
صابر گوڈر: ماریشس میں اردو زبان و ادب کا درخشاں ستارہ
جنت نشاں جزیرہ ماریشس جسے ہندستانی مہاجروں کی آماجگاہ کہا جاتا ہے۔جن مہاجروں نے ماریشس میں اردو زبان و ادب کی آبیاری کی ان میں ایک اہم نام صابر گوڈر مرحوم کاہے۔ صابرگوڈر صاحب کو مرحوم لکھتے ہوئے دل ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہے۔ بات ہے جون 2022کی،ورلڈ اردو ایسوسی ایشن ، نئی دہلی نے 3جون 2022کو بابائے اردو ماریشس جناب عنایت حسین عیدن کی کتاب ’’ایک جنون، ایک تحریک ‘‘ پر بحث و مباحثہ کے لیے’’میونسپل سیٹی کونسل، پورٹ لوئس ‘‘میں ایک سمپوزیم کا انعقاد کیا تھا۔ اس میں پروگرام میں ماریشس کے نائب وزیر اعظم ڈاکٹر انور حسنو، سابق صدر جمہوریہ، ماریشس جناب عبد الرؤف بندھن، مسٹر محفوظ موسیٰ ، میئر پورٹ لوئس وغیرہ نے شرکت کی تھی۔ صابر گوڈر صاحب اور راقم کو عنایت حسین عیدن کی ادبی خدمات و جہات پر بات کرنی تھی۔سمپوزیم میں مجھ سے پہلے خطاب کے لیے ناظم جلسہ جناب بشیر طالب نے صابر گوڈر کو مدعو کیا۔موصوف نے بہت عالمانہ گفتگو کی۔یہ صابر گوڈر صاحب سے براہِ راست میری پہلی ملاقات تھی۔اچانک کچھ مہینے قبل یہ افسوس ناک خبر ملی کہ صابر گوڈر اس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ سن کر دل بڑا بے چین ہوا۔ ماریشس میں ان کے ساتھ گزرا وقت شدت سے یاد آنے لگا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ ماہنامہ ’’ترجیحات‘‘ کے شمارے میں انہیں خراج عقیدت پیش کروں۔
صابر گوڈربنیادی طور پر اردو کے ادیب ،محقق، ناقد اور شاعرتھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز ڈرامانگاری سے کی۔ ماریشس میں 1974سے وزارت فن و ثقافت کی جانب سے ہر برس ڈرامامقابلے میں اردو ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔ صابرگوڈر کے کئی ڈرامے مثلاً ’’انقلاب، 1981، نیا زمانہ نئے خیال1997‘‘ اس مقابلے میں نہ صرف کھیلے گئے بلکہ انہیں اعزازسے بھی نوازا گیا۔
صابر گودڑ ماریشس کے مشہور علاقے’’ پانپلے موس مورسیلنا انبری‘‘ میں 24اکتوبر1950 کو پیدا ہوئے۔ گھر میں روایتی تعلیم کا ماحول تھا چناں چہ انہوں نے روایتی تعلیم گھر سے ہی شروع کی۔ اس کے بعد ایک مدرسے کا رخ کیا جہاں مرحوم احمد ہنجاڑی سے دینی تعلیم کے ساتھ اردو زبان کی تعلیم بھی حاصل کی۔ پرائمری اورثانوی اسکول تک اردو بطور اختیاری مضمون پڑھنے کے بعد انہیں اردو زبان وادب سے دل چسپی پیدا ہوئی۔ اسی دل چسپی نے موصوف کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تک پہنچادیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1981میں بی اے اردو آنرس اور 1987میں ایم اے اردو مکمل کیا۔ بی اے اردومیں امتیازی نمبرات کی وجہ سے یونیورسٹی نے انہیں گولڈ میڈیل سے بھی نوازا۔ علی گڑھ کی تعلیم وتربیت نے صابر گودڑ صاحب کے ذہن پر گہرے نقوش ثبت کئے ۔ وہ بارہا کہا کرتے تھے کہ ’’ مجھ میں اردو زبان وادب کی جس قدر بھی فہم وفراست ہے وہ سب علی گڑھ کی دین ہے‘‘۔
صابرگودڑ نےاپنی عملی زندگی میں معلمی کا پیشہ اختیار کیا۔ پرائمری اور ثانوی اسکول سے ترقی کرتے ہوئے مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ میں لکچرار کی تک رسائی حاصل کی ، اس کے بعد صدر شعبۂ اردو بھی بنے، ساتھ ہی ایجوکیشن آفیسر بھی بنائے گئے۔ 2012میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور مستقل اردو زبان و ادب کی خدمت میں لگ گئے۔ اردو اسپیکینگ یونین کے نائب صدر ،جامعہ اردو علی گڑھ بورڈ ،ماریشس کے ایگزامینر، نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ کے ایکزیکٹو ممبر اور بھوجپوری اسپیکنگ یونین کے نائب صدر کے عہدوں پر متعدد بارفائز ہوئے اوراپنے تجربے سے ملک و قوم کی خدمت انجام دیتے رہے۔
صابر گوڈر نے ملازمت سے سبکدوشی سے کچھ قبل یعنی 2009 میں میرٹھ یونیورسٹی،میرٹھ ، یوپی سے پروفیسر اسلم جمشید پور ی کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کیا۔ مقالے کا عنوان’’ماریشس میں اردو زبان وادب کا ارتقا‘‘ تھا ۔ موصوف کو تحقیق و تنقید سے فطری لگاؤتھا۔ ماریشس کے تخلیقات پر تعارف و تجزیہ کا پہلا سہرا بھی انہیں کے سر جاتا ہے۔
صابر گودڑ کی شخصیت کے کئی پہلو تھے۔ اردو، ہندی ،فرانسیسی، کریولی اور انگریزی کے علاوہ بھوجپوری زبانوں پر بھی انہیں یکساں دسترس حاصل تھی۔موصوف نے ڈرامے، افسانے اوراردو کے ادبا و شعرا جیسے موضوعات پر متعدد مضامین قلم بند کیے۔صابر گودڑ کو شعروسخن سے بھی خاصی دل چسپی تھی۔ان کا پہلا شعری مجموعہ’’لب ساحل‘‘ کے نام سے’’ دی نیشنل اردوانسٹی ٹیوٹ، ماریشس ‘‘نے 1995میں شائع کیا جس میں ان کی غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔
مشہور اشعارملاحظہ کریں:
حادثوں کے لمحوں میں جب بناؤں گھر اپنا
آب وگل کا ایک کمرہ یوں ہی مختصر رکھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگادے کوئی دیوار کے ساتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوچکی ہے سحر، کوچ کا وقت ہے
اٹھیے صابرؔ میاں لوگ تیار ہیں
ورلڈاردو ایسوسی ایشن ان کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے ۔ ان کی مغفرت کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گوہے اور ان کے لواحقین سے اظہار ِتعزیت کرتاہے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے