You are currently viewing رامپور کے چند غیرمطبوعہ اردو تذکرے

رامپور کے چند غیرمطبوعہ اردو تذکرے

نظام الحسن

نگراں: پروفیسر سید محمد ارشد رضوی

رامپور کے چند غیرمطبوعہ اردو تذکرے

احمد شاہ ابدالی کے ہندوستان پر حملے کےوقت نواب  علی محمد خاں کے دونوں بڑے فرزند  عبد اللہ خاں اور  فیض اللہ خاں سر ہند کے قلعے میں موجود تھے ۔فتحہ کے بعد احمد شاہ ابدالی دونوں کو اپنے ہمراہ لے گیا کہ انہیں اپنا ہم خیال بنا سکے۔جس کی وجہ سے نواب علی محمد خاں نےاپنے تیسرے بیٹے سعد اللہ خاں کو عارضی طور پر نواب مقرر کیا  تا کہ  عبداللہ خاں کے واپس آنے پر  انہیں نواب مقرر کیا جا سکے۔

1166ھ/1754ء میں جب احمد شاہ ابدالی نے عبد اللہ خاں اور فیض اللہ خاں کو واپس روہیلکھنڈ جانے کی اجازت دی تو نواب علی محمد خاں کی وصیت کے مطابق عبد اللہ خاں کو مسند نشیں کیا گیا۔نواب عبد اللہ خاں کی مسند نشینی کے بعد ایک سال کے اند ر ر وہیلکھنڈ کی دو بار تقسیم عمل میں آئ۔ فیض اللہ خاں کو رامپور کا علاقہ ملا اور نواب عبد اللہ خاں کو اجھیانی جاگیر دی گئ۔

1188ھ/1774ء میں نواب شجاع الدولہ نے انگریزوں کے  اشتراک سے روہیلکھنڈ پر حملہ کیا۔حافظ رحمت خاں اور نواب فیض اللہ خاں کے ساتھ دوسرے روہیلہ سرداروں نے بھی  جنگ میں حصہ لیا۔ حافض رحمت خاں کا گولہ لگنے سے انتقال ہو گیا۔روہیلوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن نواب فیض اللہ خاں نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ نواب فیض اللہ خاں نے اپنی کوششوں سے رامپور کا علاقہ  بچا لیا۔ اس طرح ریاست رامپور کا قیام عمل میں آیا۔

بانئ ریاست رامپور  نواب فیض اللہ خاں اور ان کے شیرک حکومت روہیلے نہ صرف صاحب سیف تھے بلکہ علم و ادب سے بھی غیر معمولی لگاؤ رکھتے تھے اسی لگاؤ کا نتیجہ ہے کہ آج ڈھائ سو سال گزر جانے کے بعد بھی رامپور کو علم وادب کے حوالے سے عالم اردو میں نمایاں شناخت حاصل ہے۔علم و ادب ‘فلسفہ ‎‘ مذہبیات‘موسیقی اور دیگر علوم و فنون پر رامپور میں قابل ذکر حیثیت کے کام ہوئے ہیں‘ ساتھ ہی فن تذکرہ نگاری میں بھی رامپور کی اہمیت سے اسکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں تذکرہ نگاری کی شروعات 1784ء کے لگ بھگ ہوئ اور ”ہشت خلد“کو تذکرہ نگاری  کے تعلق سے نقش اول قرار دیا جاتا ہے۔ ”ہشت خلد“ در اصل  رامپور کے نامور استاد شاعر مولوی غلام جیلانی رفعت کا تذکرہ ہے جس کے متعلق تذکرہ کاملان رامپور میں لکھا ہے:

          ”اشعار حمد و نعت اور سراپائے معشوق اشعار شوقیہ اور احوال عاشق جمع کیے ہیں۔ اس کتاب کی ترتیب میر ضیاء الدین عبرت نے شروع کی ۔اس کے انتقال کے بعد محمد کبیر خاں تسلیم‘کرامت علی‘شجاعت علی‘عنبر شاہ خاں‘مصاحب جنگ‘ہمت ہ خاں وغیرہ تکمیل کرتے رہے۔غلام مصطفےٰ خاں بہادر معروف بہ نجو خاں ولد محمد مستقیم خاں ولد شیخ محمد کبیر خاں کے حکم سے اس کی ترتیب ہو رہی تھی۔“

آزادی ہند کے بعد  سے تا حال تذکرہ نگاری کے حوالے سے رامپور میں کئ اہم  اور قابل قدر کام ہوئے ہیں جن میں حقیقت گلزار صابری(تذکرہ صوفیاء) ‘میرا وطن‘کاروان رامپور(منظوم تذکرہ)  اور نجو خاں شہید جیسے تذکرے اہمیت کے حامل ہیں۔رامپور کے صاحب لہجہ شاعر شبیر علی خاں شیکب نے ’رامپور کا دبستان شاعری‘ کے نام سے  ایک تذکرہ تالیف کیا جس میں طبقات کے  لحاظ سے  ابتدائے ریاست رامپور سے اپنے دور تک کے اہم شعراء کو شامل کیا ہے۔رامپور رضالائبریری سے اس کی اشاعت ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ عتیق جیلانی سالک کا  تذکرہ’دبستان رامپور کا  سیاسی و ثقافتی پس منظر‘ بھی شائع ہو چکا ہے۔رضالائبریری سے ہی 1997ء میں رامپور کے مایہ ناز استاد شاعر ہوش نعمانی کے منظوم  تذکرے’ ادب گاہ رامپور‘ کی اشاعت ہوئ ہے جس میں چار سو کے قریب اردو شعراء و ادباء اور ہندی کوی شامل ہیں۔شبیر علی خاں شکیب کا ایک اور تذکرہ خدا بخش لائبریری پٹنہ سے ’چار بیت‘ اور چار بیت نگاروں کے حالات پر شائع ہو چکا ہے۔

2024ء میں  رامپور کے ایک مایہ نازفرزند اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نئ دہلی کے سابق ڈپٹی رجسٹرار  رضوان لطیف خاں صاحب کی اہم تالیف ’تذکرہ سخنوراں‘ شائع ہوئ ہے جس کو اپنی نوعیت کے اعتبار سے رامپور کا منفرد تذکرہ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ اس میں صرف رامپور ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے اردو شعراء و شاعرات شامل ہیں۔ اس تذکرے  میں پچاس  رامپوری شعراء و شاعرات کے علاوہ ہندوستان  اور پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم شعراء شاعرات بھی شامل ہیں اور ایسے شعراء و شاعرات بھی جن کا قیام جرمنی‘انگلینڈ‘امریکہ یا خلیجی ممالک میں ہے۔

دارالسرور رامپور میں تذکرہ نگاری پر کا فی بڑی تعداد میں کام ہوا ہے جس کا احاطہ ایک مختصر مضمون میں ممکن نہیں پھر  بھی مندرجہ بالا سطور میں رامپور کی مختصر سیاسی و ادبی تاریخ کو اپنے احاطہ تحریر میں لینے کی کوشش کی گئ ہے جسے حرف آخر نہیں کہا جا سکتا ۔اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی رامپور میں ابھی چند ایسے تذکرے موجود ہیں جو ابھی زیبر طبع سے آراستہ نہیں ہو پائے ہیں  جن کا ذکر مندرجہ ذیل ہے۔

تذکرہ طور کلیم یا  تذکرہ کلیم:

          قدرت علی  خاں قدرتؔ نے دیوان نظام ؔکی طباعت کے بعدغالباً 1900 ء   میں ایک تذکرہ ”تذکرہ طورکلیم‘‘ کے نام سے لکھنا شروع کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ تذکرہ مکمل ہونے سے پہلے قدرتؔ کا انتقال ہو گیا تھا۔ قدرتؔ کے انتقال کے بعد اس تذکرے کو عتیق الرحمٰن خاں کلیمؔ نے ضروری اضافوں کے ساتھ 1950ء میں مکمل کیا ۔ بہ شکل مخطوطہ یہ رضا لائبریری میں موجود ہے  ۔رضالائبریری میں اس مخطوطہ کا کال نمبر30996  ہے۔تذکرہ کا سائز 2426x ہے۔اس  تذکرے میں 168 شعراء کو شامل کیا گیا ہے اور اس کی ضخامت 239 صفحات پر مشتمل ہے۔168 شعراء میں سے 160 شعراء اس تذکرے میں ایسے ہیں جو تذکرہ انتخاب یادگار از امیر مینائ ،تذکرہ کاملان رامپور از احمد علی خاں شوق میں نہیں ہیں جس سے اس تذکرے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔تذکرہ کے بارے میں ڈاکٹر شعائر اللہ صاحب کا جو بیان ہے اس سے   پتا چلتا ہے کہ یہ تذکرہ اپنی مکمل شکل میں رضاء لائبریری نہیں پہنچا ہے۔ڈاکٹرشعائر اللہ صاحب فراماتےہیں:-

”نانا مرحوم  مولانہ وجیہ الدین احمد خاں وجیہؔ رامپوری(م1987ء) نے مجھے بتایا تھا کہ حضرت کلیمؔ میرے پاس اکثر آتے تھے اور اس تذکرے کی تالیف کے وقت انھوں نے میرے کلام کے ساتھ احمد علی خاں احمدؔ(م1865ء)‘ خان محمد خاں عاجزؔ(1906ء) اور وزیر محمد خاں وزیرؔ(1925ء)  کے حالات بھی مرتب کیے تھے ۔لیکن اس تذکرے میں احمدؔ‘عاجزؔ‘اور وزیرؔ کے حالات اب دستیاب نہیں ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تذکرہ مکمل صورت میں رضالائبریری نہیں پہنچ سکا۔“ 2؎

تذکرہ طور کلیم کے متعلق مولف نے تمہید میں لکھا ہے:

”انتخاب یادگار از امیر مینائ اور تذکرہ کاملان رامپور از احمد علی خاں شوق کے بعد  ضرورت تھی کہ جن شعراء کے حالات ان تذکروں میں جگہ نہ پا سکے یا جو شعراء بعد کے ہیں ان کا کلام محفوظ ہو جائے۔یہی جذبہ اس تذکرے کے لکھنے کا محرک ہے۔“

حالانکہ اس تذکرے کے تعلق سے عطیق جیلانی سالک نے لکھا ہے:

”ایک اور تذکرہ نگار قدرت علی خاں قدرت ہوئے ہیں….جن کا تذکرہ ادھورا تھا۔ اس کی تکمیل کے لئے عتیق الرحمٰن خاں کلیم  نے ایک اور تذکرہ لکھنا شروع کیا‘ دونوں  ملا کر تذکرہ کلیم کہلاتے ہیں۔“

نمونہ کے طور پر اقتباس ملاحظہ ہو:

”وجیہ: مولوی وجیہ الدین خاں خلف عزیز الدین خاں۔رام پور کےقدیم صحیح النسب قوم کے افغانیہ میں سے یہ ذات بابرکات مجتمع کمالات ہے۔حسن صورت حسن معنی پر دال ہے۔چہرہ نورانی آئنیہ جمال ہے۔تخمیناً اڑتالیس سال کا سن ہے‘ درس و تدریس‘ ذکرو فکر کا مشغلہ رات دن ہے۔“

تذکرہ حکومت المسلمین:

حکیم مولوی وحید اللہ ابن حکیم سعید اللہ بدایونی نے تذکرہ حکومت المسلمین  1868ء میں تصنیف کیا۔رضا لائبریری میں اس کا کال  نمبر 136 ہے۔مذکورہ تذکرے میں مسلم حکومتوں کو زیب قرطاس کیا گیا ہے جس میں سے چند  کے نام مثال کے طور پر درج کیے جاتے  ہیں: روہیل کھنڈ‘جاورہ‘ٹونک‘جھجر‘حیدرآباد‘ جونا گڑھ‘بھوپال‘ بھساول‘ لکھنؤ  وغیرہ۔ جن کی کل مجموعی تعداد 19 ہے۔تذکرہ حکومت المسلمین کی نوعیت تاریخی ہے۔ کیوں کہ اس میں متذکرہ  ریاستوں کی تاریخ بیا ن کی گئ ہے۔

مصنف کو یہ تذکرہ لکھنے کا خیال کیسے آیا اس بارے میں    خلیق النساءاپنے ایک مضمون میں فرماتی ہیں: 1856ء میں مؤلف نے ایک کتاب”چا ر باغ ہندوستان“ کے نام سے لکھی  جس میں مختلف راجگان کا احوال قلم بند کیا تھا۔اس کتاب کو نہ صرف حلقہ احباب وطن  بلکہ انگریزوں نے بھی کافی پسند کیا  بعدہ احباب کے حسب فرمائش مولوی وحید اللہ بدایونی نے نوابین اور ان کی ریاستوں کی تاریخ لکھنے کا ارادہ کیا اور  1868ء میں ”تذکرہ حکومت المسلمین“ وجود میں آیا۔مجموعی طور پر اس میں انیس ریاستوں کا احوال درج ہے۔6؎

نمونہ   کے طور پر اقتباس ملاحظہ ہوں:

”احوال ریاست افغانیہ کی سنکر غول کی غول ممالک افغانستان و بلوچستان مین چلی آتی تہی اکثر رامپور مین اور کچہ نجیب اباد مین اور کچہ فرخ آباد مین اور کچہ بریلی اور پیلی بہیت مین آکر جمع ہوی اور نام روہیل ہنڈ کا روشن  ہو کیا بریلی مین حافظ رحمت خان نی ہر حسب لیاقت ہرایک شخص واردحال کو لب نان پر پہنچا دیا ۔7؎

”ایک مرتبہ شاہ عالم بادشاہ نی معہ نواب ذوالفقارالدولہ مرزانجف خان اور مرہٹہ کی واسطی لینی ملک افاغنہ روہیل کہنڈ کی کوچ کیا تو نواب شجاع الدولہ والی صوبہ اودہ نی شفارش افاغنہ کی کرکی مصالحہ کرا دیااور مرہٹہ دکن کو چلی گی اور علی ہذالقیاس جب 1173 ھ گوبند پنڈت مدارالمہام دتا مرہٹہ نی ملک افاغنہ کی لینی کا قصد کیا تہا تو نواب شجاع الدولہ نی مرہٹہ سی اور نواب سعد اللہ خان ولد حافظ رحمت خان و دوندی خان سی صالح کردی تہی او ملک افغانان روہیل کہنڈ کا بچا دیا تہا۔“8؎

تذکرہ بزرگان رامپور:

            غیر مطبوعہ تذکروں  کے سلسلے میں تیسرااہم  نام”تذکرہ بزرگان  رامپور“ کا ہے جس کے مؤلف سید شمس الدین  میلاد خواں رامپور ی ہیں۔ اس تذکرے کا موضوع بنیادی طور پر  تصوف ہے اور اس میں رامپور کے چند گمنام صاحب سلسلہ بزرگوں کے حالات لکھے گئے ہیں اگر چہ تذکرہ مختصر ہے  لیکن موضوع اور معلومات  کے اعتبار سے نادر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس تذکرے کے دو نسخے ہیں‘پہلا نسخہ رامپور رضالائبریری میں ”تذکرہ بزرگان رامپور “ کے نام سے اندراج نمبر 1624کے تحت موجود ہے جب کہ دوسرا نسخہ”تذکرہ صوفیان رامپور“ کے نام سے صولت پبلک لائبریری  رامپور میں فہرست مخطوطات میں 621 پر موجود ہے۔ مؤلف تذکرہ کے متعلق اس سے زائد کوئ معلومات حاصل نہ ہو سکی کہ وہ رامپور کے ایک مشہور و معزز خاندان سادات سے  تعلق رکھتے تھے اور خود بھی انتہائ نیک نفس انسان تھے۔کسی وجہ سے نمونہ دستیاب نہیں ہو سکا۔

دستک  دیے بغیر:

نام رضوان  لطیف خاں ولد جناب ماسٹر لطیف خاں(مرحوم) 25 دسمبر1957ء کو محلہ گھیر نجو خاں رامپور میں  پیدا ہوئے۔آپ جامیہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں ڈپٹی رجسٹرار‘ڈپٹی کنٹرولر امتحانات  کے بعد سیکریٹری ٹو وائس چانسلر کے عہدے سے 2018ء میں سبکدوش ہوئے۔ انتظامی تجربے کو دیکھتے ہوئے حکومت ہریانہ نے موصوف کو  وقف بورڈ میں صلاح کار کے عہدے پر فا‏ئز کیا۔

رضوان لطیف خاں نے تذکرہ ”دستک دیے بغیر “ کا آغاز2022ء میں کیا اور تقریباً  ایک سال میں اسے مکمل کر لیا۔تذکرے کی کل ضخامت 150 صفحات پر مشتمل  ہے۔

یہ تذکرہ  در اصل رامپور کے ایک نو جوان شاعر عبداللہ خالد کے مشہور زمانہ مصرع”دستک دیے بغیر میرے گھر میں آ گیا“ پر لکھے گئےشعراء و شاعرات کے کلام پر مشتمل ہے۔مختلف تنظیموں اور گروپس کے ذریعہ سوشل میڈیا پر اس مصرع پر کئ طرحی مشاعروں کا انعقاد کیا گیا جن میں دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم شعراءوشاعرات نے کامیاب طبع آزمائ کی۔کسی نے صرف گرہ لکھی  اور بیشتر نے غزلیات کہیں۔انہی تمام غزلیات اور گرہوں کو یکجا کرکے اور شعراء و شاعرات کے کوائف کا اضافہ کرکے رضوان لطیف خاں نے یہ تذکرہ ترتیب دیا ہے جس میں تقریباً ڈیڑھ سو نمائندہ شعراء و شاعرات شامل ہیں۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ تذکرہ کافی اہم ہے اور اشاعت کے بعد منظر عام آئے تو یقیناً تذکرہ نگاری میں ایک قابل قدر اضافہ ثابت ہوگا۔

تذکرہ دستک دیے بغیر سے اقتباس ملاخظہ ہو:

”عبد اللہ خالد بہت اچھے انسان   اور ایک معتبر شاعر ہیں ان کی شخصیت کی خاصیت شائستگی، شستگی،شان و شوکت،نشست و برخاست کا انداز،تہذیب و تمکنت،شعار و معیار نستعلیقیت اور وقار ان کا خاصہ ہے۔وہ جانتے ہیں کہ پیچ کیا ہے اور تاب کیا ہے‘پیری کیا ہے اور شباب کیا ہے‘حسن کیا ہے اور نقاب کیا ہے‘بے باکی کیا ہے او ر حجاب کیا ہے‘پاؤں کیا ہے پازیب کیا ہے اور رکاب کیا ہے‘علم کیا ہے اور کتاب کیا ہے‘درس کیا ہے اور نصاب کیاہے‘ اس کا ثبوت ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔…..ان کے چھوٹے چھوٹے اشعار میں بھی بڑی گہرائ نظر آتی ہے۔ملا حظہ فرمائیں۔

