ڈاکٹر سہیم الدین خلیل الدین صدیقی
ستم ہائے روزگار
رنج والم ،انسان کو بے بس،لاچار ومظلوم بنادینے میں کوئی کثر نہیں چھوڑ تے ہیں،اور اگر وہ کوئی عورت ہوتواسکے مسائل اور بھی بڑھ جاتے ہیں، گوری کا حال کچھ اسی طرح کا تھا،اس کاشوہر ایک فیکٹری میں ملازم تھا ، اچانک ایک حادثہ سر زد ہوااور ایک لوہے سے بھرا ہوا کنٹینر اس کے سر پر گیرا اور وہ وہیں پر اس دار فانی سے کوچ کر گیا ۔ اس فیکٹری کے مالک نے اس غریب کے موت کو صرف بیس ہزار روپیے میں تول دیا،اور بابو کی جگہ پراُس کی بیوی کو کام پر رکھنے کا وعدہ کر دیا،اس کی بیوی نے اپنے شوہر کی ماتی وتیرویں کیں جس میں اس کے لگ بھگ دس ہزار روپیے خر چ ہوگئے ، ایک مہینہ جوں توں گذر ا اوراب گوری اس کے شوہر کی جگہ پر کام کرنے کے لیے جانے لگی،وہ اپنے دوسالہ لڑکے مُنّا کو گود میں لیے کام کیا کرتی ، جب وہ تھک جاتی تو وہ اپنے دو سالہ لڑکے کو کہیں پر سلا دیتی اور پوری ایمانداری کے ساتھ فیکٹری میں اپنا کا م انجام دینے لگتی کچھ روز یہی سلسلہ جاری رہا، پھراس فیکٹری میں ایک نیا سوپر وایئزر کمارکہیں سے تبادلہ ہوکر آیا ، وہ انتہائی بد نگاہ وظالم تھا،اس کی بد نگاہی وہوس کی شکار اب کئی مزدور عورتیں ہونے لگیں،کئی عورتوں نے تواس کے ڈر سے فیکٹری کو الوداع کہے دیا ،اب اس کی نگاہ گوری پر جم گئی ،وہ اب بار بار اسکا راستہ روکنے لگا ، کبھی کبھی تووہ گوری کو تنہاہ دیکھ کر چھیڑ چھاڑ کر نے لگتا ،کبھی ہاتھ پکڑتا،کبھی بالوں کو چھوتا،کبھی ایسے اشارہ کرتا جس سے وشرم سے اپنے سر کو جھوکالیتی، لیکن وہ بے چاری کیا کرتی مجبور ولا چار ٹہری، ماں کب مری اسے ٹھیک سے یاد بھی نہ تھا،اس کی شادی کے دو مہینے بعد باپ مر ا ،پھر پتی جیسے ہی مرا۔ ! پھراس کی زندگی نرک ہی بن گئی۔
وہ بے چاری اپنادو سالہ منّاکو لیے کہاں بھٹکتی پھرتی،کسی طرح مہینہ گزارہ،کئی مرتبہ وہ اس سوپروائیزکے ہوس کا شکارہونے سے بچی۔ پانچ ۔چھے۔ مہینے اُسی جہنم میں بتائے مینجر سے شکایت کر نے کی جُر ت نا کر سکی فیکٹری کا مالک تو بڑی دور کی بات تھی،اور اس ظالم کے ظلم کا خو ف بھی تھا۔وہ سوچتی کے کہیں وہ ظالم سوپر وائیزر اسکے اکلوتے لڑکے کو کہیں کچھ دق ناپہنچادے،اوراسے اپنے عزّت وہ پاک دامنی کابھی خیال تھا، لیکن خدا کو یہ منظور نہ تھاکہ وہ پاک دامن مرے، اسے اس با ت کا کوئی علم نہ تھا،دن بدن گزرتے جاتے اور وہ خاموش رہتی،لیکن ہر چیزکی ایک حد ضرور ہوتی ہے،چاہے وہ خوشی ہو،غم ہو، رنج والم ،کسی خوبصورت مفلس اکیلی تنہاہ بیوا کی پاک دامنی وغیرہ ہو،آج وہ دن تھاجس میں کئی طوفان ایک ساتھ اس غریب عورت پر ٹوٹے تھے۔مُنّا بہت بیمار تھا،وہ صبح جلدی سے فیکٹری آگئی، کیونکہ آج مہینے کی پہلی تاریخ تھی ،تنخواہ کا دن تھا،تمام مزدور لائن میں کھڑے تھے،منشی جی پیسے بانٹ رہے تھے ،تمام مزدور خوش تھے،گوری اُس قطار میں کھڑی تھی ،کچھ دیر قطار میں کھڑے رہنے کے بعد جب گوری کا نمبر آیاتومنشی جی نے تنخواہ کی لِیسٹ دیکھی اور کھوئی ہوئی نظروں سے گوری کودیکھااور کہا کہ ؛
‘‘گوری تمہارا نا م اس تنخواہ کی لادی میں درج نہیں ہے،تمہیں اپنے بڑے صاحب سے ملنا ہوگا ۔’’
اتنا کہتے ہی منشی جی نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور خامو ش ہوگئے ۔اور!
منشی جی نے اس مظلوم عورت کی طرف کھوئی ہو ئی نگاہ سے پھر دیکھا، کیونکہ فیکٹر ی کے تقریباََ تمام ہی لوگ بڑے صاحب یعنی اس سوپر وایئزر کمار کے مزاج سے بخو بی واقف تھے،تمام قطار میں کھڑے لوگ گوری کوہمدردانہ نظروں سے دیکھنے لگے،کیونکہ آج رسواہونے والی عورت کی طویل لیسٹ میں گوری کا نام تھا ،گوری منشی جی کی بات سنتے ہی اپنی ہی جگہ پر سرد پتھر کے مانند جم گئی ،پسینے میں شرابورہوگئی ، گھبراہٹ سے تھر تھرانے لگی، قدموں میں جان نہ رہیں،اس کے رومٹے کھڑے ہوگئے،آنسو ں پلکوں پر تھم سے گئے۔چونکہ وہ اس صاحب کے مزاج ومنشاسے وہ بخوبی واقفیت رکھتی تھی ، وہ بہت شریف عورت تھی ،اسے اپنے پتی کی ، باپ کی، عزّت کا خاص خیال تھا، اس نے تیسری جماعت تک تعلیم بھی حاصل کی تھی، اسے گاؤں والوں کے تانے بننے کابھی خیال آتا تھا ،وہ اپنی ہی دھن میں کھوئی ہوئی تھی ،اچانک پھراس نے ہوش سنبھالا،اس بے بس عورت نے سُناکہ کوئی اس سے یہ کہے رہا تھا کہ،‘گوری تم اپنی عزّت کا خیال کرو اور یہ نوکری چھو ڑ کر چلی جاؤ،روپیے چھوڑ دو ،پیسوں کی قیمت عورت کے عزّت سے زیادہ نہیں ہوتی۔’’ اس نے پیچھے مڑکر دیکھا کوئی بھی ناتھا،گود میں دو ڈھائی سالہ مُنّاجو نیند میں تھا، اس کا بدن گرم لوہے کی مانند تپ رہاتھا،منشی جی اپنے کام میں مصروف ہوچکے تھے، وہ اس کے انتر آتما کی آوازتھی ، اس نے اپنے گھر کا رُخ کیا، دو چار قدم چل کر رک گئی اسے اپنے مُنّاکے بخار میں تپتے ہوئے جسم کاخیال آیا،وہ سوچنے لگی کہ سارا سرما یہ پونجی توختم ہو چکی ہے،کسی سے ادھار مانگ لیا جائے،لو گ ادھار دینگے،ڈاکٹر کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے،مُنّاکو نیمونیا جو ہوا ہے، کیا جاکر میں ڈاکٹر سے بات کردوں نہیں وہ کب بغیر روپیوں کا اپنے پاس بھی پھٹکنے دے گا،کیا پہلے صاحب سے بات کر لوں ؟۔ہاں ۔ہاں ۔صاحب سے بات کر لوں گی،سب کہتے ہیں صاحب بڑی ہی بری نگاہ رکھتے ہیں ، میں بھی جانتی ہو ں کئی بار مرا راستہ بھی انھوں نے روکاتھا،لیکن مُنّنے کی صحت کے سامنے بری نگاہ و عزّت کوئی ماینے نہیں رکھتی، وہ دھیرے دھیرے کمار کے کیبین کی طرف بڑھنے لگی۔
