منیر عباس سپرا
پی ایچ ڈی سکالر، شعبہ اردو، منہاج یونیورسٹی لاہور(پاکستان)
عالمی فلیش فکشن کے اردو تراجم: پس منظر، پیش منظر اور تجزیہ
‘‘Global Flash Fiction in Urdu Translation: Background, Foreground, and Analysis.”
Munir Abbas Sipra
Ph.D Scholar, Urdu Department, Minhaj University Lahore. (Pakistan)
munirsipra9810@gmail.com
ABSTRACT
The translations of global flash fiction into Urdu are not only a new addition to Urdu literature but also a means of representing the Urdu language on an international level. The history of flash fiction is rooted in ancient fables, Panchatantra, and Jataka tales, where writers like Aesop, Sheikh Saadi, Maulana Rumi, and Mulla Nasruddin used short stories to highlight moral values and human weaknesses. In the 19th and 20th centuries, the genre gained popularity with Nobel laureates like Franz Kafka, Yasunari Kawabata, Gabriel Garcia Marquez, and Naguib Mahfouz. These writers effectively explored themes such as human psychology, societal issues, and magical realism in their short stories, conveying deep meaning with fewer words.Urdu literature has also embraced global flash fiction, and it continues to evolve alongside the tradition of short stories. The fast pace of life and limited time have contributed to the increasing popularity of flash fiction, incorporating contemporary issues like technology and identity into the genre. Modern writers have adopted various styles, making this genre even more intriguing.
Keywords: Global Flash Fiction ,Urdu Translations, History, Background , Foreground , Popular Genre ,4 Nobel Prize Winners.
انسان کی کہانیوں سے دلچسپی قدیم زمانے سے موجود ہے، جب اس نے پہلی بار اپنی کامیابیوں اور تجربات کو دوسروں کے سامنے پیش کیا۔تب سے ہی کہانی کا آغاز ہوگیا تھا۔ کہانی کی تاریخ انسانی زندگی کی پیچیدگیوں اور تبدیلیوں کا عکاس ہے۔ یہ بنیادی طور پر انسان کے اعمال کی داستان ہوتی ہے، جو اپنی نفسی تسکین اور خود کو اہمیت دینے کے لیے اپنی روداد بیان کرتا ہے، بعد میں یہ کہانیاں تخیل، رومان اور نظریات سے سجا دی جاتی ہیں۔ پھر جس سے یہ ہماری نفسی اور سماجی ضروریات کی تکمیل کرتی ہیں۔ دراصل کہانی کا آغاز اور ارتقا ایک پیچیدہ اور دلچسپ سفر ہے جو انسان کی تخلیقی صلاحیتوں، ثقافتی تبدیلیوں اور معاشرتی ضروریات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ کہانی کا آغازابتدائی انسانی تاریخ میں ہوا، جب انسان نے اپنی یادداشت، تجربات اور احساسات کو زبانی شکل میں بیان کیا۔ یہ زبانی روایات بعد میں تحریری شکل اختیار کرنے لگیں، جس نے کہانی کو محفوظ کرنے اور اس کی منتقلی کو ممکن بنایا۔کہانی تحریری صورت میں آنے کے بعد مختلف ادوار میں الگ الگ ہیٔت میں تقسیم ہو گئی پہلے پہل قدیم داستان پھر یہ سفر ناول،ناولٹ اور افسانے سے ہوتا ہوا فلیش فکشن تک پہنچ گیا۔
فکشن کا یہ سفر کئی صدیوں سے چلتا آرہا ہے جہاں تک فلیش فکشن کا تعلق ہے اس کے آثار بھی قدیم ادوار سے ملتے ہیں اور یہ پوری دنیا میں لکھی اور پڑھی جانے والی صنف ہے۔کیوں کہ یہ مختصر کہانی ہوتی ہے جو کم وقت میں مکمل کہانی کی لذت مہیا کر دیتی ہے۔اس کی تخلیق کی بنیادی شرط ہی اختصار ہے۔ کیوں کہ فلیش فکشن ایک ایسی مختصر صنفِ ادب ہے جس میں کہانی کو نہایت مختصر الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے، عموماً اس کی لمبائی ہزار الفاظ یا اس سے بھی کم ہوتی ہے۔ اس صنف کا مقصد مختصر وقت میں قاری کو ایک مکمل تجربہ فراہم کرنا ہوتا ہے، جس میں کردار، واقعہ، اور موضوع سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ دراصل فلیش فکشن کی تخلیق ایک ایسا فن ہے جس میں ایک اہم بات،فکر،پیغام،خیال ،نظریے یا مسٔلے وغیرہ کو عمدہ ادبی مہارت سے گہرائی ،گیرائی اور جامعیت کے ساتھ مختصر الفاظ میں پیش کرنا ہوتا ہے۔حالیہ تیز ترین اور مصروف دور میں، صرف لفظوں کی مقدار کا اعتبار نہیں رہا، اب لمبی چوڑی کہانیاں لکھنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ موجودہ ادبی منظرنامے میں اختصار نویسی کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اس ضمن میں، مشہور و معروف انگریزی مصنف جارج لوئیس بورخیس، جو ناول نگاری، شاعری، اور فلیش فکشن کی کئی اہم کتب کے خالق ہیں، فرماتے ہیں:
“It is laborious and impoverishing madness to compose vast books, to expond over five hundred pages an adea that orally can be expressed perfectaly well in a few minutes.”(1)
آج کے دور میں قاری کی توجہ کو برقرار رکھنے کے لیے مختصر اور جامع تحریریں زیادہ مؤثر ثابت ہو رہی ہیں۔ضخیم اور بھرپور کتابیں تحریر کرنا ایک نہایت محنت طلب اور جنون کی مانند عمل ہے۔ یہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ایک ایسا خیال جو عموماً چند منٹوں میں واضح اور مؤثر انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے، اسے پانچ سو صفحات پر محیط کرنا ایک فکری عیاشی اور بے جا پیچیدگی ہے۔ اس کے بجائے، خیالات کی سادگی اور قوت کو برقرار رکھتے ہوئے اختصار کو ترجیح دینا چاہئے، تاکہ الفاظ کی کثرت کی بجائے معانی کی گہرائی پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔کہانیوں میں اختصار نویسی کی اہمیت پر کئی ناقدین اور مصنفین زور دیتے ہیں۔ ہم عالمی ادب سے کچھ ناقدین اور مصنفین کی آراء کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ وہ فکشن میں اختصار نویسی کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں:
