You are currently viewing ’’دیپک بدکی‘‘ کی افسانہ نگاری کا تجزیاتی مطالعہ

’’دیپک بدکی‘‘ کی افسانہ نگاری کا تجزیاتی مطالعہ

مہرالنساء

 

’’دیپک بدکی‘‘ کی افسانہ نگاری کا تجزیاتی مطالعہ

 

 دیپک بدکی کی شخصیت ہندوستانی ادب کے افق پر ایک ایسی روشنی کی مانند ہیں جنھوں نے اردو اور ہندی افسانہ نگاری کو اپنی حقیقت پسندانہ، سماجی شعور سے بھرپور اور انسانی جذبات کی گہرائیوں کو چھوتی تحریروں کے ذریعے نئی جہتیں عطا کیں۔ ان کی افسانوی کائنات ایک ایسی عظیم دنیا ہے جہاں عام آدمی کی زندگی، اس کی چھوٹی چھوٹی جدوجہد، اور معاشرتی ڈھانچے کے پیچیدہ تضادات نہ صرف عکاسی کرتے ہیں بلکہ قاری کو گہرے سماجی اور نفسیاتی سوالات سے روبرو کراتے ہیں۔ بدکی کی کہانیاں صرف کہانیاں نہیں، بلکہ ایک مکمل سماجی، ثقافتی، اور انسانی تجربے کا آئینہ ہیں جو ہندوستانی معاشرے کی روح کو گرفت میں لیتی ہیں۔انھوں نے اپنی تحریروں میں اکثر معاشرتی ناہمواری، انسانی جذبات، اور روزمرہ کی زندگی کے مسائل کو گہرائی سے پیش کیا ہے۔

دیپک بدکی کی مشہور کہانیوں میں’’ گونگے سناٹے‘‘، ’’ایک انقلابی کی سرگزشت‘‘، ’’دودھ کا قرض‘‘، ’’ہرکارہ‘‘، ’’اب میں وہاں نہیں رہتا‘‘، ’’ایک معصوم کی المناک موت‘‘، ’’آگ کا دریا‘‘،’’اپنے اپنے زاویے‘‘، ’’میری کہانی کا کردار‘‘،’’جاگتی آنکھوں کا خواب‘‘، ’’ڈاک بابو‘‘، ’’لہو کے گرداب‘‘، ’’طالب بہشت‘‘، ’’ایک بے کار آدمی کی کہانی‘‘، ’’گواہوں کی تلاش‘‘، ’’موت کا کنواں‘‘، ’’پرت در پرت لوگ‘‘، ’’یوم حساب‘‘، ’’فرض شناس‘‘، ’’اندھیر نگری‘‘، ’’رشتوں کا درد‘‘، ’’جاگو‘‘، ’’بٹی ہوئی عورت‘‘، ’’کینچلی‘‘،’’ڈرفٹ وُڈ‘‘، ’’ڈائننگ ٹیبل‘‘، ’’ادھورے چہرے‘‘، ’’خودکشی‘‘، ’’ایک ہی خط‘‘، ’’کالا گلاب ‘‘، ’’ادھ کھلی ‘‘، ’’بیسوا‘‘ ، ’’اچانک‘‘ ،’’بکھرے ہوئے لمحوں کا سراب‘‘، ’’ریزے‘‘، ’’راکھ کا ڈھیر‘‘، ’’پھٹا ہوا البم‘‘، ’’بھیگی پلکوں پر اترے خواب ‘‘، ’’کینی بل ‘‘ ، ’’کتے والی عورت‘‘، ’’جڑوں کی تلاش‘‘، ’’روح کے زخم‘‘، ’’بیوی نہیں باندی چاہیے‘‘، ’’برف کا پتلا‘‘، ’’پریشاں خوابوں کا سلسلہ ‘‘، ’’خاموشیوں کی چیخ‘‘، ’’زخموں کے اجالے‘‘، ’’عقیدوں کے چراغ‘‘، ’’تہذیب کا تسلط‘‘، ’’ایک سیکولر انسان کی موت‘‘ وغیرہ اہم کہانیاں ہیں۔

بدکی کے افسانوں کے موضوعات وسیع اور متنوع ہیں،ان کے افسانوی کینوس میں معاشرتی ناہمواریوں، انسانی رشتوں کی پیچیدگیوں، اور سماجی نظام کی خامیوں کی عکاسی بھر پور طور پر ملتی ہے۔اسی طرح ان کی کہانیاں غربت، طبقاتی تفاوت، بیوروکریسی کی بے حسی، ترقی کے نام پر ہونے والی تباہی، اور انسانی خودداری جیسے مسائل کے گرد و پیش منظم و مبسوط احاطہ کرتی ہیں۔ ان کے افسانوں کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ ان مسائل کو ایک عالمگیر تناظر میں پیش کرتے ہیں، جو صرف ہندوستانی معاشرے تک محدود نہیں بلکہ ہر اس سماج سے جڑتا ہے جہاں انسان اپنی جگہ بنانے کے لیے جدوجہد کررہاہے۔