لیکن گوری کے لیے مہینے کی ۲۰۰۰ روپیے تنخواہ بہت بڑی بات تھی،اسے اپنے بیٹے مُنّاکی ضروریات کا خاص خیال تھا،اسے پچھلے کئی دنوں سے بخارتھا دوائیوں کا خرچ بھی بہت زیادہ تھاجیسے ادا کرناضروری تھا،وہ بیچاری کیاکرتی ،آنکھوں سے سیلاب جاری ہوگیا، اور وہ اپنے سر کو جھُکائے گود میں چھوٹے سے مُنّا کو لے کر اس سوپروائزر کمارکے کیبین کے در وازہ پر پہو نچ گئی اپنے آنسوؤں کوپونچھ کراپنے کانپتے ہوئے ہاتھ سے دستک دی ۔
ٹک۔ٹک ٹک۔ٹک ۔ٹک ۔، اندر سے آواز آتی ہے ، ‘کم اِن ’گوری ۔وہ اندر داخل ہوتی ہے،اندر وہی سوپر وائیزہے ، جوکہ ٹرایک سوٹ پہن کر ایک ہاتھ میں سیگریٹ اور دوسرے ہاتھ میں وائن کا گلاس لیکرآرام کرسی پر ٹیکا دیے بیٹھا ہوا ہے، اب وہ وائن کا گلاس ختم کرکے گوری کوسر تا پابغور دیکھتا ہے ، گوری اس سے دبی ہوئی آواز میں کہتی ہے ‘‘صاحب جی یہ میرا اکلوتا بیٹامنا ہے اس کا باپ مر چکا ہے ،یہ بیمار ہے اسے نمو نیا ہو اہے ڈاکٹر کے پاس لے جاناہے مجھے روپیسوں کی بہت ضرورت ہیں منشی جی نے کہا ہے کہ میری تنخواہ آپ کے پاس جمع ہے وہ پیسے لینے کے لیے میں آپ کے پاس آئی ہو۔ہوں۔’’اتناکہے کروہ پلکے جھکا کرخاموش ہوجاتی ہے ۔
سوپر وائیزرکمار اسے اب بھی بغور گھور رہا تھا ،گوری اسکی چوبھتی نظر کو خا موشی سے برداشت کررہی تھی ، وہ اس کے چہرے کودیکھتا جوکہ خوبصورت گلاب کے مرجھائے ہو ئے پھول کی طرح ساہوگیاتھا،ہونٹ پنکھڑی کی طرح نازک تھے جسم سرائی کی مانند حسین تھا ،جو گوری کے جوانی کوظاہر کر رہا تھا، رنگ سنہرااوراس کی کمرنازک پودے کی طرح ملائم تھی، سوپر وائیزر کمار اب گوری کے سینے کی رعنائی ناپنے کی کوشش کرتاہے لیکن محروم رہے جاتا ہے، چونکہ اس کا لڑکا اس چمٹاسویاہواہے ، وہ اس کے قریب جاکرگوری کے کمر میں ہا تھ حائل کرتے ہوئے کہتاہے ،اوہو !بڑے افسوس کی بات ہے ،ٹھیک ہے کوئی بات نہیں تمہارے روپیسے مل جائینگے ،گوری خاموشی سے اپنے آنکھیں بندکر کے چھوئی موئی کے پودے کی طرح سکڑ جاتی ہے ،سوپروائزرگوری کے کان تک اپنا منھ لے جاکردھیرے سے کہتا ہے، لیکن اس میں میرا کیا فائدہ ہے ،تیرا بچہ اچھاہو جائے گاتو جوان ہے تجھے کہیں اور نوکری مل جائے گی مجھ سے وعدہ کر تجھے تیرے بچّے کی قسم رات کودوتین گھنٹے کے لیے اس بچّہ کو ہاسپتال میں اڈمیٹ کر کے ۔۔ا ۔ ۔آ۔۔جائیگی تو !