قسمت بھی زلف یار سی الجھی ہوئ ملی            جتنا سنوارا میں نے بگڑتی چلی گئ

الم                                         کی                                    ناگواری                               کو                       گوارا             کر لیا ہے               گزارا ہی تو کرنا تھا گزارا کر لیا ہے

دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا       یہ حوصلہ کہاں سے ستم گر میں آگیا“9؎

رضوان خاں لطیف  عبد اللہ خالد کے بارے میں مزید فرماتے ہیں۔

”کچھ مجھ جیسے غزل کے دیوانے بھی ہوں گے جو سر زمین رامپور کے اس عظیم فرزند کی شاعری کو پذھ کر سنگ میل پر یہ لکھ کر رخصت ہو جائیں گے کہ”اکیسویں صدی میں رامپور کے اس  نو جوان شاعر نےخوبصورت شاعری کرکے نہ صرف اپنا نام بلکہ سر زمین رامپور کا نام بھی دنیا‏ئے شعر و ادب کے کونے کونے تک پہنچا دیا۔

خدا سے دعاء ہے کہ شہر رامپور  کا یہ ہونہار شاعر اپنی شاعری کے ذریعے زیادہ سے زیادہ شائقین ادب کو اپنے تازہ احساسات سے مستفیض کرتا رہے۔مجھے ان سے خوب سے خوب تر کی توقع ہے۔“ 10؎

  دور قدیم  سے لے کر دور حاضر تک دارالسرور رامپور میں متعدد تذکرے لکھے گئے  اور کچھ اب بھی لکھے جا رہے ہیں مثال کے طور پرمندرجہ بالا تذکروں کا نام لیا جا سکتا ہے۔رامپور میں تذکرہ نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے والوں کا جب  بھی کہیں  ذکر آئے  گا تو  ان میں بلا شبہ  عتیق الرحمن خاں کلیم‘ مولوی حکیم وحید اللہ بدایونی ‘سید شمس الدین میلاد خواں رامپوری اور رضوان لطیف خاں  کا نام بھی   ادب و احترام کے ساتھ لیا جائے گا۔جنہوں نے رامپور میں تذکرہ نگاری کی روایت کو جلا بخشی۔  بقول نند کشور وکرم   تذکرہ نگاری ایک مشکل فن ہے ‘تذکرہ لکھنا حقیقتاً  ایک مشکل کام ہے ‘کبھی کبھی چیونٹی کے منہ سے دانہ دانہ جمع کرنے کا عمل کرنا پڑتا  ہے تب جاکر تذکرےکی چند سطریں تیار ہوتی ہیں۔

1؎: تذکرہ کاملان رامپور از احمد علی خاں شوق۔ 1986ء۔ ص 286

2؎: رضا لائبریری جرنل نمبر 1 شمارہ1۔ص 244۔

3؎: بہ حوالہ دبدبہ سکندری رامپور۔بابت:11دسمبر1939ء

4؎: رامپور شناسی از عتیق جیلانی سالک۔2012ء ص 203

5؎: صفحہ222 تذکرہ کلیم۔بہ حوالہ رضاء لائبریری جرنل شمارہ 15-14‘صفحہ61۔

6؎: رضا لائبریری جرنل۔ شمارہ 28 ۔ص 350۔

7؎ :تذکرہ حکومت المسلمین ۔مخطوطہ رضا لائبریری ۔ص 27۔

8؎: تذکرہ حکومت المسلمین ۔مخطوطہ رضا لائبریری ۔ص 30۔

9؎: تذکرہ- دستک دیے بغیر  از رضوان خاں لطیف۔ غیر مطبوعہ۔ص 103،104۔

10؎: تذکرہ- دستک دیے بغیر  از رضوان خاں لطیف۔ غیر مطبوعہ۔ص 105۔

Leave a Reply