دیپک بدکی کا مشہور افسانہ ’’ڈاک بابو‘‘اس کی ایک بہترین مثال ہے۔دیپک بدکی کی یہ کہانی انگریزوں کے بنائے ڈاک نظام اور اس کے قواعد و ضوابط کے تسلسل کو بیان کرتی ہے، جو آزادی کے بعد بھی ہندوستان میں جاری ہیں۔ مصنف انگریزوں کے بنائے پیچیدہ قوانین اور ان کی مقامی ترامیم کے مضحکہ خیز نتائج پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ڈاک خانوں کے معائنہ سوالنامہ کو 400 سے 100 سوالات تک کم کرنے کی کوشش، جو دراصل سوالات کو گھما پھرا کر ایک میں سمو دینے کی چالاکی تھی، دکھاتی ہے کہ نئے احکامات اکثر پرانے سے بدتر ہوتے ہیں۔ اس سے ڈاک خانوں میں غبن اور بدعنوانی کے واقعات بڑھتے ہیں۔مصنف جو اس افسانے کے راوی بھی ہیںاپنے تجربے کے ذریعے ایک گاؤں کے ڈاک خانے کے معائنہ کی کہانی سناتے ہیں، جہاں وہ ایک انسپکٹر کے ساتھ جاتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں سائیکل پر گاؤں پہنچنے کے بعد وہ ایک عمر رسیدہ لیکن چست برانچ پوسٹ ماسٹر سے ملتے ہیں، جو گاؤں میں معتبر شخصیت ہے۔ گاؤں والوں کا پوسٹ ماسٹر پر مکمل بھروسہ ہے، حتیٰ کہ وہ بغیر رسید کے پیسے جمع کرواتے ہیں، جو قواعد کے خلاف ہے۔ انسپکٹر اسے گاؤں کی روایت قرار دیتا ہے، جہاں امانت داری کو ضابطوں سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔راوی کی زبانی افسانہ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’برانچ آفس کا انسپکشن کرنے میں ایک دو گھنٹے لگ گئے۔ انسپکٹر نے مجھے اس کی باریکیاں سمجھائیں۔ اس درمیان چائے وغیرہ بھی پی لی۔ چائے پیتے وقت بی پی ایم اندر چلے گئے اور میں نے موقع غنیمت سمجھ کر انسپکٹر سے پوچھا: ‘’جب ہم تھوڑی دیر پہلے یہاں آ رہے تھے تو ایک گاؤں والے نے پوسٹ ماسٹر کو ایک ہزار روپے تھما دیے۔ نہ کو ئی رسید اور نہ کوئی ٹھپا۔ یہ تو قواعد و ضوابط کے خلاف ہے۔‘‘

’’ارے سر، کتابوں میں لکھے پر یہ دنیا تھوڑی ہی چلتی ہے۔ گاؤں میں پوسٹ ماسٹر کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے۔ اس پر ہر کوئی اعتبار کرتا ہے۔ وہ تو کسی کی امانت کو خرد برد کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘

’’مگر قواعد و ضوابط کا کچھ تو خیال رکھنا پڑتا ہے۔‘‘

افسانہ ڈاک بابو، مجموعہ: اب میں وہاں نہیں رہتا، دیپک بدکی،سنہ 2016،ص:ـ 110-111

ڈاک خانہ پوسٹ ماسٹر کے گھر میں ہے، جہاں گھریلو ماحول اور روایتی مہمان نوازی دیکھنے کو ملتی ہے۔ معائنہ کے دوران مصنف گاؤں کی سادگی اور پوسٹ ماسٹر کی بیک وقت پیشہ ورانہ ذمہ داری اور روایتی کردار سے متاثر ہوتے ہیں۔ کہانی کا اختتام گاؤں والوں کے گرمجوشی سے رخصت کرنے اور مصنف کے اس تجربے سے متاثر ہونے پر ہوتا ہے، جو انہیں شہری بدعتوں سے پاک گاؤں کی سادگی اور روایات کی قدر سکھاتا ہے۔یہ کہانی انگریزی نظام کے اثرات، مقامی روایات، اور گاؤں کی زندگی کے تضاد کو طنزیہ لیکن دلچسپ انداز میں پیش کرتی ہے۔ دیپک بدکی نے گاؤں کی قدیم روایت کی پاسداری کو اس افسانے میں کس فنکارانہ مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے:

’’پوسٹ ماسٹر کی چھوٹی بہو جلدی سے ٹرے میں مٹکے کا ٹھنڈا پانی اور مٹھائی لے کر آئی اور سب کو پیش کرنے لگی۔ بہت ہی خوبصورت تھی۔ معلوم ہوا دو سال پہلے ہی شادی ہوئی تھی اور ابھی کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ سسر سامنے ہونے کے سبب گھونگھٹ کچھ زیادہ ہی نیچے کر کے چل رہی تھی۔ اس کے لمبے کالے بال نیم شفاف ساڑی کے اندر چندن کے پیڑ سے لپٹے ہوئے سانپ کی مانند لگ رہے تھے۔ ایڑیوں میں پائل لگی ہوئی تھی جس کی جھنکار نے فضا میں صوتی آہنگ پیدا کر دیا۔ وہ شرماتی لجاتی آئی اور مجھے پانی اور مٹھائی پیش کی۔ میں اس کی چوڑیوں سے بھری ہوئی گوری کلائی کو دیکھتا رہ گیا۔ شاید اس کو بھی میرے اس رد عمل کا احساس ہو گیا۔ اس لیے مجھے پانی اور مٹھائی تھما دی اور آنچل کے نیچے سے مسکرا نے لگی۔ پھر جلدی سے گھوم کر واپس اندر چلی گئی۔ واپسی میں اس کی چال میں غزالوں کی سی پھرتی آ گئی۔‘‘

افسانہ ڈاک بابو، مجموعہ: اب میں وہاں نہیں رہتا، دیپک بدکی،سنہ 2016،ص:ـ 110

دیپک بدکی ایک اور کہانی ’’ایک انقلابی کی سرگزشت‘‘وحید الدین چودھری عرف وحید بھارتی کی زندگی کی داستان ہے، جو ایک انقلابی شاعر اور کمیونسٹ کارکن کے طور پر اپنی جوانی کے خوابوں، جدوجہد، اور مایوسیوں کو بیان کرتی ہے۔ وحید، جو اسی سال کی عمر میں اپنی زندگی کا جائزہ لیتا ہے، بتاتا ہے کہ اس نے بچپن میں غلامی، غربت، اور قحط کے سائے میں زندگی گزاری۔ جوانی میں وہ مارکسزم، ترقی پسند تحریک، اور انقلابی شاعری سے متاثر ہوا، اور کمیونزم کو غریبوں کی نجات کا راستہ سمجھا۔ اس نے اپنا نام وحید بھارتی رکھ کر اپنی قومی شناخت کو اجاگر کیا۔آزادی کے بعد اس کے انقلابی خواب چکناچور ہوئے۔ وہ دیکھتا ہے کہ انگریزوں کے بنائے سرمایہ دارانہ نظام کو اعتدال پسندوں نے برقرار رکھا، جبکہ کمیونسٹ پارٹی انتشار کی شکار ہوئی۔ بنگال، کیریلا، اور تریپورا میں کمیونسٹ حکومتیں اقتدار میں آئیں، لیکن وہ مساوات اور سوشلزم کے وعدوں سے ہٹ کر انتخابی سیاست، مذہبی رسومات، اور ذاتی مفادات میں مگن ہو گئیں۔ وحید مایوس ہوتا ہے کہ غربت، استحصال، اور ذات پات کے خلاف جدوجہد کے بجائے ہڑتالیں اور تخریبی سرگرمیاں بڑھتی ہیں، جبکہ رہنما سبسڈیوں اور ووٹ بینک کی سیاست میں مصروف رہتے ہیں۔وحید کی زندگی میں صاعقہ نصیری، ایک جذباتی اور نڈر لڑکی، اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وہ اس کی شاعری کی مداح ہے اور دونوں میں محبت پروان چڑھتی ہے۔ لیکن صاعقہ نکسلی تحریک سے جڑ جاتی ہے، جو وحید کے نظریات سے متصادم ہے۔ وہ سرمایہ داری، ماحولیاتی تباہی، اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف غم و غصے سے بھری ہے اور بندوق کے ذریعے انقلاب لانے کی بات کرتی ہے۔ وحید اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ جمہوریت میں تبدیلی وقت مانگتی ہے، لیکن صاعقہ اسے مسترد کرتی ہے۔ دونوں کے راستے جدا ہو جاتے ہیں۔وحید غریبوں کی خدمت جاری رکھتا ہے، لیکن صاعقہ کی نکسلی سرگرمیوں کی وجہ سے اسے پولیس کی تفتیش اور سماجی طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا دوست سومناتھ اسے طنزاً کہتا ہے کہ اس کا “بھارتی” ہونا اسے مشکوک بناتا ہے اور اسے پاکستان چلا جانا چاہیے تھا۔ وحید اپنی شناخت اور قربانیوں پر سوال اٹھتے دیکھ کر ٹوٹ جاتا ہے۔آخر میں، صاعقہ اور اس کے ساتھی شاہ نواز کو سیکورٹی فورسز پکڑ لیتی ہیں۔ ان پر وحشیانہ تشدد کیا جاتا ہے اور ان کی لاشیں جنگل میں ملتی ہیں، جسے پولیس انکاؤنٹر قرار دیتی ہے۔ وحید کا صاعقہ کے ساتھ گھر بسانے کا خواب ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ اپنی خالی آنکھوں، خالی ذہن، اور خالی دل کے ساتھ ماضی کی تبدیلیوں اور موجودہ صارفی دنیا کو ایک تماشائی کی طرح دیکھتا ہے۔ وہ سوشلزم اور کمیونزم کے نظریات کو اب متروک سمجھتا ہے، لیکن اپنے اصولوں پر قائم رہتا ہے، حالانکہ اسے احساس ہے کہ وہ ایک بدلتی دنیا میں محض ایک شاہ مار کی مانند اپنے نظریات کی حفاظت کر رہا ہے۔یہ کہانی ایک انقلابی کے عزائم، محبت، مایوسی، اور سماجی تبدیلیوں کے تناظر میں اس کی ذاتی اور نظریاتی شکست کی دلخراش تصویر پیش کرتی ہے۔افسانہ’’ ایک انقلابی سرگزشت ‘‘ یہ ابتدائیہ ملاحظہ ہو:

’’میری بوڑھی آنکھوں نے اسّی بہاریں اور اسی پت جھڑ دیکھے ہیں۔ بہار تو خیر نام کے لیے آتی تھی ورنہ جن دنوں میں چھوٹا تھا میں نے کہیں چمن میں گل کھلتے دیکھے ہی نہیں۔ ہر طرف سیلاب، سوکھا، قحط، بھوک مری، غلامی اور بیروزگاری نظر آتی تھی۔ ملک پر فرنگیوں کا قبضہ تھا جو ہمیں غلامی کی زنجیروں میں ہمیشہ جکڑ کر رکھنا چاہتے تھے۔ ان کا قول تھا کہ ہندستانیوں کو اپنا ملک چلانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ادھر میں زندگی کے زینے چڑھتا گیا، ادھر ملک کروٹیں لیتا رہا۔ کہیں عدم تشدد کا صور پھونکا جا رہا تھا اور کہیں تشدد لہو کی لکیریں کھینچ رہا تھا۔ کسی کے ہاتھ میں چرکھے والا ترنگا نظر آ رہا تھا اور کسی کے ہاتھ میں درانتی ہتھوڑے والا سرخ پرچم۔

جوانی میں انقلاب، بغاوت اور جدلیات کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ ابلتا خون رگ رگ میں دوڑنے لگتا ہے۔ سو میں نے بھی اپنی آنکھوں میں نئے عزم اور انقلاب کے خواب سنجوئے۔ مارکس، اینگلز اور لینن کو اپنا رہنما بنایا، پشکن، گورکی، دوستوفیسکی اور چیخوف کا مطالعہ کیا، ترقی پسند تحریک کا حصہ بن گیا اور احمری رہنماؤں کی خوش الحانی سے محظوظ ہوتا رہا۔ میں اس بات کا قائل ہو گیا کہ قوم کی تعمیر انفرادی ضرورتوں سے زیادہ اہم ہے۔

افسانہ ایک انقلابی کی سرگزشت، مجموعہ: اب میں وہاں نہیں رہتا، دیپک بدکی،سنہ 2016،ص:ـ 20