یہ تیرا بچہ سو سال تک زندہ رہے گا،اس مظلو م عورت کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، اس طرح کی باتیں اس نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی وہ شرم سے پانی پانی ہوجاتی ہے ،اور اس سوپر وائیزر کا ہاتھ کو جھٹک کر دور ہوجاتی ، کمار مسکراتے ہوئے کہتاہے، گوری تو بڑی ہی نخرے والی ہے، تیرا رات تک انتظار کرنا بیکار ہے،تیرا بچہ زندگی اور موت کے بیچ میں جھول رہاہے،اور تجھے نخرے پہ نخرے سوجھ رہے ہیں، یہ تیرا بچّہ نہیں ہوسکتا۔۔!
نہیں۔بالکل نہیں۔ہو سکتا۔۔!
تجھے اس سے محبت نہیں، گوری خاموش ہوجاتی ہے،کماروائن کا ایک اور گلاس ختم کرتاہے اور اس کا ہاتھ پکڑکر اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتا ہے،اب گوری کا ایک ہاتھ سوپر وائیز رکے ہاتھ میں ہے اور دوسرے ہاتھ میں اس کا دوسال کاشیرخوربچہ ہے، اب اس بچّے کی ماں کاسینہ عیاں ہوگیا ، وہ بچّہ زورر زور سے رونے لگا، ادھر اس ظالم کے دل میں کئی ارمان جاگ اُٹھے،وہ اسے بغور دیکھ رہاہے، ماں کادل اب تڑپنے لگا،اس نے اپناہاتھ اس ظالم سے چھوڑایااور اپنے بچّے کودودھ پلانے کے لئے اپنا ازاربند کھول کرزمین پر بیٹھ گئی ، کمار کی نگاہ اس پر گڑھ گئی ،جب بچہ خاموش ہوگیا، اس کی ماں نے اپنے گرم گوشت بچّے سے پیار کیا،بوسے لئے ،اسے اپنے گلے سے لگایا، کماراب تک وائن کی پوری بوتل ختم کرتے ہوئے اس بے بس ماں کو دیکھ رہا تھا، جو اپنے پچّے میں کھوئی ہوئی تھی،اسے اس بات کی خبر بھی نہ تھی کے وہ ایک وحشی جانور کی قید میں ہے ،جب بچّہ سو گیا، اسے اپنے سامنے کھڑے ہوئے ظالم کا خیال آیا ، تواس نے اپنے جگر کے ٹکڑے کو زمین پر سلا دیااوراس ظالم سوپر وائیز رکمارسے مخاطب ہوکرالتجا ء جرس کرنے لگی کہ؛
‘‘صاحب جی۔!اووصاحب جی ۔!
مجھے روپیسوں کی سخت ضرورت ہے ۔میرابیٹا مُنّا۔! بہت بیمار ہے،اسے نمونیا ہواہے،
تم جو بھی بولوں گے۔ میں کرنے کے لیے تیارہوں،تم کو میں چاہیے،اورمجھے میرے مُنّاکے دواخانہ کے لیے پیسے۔’’ اتناکہے کرگوری نے ٹھنڈی آہ بھری اوررونے لگی ،پھرروتے روتے اپنے ساڑی کا پلّوکندھے سے اتار کر زمین پر ڈال دیا،اور خود کواس وحشی کے حوالے کر دیا، کماربڑا ہی ڈھٹ اور ظالم قسم کا سوپر وائیز ر تھا،اس کا دل بہت سخت گیر تھا،اسے اس مظلوم عورت پر ذرا بھی ترس نہ آیا، اس کے باطن میں احساسا ت و جذبات نام کو نہ تھے،وہ ہوس کا بھوکا تھا، ا س کے دل میں ذرّہ برابربھی ہمدردی کا مادّہ نہ تھا،وہ وحشیانہ طریقہ سے بھوکے جانور کی طرح اس ابھلاناری گوری پر ٹوٹ پڑا، نااسے اس بیوہ عورت پر رحم آیا نااس معصو م بچّے پر،جب اس کی پیاس بوجھی ،اس کے دل کو ٹھنڈک پہنچی تو کمارنے اپنا روپیؤں سے بھراہوا بٹواہ اس ناری کے حوالے کر دیا،اور یہ دھمکی دی کہ یاد رکھ یہاں جو کچھ ہواکسی سے کچھ نہ کہنا ،اگرمیری شکایت تونے کہیں کسی سے کی تو میں تجھے اور تیرے بچے دونوں کا قتل کردوں گا۔
گوری سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتی ہے اوراس کے آنکھوں سے آنسوں بے تحاشہ جاری ہو جاتے ہیں ،وہ اب اپنے تیز قدموں سے ایسا چلنے لگتی ہیں جیسے اس کے پیروں میں کو ئی وزندارشئے یاسخت قسم کی موٹی موٹی بیڑیابندھی تھی جوآج ٹوٹ کر پاش پاش ہو گئی ہو۔جیسے ہی روپیوں کا انتظام ہوا،وہ ایک ہاتھ میں روپیوں سے بھرابٹواہ اور دوسرے ہاتھ میں اپنے چھوٹے سے مُنّاکو گود میں لے کر تیزی سے دواخانے پہنچی ڈاکٹر صاحب نے اس کے لڑکے کاعلاج شروع کیا، اس بچّہ کا بخاراب تک دماغ میں چڑھ گیاتھا،ڈاکٹر نے گوری کا بازوسہلاتے ہوئے کہا کہ:
‘‘بھگوان پر بھروسہ رکھو ،اس نے چاہا تو تمہارے بچّہ کا بخار بہت جلدی اتر جائیگا ، اور تمہاری گود سُنی ہونے سے بچ جائیگی’’
اتنا کہے کرڈاکٹر اپریشن روم میں چلا گیا، گوری کو ڈاکٹر کے اس برتاؤکامقصدمعلوم ناتھا،اس نے پوجا پاٹ کی، منّتیں کی،اپنے پاپو کا پشچ تاب کیا، اب رات ہوچکی تھی، اس نے کا نچ سے اپنے بچّے کو جھانکا اور یہ سوچنے لگی کہ آج اگر میں اس ظالم کے پاس نا جاتی تومیرا بچّہ زندگی اور موت کے درمیان کی لڑائی ہا ر جاتا، اورمیں اس ظالم کی ہوس کا شکار نہ بنتی،اتنے میں اسے ڈاکٹر آتا ہوا دیکھائی دیا،گوری نے اس سے اپنے لڑکے کا حال پوچھا اب کیسا ہے میرال..؟ ڈاکٹر نے گوری کے گورے چہرے کو دیکھااور جواب دیا:
‘‘ہی از فائین’’گوری نے چونک کر پوچھا ‘‘کیا ہوا میرے بچّے کو۔۔؟ ’’
ڈاکٹر نے مسکرا کر جواب دیا‘‘آپ کا بچّہ اب خطرے سے باہرہے ہم نے دوا دے دی ہے،بخار اب اتر گیاہے اب وہ سو رہا ہے کل صبح تک ٹھیک ہوجائیگا ،تم کل شام تک اس کواپنے گھر لے جا سکتی ہو۔’’
گوری اب چین کی سانس لیتی ہے،ڈاکٹر کو دعائیں دیتی ہیں اور اپنے بچّہ کے پاس چلی جاتی ہے ،یکایک کمارکا خیال آتا ہے اسکے آنکھوں سے بے تحاشہ آنسو ں جاری ہو جاتے ہیں،ایک ادھیڑ کی عمر نرس اس سے پوچھتی ہے،کیوں رورہی ہو بی بی۔۔! گوری اپنے آنسوں پوچھتے ہوئے جواب دیتی ہے کہ؛
‘‘ایک بھگوان کی یاد آگئی ، جس نے میرے بچہ کی بیماری کے لیے ،دواخانے کی فیس ادا کرنے کے بدلے، مجھ سے میری زندگی کی ساری پونجی مانگ لی،لیکن میں پھر بھی خوش ہوں ،میرا لال اب میرے سامنے چین و سکون کی نیند سورہاہے ۔’’اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوجاتی ۔
اس کے آنکھوں سے آنسوں اب بھی جاری و ساری تھے۔ نرس نے پھر اس سے یہ کہا کہ تو کیا کہے رہی ہے میں کچھ بھی نہیں سمجھی، وہ کہنے لگی کہ:
‘‘ میں اب کچھ بھی یاد نہیں کرناچاہتی نہ کچھ سمجھانا چاہتی ہوں ،نہیں ،بالکل نہیں ،کچھ بھی نہیں۔۔!’’