“Stories can be as short as a sentence.(Randall Jarrell)
A good short-short is short but not small,light but not slight.(Ku Ling)
Brevity is the soul of wit.(William Shakespeare)
Brevity is the sister or telent (Antom Chekhor)”(2)
ترجمہ:کہانیاں ایک جملے کی طویل بھی ہو سکتی ہیں۔ (رینڈل جیرل)
مختصر کہانی چھوٹی تو ہوتی ہے لیکن معمولی نہیں، ہلکی تو ہوتی ہے لیکن سطحی نہیں۔ (کو لنگ)
اختصار ذہانت کی روح ہے۔ (ولیم شیکسپیئر)
اختصار قابلیت کی بہن ہے۔ (انتون چیخوف)
اختصار نویسی میں اہم پہلو یہ ہوتا ہے کہ اضافی تفصیلات کو چھوڑ کر صرف مرکزی خیال یا جذبات کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ کہانی کا تاثر اور پیغام مکمل طور پر پہنچ سکے۔ اس کے ذریعے مصنف نہ صرف قاری کی توجہ کو فوری طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے بلکہ اسے سوچنے پر مجبور بھی کرتا ہے۔اس حوالے سےکیتھرین سوسٹینا جوایک افسانہ نگار اور سابق انگلش پروفیسر ہیں، جو جنوبی کیلیفورنیا (امریکا) میں رہتی ہیں۔ انہوں نے اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک سے انگریزی میں پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی ۔ ان کےفلیش فکشن کئی معروف عالمی ادبی جرائد میں بھی شائع ہو چکےہیں۔ انہوں نے فلیش فکشن کے حوالے سے ایک مضمون “Flash Fiction Definition and History” تحریر کیا، جو “SUDDEN FICTION LATINO” میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں انہوں نے فلیش فکشن کی تعریف اور اس کے اجزا پر تفصیلی بحث کی ہے،وہ لکھتی ہیں:
“Brevity: Regardless of the exact word count, flash fiction attempts to condense a story into the fewest words possible…..A beginning, middle, and end: In contrast to a vignette or reflection, most flash fiction emphasizes plot. While there are certainly exceptions to this rule, telling a complete story is part of the excitement of working in this condensed form.…..Setting up expectations and then turning them upside down in a short space is one hallmark of successful flash fiction.”(3)
کیتھرین سوسٹینا فلیش فکشن کے لیے تین بنیادی اصول وضع کرتی ہیں۔۱۔اختصار (Brevity)،۲۔ آغاز،وسط،اختتام(A Beginning middle, and end)،۳۔چونکا دینے والا اختتام( A twist or surprise at the end)اگر اقتباس کی روشنی میں مجموعی بات کریں تو واضح ہوتا ہے کہ فلیش فکشن میں کہانی کو کم سے کم الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے، جس میں اختصار ایک بنیادی شرط ہے۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ کسی واقعے کی عکاسی کرتے ہوئے پلاٹ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ دیگر فکشن کی شعریات میں بعض اوقات تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں، مگر کہانی کو مکمل اور متحرک انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ فلیش فکشن کا اختتام ایسا ہونا چاہیے کہ وہ قاری کو حیران کر دے، پوری کہانی میں تجسس اور توقعات قائم رہیں، اور آخر میں اچانک ایک ایسا موڑ آئے کہ کہانی کا نیا رخ سامنے آ جائے۔ اس کے نتیجے میں قاری سوچنے پر مجبور ہو جائے، جس سے ذہن میں ایک ہلچل پیدا ہو۔
کہانی میں اختصار نویسی کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے،انگریزی مصنف جیمز تھومس(James Thmas) فلیش سٹوری کے بارے میں لکھتے ہیں :
“We offer some of it at the end of anthology in a section called “Flash Theory”___ big idea in tiny spaces,as short as a sentence(Whether deep, autrageous,humorous,or in the best iridescent.”(4)
اس اقتباس میں ‘فلیش تھیوری’ کا ذکر کیا گیا ہے، جو کہ فلیش فکشن کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ مختصر کہانیاں بڑی اور گہری خیالات کو مختصر انداز میں پیش کر سکتی ہیں، حتیٰ کہ ایک جملے میں بھی۔ یہ فلیش فکشن کی خوبی ہے کہ وہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے، چاہے وہ موضوع کی نوعیت گہری، حیران کن، یا مزاحیہ ہو۔ اس طرح، فلیش فکشن کی خوبی یہ ہے کہ یہ قاری کی توجہ کو فوراً اپنی جانب کھینچ لیتا ہے، اور اس میں موجود چمک اور تخلیقیت کی بنا پر ایک یادگار تجربہ فراہم کرتا ہے۔ ان تعریفوں سے یہ نتائج اخذ کرکے یہ تعریف وضع کی جا سکتی ہے کہ’’ فلیش فکشن ایک ایسی مختصر ادبی صنف ہے، جو تقریباً چند سو الفاظ سے لےکرایک ہزار سے بارہ سو الفاظ تک مشتمل ہوتی ہے۔ اس میں کردار، واقعات اور مختلف عناصر کی موجودگی ہوتی ہے، جبکہ اس کا اختتام عموماً چونکا دینے والا ہوتا ہے۔‘‘ ایسااختتام قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور اس نوع کی کہانی قاری کے ذہن میں ایک مکمل یا کئی متنوع کہانیوں کی تصویر کشی کرتی ہے، اس نوعیت کی کہانیوں کا مقصد نہ صرف تفریح فراہم کرنا ہوتا ہے بلکہ قاری کی تخیل کو بیدار کرنا اور اس کی تفہیم کو گہرائی میں لے جانا بھی ہوتا ہے۔پھر جس سے ادبی معانی کا ایک وسیع دائرہ پھیلتا ہے۔
فلیش فکشن کو اردو میں کئی مختلف ناموں سے لکھا اور پکارا جاتا ہے،ان میں’’افسانچہ، مختصر افسانہ، مائیکرو فکشن،مختصر کہانی‘‘ وغیرہ زیادہ مروج نام ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ فلیش فکشن عالمی سطح پرکئی زبانوں میں مقبول ترین ادبی صنف ہے ،جو دنیا کے ہر گوشے میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ ادب کا یہ وسیع دائرہ علاقائی سرحدوں سے آزاد ہے، لیکن ہر خطے کی ادبی شناخت اس کے مخصوص رسم و رواج، موسمی حالات، سیاسی اور مذہبی تناظر، تاریخی پس منظر، ثقافتی روایات، تہذیبی نشوونما، اور سماجی معاملات کے مطابق شکل پاتی ہے۔ جیسے جیسے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا، اسی طرح مختلف تہذیبوں میں تصادم اور اشتراک کی صورت میں ہر خطے میں تبدیلیاں آتی رہیں۔ نتیجتاً، نئی زبانیں وجود میں آئیں اور قدیم زبانوں نے بھی اپنا مزاج تبدیل کیا۔ مختلف ادبی تحریکیں بھی اپنے اثرات مرتب کرتی رہیں۔ ایسے حالات میں بھی ادب کی نشوونما جاری رہی، اور مختلف خطوں کے ادب میں ادبی اصناف اور اصطلاحات کا لین دین ایک معمول کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اگر فلیش فکشن کے پس منظر پر غور کیا جائے تو یہ بھی مختلف زبانوں، ادب اور تہذیبوں کی علامات سے مالا مال ہے۔ یہ کہانیاں بہت قدیم تہذیبوں سے جڑی دکھائی دیتی ہیں، جن کی جڑیں قبل از مسیح کے معروف قصہ گو ایسوپ (Aesop) تک پھیلی ہوئی ہیں۔’’ایسوپ قدیم یونان کا ایک مشہور قصہ گو تھا۔اس کا زمانہ۶۲۰ تا۵۶۴ قبل از مسیح مانا جاتا ہے۔ اس کی لکھی کہانیاں ہم تک (Aesop’s Fables) کی شکل میں پہنچتی ہیں۔‘‘(۵) فلیش فکشن کا تصور نیا نہیں ہے، اس میں کوئی شک نہیں اس کی جڑیں قدیم ادبی روایات میں پائی جاتی ہیں۔ قدیم داستانیں، حکایات اور تمثیلات میں ایسی مختصر کہانیاں ملتی ہیں جو مختصر اور جامع انداز میں سبق آموز یا تہذیبی پہلو بیان کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایسپ کی حکایات، گلستان سعدی کی مختصر کہانیاں، اور الف لیلا کی حکایتیں، فلیش فکشن کے ابتدائی نمونوں کے طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔فلیش فکشن کے اسی پس منظر کے بارے میں پروفیسر قاسم یعقوب اپنے ایک مضمون ’’ فلیش کہانی: آج کی کہانی‘‘میں لکھتے ہیں کہ :
’’ایسپ کہانیاں کسے یاد نہیں وہ ایسپ کہانی جس میں ایک باپ اور بیٹا ایک گدھے پر سواری کرتے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ یہ کمزورگدھا ہے اور دونوں اوپر چڑھے ہوئے ہیں ۔بالآخر وہ کسی طرح بھی لوگوں کو مطمئن نہیں کر پاتے۔پھر پیاسا کوا لالچی کتا وغیرہ جیسی خوبصورت کہانیاں ہیں جو زندگی کو تشریح کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔جو اب دنیا بھرکے سماج کا حصہ بن گئی ہیں ۔ کچھ اور پیچھے جائیں تو الف لیلا کی کہانیاں بھی مختصر کہانیوں میں شمار کی جاتی ہیں ۔ حکایات کے ضمن میں ’’گلستان سعدی‘‘ کو بہت شہرت ملی۔حکایات کا مرکزی نکتہ تو سبق آموز بات ہوتی ہے مگر کہانی پن میں اچھی اچھی کہانیوں کو مات دیتی نظر آتی ہیں۔‘‘(۶)
ایسی ہی قدیم کہانیوں کو جدید فلیش فکشن کے پس منظر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ایسوپ کی اسی طرح کی ایک کہانی’’کسان اور بیٹے‘‘ کے عنوان سےہے، جو سبق آموز ی اور کہانی پن میں جدید فکشن سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔اس کہانی کو اردووقالب میں قیصر نذیر خاور نے ڈھالا ہے۔ یہ کہانی اردو کے۲۲۹الفاظ پر مشتمل ہے۔یہ کہانی ایک کسان اور اس کے بیٹوں کے گرد گھومتی ہے۔ جس میں ایک قیمتی سبق پوشیدہ ہے۔ کہانی کا مرکزی موضوع محنت اور زمین کی اہمیت ہے، جسے مصنف نے ایک سبق آموز اور علامتی انداز میں پیش کیا ہے۔ کہانی کا آغاز بوڑھے کسان کے وصیت نما مشورے سے ہوتا ہے، جہاں وہ اپنے بیٹوں کو ایک ’’خزانہ‘‘ تلاش کرنے کی نصیحت کرتا ہے، اور اسی راز کو کھولنے کے لیے مصنف نے محنت کو مرکزی خیال بنایا ہے۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’میرے بیٹو!میری بات دھیان سے سنو اس زمین پر جو کئی نسلوں سے ہمارے پرکھوں کی ملکیت چلی آرہی ہے ،اس کو خود سے الگ نہ کرنا یہیں کہیں ایک بڑا خزانہ چھپا ہے مجھے یقین ہے کہ تم اسے پانے میں کامیاب ہو جاؤ گے۔‘‘(۷)
کہانی میں خزانے کا ذکر علامتی طور پر کیا گیا ہے۔کہانی کا بنیادی سبق یہ ہے کہ محنت ہی اصل خزانہ ہے بوڑھے کسان کے الفاظ کو سمجھنے میں بیٹے ابتدا میں ناکام رہے، لیکن جب انہوں نے زمین کی کھدائی کی اور فصل اگانے میں محنت کی تو نتیجہ بہت زیادہ منافع کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کامیابی اور دولت کا حصول کسی جادوئی خزانے یا شارٹ کٹ کے ذریعے ممکن نہیں، بلکہ اس کے پیچھے سخت محنت اور مستقل مزاجی ہوتی ہے۔کسان نے اپنی زمین کو نسل در نسل محفوظ رکھنے کی تاکید کی اور بیٹوں کو بتایا کہ زمین میں چھپا خزانہ ان کی محنت اور فصل ہے۔ اس سے ایسوپ یہ پیغام دیتا ہے کہ زراعت اور زمین کے وسائل کی حفاظت اور اس سے فائدہ اٹھانا ہی حقیقی دولت ہے۔ معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے لیے زمین کی پیداوار کو بہتر بنانا ضروری ہے۔
معروف شاعر، محقق اور نقاد، ڈاکٹر پروفیسر انعام الحق جاوید نے “ایسپ کے منتخب قصے کہانیاں” کے پیش لفظ میں ان کہانیوں کی قدامت ،ادبی اہمیت اور ایسوپ کی زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
’’سقراط جب زندان میں تھا تو اس نے ایسپ کی کچھ کہانیوں کو نظم کیا تھا،Laertius Diogenes کا کہنا ہے کہ یونان قدیم کا ایک ڈرامہ نگار “Ennius”بھی ایسپ کی کہانیوں کا حوالہ دیتا تھا۔ اُس دور میں یونانی زبان میں ایسپ کی کہانیوں کی دس کتابیں موجود تھیں ۔ رومن دور حکومت میں کئی دانشوروں نے ایسپ کی کہانیوں کو ایسے لٹریچر میں اپنایا۔ فیڈرس نے اس کی کہانیوں کو لاطینی زبان میں منتقل کیا تھا۔ ایسوپ کی حکایات عالمی ادبی ورثہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔اور کلاسک ادب ہونے کے ناطے پوری دنیا میں مقبول و معروف ہیں اور مختلف کتابوں میں ان حکایات کی تعداد بھی مختلف ہے۔ ‘‘(۸)
