روبیہ مریم روبی
زندگی ذرا ٹھہرو
“زندگی ذرا ٹھہرو” یہ عطیہ ربانی صاحبہ کی کتاب ہے۔صنف ناول ہے۔جس کی اشاعت حال ہی میں پریس فار پیس نے کی ہے۔سید ابرار گردیزی صاحب نے اس کتاب کا سرورق و لے آؤٹ تیار کیا ہے۔قیمت 1200 ہے۔صفحات کی تعداد 175 ہے۔
اس ناول کا انتساب مصنفہ نے ڈاکٹر صوفی فِیلے اور کچھ ایسے حقیقی کرداروں کے نام کیا ہے،جنہوں نے زندگی میں انہیں تحریک دی اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔
انتساب ایک صفحے پر مشتمل ہے۔علاوہ ازیں ناول کا تعارف تین صفحات میں لکھا گیا ہے۔مصنفہ نے کسی با کردار شخصیت سے متاثر ہو کر اس ناول کی بُنیاد رکھی ہے۔اس ناول کی مدد سے قاری کو مستشرقین (جو لوگ قرآن پر تنقید کرنے کی غرض سے اس بابرکت کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں۔)کو سمجھنے اور ان کی قرآنِ کریم کی وجہ سے بدلتی زندگی کے بارے میں سمجھنے کا موقع ملے گا۔اس لحاظ سے یہ ناول اپنے آپ میں ایک منفرد اور انوکھا ناول ہے۔جس کو مصنفہ نے اپنے غائر مشاہدے سے لکھا ہے۔ان کے نزدیک اس کا مرکزی خیال اسلام سے متاثر ہوتے کرداروں کے گِرد گُھومتا ہے۔البتہ یہ ایک ایسا ناول ہے جو مسلم اُمّہ کو اسلام کو سمجھنے کے لیے بھرپور تحریک دے گا۔اس کتاب پر کرنل اشفاق حسین نے مختصر سا دیباچہ لکھا ہے۔اس کے بعد ناول کا آغاز درج ذیل نظم سے ہوتا ہے۔
“بزلہ سنج
خوش گفتار
مسکراتی آنکھیں
جن میں اکثر اداسی چھلکتی
شاید کبھی نمی بھی رہتی
مگر کمال مہارت کہ۔۔۔۔۔”
اس نظم کا خُمار پوری کتاب پر نظر آتا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ یہی نظم پورے ناول کا تِھیم ہے تو بے جا نہیں۔یہ کچھ ایسے کرداروں کی کہانی ہے۔جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔مگر آپس میں محبت کرتے ہیں۔ایک ایسا کردار نائل بھی ہے۔جو مسلمان لڑکی سے سچی محبت کرتا ہے اور محبت کی خاطر اپنا مذہب بدل کر اسے حاصل کر لیتا ہے۔پھر اس کی مسلمان بیوی اس پر شک کر کے قاتلانہ حملہ کرتی ہے۔تقریباً دس سال کی جدائی کے بعد دوبارہ ملتے ہیں۔کیسے ملتے ہیں؟یہ تجسس ختم کرنے کے لیے تو یہ کتاب ہی پڑھی جا سکتی ہے۔کہانی میں تجسس اور حسین موڑ آئے ہیں۔جن کا آغاز تو غم سے ہوا مگر اختتام کبھی غم اور کبھی خوشی پر۔بس یہی نام ہے زندگی کا۔نائل ناول کا مرکزی کردار ایک مسلمان لڑکی کی محبت میں گرفتار ہے۔اور اس کے دوست احباب اس کو مسلمان لڑکی سے شادی نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔وہ اکثر اپنے دل میں اُٹھنے والے سوالات کے جواب اپنی دوست سے لیتا ہے۔وہ لڑکی اس غیر مسلم کے تمام سوالوں کا جواب دلائل سے دے کر اس کا دل بھی ایمان سے بھر دیتی ہے۔ان سب سوالوں کے جواب!جن چیزوں کو لے کر وہ یا اس کے دوست اسلام پر شک کرتے تھے۔مسلمان لڑکی ہمیشہ اسلامی قوانین کی پاسداری کرتی ہے۔غیر مسلموں کے سامنے مسلم اقدار کو بیان کرتی ہے۔وہ ایک پکی اور سچی مسلمان خاتون ہے۔وہ ہمیشہ اسلام کا پرچار کرتی ہے۔یہاں مصنفہ کی طبیعت کے بہت سے رنگ واضح ہوتے ہیں۔کبھی ایک عالمِ دین کہ طرح غیر مسملوں کے سامنے واعظ کرتی ہیں تو کبھی ایک ڈاکٹر کی طرح سامنے بیٹھے لوگوں کو ہدایات دیتی ہیں۔وہ غیر مسلم،ناسمجھ اور اسلام سے عاری لوگوں کو ایسے اسلام کی تعلیم دیتی ہیں،لگتا ہے جیسے کسی اوّل جماعت کے بچے کو کلاس میں کچھ سمجھا رہی ہیں۔مثلاً وضو کے فرائض کو بہت سلیقے اور وضاحت سے بیان کیا ہے۔تا کہ سامنے والے کو کوئی شک و شبہ نہ رہے۔وہ اس میں کامیاب و کامران نظر آتی ہیں۔یہاں دو تہذیبوں کے تصادم اور ملاپ کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔کچھ جلد بازی میں جذباتی فیصلے کر بیٹھتے ہیں۔تو اس کا خمیازہ نوجوان نسل کو بھگتنا پڑتا ہے۔مثلاً کم عمری میں شادی کرنا۔مصنفہ نے اس سماجی قبیح روایت پر بہت ہی منفرد اور پُراثر انداز میں قلم اٹھا کر کم عمری کی شادی کے نقصان بتا دیے ہیں۔اسلام کی رُو سے عورتوں کے حقوق کو جس طرح سے اس کہانی میں بیان کیا گیا،گویا کہ بات سیدھی دل میں اترتی ہے۔مشرقی معاشرہ بِلاشبہ آزاد ہو مگر اس کے قوانین قدرت کے تابع ہیں،یعنی کہ مشرقی باشندے کو معلوم ہے کہ میرا کوئی اور بھی حساب کتاب کرنے والا ہے۔مگر مغرب اس قانون سے عاری ہے۔اس کی آزادی کا مطلب ہے کہ انسان خود مختار ہے۔جو چاہے کر سکتا ہے۔قدرت یا خدا کا تصور نہیں۔ناول میں دو تہذیبوں کا تصادم صاف نظر آ رہا ہے۔جو بظاہر ایک ساتھ ہیں مگر دونوں کی اقدار،روایات اور ترجیحات الگ ہیں۔
پھر مصنفہ نے تین تہذیبوں کے شادی سے متعلق افکار یوں بیان کئے۔ایسا لگتا ہے جیسے ہر بات ذہن پر پیوست ہوتی جا رہی ہے،نہ صرف دوسرے ممالک میں آباد لوگوں بل کہ ہر مسلمان کے لیے اس کتاب میں اسلام سے متعلق معلومات کا ایسا ذخیرہ موجود ہے کہ جس سے آنے والی کئی نسلوں کی اچھی تربیت کی جا سکتی ہے۔
مصنفہ نے اسلام کو غیر مسملوں تک ایک طریقے اور سلیقے سے پہنچانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔اللّٰہ تعالیٰ ان کی کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے لیے اس ناول کو صدقہ جاریہ بنائے۔
***