اتنا کہہ کر اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اورخاموش ہوگئی۔نرس کو اس پر ترس آگیا، نرس روقیہ سمجھ گئی کے اس پرکوئی طوفان ضرور ٹوٹاہے وہ اُس سے کہنے لگی تو مجھے اپنی بڑی بہن سمجھ جو بھی پریشانی ہے مجھ سے کہے سکتی ہے،لیکن گوری نے کچھ جواب نا دیا،اور اپنے بچے کے بالوں پر ہاتھ پھرا، پھر اس کے پیشانی کابوسہ لیا،اس کے ننھے ننھے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیکراُس کو سہلانے لگی ۔رات بھر وہ اپنے بیٹے کے پاس بیٹھے رہی اوریہ سوچنے لگی کے اب وہ دن دور نہیں کے میرا منّابڑاہو گا اسکول جائیے گا،وہ جوان ہوگا، شہر کے بڑے سے بڑے کالج میں تعلیم حاصل کرے گا، اور اپنے ماں کا سہارا بنے گا،جب میں بوڑھی ہوجاؤنگی تو وہ میری بوڑھی آنکھوں کی مضبوط لاٹھی بنے گا۔اسی حال میں صبح ہوئی،ڈاکٹر نے منّاکے باقی ٹیسٹ کئے میڈیسین دیئے اورشام کو اسکا ڈیسچارج کارڈ تیار کروا کرگوری کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ نرس نے اس سے کہاکہ؛
‘‘ائے گوری ۔!
تجھے جب بھی ضرورت پڑے گی تو مجھے یاد کرنا ،مجھ سے ہوسکے گا تو میں تیری مدد کرنے کی پُری کوشش کرونگی۔’’
گوری نے اسے دیکھا کہ وہ وہی نرس ہے،جو کل رات اس کے ساتھ بات کر رہی تھی،وہی سانولا رنگ بھدی سی عورت جس کا سن ۵۰ سے ۵۵ کے درمیان کا ہوگا،وہ سفید رنگ کی ساڑی پہنے ہوئی ہے، گوری نے جواب دیا کہ :
‘ ‘ میڈم اگر آپ میری مدد کرنا چاہتی ہو تو مجھے یہاں کچھ ایسا کام دو کے میں دوپیسے کماکر اپنااور اپنے اس بچہ کا پاپی پیٹ بھر سکوں۔’’
نرس خاموش ہوگئی،چونکہ یہ اس کے بس کی بات نہ تھی وہ فوراََ فیصلہ نہیں کر سکتی تھی،اسے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری تھا،گوری سمجھ گئی ور ا پنے گھر کے لیے روانہ ہوئی ،جیسے ہی وہ گاؤں کے چوراہے پر پہنچی ،لوگ اسے ایسے دیکھنے لگے جیسے کہ کوئی گاؤں کا ساکن حال اپنا سرمایہ دونوں ہاتھوں سے لُٹاکر خالی ہاتھ لوٹا ہے،اب اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے سوائے اپنے بوسیدہ کپڑوں اورباپ دادا کی عزّت کے۔
لیکن ،گوری کے پاس اپنی عزّت بھی نہ تھی ،ساری بستی میں ہلچل مچ چُکی تھی، لوگ گوری کو بغور دیکھنے لگے،لوگ اسے دیکھ کر تانے بننے لگے اُس کے کانو ں پر کچھ عورتوں کے تانے کسنے کی آواز پڑھی ،اس کے آنکھوں سے آنسوں نکلتے نکلتے اس کے گورے گالوں پرخُشک ہوگئے وہ عورتیں ایک دوسرے سے یہ کہے رہی تھی کہ:
‘‘آئے ہائے ۔! وہ دیکھو ۔۔۔!