دیپک بدکی کی کہانی ’’فرض شناس‘‘ کشمیر کی وادی میں دہشت گردی اور افراتفری کے دور میں ایک ڈاک ملازم، سلطان ڈار، کی فرض شناسی اور قربانی کی کہانی بیان کرتی ہے۔ مصنف، جو ڈائریکٹر کے عہدے پر ہیں، ایک مشکل وقت میں ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں جب ہڑتالیں، مظاہرے، بم دھماکے، اور انتظامیہ کے خلاف منظم حملے عروج پر ہیں۔ ڈاک خانے آسان ہدف بنتے ہیں، جہاں لیٹر بکس اکھاڑے جاتے ہیں، عمارتیں لوٹی جاتی ہیں، اور گاڑیاں جلائی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود ڈاک ملازم اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ایک دن خانیار کے ڈاک خانے میں بم دھماکے کی خبر ملتی ہے۔ راوی خطرے کے باوجود یونین لیڈر کے ساتھ وہاں پہنچتے ہیں۔ دھماکے سے ڈاک خانے کی سیڑھی تباہ ہو چکی ہے، لیکن راوی چھلانگیں لگا کر دوسری منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں پوسٹ ماسٹر سلطان ڈار کو شدید سینے کے درد کے باوجود حساب کتاب ملاتے ہوئے پاتے ہیں۔ وہ پسینے سے شرابور اور کانپتے ہاتھوں سے کام کر رہا ہے، کیونکہ اسے 230 روپے کی کمی نظر آ رہی ہے۔ مصنف اور یونین لیڈر اسے گھر جانے اور ڈاکٹر سے ملنے کی صلاح دیتے ہیں، لیکن سلطان ڈار اپنی فرض شناسی کی وجہ سے انکار کرتا ہے۔ وہ اس وقت تک کام جاری رکھتا ہے جب تک گروپ ڈی ملازم اسے یاد دلاتا ہے کہ صبح کوئلہ خریدنے کے لیے دیے گئے 230 روپے کی رسید جرنل میں ہے۔ اس کے بعد حساب مل جاتا ہے، اور سلطان ڈار ایک رشتے دار کے ساتھ گھر چلا جاتا ہے۔مصنف کو سلطان ڈار کی دیانت داری پر فخر ہوتا ہے، لیکن افسوس بھی ہے کہ وہ اپنی صحت پر توجہ دینے کے بجائے حساب ملانے میں وقت ضائع کرتا رہا۔ اگلے دن معلوم ہوتا ہے کہ سلطان ڈار کو ہسپتال میں داخل کیا گیا، لیکن دہشت گردی کی وجہ سے ہسپتالوں کی بدتر حالت کے باعث اس کی مناسب دیکھ بھال نہ ہو سکی۔ دو دن بعد وہ انتقال کر جاتا ہے۔راوی سلطان ڈار کو ڈاک سیوا ایوارڈ دلوانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن افراتفری، دفتر کی منتقلی، اور ملازمین کے وادی چھوڑنے کی وجہ سے اس کی فائل گم ہو جاتی ہے۔ سلطان ڈار کی تنہائی اور کسی یونین سے وابستگی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے کیس کی پیروی نہیں ہوتی۔ مصنف کو اس بات کا دکھ ہے کہ ایک فرض شناس ملازم کی قربانی کو نہ اس کے ساتھیوں نے قدر دانی دی اور نہ ہی یونین نے اس کے لیے آواز اٹھائی۔ وہ اسے جنت کا حق دار سمجھتا ہے، لیکن اس کی کہانی گمنامی میں گم ہو جاتی ہے۔یہ کہانی ایک عام ڈاک ملازم کی غیر معمولی دیانت داری، فرض کے لیے جان کی بازی لگانے، اور سماجی افراتفری میں اس کی قربانی کے نظرانداز ہونے کی دلخراش تصویر پیش کرتی ہے۔

دیپک بدھی کی ایک شاہکار کہانی ’’دودھ کا قرض ‘‘ بھی ہے۔ اس کہانی میں انھوں انھوںایک معصوم لڑکے اقبال ریشی کی کہانی کو بیان کیا ہے، جو کشمیر میں دہشت گردی میں اپنے والدین کو کھو دیتا ہے اور ایک اجنبی عورت رحمتی کی مہربانی سے نئی زندگی پاتا ہے۔ کہانی کشمیر کی ایک بستی سے شروع ہوتی ہے جو رات بھر دہشت گردوں اور پولیس کی مڈبھیڑ میں آگ کی نذر ہو جاتی ہے۔ دس سالہ اقبال اپنے والدین، پریم ناتھ پریم اور ان کی اہلیہ، کو مسلح افراد کے ہاتھوں انسانی ڈھال بنتے دیکھتا ہے۔ دہشت گرد پولیس سے بچنے کے لیے انہیں آگے کر کے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن مڈبھیڑ اور آگ میں اقبال کے والدین سمیت سب مارے جاتے ہیں۔ اقبال چھپ کر بچ جاتا ہے اور خوفزدہ ہو کر بھاگتا ہے، لیکن ایک میل دور نئی بستی میں بے ہوش ہو کر گر جاتا ہے۔

رحمتی، ایک مہربان عورت، صبح سویرے اقبال کو سڑک پر بے ہوش دیکھتی ہے۔ وہ اسے پانی پلاتی ہے، گھر لے جاتی ہے، اور اس کے خوف کو اپنی ممتا سے دور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اقبال اپنی داستان سناتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس کا ماما سرینگر کے جنرل پوسٹ آفس میں کام کرتا ہے اور اس کی بہن چنڈی گڑھ میں رہتی ہے۔ رحمتی اپنے بیٹے سجاد کو فوراً اقبال کو اس کے ماما تک پہنچانے کا حکم دیتی ہے۔ اس سے پہلے وہ اقبال کو دودھ اور باقر خانی کھلاتی ہے، اسے پیار سے لالہ کہتی ہے، اور اس کے روشن مستقبل کی دعا دیتی ہے۔ سجاد اقبال کو ماما کے پاس پہنچاتا ہے، جو اسے جموں اور پھر چنڈی گڑھ اپنی بہن کے پاس بھیج دیتا ہے۔چنڈی گڑھ میں اقبال اپنی بہن کی سرپرستی میں پلتا ہے۔ کشمیری پنڈت مہاجروں کی طرح وہ مشکل حالات میں بھی ہمت نہیں ہارتا۔ وہ محنت سے پڑھتا ہے، گورنمنٹ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس اور پی جی آئی ایم ای آر سے ایم ایس کی ڈگری حاصل کرتا ہے۔ پھر امریکہ جا کر کینسر میں سپیشلائزیشن کرتا ہے اور دہلی کے کینسر سپر اسپیشلٹی ہسپتال میں ماہر ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ وہ اپنے پیشے کو عبادت سمجھتا ہے اور ہر بزرگ مریض میں اپنے والدین کی جھلک دیکھتا ہے۔ اس کی دردمندی اسے مشہور کر دیتی ہے۔ برسوں بعد، ایک بوڑھی مریضہ ہسپتال میں داخل ہوتی ہے، جسے دیکھ کر اقبال کو اپنی ماں یاد آتی ہے۔ وہ اس کا بغور معائنہ کرتا ہے اور کینسر کی رسولی نکالنے کے لیے آپریشن کی صلاح دیتا ہے۔ مریضہ کے بیٹے اور شوہر کو بتایا جاتا ہے کہ ہسپتال کا خرچہ دو لاکھ اور ڈاکٹر کی فیس تین لاکھ ہوگی۔ آپریشن کامیاب ہوتا ہے، لیکن جب بل آتا ہے تو صرف دو لاکھ کا ہوتا ہے۔ حیران ہو کر مریضہ کا بیٹا تحقیقات کرتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ مریضہ رحمتی ہے، وہی عورت جس نے برسوں پہلے اقبال کی جان بچائی تھی۔ ڈاکٹر اقبال نے اپنی فیس کے بل پر لکھا کہ اس کی فیس پینتیس سال پہلے ایک گلاس دودھ کی شکل میں مل چکی ہے۔ جب سجاد، رحمتی کا بیٹا، ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو پتہ چلتا ہے کہ اقبال ضروری کام سے امریکہ جا چکے ہیں۔یہ کہانی انسانیت، مہربانی، اور احسان مندی کی خوبصورت تصویر پیش کرتی ہے، جو مذہبی اور سماجی تقسیم کو مٹا کر ایک دوسرے کے لیے محبت اور خدمت کے جذبے کو اجاگر کرتی ہے۔ اقبال اپنی ماں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے رحمتی کے احسان کا بدلہ اس کی جان بچا کر ادا کرتا ہے، اور دودھ کا قرض چکاتا ہے۔اس کہانی کا اختتام انتہائی ڈرمائی انداز میں ہوتا ہے اور قارئین کو لمبے وقت تک سحر میں گرفتار رکھتا ہیـ:

ریسپشن کلرک کو تعجب ہوا کہ عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ بل بہت زیادہ ہے، ہم نے فلاں چیزیں استعمال نہیں کیں یا پھر فلاں چیزیں ہسپتال کو لوٹا دیں مگر یہ پہلا صارف ہے جو کہہ رہا ہے کہ بل کم کیوں ہے؟ وہ مخمصے میں پڑ گئی اورسامنے کھڑے آدمی کو مشورہ دیا کہ اندر دفتر میں جا کر منیجر سے رجوع کر لے کیونکہ انھیں ان باتوں کا سارا علم رہتا ہے۔ مریضہ کا بیٹا جلدی سے دفتر کے اندر چلا گیا اور منیجر سے جا ملا، وہاں اس نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ منیجر نے اس کا استقبال ہلکی سی مسکراہٹ سے کیا۔ پھر مریضہ کی پوری فائل الماری سے نکالی اور اس کے سامنے رکھ دی۔ فائل میں سارے کاغذات موجود تھے اور سب سے اوپر ڈاکٹر کا تین لاکھ کا بِل نتھی کر کے رکھا ہوا تھا۔ اس بل پر ڈاکٹر نے اپنے ہاتھ سے مندرجہ ذیل عبارت رقم کی تھی۔

‘’ہسپتال اور ادویات کا جو بھی خرچہ ہو، وہ مریضہ سے وصول کر لیا جائے۔ جہاں تک ڈاکٹر کی فیس کی رقم کا تعلق ہے وہ پینتیس سال پہلے ایک دودھ کے گلاس کی شکل میں وصول ہو چکی ہے۔ میں رحمتی کی صحتیابی کی دعا کرتا ہوں۔ ڈاکٹر اقبال ریشی‘‘