ایسوپ کی ایک اورکہانی’’ایک آدمی کی دو بیویاں ‘‘ کے عنوان سے ہے۔اس کا اردو میں ترجمہ ملک اشفاق نے کیا ہے۔ یہ کہانی صرف ۱۷۰ الفاظ پر مشتمل مختصر کہانی ہے۔یہ کہانی ایک ایسے مرد کی زندگی کی عکاسی کرتی ہے جو دو بیویوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر اس کی کوششیں اسے شدید ذہنی اور جسمانی تکلیف میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ کہانی کا مرکزی کردار ایک درمیانی عمر کا آدمی ہے، جو ایک طرف ایک نوجوان بیوی رکھتا ہے جو چاہتی ہے کہ وہ جوان نظر آئے، اور دوسری طرف ایک عمر رسیدہ بیوی جو اپنی عمر کے ساتھ ہم آہنگ رہنا چاہتی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار ایک ” درمیانہ عمر” کاآدمی ہے، جو اپنے دونوں بیویوں کے جذبات کو سمجھنے اور ان کی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا کردار اس کی کمزوری اور نااہلی کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ دو مختلف خواہشات کے درمیان پھنس گیا ہے۔ اس کی کوششیں نہ صرف اسے ذاتی طور پر متاثر کرتی ہیں، بلکہ اس کی ذہنی صحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ نوجوان بیوی کی خواہش ہے کہ اس کا شوہر جوان نظر آئے، جس کی علامت اس کے سر اور داڑھی کے سفید بال ہیں۔ وہ اپنے شوہر کو اپنی عمر کا دکھانے کے لیے ان کے بال نوچتی ہے، جو ایک طرح کی علامتی حرکت ہے کہ وہ اپنی جوانی کے ساتھ اپنے شوہر کو بھی جوڑنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے شوہر کی جوانی کو اپنی عمر کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ اس کے نوچنے کی حرکت اس کے خوف کی عکاسی کرتی ہے کہ کہیں اس کا شوہر اس کی عمر کی وجہ سے اس سے دور نہ ہو جائے۔آخر کار وہ تنگ آکر اس نوبت تک پہنچ جاتا ہے،اقتباس دیکھیے:
’’ اس نے ایک دن اپنے سر اور داڑھی کے سارے بال نوچ ڈالے تاکہ بار بار تکلیف سے بچ سکے۔‘‘(۹)
مرکزی کردار کو شدید جسمانی اور ذہنی تکلیف کا سامنا ہے۔ اس کی بیویوں کی توقعات اسے ایک دائرے میں گھیر دیتی ہیں، جہاں وہ اپنی شناخت اور وجود کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس کی تکلیف اس وقت عروج پر پہنچتی ہے جب وہ اپنے بال نوچنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہ عمل اس کی بے بسی کا عکاس ہے کہ وہ اپنی زندگی کی مشکلات سے فرار حاصل کرنے کے لیے انتہائی اقدام اٹھا رہا ہے۔کہانی کا سبق یہ ہے کہ جب کوئی انسان سب کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ حقیقت میں کسی کو بھی خوش نہیں رکھ سکتا۔ یہ ایک عام انسانی تجربہ ہے کہ کبھی کبھی ہم دوسروں کی خوشیوں کے لیے اپنی خوشیوں کی قربانی دیتے ہیں، مگر اس کا نتیجہ ہمیشہ مثبت نہیں ہوتا۔ یہ کہانی انسانی فطرت اور رشتوں کی پیچیدگیوں کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ ایک مرد کی کہانی کے ذریعے یہ واضح کیا گیا ہے کہ انسان کی کوششیں کبھی کبھار اپنی شناخت کو گم کرنے کا باعث بن سکتی ہیں، اور یہ کہ ہمیں اپنی خوشیوں کی قیمت پر دوسروں کی خوشیوں کی تلاش نہیں کرنی چاہیے۔
قدیم یونان سے تعلق رکھنے والے ایسپ کی مختصر کہانیوں کو کچھ لوگ بچوں کی کہانیاں کہتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ایسپ کہانیوں کے پوری دنیا میں مقبولیت، پذیرائی اور اہمیت کے بارے میں معروف محقق نقاد اور مترجم ملک اشفاق جس نے ایسپ کی کہانیوں کے بھی ترجمے کئے ہیں ،وہ لکھتے ہیں :
’’یہ کہانیاں اخلاقی اسباق سے مزین ہے اور ہر کہانی میں ایک فلسفیانہ پیغام موجود ہے۔ ان کہانیوں کو صدیوں سے دلچسپی سے پڑھا جا رہا ہے اور کسی بھی دور میں ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا گیا۔اور مفکر بھی ان کہا نیوں کی اخلاقی تعلیمات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ، ایسوپ کےکسی نقاد نے ان کہانیوں کو بچوں کی کہانیاں نہیں کہا بلکہ یہ کہانیاں ہر بالغ فرد منفی رویوں کو بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔۔۔۔ہیروڈڈوئس،افلاطون،سقراط، اور پوری پیڈز جیسے فلاسفر اور مفکر بھی ان کہانیوں کو بچوں کی کہانیاں نہیں بلکہ یہ کہانیاں ہر بالغ فرد کے منفی رویوں کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں ۔ ایسوپ کی کہانیوں پر آسٹریلیا، امریکہ اور کئی یورپی ممالک میں بڑے بڑے پراجیکٹوں پر کام ہو رہا ہے۔ ‘‘(۱۰)
ایسپ کی کہانیاں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ایک اہم ادبی مقام رکھتی ہیں، جس کا ثبوت ان کی اثر انگیزی اور موضوعات کی تنوع سے ملتا ہے۔ یہ کہانیاں نہ صرف سبق آموز اور اخلاقی ہیں بلکہ ان میں فلسفیانہ، اصلاحی، اور فکری پیغام بھی شامل ہے۔ ایسپ کی یہ کہانیاں ادبی حلقوں میں فلیش فکشن کے پس منظر کے طور پر دیکھی جاتی ہیں، جو کہ اس بات کا اشارہ دیتی ہیں کہ یہ صرف کسی ایک خطے یا زبان کی نہیں بلکہ مختلف تہذیبوں اور زبانوں سے جڑی ہوئی ہیں۔
فلیش فکشن کے حوالے سے متعدد نظریات موجود ہیں، جن پر بحث و مباحثہ جاری رہتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ادبی تبدیلی، چاہے وہ سیاسی یا سماجی سطح پر ہو، کبھی بھی اچانک رونما نہیں ہوتی۔ اس کی جڑیں ماضی میں پوشیدہ ہوتی ہیں، جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہیں کہ فلیش فکشن کا وجود قدیم تہذیبوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔ مغربی ادب میں نئے تجربات اور تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ فلیش فکشن کی تخلیق کا عمل بھی قدیم ثقافتوں کے اثرات سے متاثر ہے۔ اس کا خمیر قدیم اور جدید کے مختلف اجزاء کو یکجا کرتا ہے، جس میں مشرق اور مغرب کی تہذیبوں اور زبانوں کے اثرات شامل ہیں۔ اس طرح، یہ کہنا درست ہوگا کہ ایسپ کی کہانیاں اور فلیش فکشن دونوں ہی ادب کی اس پیچیدہ دنیا کا حصہ ہیں، جہاں قدیم روایات اور جدید تجربات مل کر ایک منفرد ادبی شکل میں ڈھلتے ہیں۔ اسی ضمن میں مترجم، محقق اور فکشن نگار ،قیصرنزیر خاورؔ لکھتے ہیں :
’’انیسویں صدی میں جب افسانہ ترویج پارہا تھا تو ایسے میں تین امریکی نام ایسے ہیں جنہیں آپ اس رجحان میں اہم گردان سکتے ہیں جو آج افسانچہ (فلیش فکشن) کہلاتا ہے۔ انہوں نے ادب میں بھی کام کیا لیکن ان کی کچھ تحریریں بلاشبہ فلیش فکشن کے زمرے میں شمار کی جاسکتی ہیں ۔ یہ ادیب، والٹ و ٹمین(walt whitman)، ایمبروس بیئرس (Bierce Ambrase) اور کیٹ شوپن (Kate chopin) ہیں ۔۔۔ ۔۔ مشرق زبانوں کی طرف آئیں تو فارسی میں شیخ سعدی کی ’’گلستان‘‘ کو کسی طور پر فلیش فکشن سے باہر نہیں کیا جاسکتا۔ عربی میں لبنانی نثراد امریکی خلیل جبران، مصری نجیب محفوظ، تامرزکریا اور لیلیٰ العثمان اہم ہیں ۔ ‘‘(۱۱)
ایسوپ کی مختصر کہانیوں کے علاوہ بھی کچھ مختصر کہانیوں کا تعلق بھی زمانہ قبل از مسیح سے ہے جن میں ہند ، سندھ میں پنج تنتر اور پالی ادب سے جاتک کہانیوں کے نام سے آج کے دور میں موجود ہیں ۔ ان قدیم ادوار کی مختصر کہانیوں کا جدید دورکی مختصر کہانی(فلیش فکشن) کے پس منظر کے طور پر اہم کردار ہے۔ایسی ہی ایک کہانی’’موہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔اس کہانی کا ماخذ قبل از مسیح زمانے کی جا تک کہانیوں سے ہے۔ یہ مختصر کہانی تقریباََ ۷۵۸ لفظوں پر مشتمل ہے۔’’یہ انگریزی زبان میں “The Graving for Taste”کے نام سے بھی ملتی ہے اور انگریزی کتاب”Buddh’s Tales for young and old”میں بھی ہے۔‘‘(۱۲)
تر جمہ شدہ یہ کہانی “موہ” ایک گہرا فلسفیانہ پیغام اور زندگی کے بنیادی اصولوں کو پیش کرتی ہے۔ یہ کہانی نہ صرف بادشاہ اور ہرن کے ذریعے ایک مختصر حکایت کو بیان کرتی ہے بلکہ انسان کی فطرت اور دنیاوی معاملات کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔
اس کہانی کا مرکزی کردار ایک بادشاہ کاہوتا ہے، جو جنگلی ہرن کو پسند کرتا ہے اور اسے دربار میں لانے کا حکم دیتا ہے۔ مالی ہرن کو شہد کی موہ (لالچ) میں مبتلا کر کے دربار تک لے آتا ہے۔ ہرن، جو جنگل میں آزاد رہنے والا اور شرمیلا جانور تھا، مالی کی چالاکی کی وجہ سے لالچ میں آ کر اپنی آزادی کھو بیٹھتا ہے۔ بادشاہ ہرن کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی اسے ایک گہری حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ جیسے ہرن شہد کی لذت میں گرفتار ہو کر اپنی فطری آزادی سے دستبردار ہوگیا، ویسے ہی انسان دنیا کی مختلف موہ (لالچ) میں پھنس کر اپنی اصل حقیقت بھول جاتا ہے۔ جب بادشاہ کو یہ ادراک ہوتا ہےتب وہ ہرن کو آزاد کرنے کا حکم دیتا ہے اور خود بھی دنیاوی طاقت اور اقتدار سے دستبردار ہو کر جنگل کی طرف نکل جاتا ہے۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’ اسے احساس ہوا کہ اگر اس الگ تھلگ رہنے والے شرمیلے نادر جانور کو شہد کی ’’موہ‘‘ کھینچ کر یہاں تک لا سکتی ہے تو انسان تو’’موہ‘‘ کے حوالے سے بہت ہی کمزور ہے۔ یہ سوچ کر اس نے مالی کو حکم دیا کہ وہ ہرن کو واپس جنگل میں جا کر آزاد کر دے۔ ‘‘(۱۳)
کہانی کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں موہ (لالچ) ایک کمزوری ہے جو اسے اپنی اصل حقیقت اور مقصد حیات سے دور لے جاتی ہے۔ دنیا داری، دولت، طاقت، اور شہرت جیسی چیزیں انسان کو لالچ میں مبتلا کر دیتی ہیں، اور وہ اس دنیاوی موہ میں اپنی زندگی کے اصل مقصد کو بھول جاتا ہے۔ ہرن کی طرح، انسان بھی ان چیزوں کی کشش میں پھنس کر اپنی فطری آزادی کھو دیتا ہے۔کہانی میں “ہرن” آزادی اور فطری زندگی کی علامت ہے جبکہ “شہد” موہ یا لالچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ بادشاہ کا کردار ایک عام انسان کی نمائندگی کرتا ہے جو دنیاوی خواہشات کے پیچھے بھاگتا ہے اور اپنی اصل حقیقت کو بھول جاتا ہے۔ ہرن کو شہد کی لذت کا عادی بنانا دراصل اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیاوی لذتیں اور خواہشات انسان کو اپنے قابو میں کر لیتی ہیں، اور جب انسان ان کا عادی بن جاتا ہے، تو وہ اپنی خودی اور حقیقت کو فراموش کر دیتا ہے۔کہانی کے اختتام پر بادشاہ کا ادراک اس بات کی علامت ہے کہ زندگی کی حقیقی کامیابی دنیاوی لذتوں اور موہ سے آزاد ہونے میں ہے۔ بادشاہ کا اقتدار چھوڑ کر جنگل کی طرف نکل جانا ایک استعاراتی قدم ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانی روح کی آزادی اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی ہی اصل مقصد حیات ہے۔ انسان کی زندگی کا اصل مقصد صرف دنیاوی خواہشات کی تکمیل میں نہیں بلکہ اپنی حقیقت کو پہچاننے اور آزاد زندگی گزارنے میں ہے۔ کہانی انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ وہ خود کو دنیاوی لذتوں سے آزاد رکھے اور اپنی اور دوسروں کی آزادی کا احترام کرے، کیونکہ انسان کی حقیقی منزل موت ہے اور دنیاوی موہ صرف عارضی خوشی کا ذریعہ ہے۔
قبل از مسیح سے شروع ہونے والا مختصر کہانیوں کا سلسلہ تیرھویں صدی عیسوی تک جاری رہا، اس دورانیے میں ترکی کے عالم ملا نصیر الدین کی کہانیاں بھی شامل ہیں۔ یہ کہانیاں ابتدا میں زبانی طور پر منتقل ہوتی رہیں، لیکن وقت کے ساتھ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور انہیں تحریری شکل دینے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ۱۵۷۱ء میں حسین نامی شخص نے ملا نصیر الدین کی ۴۳حکایات کو لکھا، جو حکمت، عقل اور مزاح کا عمدہ نمونہ ہیں۔ یہ کہانیاں انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں، جیسے دانشمندی اور مسائل کے حل کو دلکش انداز میں پیش کرتی ہیں۔ ملا نصیر الدین کی حکایات آج بھی ادبی حلقوں میں مقبول ہیں کیونکہ وہ انسانی تجربات کی عکاسی کرتی ہیں اور فلسفیانہ پیغام دیتی ہیں۔ یہ کہانیاں نہ صرف تفریح کا ذریعہ ہیں بلکہ انسانیت کی سچائیوں کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں، اور قاری کو نئی راہیں دکھاتی ہیں۔قیصر نذیر خاور لکھتے ہیں :
