگ ِعظیم ، ہیرو شیما اور ناگاساکی کے ایٹمی دھماکوں کی دہشت سے روشناس کرایا اور اسے مشین کا ایک پرزہ بنا کر مشین کا غلام اور غیر انسان ہونے کے لئے مجبور کر دیا ۔ ان تمام حالات کے زیرِ اثر انسان اپنے آپ میں تنہا ، اجنبی اور مایوس ہو کر رہ گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ بھیڑ میں وہ گمنام اور بے چہرہ ہوکر زندگی کے ساتھ آگے تو بڑھ رہا ہے مگر حالات کا مقابلہ کرنے کی قوت اس میں باقی نہیں رہی ۔ دیویندر اسر لکھتے ہیں :

’’ اس سب کے لئے کون ذمہ دار ہے ؟ ریاست ، فلسفہ ، منظم ادارے ، سائنس ، تہذیب ، کلچر ، اخلاق ، سماج یا فرد خود ، مارکس نے فرد کو مادی تواریخی جبریت کا غلام قرار دیا تھا اور فرائیڈ نے بچپن کے لا شعوری محرکات کا اور عینیت پرست فلسفیوں نے کسی مطلق غیبی قوت یا خدا کا ۔۔۔۔۔۔۔لیکن انسان کے مسائل اور زیادہ پیچیدہ ہوتے گئے ۔ ہر انسان اپنے فیصلے اور اپنے عمل کے لئے خود ہی ذمہ دار ہے ۔ اس لئے اسے فیصلے اور عمل کا انتخاب کرنا پڑتا ہے اور اس انتخاب کے لئے آزادی بنیادی شرط ہے ‘‘ ( ۵) ۔

آج کے دور میں ادب اور اس کی اعلیٰ اقدار کے لئے ایک المناک پہلو یہ بھی ہے کہ سستی ،جنسی اور فحش تحریریں سنجیدہ ادب کے دائرے میں شامل ہوتی جا رہی ہیں ۔ غیر اخلاقی نفسیات ، فلسفہ ، تہذیب اور اقدار ادب کا حصہ بننے کے لئے مجبور ہیں ۔ ادب لغویت کا شکار ہوتا اور ایک بھیانک خلا ادب اور اخلاق کے درمیان پیدا ہوتا جا رہا ہے ۔ جدید ادب اس کا ترجمان ہے جس میں شہری زندگی کا بھرپور عکس نظر آتا ہے اور اس کے عکاس بیٹس اور اینگری ینگ مین ادیب ہیں جن کے یہاں سب کچھ اینٹی شکل میں نمودار ہوتا ہے ۔

دیویندر اسر نے ان صورت ِ حال کے حوالے سے مغرب میں ہونے والے تمام تکنالوجکل تجربات ، جدید تحریکات و رجحانات اور ان سے پیدا ہونے والے عالمی نتائج اور امکانات کا تجزیاتی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اردو ادب کے اُن گوشوں پر ان کی گہری نظر رہی ہے جہاں مغربی اثرات شدت سے کارفرما رہے ہیں ۔

دیویندر اسر نے ادب کے داخلی اور خارجی دونوں پہلوئوں پر اظہار ِ خیال کیا ہے ۔ ان کے افکار و خیالات سماجی و اخلاقی اقدار کے ساتھ ساتھ ادب کی فنی ّ اقدار کے لئے بھی سنجیدگی کا درجہ رکھتے ہیں ۔ چونکہ جیسا ہم نے لکھا کہ اسر کا نام ادب اور ادبی تنقید کے ضمن میں ایک متوازن حیثیت رکھتا ہے ۔ لہذا انہوں نے ہر اعتبار سے ادبی اقدار کا تعین کرتے ہوئے ، ادب کے ارتقائی سفر اور اس کی بقا کا مسئلہ اٹھایا ہے اور اپنے سنجیدہ افکار و خیالات کی بنیاد پر مستقبل کی روشنی میں ادب اور فن کو ایک سہی سمت دینے کی کوشش کی ہے ۔

ان تمام ذہنی و فکری کوششوں کے باوجود دیویندر اسر خائف ہیں اُس نئی صورت ِ حال سے جو تکنیکی انقلابات کے زیرِ اثر ادب اور

فن اور اس کے ذرائع کو مسلسل متاثر کر رہی ہے ۔ بلکہ چاروں اطراف سے یہ خطرہ لاحق ہے کہ الفاظ پر مبنی فکری پیٹرن کا پورا نظام درہم برہم ہو جائے گا یعنی ادب کا خاتمہ لازمی ہے ۔ کیونکہ ما بعد جدیدیت کے اس دور میں الیکٹرانک میڈیا نے پرنٹ میڈیا پر فوقیت حاصل کر لی ہے اور ادب پرنٹ میڈیا کا ایک مختصر سا جز ہے ۔ اسر لکھتے ہیں :