افسانہ دودھ کا قرض، مجموعہ: اب میں وہاں نہیں رہتا، دیپک بدکی،سنہ 2016،ص:ـ 41

دیپک بدکی نے افسانہ’’گونگے سناٹے‘‘ میں منوہر کھرے اور اس کی بیوی کی غیر ذمہ دارانہ زندگی کی کہانی کو پیش کیا ہے، جو اپنی بیٹی چندریکا کو نظرانداز کرتے ہیں۔ منوہر، اپنے دوست دامودر پٹیل کی مہربانی سے گیسٹ ہاؤس میں رہتا ہے اور شراب و شباب کی محفلوں میں مگن رہتا ہے۔ اس کی بیوی، ایک آزاد خیال عورت، ممبئی میں الگ رہتی ہے اور کاروبار کے لیے دنیا بھر گھومتی ہے۔ دونوں اپنی جوان بیٹی چندریکا کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں، جو منوہر کے ساتھ رہتی ہے۔ ایک روز منوہر کی بیوی نوکرانی پر اس کے شوہر کے ساتھ تعلقات کا الزام لگا کر اسے مارنے آتی ہے۔ راوی، جو پڑوسی ہے، نوکرانی کو بچاتا ہے اور دونوں میاں بیوی سے چندریکا کی نظرانداز کی وجہ پوچھتا ہے۔ مسز کھرے اپنی مصروفیات کا بہانہ بناتی ہے، جبکہ منوہر چندریکا کو ’’جنسی تربیت‘‘ دینے کا شرمناک دعویٰ کرتا ہے ۔ راوی کی زبانی :

’’اس کی بات سن کر مجھے ہزار وولٹ کا جھٹکا لگا۔ ‘’ایک باپ اپنی بیٹی کو ازدواجی زندگی کے لیے تربیت دے رہا ہے۔ یہ کس صحیفے میں لکھا ہوا ہے۔ ماں اپنی بیٹی کو ازدواجی زندگی کے لیے تیار کرے، یہ تو میں نے سن لیا تھا مگر باپ اپنی بیٹی کو سیکس سے متعارف کرائے، یہ تو میں نے پہلی بار سن لیا۔’‘

مسز کھرے بپھر گئی۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ پھر سے الجھ گئی مگر شوہر اپنی بات پر ڈٹا رہا۔ میں نے بات کاٹنا ہی مناسب سمجھا۔ اس لیے نوکرانی کو ہدایت دینے لگا۔ ‘’دیکھو تم رات بھر یہیں ڈرائنگ روم میں سو جاؤ اور صبح ہوتے ہی اپنے گھر چلی جانا۔ سمجھے۔ ابھی تم اپنے لیے کچن میں دو چار روٹی بنا لو۔ فرِج میں کچھ سبزی پڑی ہوئی ہے اس کے ساتھ کھا لینا۔’‘

افسانہ گونگے سناٹے، مجموعہ: اب میں وہاں نہیں رہتا، دیپک بدکی،سنہ 2016،ص:ـ 18

 راوی، چندریکا کی اداسی اور گھر کے گھنونے ماحول سے پریشان، مسز کھرے کو بیٹی کو ساتھ لے جانے کی صلاح دیتا ہے۔ اگلے دن مسز کھرے ممبئی چلی جاتی ہے، لیکن چندریکا وہیں رہ جاتی ہے، اپنی اداسی اور زخمی وجود کے ساتھ۔ یہ کہانی خاندانی ذمہ داریوں کی نظراندازی اور ایک معصوم لڑکی کے استحصال کی دلخراش تصویر پیش کرتی ہے۔

’’لہو کے گرداب‘‘ میں دیپک بدکی نے بنگلادیشی لڑکی عذرا کی داستان کو بیان کیا ہے، جو دلال کے جھانسے میں آکر ممبئی کام کی تلاش میں آتی ہے۔ دلال سفر میں غائب ہو جاتا ہے، اور عذرا اکیلی ممبئی پہنچتی ہے۔ ریلوے سٹیشن سے بھاگ کر وہ پولیس حوالدار گوپال شندے کے ہاتھ لگتی ہے، جو اسے اپنے گھر لے جا کر قید کر لیتا ہے اور اس کی عزت لوٹتا ہے۔ عذرا، جسے شندے کومل کہتا ہے، حالات سے سمجھوتہ کر لیتی ہے، گھر سنبھالتی ہے، اور ہندی مراٹھی سیکھ کر پڑوسیوں سے میل جول بڑھاتی ہے۔ شندے اس سے شادی کی بات کرتا ہے، لیکن عذرا کے دل میں اس کے ظلم کی آگ سلگ رہی ہے۔مصنف کی زبانی :