’’مزاح سے بھر پور افسانچے اس کا خاصہ ہیں ۔ مختلف زبانوں میں اس کی کہانیوں کے مجموعے شائع ہوئے ہیں۔جن میں سب سے اہم فارسی میں مجموعہ’’ملا نصیر الدین کی چھ سو کہانیاں ‘‘ ہے۔جسے محمدرمضان نے تالیف کیا ہے ۔ہندوستانی نثراد برطانوی سکالر ادریس شاہ نے بھی نصیر الدین پر تفصیل سے کام کیا اور اس کی کہانیوں کو انگریزی میں ترجمہ کرتے ہوئے چار کتابیں مرتب کیں ۔‘‘(۱۴)
ملا نصیر الدین کی ایک مختصرکہانی’’باتونی پڑوسی‘‘ کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے ۔ان کی یہ کہانی مزاح اور حکمت کا بہترین مجموعہ ہے۔ اس کہانی میں ملا نصیر الدین کے ساتھ ایک پڑوسی کی فضول گوئی پیش کی گئی ہے۔ کہانی کا موضوع فضول بات چیت کے نقصانات اور دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کی ناپسندیدگی پر ہے۔ملا ایک عقلمند شخصیت کے طور پر پیش کیے گئے ہیں، جو فضول بات چیت سے بچنے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ ان کی جواب دہی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔یہ کردار ایک باتونی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے، جو دوسروں کے معاملات میں بے جا دلچسپی لیتا ہے۔ ان کا یہ عمل ان کی بے وقوفی کی علامت ہے، جو کہ کہانی کا مرکزی نقطہ ہے۔اقتباس ملاحظہ کریں:
’’ملا کا ایک پڑوسی ملا کو بتانے لگا کہ محلے کے گھر میں دعوت کا کھانا پک رہا ہے۔توپکتا رہے مجھے کیا ۔ملا نے کہا!میں نے سنا ہے کہ وہ لوگ تم کو بھی دعوت پر بلانے کا سوچ رہے تھےپڑوسی بولا۔’’پھر تجھے کیا ‘‘ملا نے جواب دیا۔‘‘(۱۵)
کہانی میں جو مکالمہ ہوا ہے، اس میں پڑوسی ملا کو دعوت کی خبر دیتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ وہ بھی بلائے جانے والے ہیں۔ ملا کی طرف سے جواب میں یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ پڑوسی کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ اس کا جواب “پھر تجھے کیا” ایک طرح کا مزاحیہ اور چالاکانہ ردعمل ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملا کی نظر میں پڑوسی کی فضول گفتگو کا کوئی اہمیت نہیں۔کہانی کا اہم سبق یہ ہے کہ فضول اور غیر ضروری بولنے سے انسان کی بے عزتی ہو سکتی ہے۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ اگر کسی بات کی ضرورت نہ ہو تو ہمیں خاموش رہنا چاہیے۔ اس کے علاوہ، دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرنے کی بھی نصیحت کی گئی ہے۔ اس کہانی کے ذریعے، ملا نصیر الدین کی ذہانت اور معاملہ فہمی کو اجاگر کیا گیا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ سادگی اور عقل مندی ہمیشہ اہم ہوتی ہیں۔
ملانصیر الدین کی مختصر کہانی کے جائزے کے بعد اگر فلیش فکشن کے پس منظر کے حوالے سے مزید دیکھیں تو دو عظیم صوفی مصنفین مولانا رومی اور شیخ سعدی کی مختصر کہانیاں (حکایات) بھی پائی جاتی ہیں ۔ بعض محققین کے نزدیک تو یہ نظریہ بھی پایا جاتاہے کہ خاص طور پر شیخ سعدی کی مختصر کہانیاں (حکایات) سے متاثر ہوکر مختلف زبانوں میں مختصر کہانی لکھنے کا رجحان پیداہوا۔ایران سے تعلق رکھنے والے اس صوفی شیخ سعدی نے فارسی زبان میں مختصر کہانیاں (حکایات)لکھیں تھیں، جو ان کی مشہور کتاب’’ بوستان سعدی ‘‘میں شامل ہیں ۔ ان کی اردو میں ترجمہ شدہ ایک مختصر کہانی’’درویش کی نصیحت‘‘ کاتعارف و تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔
یہ مختصر کہانی شیخ سعدی نے حکمت آموز انداز میں بیان کی ہے، جس میں ایک ظالم بادشاہ اور ایک درویش کے درمیان مکالمہ پیش کیا گیا ہے۔ کہانی کا موضوع ظلم، حکمرانی کی ذمہ داری اور درویش کی حکمت ہے، جو ظالم حکمران کے لیے ایک خاص پیغام رکھتا ہے۔کہانی کا ایک حصہ دیکھیے:
’’ ایک ظالم بادشاہ نے ایک درویش سے عرض کی کہ میرے لئے کون سی عبادت زیادہ موزوں ہے؟درویش نے فرمایا کہ دوپہر کو سونا تیرے لئے بہترین عبادت ہے تاکہ کچھ دیرتک لوگ تیرے ظلم سے محفوظ رہیں ۔‘‘(۱۶)
اس کہانی میں ظالم بادشاہ کا کردار استبداد اور ظلم کی علامت ہے۔ اس کی شخصیت میں غرور، طاقت کا نشہ، اور عوام کے حقوق کی عدم توجہی شامل ہیں۔ اس کی خواہش ہے کہ اسے مذہبی اور روحانی رہنمائی فراہم کی جائے، مگر اس کے اندر نیک عمل کی کمی ہے۔اس کہانی کے دوسرے کرداردرویش کی شخصیت حکمت اور سادگی کی علامت ہے۔ اس کی باتوں میں سچائی اور حقیقت کی عکاسی ہے۔ درویش کا مشورہ، دراصل، ایک طنز ہے جو بادشاہ کی ظالم فطرت کی عکاسی کرتا ہے۔درویش کا جواب “دوپہر کو سونا” دراصل ایک شدید پیغام ہے۔ یہ ایک ایسا مشورہ ہے جو ظالم بادشاہ کی کمزوری کو اجاگر کرتا ہے۔ درویش یہ سمجھتا ہے کہ اگر بادشاہ سوتا رہے تو کم از کم لوگ اس کے ظلم سے محفوظ رہیں گے۔ اس جواب میں درویش کی عقل مندی اور اس کی قابلیت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ بادشاہ کو اس کے اعمال کے نتیجے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ درویش کے الفاظ میں یہ حقیقت بھی مضمر ہے کہ ظلم کی کوئی حد نہیں ہوتی، مگر اس کا انجام ضرور آتا ہے۔اس کہانی میں بتاتے کی کوشش کی گئی ہے کہ طاقت کا نشہ اور ظلم انسانی فطرت کے خلاف ہیں۔ ظالم حکمرانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان کی سلطنت کبھی نہ کبھی ختم ہو جائے گی، اور ان کا ظلم ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ اس کہانی میں حکمت، سچائی اور عبرت کا ایک بڑا پیغام موجود ہے، جو آج کے دور میں بھی ہمارے لیے اہم ہے۔