’’اب سوال محض ناول ، افسانے یا روایتی شاعری کے خاتمے کا نہیں بلکہ ادب کے بے عمل اور خارج از بحث ہونے کا ہے ۔ ’’زبان ‘‘ اور پرنٹ کے ’’ متروک ‘‘ہونے کا ہے ۔ ژاک دریدا نے ردِتشکیل کے اصول کے تحت اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ادبی تحریروں کی زبان مصنف کے تعصبات اور ان صداقتوں جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتی ہے ۔ اب بحث کا موضوع ادب میں ترسیل کی ناکامی نہیں بلکہ ادب کی نزاعی صورت ِ حال ہے ۔ سوال یہ نہیں کہ عام لوگوں سے لے کر اشرافیہ تک ’’ ادبی کتابوں ‘‘ سے اُوب محسوس کرنے لگے ہیں بلکہ یہ ہے کہ خود ادیب جن کے وجود کی سند ہی ادبی تخلیق ہے ، ادب کے مستقبل کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں ‘‘ ( ۶) ۔

اسر کے مطابق موجودہ معاشرہ اقدار کے بجائے واقعات اور اطلاعات پر مبنی ہے ۔ جس میں ادب کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ اہمیت آج Data Bank کو حاصل ہے ۔ سائنس اور تکنالوجی کے اس دور میں تخیل ، وجدان ، فکر اور احساس کی قطعی ضرورت باقی نہیں رہی ۔ سماج کو نئی شکل دینے میں فکر سے زیادہ میکانیکی ذرائع کا رول زیادہ اہم ثابت ہو رہا ہے ۔ الیکٹرانک انفارمیشن تکنالوجی ، ٹیلی گراف ، ٹیلی ویژن ،ٹیلی فون اور کمپیوٹر بلکہ آج تو انسان اِن سے بھی بہت آگے نکل آیا ہے ۔ یہ تمام تکنیکی ذرائع مشترکہ طور پر انسانی تہذیب کو نئی شکل دینے اور سماجی نوعیت کو مسلسل تبدیل کرنے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں ۔

دیویندر اسر تکنالوجی اور ماس میڈیا کے دونوں پہلوئوں پر نظر ڈالتے ہیں ۔ اسر کا ماننا ہے کہ اگر ایک طرف وہ کلچر میں بڑی تبدیلی لاکر ادب و فن کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہے تو دوسری طرف اگر غور کیا جائے تو آج کے موجودہ دور میں حالات سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے ادب و فن کی بحالی بھی ماس میڈیا اور تکنالوجی ہی سے ممکن ہے ۔

دیویندر اسر کا سوال درست ہے کہ تکنالوجی جس تہذیب کی پرورش کر رہی ہے اسے انسانی علوم کے فلسفہ ، فن اور ادب کی تہذیب کے دائرے میں کیسے لایا جائے تاکہ ایک جامع کثرتیاتی کلچر کا ارتقا ء ممکن ہو سکے ۔ در اصل اسر تمام حالات اور صورت ِ حال کو مستقبل کی نظروں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، چاہے ادب و فن کا مسئلہ ہو یا سماجی اور تہذیبی اقدار کا ۔ وہ سپر ڈالنے کے فلسفے میں یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی انسان کے مقدر کو شکست و ریخت کے عمل سے تعبیر کرتے ہیں ، بلکہ ان کے نزدیک انسان کے لئے خود اپنے وجود اور اپنی سماجی و تہذیبی اقدار کی بقا کے لئے حالات کو سمجھنا ، ان سے نبردآزما ہونا ،ان کو سہی رخ دینا اور ان پر غالب آنا ہی دانشورانہ تدابیر ہیں ، جو انسان کو ، اس کی تمام اقدار کے ساتھ مستقل ارتقائی سفر کی طرف گامزن کرتی ہیں اور اسی میں ادب اور فن کی بقا بھی پوشیدہ ہے ۔

حواشی  

۱ ۔      متبادل تنقید اور دیویندر اسر مشمولہ ایک دانشور ایک مفکر :دیویندر اسر ، مرتب نند کشور وکرم ، پبلی شرزاینڈ ایڈورٹائزرز ، دہلی ، ۲۰۱۳ ء  ص ۔ 170

۲ ۔     مستقبل کے روبرو ، پبلی شرز اینڈ ایڈورٹائزرز ، دہلی ، ۱۹۸۶ ء  ص ۔ ۱۲۱

۳ ۔     ایضا ً  ص ۔ ۱۱۸

۴۔      ادب کی آبرو ، پبلی شرز اینڈ ایڈورٹائزرز ، دہلی ، ۱۹۹۶ ء  ص ۔ ۵۸ ۔ ۵۷

۵۔      ادب اور جدید ذہن ، مکتبہ شاہراہ ، دہلی ، ۱۹۶۸ ء  ص ۔ ۸۱ ۔ ۸۰

۶ ۔       ادب کی آبرو ، پبلی شرز اینڈ ایڈورٹائزرز ، دہلی ، ۱۹۹۶ ء  ص ۔ ۱۷۳

***

Leave a Reply