شریف زادی چلی آرہی ہے، سوپروائیزر کما ر کے ساتھ رنگ رلیاں منا کر، ساری رات اس کے ساتھ تھی، بڑی آئی
شریف بننی پھرتی تھی، اب ہرروز نئے نئے مرد ڈھونڈتے پھرنے لگی ہیں ،مردواں کیا مرا؟ ابھی سال نہیں ہوا،منہ کا لاکیے پھرتی ہے، اب کیا زمانہ آیا ہے، ویشائیں بھی ستی ساوتری بنی پھر نے لگی،ہم کو کہتیں پھرتی تھی کے میں فیکٹری میں کا م کا ج کرنے جاتی ہوں،اور وہا ں جاکر غل چھرے اُڑاتی پھرتی تھی ،معصوم بچّے کی صورت کا توذراخیال کرتی کتنی چھو ٹی ہوگئی ہے ،دو دن ایک رات ہو گئے آج آئی ہے۔’’
گوری خاموشی سے سارے تانے سن رہی تھی،وہ بیچاری کرتی بھی کیا؟ اپنے سر کو جھو کائے زہرکے گھونٹ پیتے ہوئے خاموشی سے چلنے لگی، اوراپنے مظلوم جسم پر ہونے والے ظلم کوہنس کر بھولانے کی کوشش کرنے لگی،لیکن وہ پھر بھی خوش تھی کے اس کے چھوٹے سے بچّے منّاکے دواخانے کے لئے ضروری روپیوں کا انتظام ہوگیا تھا،ڈاکٹرنے مہینگی دوائیاں دی تھی، دو دنوں میں دوائیوں نے اثر دیکھایا، منّابہت جلد ٹھیک ہوگیا ، عورتوں کے تانے اب بھی کم نہ ہوئے تھے، مردوں کے نظروں میں اب اس کی عزّت ویشاء کے مساوی تھی، کچھ مرد تو اسے اپنے عیش پرستی کا سامان سمجھنے لگے تھے،نو جوان لڑکے کبھی اس ابھلاناری پر اپنے عادت کے باعث بے معنی فقرہ کستے اور برا بھلا کہتے وہ آنکھیں جھکائے خاموشی سے اپنی راہ چل دیتی،لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے،جب حد پار ہو جاتی ہے تواُس کے ذہن میں اپنا گاؤں چھوڑکر چلے جانے کا خیال آتا، وہ سوچتی کہ :
‘‘ا ب میں اس گاؤں میں نہیں رہوں گی ،’’لیکن وہ پھر یہ سوچ کر تر ک کے خیال کردیتی کے ابھی اسے اپنے لڑکے کا مستقبل بنانا ہے ، یہ خیال اس کی قوتِ برداشت میں اضافہ کر دیتا ۔ وہ اپنے ارادے کو ملتوی کر دیتی ،اور بھگوان سے پرتھناکرتی کہ؛
‘‘اے بھگوان !مجھے اس گاؤں چھوڑکر جانے کے فیصلہ سے بچا’’
کیونکہ اس کے پاس اپنے شوہر کی اکلوتی نشانی منّااور اس کے آبائی مکان کے سوا اورکچھ نہ تھا،گوری نے اب اس فیکٹری کی نوکری چھوڑ دی تھی، دو ہفتے گزر چکے تھے ،گوری اب نئی نوکری کی تلاش میں در بدربھٹک رہی تھی ، گاؤں کے تمام لوگ جہاں سے اسے امید تھی، اسکی بدنامی کے وجہ سے اسے نوکری دینے سے انکار کر رہاتھے،نوبت یہاں تک آئی کے اس کا سارا غلّہ ختم ہو گیا ،بنیا نے ادھار دینے سے انکار کردیا، وہ گھر میں اپنے بھو کے بچے کو ایک سوکھی روٹی کا ٹکڑا پانی میں ڈوبوں کر کھلا رہی تھی اور یہ سوچ رہی تھی کیوں نہ آج رات پھر سے کام مانگنے کے لیے اس فیکٹری کے سوپر وائیز ر کمار کے پاس چلی جاؤں وہ بھلے ہی کتنابھی ظالم ہو پیسے کے لیے منع نہیں کرے گا،اس کی عیاشی میرے بھوکے بچے کی بھوک ضرور مٹا سکتی ہے ، وہ گاؤں کے بنیا سے اچھاہے،ٹھاکراس کے بال برابر نہیں ،وہ پاٹل کی طرح گھر سے دھوتکارتانہیں،پچھلی مرتبہ میرے بچّے کی جان اس
کمار نے بچائی تھی آج بھی وہ ضرور بچائے گا،لیکن اس کے لیے مجھے اپ۔ نی۔۔اپنی۔!!! اس کے آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے، اتنے میں گوری کے دروازے پر کئی دنوں کے بعد ایک اجنبی دستک سنائی دی۔
ٹک ٹک۔۔ٹک۔ٹک ۔کوئی ہے ؟ کوئی ہے؟گوری ۔ ! گوری۔۔ !!