عالمی زبان و ادب میں مختصر کہانیوں (فلیش فکشن) کی تاریخ میں جھانکنے سے پتا چلتا ہے کہ ان کی تاریخ بہت طویل اور قدیم ہے جس کا آغاز قبل از مسیح سے ہوتا ہے۔ یہ مختصر کہانیاں کئی زبان و ادب و تہذیب کا سفر طے کرتی ہیں ان کے شواہد تمام زبان و ادب اور ہر خطے میں ملتے ہیں اور یہی ان کی مقبولیت اور پذیرائی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہیں ، اور یہی جدید فلیش فکشن کا پس منظر بھی ہے۔ عالمی زبان و ادب کی قدیم مختصر کہانیوں کے بعد اگرانیسویں اور بیسویں صدی کے جدید ادب پر نظر ڈالیں تو عالمی ادب کی تقریباً ہر مشہور و معروف زبان میں فلیش فکشن (افسانچہ)لکھا گیا ہے اور اب بھی لکھا جا رہا ہے۔اسی بارے میں قیصر نذیر خاور لکھتے ہیں :
’’عالمی ادب پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو افسانچہ تقریباً ہر زبان میں لکھا گیا اور لکھا جارہا ہے۔ اس حوالے سے جو اہم ادیب سامنے آتے ہیں ان میں روسی انتون چیخوف ، امریکی او ہنری ، پولش بولیسواس پروس ، جرمن فرانز کافکا ، امریکی ایچ پی لووکرافٹ ، ارنسٹ ہیمنگوئے ، جاپانی یاسوناری کاوا باتا ، ہسپانوی زبان میں لکھنے والے ارجنٹائن کے جولیو کور تازار ، برطانوی آرتھر سی کلارک ، امریکی رے بریڈبری ، کرٹ وونیگٹ ، فریڈرک برائون ، جان کیچ ، فلپ کے ڈک ، رابرٹ شیکلے ، رابرٹ اولن بٹلر ، لڈ ڈیوس ، برطانوی ڈیوڈ جیفنے اور رابرٹ سکو ٹیلرو شامل ہیں ۔۔مشرقی زبانوں کی طرف آئیں تو فارسی میں شیخ سعدی کی گلستان کو کسی طور پر فلیش فکشن سے باہر نہیں کیا جاسکتا۔ عربی زبان میں لبنانی نژاد امریکی خلیل جبران ، مصری نجیب محفوظ تامر زکریا اور لیلیٰ العثمان اہم ہیں ۔‘‘ (۱۷)
عالمی زبان و ادب کے ان مصنفین کی بیشتر مختصر کہانیوں کو فلیش فکشن کے پس منظر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اس پس منظر کے بعد پیش منظر کی صورت حال بھی واضح ہو جاتی ہے۔اس منظر نامےمیں عالمی ادب کے کئی معروف فکشن نگاروں نے فلیش فکشن لکھا ہے۔ان میں ایک بہت بڑا نام فرانز کا فکا کابھی آتاہے،جو نوبل انعام یافتہ امریکی فکشن نگار ہیں۔ انہوں نے باقی اصنافِ ادب کے ساتھ ساتھ فلیش فکشن میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ان کا ایک فلیش فکشن’’حویلی کے دروازے پر دستک‘‘ کے نام سے ہے۔فرانز کا فکا کی یہ مختصر کہانی ،کتاب’’کافکا کہانیاں ‘‘ میں شامل ہے۔ اس کتاب کا مترجم محمد عاصم بٹ ہے۔ یہ فلیش فکشن تقریباََ ۷۳۵ الفاظ پر مشتمل ہے۔اس کہانی کا مرکزی کردار ایک لڑکا(راوی) ہے جس کی زبانی کافکا نے کہانی بیان کی ہے۔ اس فلیش فکشن میں طبقاتی نظام اور انصاف کے دوہرے معیار کو مرکزیت دی گئی ہے۔ کافکا نے ایک معاشرتی ناانصافی کی تصویر پیش کی ہے، جہاں غریب طبقے کو امیروں کے سامنے بے بس اور مظلوم دکھایا گیا ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار جو ایک لڑکا ہے اسے ایک بے بنیاد الزام کے تحت قید کیا جاتا ہے، جو کہ ایک غریب کی معمولی سی غلطی پر دی جانے والی غیر متناسب سزا کی نمائندگی کرتا ہے۔کہانی میں جس طرح لڑکے کو بغیر کسی مناسب دلیل یا صفائی کے گرفتار کیا جاتا ہے، وہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ غریب طبقے کو سماجی طور پر کمتر سمجھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ قانونی نظام بھی منصفانہ رویہ نہیں رکھتا۔ امیر افراد کے ہاتھوں قانون کا استعمال طاقت کے ایک آلے کے طور پر ہوتا ہے، جسے وہ اپنی مرضی سے غریبوں کو دبانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔گرفتاری کے وقت کافکا نے کچھ اس طرح منظر کشی کی ہے:
’’ مجھے حکم دیا گیاکہ فارم ہاؤس تک چلوں اپنے سر کو خفیف انداز میں حرکت دیتے اور اپنی پتلون کو اوپر کھینچتے ہوئے میں نے چلنا شروع کیا جب کہ وہ گروہ تیز نگاہوں سے میرا جائزہ لے رہا تھا۔ مجھے اب بھی ایک حد تک یقین تھا کہ خود کو شہر کے ایک معزز باشندے کو بے گناہ ثابت کرنے اور ان دیہاتی لوگوں سے باعزت رہائی پانے کیلئے بس بات چیت ہی کافی ہوگی۔ لیکن جب میں سرائے کی دہلیز پر پہنچا توجج نے جو عجلت میں وہاں پہنچ گیا اور میری راہ دیکھ رہا تھا بولا۔ اس شخص کا مجھے واقعی افسوس ہے۔‘‘(۱۸)
کہانی کا موضوع یہ ہے کہ معاشرتی نظام میں طاقت اور دولت رکھنے والے افراد کے سامنے غریب ہمیشہ قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے، چاہے وہ بے گناہ ہو۔ یہ فلیش فکشن طاقتور افراد کے ذریعے قانون کے استحصال اور غریب طبقے کی بے چارگی کی نشاندہی کرتا ہے۔کہانی کے اختتام میں ایک گہرا پیغام موجود ہے: انصاف اور مساوات کی توقع کرنا اس طبقاتی معاشرے میں بے معنی ہے جہاں قانون امیروں کا غلام اور غریبوں کے لیے ظالم بادشاہ کی طرح ہے۔ اس مختصرکہانی میں کافکا نے اس سماجی مسئلے کو بہت مؤثر اور مختصر انداز میں پیش کیا ہے کہ ایک غریب اگر معمولی سے معمولی غلطی کر دے۔ بے شک اس کی سزا قانونی طور پرنہ بھی بنتی ہو پھر بھی اس کو بہت بڑی سزا دی جاتی ہے۔ کیونکہ امیر یا بڑے بڑے سرمایہ دار لوگوں کے ہاتھوں غریب ہمیشہ قصور وار اور مجرم ہی ٹھہرتاہے۔ اور ناکردہ جرم کی بھی سزا اسے کاٹنی پڑتی ہے۔ جیسا کہ اس کہانی میں اس لڑکے کو بہن کی طرف سے حویلی کے دروازے پر دستک دینے کے جرم میں اسے قید خانہ میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ قانون امراء کی لونڈی اور غرباء کے لیے ظالم بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس سے برابری اور عدل کی کبھی توقع نہیں کی جاسکتی۔