’’شادی کا نام سنتے ہی عذرا کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس کے درد کی ٹیسیں دوبارہ ابھر آئیں۔ اسے وہ کالی منحوس رات یاد آئی جب حوالدار گوپال شندے نے اس کو قید کر لیا تھا اور اس کی زندگی تباہ کر لی تھی۔ ظاہری طور پر وہ خوش و خرم دکھائی دیتی تھی مگر یہ چنگاری اس کے وجود میں تب سے سلگتی رہی تھی۔ وہ من ہی من میں سوچنے لگی۔ ‘’تم نے شادی کے لیے چھوڑا ہی کیا جو تم مجھ سے شادی کر لو گے۔ بدن نوچ لیا، روح نوچ لی، سانسیں نوچ لیں اور میرے خواب نوچ لیے۔ تم نے میری روح کا بلاتکار اسی روز کر لیا تھا جب مجھے پکڑ کر گھر لے آئے تھے اور اس چار دیواری میں مقفل کر دیا تھا۔

افسانہ لہو کے گرداب، مجموعہ: اب میں وہاں نہیں رہتا، دیپک بدکی،سنہ 2016،ص:ـ 120

 شندے کے جنم دن پر عذرا اسے شراب پلا کر بے ہوش کرتی ہے اور کلہاڑی سے اس کی گردن کاٹ دیتی ہے۔ انتقام لے کر وہ اطمینان سے جیل جانے کو تیار ہو جاتی ہے، کیونکہ اس کے لیے ایک جیل سے دوسری جیل میں جانا محض چار دیواریوں کا بدلنا ہے۔ یہ کہانی استحصال، غم و غصے، اور انتقام کی دلخراش تصویر پیش کرتی ہے۔

بدکی کی افسانوی کائنات کی سب سے بڑی طاقت ان کی کردار نگاری ہے۔ ان کے کردار خیالی یا غیر معمولی نہیں؛ یہ وہ لوگ ہیں جو ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں،ڈاکخانے کا ملازم، دیہاتی کسان، چھوٹا سرکاری افسر، گلی کا دکاندار، یا گھریلو عورت۔ لیکن بدکی ان کرداروں کی نفسیاتی گہرائی کو اس طرح اجاگر کرتے ہیں کہ وہ ایک عالمگیر انسانی تجربے کی عکاسی بن جاتے ہیں۔ ان کے کردار اپنی سادگی میں عظیم ہیں، اور ان کی جدوجہد ہر اس شخص کی کہانی ہے جو معاشرتی ڈھانچے کے دباؤ میں جیتا ہے۔بدکی کی کہانیوں میں عورتیں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں، اگرچہ وہ اکثر پس منظر میں رہتی ہیں۔ یہ عورتیں اپنے خاندان، سماج، اور حالات سے لڑتی ہیں، اور بدکی ان کی خاموش طاقت کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں جنس، طبقہ، اور سماجی حیثیت کے درمیان تعلقات کو بھی باریکی سے دکھایا گیا ہے۔بدکی کی کردار نگاری کی ایک اور خوبی ان کا حقیقت پسندانہ مکالمہ نویسی ہے۔ ان کے کرداروں کے مکالمے مقامی بول چال سے بھرپور ہوتے ہیں، جو انہیں قابلِ یقین بناتے ہیں۔ وہ اپنے کرداروں کو ایک جاندار حقیقت دیتے ہیں، جو قاری کو یہ محسوس کراتا ہے کہ وہ ان کرداروں کو جانتا ہے۔ ان کی کردار نگاری میں ایک گہرا انسانی لمس ہے، جو ان کے افسانوں کو صرف سماجی عکاسی سے آگے لے جاتا ہے۔

بدکی کا اسلوب ان کی افسانوی کائنات کا ایک اہم ستون ہے۔ ان کی زبان سادہ، روان، اور مقامی بول چال سے بھرپور ہے، جو ہندی اردو ادب کے قارئین کے لیے مانوس اور دلچسپ ہے۔ وہ اپنی کہانیوں میں مقامی لہجوں، محاوروں، اور روزمرہ کی زبان کا استعمال کرتے ہیں، جو ان کے کرداروں اور ماحول کو حقیقت پسندانہ بناتا ہے۔ان کی زبان کی ایک اور خوبی اس کی لچک ہے۔ بدکی شہری اور دیہی دونوں ماحول کو اپنی کہانیوں میں پیش کرتے ہیں، اور ان کی زبان اس ماحول کے مطابق ڈھل جاتی ہے۔ شہری کہانیوں میں ان کی زبان تیز اور طنزیہ ہے، جبکہ دیہی کہانیوں میں وہ زیادہ نرم اور شاعرانہ ہو جاتی ہے۔ انھیں خوبیوں کی وجہ سے دیپک بدکی کی کہانیوں کو اہل ادب کے درمیان قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

Mehrul Nisa

C/O Address: D/O: Abdul Rashid

Bhat, H. No 789, Qadire

Manzil, Near Shahi Masjid, Muslim Colony Bahu Fort, Jammu City,  180006

Leave a Reply