گوری اپنے آنسوں پونچھتی ہے، منّاکو زمین پربیٹھا کردروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہاکون؟ کون ہے؟ دروازے کے باہر سے آواز آتی ہے ۔
میں ۔میں روقیہ۔نرس روقیہ۔۔!
گوری دروازہ کھولتی ہے سامنے وہی سٹی ہاسپتال کی نر س کھڑی تھی،گوری نے اسے اپنے گھر کے اندر آنے کے لیے کہا، وہ نر س اند ر داخل ہوئی گوری نے اس سے کہا۔! کیابات ہے؟ میڈم آج مجھ غریب کے گھر کیسے آنا ہوا؟ نرس نے جواب دیا میں تمہارے لیے ہمارے دواخانے سے نوکری کی سفارش لے کر آئی ہوں،صاف صفائی کا کام کرنا ہے ، کیاتم اس کے لیے تیار ہو،اتناکہنا تھا کے اس مظلوم عورت کی آنکھیں نم ہوگئی۔
چھاتی بھر آئی !
اسکے منہ سے شکریا کے لیے کوئی بھی الفاظ ادانہ ہوئے،نرس نے اس کے دونوں کندھو ں کو اپنے ہاتھ میں لے لئے اور یہ کہنے لگی پورے دو ہزارپانچ سو روپیے مہینے کی تنخواہ رہے گی، میں پچھلے چار پانچ دنوں سے تیرا گھرتلاش کررہی تھی آج جاکر ملاہے، تو کونسا کام کرنا پسند کرے گی، گوری نے کہا ،کوئی بھی کام ہو چاہیے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، تو پھرٹھیک ہے، ڈاکٹر صاحب کل خود تیرا انٹرویو لینگے، بس تو انکے ہاں میں ہا ں ملانا،اور وہ جو کہے مان جانا،بس انھیں خوش کردینا،تیری نوکری پکّی ہوجائے گی ،نرس روقیہ کااتناکہناتھا کے گوری کی آنکھیں چُندیا گئی ،اور وہ ایک پل کے لئے اپنی ہی جگہ پر سرد گوشت کی طرح سی ہوگئی ۔۔۔!
جو کچھ دیر پہلے اپنے بھوکے بچے کی بھوک مٹانے کے لیے دوبارہ کمار کے پاس جانے کے بارے میں سوچ رہیں تھی ،گو یا اسے کوئی سانپ
سونگ گیا ہو، گوری کے آنکھو ں سے گنگا جمنا جاری ہوگئے وہ سوچنے لگی یہ تین دن کا فاقہ ایک دوڈھائی سالہ لڑکا۔ میرا منّا۔! میرا بچّہ۔ !
نرس نے کہا ، تو کیا سوچ رہی ہے گوری میں سب جانتی ہو ہم جیسے بے سہارا عورتوں کا یہی حال ہوتا ہیں ،یہ پاپی پیٹ کی آگ کچھ اسی طرح سے بجھتی
ہے،اور ان مردوں کی ….اتنا کہے کر اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور خاموش ہو گئی ۔
گوری نے کہا ٹھیک۔ ہ۔ہ ۔ہے۔!اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر یہ جواب دیا، اور خاموش ہوگئی ۔
پھرکچھ سوچ کرکہنے لگی کہ پھر ایک بار رسوائی سہی ، پہلے بچے کی جان بچانے کے لئے رسوا ہوئی تھی اب اس کی زندگی بنانے کے لئے سہی بھگوا ن کو یہی منظو ر ہے تو ہم اور کیا کر سکتے ہیں اس کی آواز بیٹھ گئی۔
نرس کابھی دل بھر آیا۔
دونوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں،گویا سارے شہر کا ماتم ان کے دامن آگیا ہو۔۔!
***
Dr. SAHIMODDIN KHALILODDIN SIDDIQUI (Aurangabad, Deccan)
Assit. Prof. Dept. Of URDU,
Swami Ramanand Teerth Mahavidyalaya Ambajogai Dist. Beed.
431517.
Mob:- 8087933863