عبدالوارث
رپورتاژ
سہ روزہ قومی سیمیناربہ عنوان’’معاصر اردو ادب کا تحقیقی، تنقیدی اور تخلیقی منظر نامہ‘‘
قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان اور ہندوستانی زبانوں کا مرکز،جواہر لال نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی کے اشتراک سے سہ روزہ قومی سیمینار بہ عنوان ’’معاصر اردو ادب کا تحقیقی، تنقیدی اور تخلیقی منظر نامہ‘‘ کا انعقاد ۸تا ۱۰ نومبر ۲۰۲۴کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے کنونشن سینٹرکے خوبصورت(آڈیٹوریم۔ا)میں کیا گیا۔ سیمینار کی افتتاحی اجلاس میں مہمانان کا استقبال گلدستے سے کیا گیا۔ ڈاکٹر شمس اقبال (ڈائیریکٹر، این سی پی یو ایل)نے اپنے خیر مقدمی کلمات میں سب سے پہلے تمام معزز مہمانان اور شرکا کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی کونسل کی فعالیت کا ذکر کرتے ہوئے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی علمی و ادبی خدمات پر مفصل روشنی ڈالی۔ بقول ڈاکٹر شمس اقبال ’’ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جواہر لال نہرو یونیورسٹی نے میری تربیت کی ہے۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں اس ادارے کی وجہ سے ہوں۔یہ قومی سیمینار جے این یو میں ہونا میرے لیے باعث فخر ہے‘‘۔ دورانِ گفتگو موصوف نے اپنے اساتذہ کو بھی یاد کیا، جن میں پروفیسر محمد حسن اور پروفیسر نامور سنگھ وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ آخر میں ڈاکٹر شمس اقبال نے ہمارے ملک کے وزیراعظم عزت مآب جناب نریندرمودی اور مرکزی وزیر تعلیم عالی جناب دھرمیندر پردھان اور وزارت کے تمام عہدیداران اور کارکنان کا شکریہ ادا کیا۔
پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین (سابق ڈائریکٹر،ان سی پی یو ایل اور سینیرپروفیسر، جے این یو) نے اپنے افتتاحی کلمات میں تمام شرکائے محفل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے قومی کونسل کی ادبی خدمات پر لوگوں کی توجہ مبذول کرائی اور ڈاکٹر شمس اقبال کی محنت اور لگن کی تعریف کی۔ بعد ازاں ہندوستانی زبانوں کا مرکز جواہر، لال نہرو یونیورسٹی کے پچاس سال مکمل ہونے پر یہ اعلان کیا کہ اس خوشی کے موقعے پر سی آئی ایل، جے این یو گولڈن جوبلی تقریبات کا اہتمام کرے گی اور پورے ایک سال تک مختلف طرح کے ادبی و ثقافتی پروگرام کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس کے بعد موصوف نے اپنے مخصوص میدان آرٹیفیشیل انٹیلیجنس اور جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت و افادیت پر نہایت پر مغز تقریر بھی کی۔ ساتھ ہی ساتھ ’’معاصر اردو ادب کا تحقیقی،تنقیدی اور تخلیقی منظر نامہ‘‘پر سیر حاصل گفتگو کی۔
معروف فکشن نگار، ماہر تعلیم اور سابق چیف انکم ٹیکس کمشنر جناب سید محمد اشرف نے سیمینارکا کلیدی خطبہ پیش کیا۔ خطبے کے آغاز میں موصوف نے پروفیسر خواجہ محمد کرام الدین اور ڈاکٹر شمس اقبال کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا۔ اپنے کلیدی خطبے میں محترم نے کہا کہ ان دونوں حضرات نے ایک تخلیق کار سے تنقیدی کام لیا یعنی کلیدی خطبہ پیش کرنے کا حکم دیا۔ اس سلسلے میں موصوف نے ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے استاد پروفیسر قاضی عبدالستار مرحوم، ان سے اکثر کہا کرتے تھے کہ ایک تخلیق کار سے کوئی تنقیدی کام لینا ایک ہرن کے سر پر گھاس لادنے جیسا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ موصوف نے مشترکہ ہندوستانی تہذیب اور اردو میں ہندوستانی عناصر جیسے موضوعات پر معلوماتی اور اہم گفتگو کی۔ جناب سید محمد اشرف نے سنسکرت کی دو اصطلاح ’تت سم‘ اور’تد بھو‘ پر اظہار خیال کیا۔ ان کی مثالیں بھی پیش کیں اور کہا کہ ’’چندر ما تت سم اور چاند تد بھو ہے۔ اردو زبان کا جھکاؤ تد بھو کی طرف زیادہ ہے کیوںکہ تد بھو کا تعلق زمین سے ہے لہذا اردو زبان بھی زمین سے جڑی ہے‘‘۔ پھر اپنے موضوع کی طرف آتے ہوئے فرمایا کہ اردو فکشن میں ناول اور افسانے بہت لکھے گئے۔ ہمارے معاصر فکشن نگاروں نے افسانے پر کم توجہ دی ہے۔ ساتھ ہی ادب کی تمام اصناف سخن کا فرداً فرداً عمومی جائزہ لیا۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی علمی و ادبی خدمات پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کونسل کے کئی اہم کام کی طرف توجہ دلائی۔ مثلاً کلیات پریم چند، کلیات خواجہ احمد عباس، کلیات راجندر سنگھ بیدی، آئینہ جہاں (گیارہ جلدوں میں کلیات قرۃ العین حیدر)، کلیات آغا حشر کاشمیری وغیرہ۔ شاعری میں کلیات سراج اورنگ آبادی،کلیات میر،کلیات اکبر الٰہ آبادی وغیرہ کونسل کی ایسی ادبی خدمات ہیں جسے اردو کے قارئین کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ موصوف کہتے ہیں کہ ’’میں تقریباً پچاس سال کونسل سے جڑا رہا اور اس کی علمی و ادبی خدمات کا شاہد ہوں‘‘۔ دوران گفتگو سید محمد اشرف اپنے مخصوص مزاحیہ انداز اور بذلہ سنجی سے لوگوں کو محظوظ کرتے رہے جو موصوف کا نمایاں وصف ہے۔
ڈاکٹر سید فاروق (معروف سماجی و ادبی شخصیت) نے مہمان اعزازی کے طور پر شرکت کی۔آپ نے مختصر اور جامع اظہار خیال کیا۔ ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے چیئر پرسن پروفیسر سدھیر پرتاب سنگھ نے سب سے پہلے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور سیمینار کے موضوع کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس موضوع پر ایک اچھا سیمینار صرف جے این یوہی میں ہو سکتا ہے۔ موصوف نے بھی سی آئی ایل کے پچاس سال مکمل ہونے پر خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ ہم لوگ پورے ایک سال گولڈن جوبلی تقریبات کا اہتمام کریں گے۔ مہمان خصوصی کے طور پر پروفیسر شوبھا سیوا سنکرن (ڈین اسکول آف لینگویجز،جواہر لال نہرو یونیورسٹی) نے شرکت کی اور انگریزی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ دوران گفتگو موصوفہ نے ہندوستانی زبانوں کا مرکز،جے این یو کی تاریخ کا ذکر نہایت دلچسپ انداز میں کیا۔ افتتاحی اجلاس کا خاتمہ ڈاکٹر نصیب علی (اسسٹنٹ پروفیسر، جے این یو) کے اظہار تشکر سے ہوا۔ ڈاکٹر نصیب علی نے تمام شرکائے محفل اور مہمانان کا شکریہ ادا کیا۔ معروف میڈیا اینکر ڈاکٹر شگفتہ یاسمین نے اس پورے اجلاس کی نظامت کا فریضہ بہ حسن وخوبی انجام دیا۔افتتاحی اجلاس کے اختتام کے بعد چائے کا وقفہ رہا۔ اس کے بعد ہندوستانی زبانوں کا مرکز،جے این یو اور دہلی اردو اکادمی کے اشتراک سے محفلِ قوالی آراستہ کی گئی،جس میں ملک کے معروف قوال’حسین برادران‘ نے اپنی مسحور کن آواز سے لوگوں کو محظوظ کیا۔
دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں معروف فکشن نگار پروفیسر غضنفر علی اور پروفیسر شہاب عنایت ملک (صدر شعبۂ اردو، جموں یونیورسٹی) مسندِ صدارت پر جلوہ افروز رہے۔ اس اجلاس میں کل چار مقالات پڑھے گئے۔ ڈاکٹر عبدالحئی (اسسٹنٹ پروفیسر،گیا کالج، گیا)کے مقالے کا عنوان’’مصنوعی ذہانت اور اردو زبان کا موجودہ منظر نامہ‘‘تھا جس میں موصوف نے اے آئی اور اس نوع کے مختلف ایپلیکیشنز پر اچھا مقالہ پیش کیا۔ دوسرا مقالہ ڈاکٹر شمیم احمد (صدر شعبۂ اردو، سینٹ اسٹیفن کالج، دہلی یونیورسٹی) کا تھا آپ کے مقالے کا عنوان ’’ادبی تحریروں کا مشینی ترجمہ:مسائل و امکانات‘‘تھا جس میں انہوں نے مختلف ادبی فن پارے کا ترجمہ موجودہ اے آئی ایپلی کیشنز سے کیے گئے ترجمے پر سیر حاصل گفتگو کی۔ پروفیسر ابوبکر عباد (صدر شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی، دہلی)نے’’۲۰۱۳ تک کے ناول پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے ایک بھرپور مقالہ پڑھا۔ اس مقالے میں معاصر اردو ناول کا تنقیدی جائزہ لیا گیا اور آخر میں ہندوستانی ناولوں کا تقابل پاکستانی ناولوں سے کیا گیا۔ پروفیسر عباس رضا نیّر (صدر شعبہ ٔاردو، لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ) جو مشاعرے کی دنیا میں نیّر جلال پوری کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ بہ حیثیت ناظم بھی ملک بھر میں معروف ہیں۔ ان کے مقالے کا عنوان ’’سوشل میڈیا اور معاصر اردو غزل‘‘ تھا جس میں موصوف نے معاصر اردو غزل کی لفظیات پر بے حد عمدہ گفتگو کی اور مثال کے طورپر مختلف اشعار کی بہترین قرأت سے سامعین کو لطف اندوز کیا۔ پروفیسر شہاب عنایت ملک اور پروفیسر غضنفر علی نے اپنے صدارتی خطبے میں سب سے پہلے پروفیسر خواجہ محمد کرام الدین اور ڈاکٹر شمس اقبال کو مبارک باد پیش کیا۔ اس کے بعد ان چاروں مقالات پر فرداً فرداً سیر حاصل گفتگو کی۔ اس اجلاس کی نظامت ناظم ڈاکٹر شفیع ایوب نے بہ حسن وخوبی انجام دیا۔
چائے کے وقفے کے بعد دوسرے اجلاس کا آغاز ہوا۔ اس اجلاس میں پروفیسر قمر الہدی فریدی (صدر شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) اور پروفیسر فضل اللہ مکرم (صدر شعبۂ اردو سینٹرل یونیورسٹی آف حیدراباد) بہ حیثیت صدر موجود تھے۔ نظامت کی ذمہ داری جے این یو کی ریسرچ اسکالر محترمہ شہلا کلیم نے نبھائی۔ اس تکنیکی اجلاس میں کل چار مقالات پیش کیے گئے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر افضل مصباحی جو بنارس ہندو یونیورسٹی سے تشریف لائے تھے،انھوں نے اپنا مقالہ بہ عنوان ’’معاصر اردو ادب میں سماجی مسائل کی عکاسی (ناول کے حوالیسے)‘‘پڑھا۔ دوسرے مقالہ نگار ڈاکٹر خاور نقیب نے اپنا مقالہ بہ عنوان ’’اردو تنقید پر مغربی نظریات کی بالادستی‘‘ پیش کیا، جس میں موصوف نے مغربی مفکرین کے مختلف نظریات پر اظہار خیال کیا۔ تیسرے مقالہ نگار ڈاکٹر مشتاق قادری تھے،جن کا تعلق شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی،دہلی سے ہے۔ آپ کے مقالے کا عنوان ’’آزادی کے بعد جموں کشمیر میں اردو تحقیق‘‘تھا۔ اس مقالے میں محمد یوسف ٹینگ،اکبر حیدری،حامدی کاشمیری وغیرہ جیسے محققین کے تحقیقی کارناموں پرسیرحاصل گفتگو کی گیٔ۔ آخری مقالہ نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد کے صدر شعبۂ اردو، پروفسر شمس الہدی دریا آبادی نے بہ عنوان ’’سندی تحقیق کی موجودہ صور ت حال‘‘ پر مقالہ پڑھا۔ سندی تحقیق پر یہ مقالہ بہت عمدہ اور جامع تھا۔ صدور حضرات نے بھی موصوف کے مقالے کی بہت پذیرائی کی۔ اپنے صدارتی خطبے میں پروفیسر فضل اللہ مکرم نے کہا کہ جی این یو کے ساتھ ساتھ سینٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد نے بھی حال ہی میں اپنی گولڈن جوبلی نہایت خوش اسلوبی سے منائی اور یونیورسٹی اب تک گولڈن جبلی تقریبات کا اہتمام کر رہی ہے۔آخر میں پروفیسر قمر الہدی فریدی نے چاروں مقالات پر بے حد عمدہ گفتگو کی اور اپنے پرمغز خطاب سے حاضرینِ مجلس کو محظوظ کیا۔
پرتکلف ظہرانے کے بعد تیسرے اجلاس کا آغاز ہوا جس میں کل چار مقالات پیش کیے گئے۔ اس اجلاس کی صدارت پروفیسر کوثر مظہری (سینیر پروفیسر،جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)اور پروفیسر محمد علی جوہر (سینیر پروفیسر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ)نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد رکن الدین (اسسٹنٹ پروفیسر، ستیہ وتی کالج، دہلی یونیورسٹی) نے انجام دیے۔ پہلا مقالہ بہ عنوان’’کرناٹک میں اردو ادب ایک جائزہ‘‘ ڈاکٹر انوپماپول نے پڑھا۔ ڈاکٹر مشتاق صدف نے ’’اردو کی نمائندہ فکشن نگار خواتین‘‘پر اپنا مقالہ پیش کیا جس، میں انہوں نے خواتین کی شناخت کے مسائل پر روشنی ڈالی۔ موصوف نے جیلانی بانو،صغری مہدی، ثروت خان، نگار عظیم، ترنم ریاض وغیرہ کے فکشن پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’ترقی پسندوں نے خواتین افسانہ نگاروں کو نظر انداز کیا اور لائق اعتنا نہیں سمجھا‘‘۔ ساتھ ہی ساتھ جدیدیت سے وابستہ فکشن نگاروں نے بھی خواتین لکھنے والیوں کو پنپنے نہیں دیا۔ ڈاکٹر عقیلہ سید غوث نے’’معاصر اردو ادب میں سماجی مسائل کی عکاسی‘‘ اور ڈاکٹر ابوبکر رضوی نے’’نسائی حسیت اور اردو کی چند خواتین ناول نگار‘‘پر مقالے پڑھے۔ ڈاکٹر ابوبکر رضوی نے اپنے مقالے میں اردو کی پہلی خاتون ناول نگار رشیدۃالنساء سے لے کر صادقہ نواب سحر تک کے ناولوں کا تنقیدی جائزہ لیا۔ ان مقالات پر بہت اہم سوالات کیے گئے، جن کے تشفی بخش جوابات بھی مقالہ نگاران نے دیے۔ پروفیسر کوثر مظہری نے اپنی صدارتی تقریر کے دوران کہا کہ’’مقالہ نگاران کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے مقالے کو اپنے کسی استاد یا سینیر کے سامنے ضرور پڑھیں‘‘۔ ساتھ ہی ساتھ چاروں مقالہ نگاروں کے مقالات پر فرداً فرداً بھرپور گفتگو کی اور دوسرے صدر پروفیسر محمد علی جوہر نے تمام مقالہ نگاران کو مبارک بادد پیش کیا۔
سہ پہر کی چائے کے وقفے کے بعد چوتھے اجلاس کا آغاز ہوا۔ اس اجلاس میں کل چار مقالات پڑھے گئے۔ تین مقالہ نگار خواتین تھیں اور ایک ڈاکٹر مجاہد الاسلام (اسسٹنٹ پروفیسر، مانو، لکھنؤکیمپس ) تھے۔ سب سے پہلا مقالہ بہ عنوان ’’معاصر اردو نظم موضوعات اور ہیٔت کے تجربے‘‘ ڈاکٹر درخشاں زرّیں (صدر شعبۂ اردو، عالیہ یونیورسٹی، کولکاتا) نے پیش کیا۔ موصوفہ نے جدید نظم گو شعرا جن میں شہناز نبی، کوثر مظہری،ابوبکر عباد،غضنفر وغیرہ کی نظموں کا بہترین تجزیہ پیش کیا اور ساتھ ہی جدیدنظم گو شعرا نےنظم کے ہیئت و اسلوب میں جو تجربے کیے ہیں، ان پر بھی بہترین اظہار خیال کیا۔ دوسرا مقالہ ’’مغربی ممالک کی خواتین افسانہ نگاروں کے فکر و فن کا تنقید جائزہ‘‘ ڈاکٹر درانی شبانہ خان کا تھا، جس میں موصوفہ نے اکیسویں صدی کی خواتین افسانہ نگاروں کے افسانوں کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا۔ تیسرا مقالہ ڈاکٹر روبینہ شبنم نے پیش کیا جس کا عنوان’’اردو شاعرات کے شعری رویے‘‘تھا۔ آخر میں ڈاکٹر مجاہد الاسلام نے اپنا مقالہ بہ عنوان’’تنقید میں نظریات کی اہمیت‘‘ پیش کیا۔ اس اجلاس میں پروفیسر اعجاز احمد شیخ (صدر شعبۂ اردو، کشمیر یونیورسٹی)اور پروفیسر ناشر نقوی بہ حیثیت صدر موجود تھے۔ پروفیسر اعجاز احمد شیخ نے کہا کہ ’’میں ڈاکٹر شمس اقبال اور پروفیسر خواجہ محمد کرام الدین صاحب کا بے حد مشکور و ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے یہ موقع فراہم کیا‘‘ اور ساتھ ہی موصوف نے کشمیر یونیورسٹی کی تاریخ کے حوالے سے کہا کہ شروع میں جموں اور کشمیر یونیورسٹی دونوں ایک ہی تھی۔۱۹۶۹میں ان دو نوںیونیورسٹیوں کو الگ کیا گیا۔ پروفیسر ناشر نقوی نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ میں کہیں بھی رہا، کسی بھی ادارے سے وابستہ رہا،جے این یو کو ہمیشہ یاد کیا اوریہاں یہ واضح رہے کہ موصوف نے جے این یوہی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ اس اجلاس کی نظامت کا فریضہ نثار احمد، ریسرچ اسکالر، جے این یو نے خوش اسلوبی سے ادا کیا۔
تیسرے دن کے پانچویں اجلاس میں کل تین مقالہ نگاران نے مقالات پیش کیے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر ارشاد نیازی نے اپنا مقالہ بہ عنوان ’’تقابلی ادب کے اثاثی تصورات‘‘ پیش کیا۔ جس میں موصوف نے تقابلی ادب کے مختلف جہات پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر یاسر عرفات نے اپنا مقالہ ’’مصنوعی ذہانت اور اردو ادب‘‘ پیش کیا۔ تیسرے مقالہ نگار ڈاکٹر نور الحق نے’’معاصر افسانے میں سماجی مسائل کی عکاسی‘‘کے موضوع پر اپنا مقالہ پڑھا جس میں انھوں نے معاصر افسانہ نگاروں جن میں ترنم ریاض، ذکیہ مشہدی، مشرف عالم ذوقی وغیرہ کے افسانوں میں سماجی مسائل کی نشان دہی کی۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری (صدر شعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ) نے اپنے صدارتی خطبے کے دوران کہا کہ ’’ا س سیمینار کا موضوع بہت وسیع اور بے حد اہم ہے۔ پروفیسر خواجہ محمد کرام الدین اور ڈاکٹر شمس اقبال مبارک باد کے مستحق ہیں‘‘۔ موصوف نے تقابلی مطالعے کی اہمیت و افادیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تقابلی مطالعے پر جے این یو میں بہت کام ہوا ہے۔ پروفیسر خاور نقیب نے اپنے صدارتی خطبے میں تینوں مقالات پر مختصر اور جامع گفتگو کی۔
چائے کے وقفے کے بعد چھٹے اجلاس میں کل چار مقالات پڑھے گئے۔ پروفیسر شمس الہدی دریا آبادی اور ڈاکٹر یشکا ساگر (صدر شعبہ ٔاردو،میرٹھ کالج) صدارت کے فرائض انجام دیے۔ ڈاکٹر عبدالباری قاسمی بحیثیت ناظم اس اجلاس میں شریک رہے۔ ڈاکٹر خان محمد آصف نے’’نئی صدی کی افسانوی شعریات‘‘اور ڈاکٹر شبنم شمشاد نے’’معاصر اردو شاعری اور تانیثی اظہار کی جہتیں‘‘ پر اپنے مقالے پیش کیے۔ ڈاکٹر سیدہ بانو جن کا تعلق لداخ سے ہے نے بھی اپنے مقالے کے کچھ اہم نکات سامعین کی نذر کی۔ اس اجلاس کا آخری مقالہ ڈاکٹر پرویز احمد (ایسوسیٹ پروفیسر، جے این یو) نے پیش کیا۔ یوں تو ان کے مقالے کا عنوان ’’اکیسویں صدی کے اردو فکشن میں شہری زند گی کی عکاسی‘‘تھا لیکن انھوں نے مقالہ نہ پڑھ کر آرٹیفیشیل انٹیلیجنس اور مشینی ترجمے کے حوالے سے بہت معلوماتی گفتگو کی۔ موصوف نے کہا کہ’’مشینی ترجمے پر جو بھی الزام تراشی کی گئی وہ بے بنیاد ہے۔ ابھی اردو املا اور اردو داں طبقے کو اپنے مزاج میں تبدیلی لانی ہوگی۔مشینی ترجمے کی تربیت جتنی ہوچکی ہے اب اس سے آگے ہی بڑھنا ہے اس وقت مشین۸۴ فیصد درست ترجمہ کر رہی ہے مشین کا کام انسان کے کام کو آسان بنانا اور۱۵دن کے کام کو ۱۵گھنٹے کے کام بنا دینا ہے۔مشینی ترجمے پر ایک نگاہ ضرور ڈالنی ہوگی کیوں کہ ابھی بھی مشین کہیں کہیں اسم ِخاص کو سمجھنے میں دھوکا کھا جاتی ہے۔۔ اس کے علاوہ بھی موصوف نے جدید ٹیکنالوجی اور مشینی ترجمے کے حوالے سے اہم نکات کی طرف سامعین و حاضرین کی توجہ مبذول کرائی۔ اس طرح آخری تکنیکی اجلاس کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
اختتامی اجلاس میں پروفیسر ابوبکر عباد(صدر شعبۂ اردو،دہلی یو نیورسٹی)،پروفیسر احمد محفوظ (صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دلی) پروفیسر خواجہ محمد کرام الدین اور این سی پی یو ایل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شمس اقبال شامل تھے۔ اس اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر شفیع ایوب نے بہ حسن و خوبی انجام دیا۔ اس اختتامی اجلاس میں کئی مقررین نے سیمینار کے حوالے سے اہم تاثرات پیش کیے۔ سب سے پہلے سینٹرکے ہردل عزیز استاد ڈاکٹر نصیب علی نے ڈاکٹر شمس اقبال اور این سی پی یو ایل کے جملہ اراکین کو اظہار تشکر پیش کرتے ہوئے ہال میں موجود تمام طلبہ و طالبات کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا۔ بعد ازاں ڈاکٹر انو پما پال نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پروفیسر غضنفر علی، پروفیسر محمد علی جوہر، پروفسر شہاب عنایت ملک نے بالترتیب سیمینار کے موضوع اور پڑھے گئے مقالات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ پروفیسر ابوبکر عباد نے بھی سیمینار کے حوالے سے اپنی قیمتی آراء حاضرین کے سامنے پیش کیں۔ پروفیسر احمد محفوظ نے حکومت ہند،محکمہ تعلیم کے تمام وزراء اور ڈاکٹر شمس اقبال کا شکریہ ادا کیا۔ دورانِ نظامت ڈاکٹر شفیع ایوب نے پروفیسر خواجہ محمد کرام الدین کی تنقیدی بصیرت اور تنقیدی کارنامے کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی۔ آخر میں پروفیسر خواجہ محمد کرام الدین نے اظہار تشکر کی رسم ادا کرتے ہوئے، اس اہم سیمینار کے اختتام کا اعلان کیا اور تمام حاضرین کو پرتکلف ظہرانے کے لیے مدعو کیا۔ اس طرح ایک منفرد موضوع پر یہ سہ روزہ قومی سیمینار کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
ABDUL WARIS
Add:-#22(Old) Brahamputra Hostel
JNU,New Delhi-110067
Mob No:-8617332604
Email:-aabdul.waris1998@gmail.com