کافکا کی ایک اور مختصر کہانی’’ ایک کتب فروش’’ولیم مینز‘‘ کے عنوان سے ہے۔ یہ کہانی اردو کےصرف۳۱۵ الفاظ پر مشتمل ہے۔ فرانز کافکا کا یہ فلیش فکشن، جس کا مرکزی کردار ولیم مینز ہے، دراصل خود اعتمادی کی عدم موجودگی اور انسانی تعلقات کی پیچیدگیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ کہانی میں ولیم مینز ایک شرمیلا نوجوان ہے، جو خواتین کے ساتھ بات چیت کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔ اس کی حالت خاص طور پر ایک لڑکی کے ساتھ موجودہ جذبات کی بنیاد پر سامنے آتی ہے جسے وہ روزانہ دیکھتا ہے، مگر اس کے قریب جانے کی ہمت نہیں کرپاتا۔ولیم مینز کی شرمیلا طبعیت اور لوگوں کے سامنے بات کرنے میں ہچکچاہٹ یہ بتاتی ہے کہ انسان کی ذہنی حالت کس طرح اس کے اعمال کو متاثر کر سکتی ہے۔ وہ اپنی کمزوریوں سے واقف ہے، مگر ان کے خلاف اٹھنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اس کی کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے:
’’ ایک مرتبہ وہ ایک بہت روشن گلی میں لوگوں کے ہجوم کے وسط میں کھڑا تھا۔ اس نے وہاں اس لڑکی کو دیکھا ۔وہ کسی کی نظر میں آئے بغیر اس کے بالکل قریب جا سکتا تھا لیکن اس فیصلے کے لمحے میں اس کے ذہن میں کوئی ایسی بات نہیں آ رہی تھی جس سے وہ اسے مخاطب کرے۔‘‘(۱۹)
یہاں پر روشن گلی کا ذکر اس کی حالت کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ ایک ایسے ماحول میں ہے جہاں ممکنات کی کوئی کمی نہیں، مگر اس کی احساس کمتری اسے آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔کہانی میں ایک اہم موڑ اس وقت آتا ہے جب ولیم ہجوم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑکی کے قریب جانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ خود میں جرات پیدا کرتا ہے، مگر اس کا یہ عمل ناکام رہتا ہے۔ یہ واقعہ اس کی ناکامی اور خود اعتمادی کی عدم موجودگی کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنی کمزوری کو محسوس کرتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں اس کا ردعمل بھی غیر موثر رہتا ہے۔کافکا اس کہانی کے ذریعے ایک اہم پیغام دینا چاہتے ہیں کہ خود اعتمادی انسان کی کامیابی کی کنجی ہے۔ ولیم کا کردار یہ دکھاتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ پر یقین نہیں رکھتا تو وہ مواقع کو بھی گنوا دیتا ہے۔ خود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے وہ اپنے احساسات کا اظہار کرنے میں ناکام رہتا ہے، جو کہ زندگی کے تعلقات کی ایک اہم ضرورت ہے۔ مصنف کردار کی نفسیاتی کیفیت کو مؤثر طریقے سے بیان کرتے ہیں، جس سے قاری کو ولیم کے جذبات کا گہرائی سے احساس ہوتا ہے۔یہ کہانی خود اعتمادی کی اہمیت اور انسانی تعلقات کی کمزوریوں کی عکاسی کرتی ہے اور اس میں یہ ثابت کیا گیاہے کہ زندگی میں کامیابی کے لئے خود پر یقین رکھنا ضروری ہے۔
اب ایک اور فلیش فکشن ’’ابتدا‘‘ جو امریکی مصنف ’’ڈیوڈ ڈی ووس‘‘ کا ہے ،اس کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اس کا اردو میں ترجمہ’’منور آکاش‘‘ نے کیا۔ ڈیوڈ ووس کی اس مختصر کہانی میں عورت کے جنسی جذبات اور نفسیات کو مرکزی موضوع بنایا گیا ہے۔ کہانی میں ایک شادی شدہ عورت کے نفسیاتی اور جذباتی پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے، جہاں وہ اپنے شوہر سے وفادار رہنے کی قسم کھا چکی ہے، لیکن ایک کمزور لمحے میں، وہ اپنی جنسی خواہشات کے سامنے کمزور پڑ جاتی ہے۔ کہانی کا آغاز ایک عورت سے ہوتا ہے جو شادی شدہ ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ وفاداری کو اہمیت دیتی ہے۔ وہ اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں فون کی گھنٹی بجنے پر داخلی کشمکش کا شکار ہوجاتی ہے۔ملاحظہ کیجیے:
’’ٹیلی فون کی گھنٹی دوبار ہ بجی،اس نے اپنی آنکھوں کو بند کرلیا اور ایک گہرا سانس لیا۔شادی کے بعد وہ اپنے شوہر سے وفادار تھی اور آزادنہ جنسی تعلق کے شدید خلاف اس نے اپنی انگلی میں سونے کی انگوٹھی کو ہلاتے ہوئے دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھا۔بارہ بجے گیارہ بجے تک نہیں آئیں گے۔اس نے آہستہ سے رسیور اٹھایا۔صرف ایک دفعہ اس نے کہا ،اس کے بعد کبھی نہیں ۔‘‘(۲۰)
اس کہانی میں ڈیوڈ ووس نے عورت کی جنسی نفسیات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ مصنف یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ عورت، چاہے بظاہر کتنی ہی مضبوط اور اپنے ارادوں میں پختہ ہو، جنسی تعلقات کے معاملے میں اکثر کمزور ثابت ہوتی ہے۔ مصنف کا کہانی کے ذریعے یہ کہنا ہے کہ عورت ایک خاص موقع پر، جب اسے یقین ہو کہ وہ محفوظ ہے اور اس کے اعمال کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، اپنے جذبات کی تسکین کے لیے قدم اٹھا سکتی ہے۔ کہانی میں فون کا بجنا اور عورت کا رسیور اٹھانا ایک علامتی عمل ہے، جو اس کی جذباتی کشمکش اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی رضامندی کو ظاہر کرتا ہے۔کہانی میں عورت کے کردار کو روایتی اور محدود پیمانوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے، جس میں اس کی جنسی خواہشات کو ایک کمزوری کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس قسم کی کہانی عورت کے بارے میں قدیم خیالات اور سماجی تعصبات کو فروغ دے سکتی ہے، جس میں عورت کی جنسی آزادی کو ایک منفی پہلو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ تجزیہ ایک پدرسری معاشرتی نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے، جہاں عورت کی جنسی خواہشات کو مرد کی نسبت زیادہ کنٹرول کیا جاتا ہے اور اس کی آزادی کو محدود کیا جاتا ہے۔مصنف نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ عورت کا تحفظ اس کی کمزوری ہے۔ یہ مفروضہ کہ عورت صرف اس وقت اپنے جذبات کو آزادانہ طور پر ظاہر کرتی ہے جب وہ خود کو محفوظ سمجھتی ہے، عورت کو ایک محدود اور محتاط کردار میں قید کر دیتا ہے۔ کہانی ایک مخصوص صنفی نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہے، جس میں عورت کو ہمیشہ جنسی طور پر قابو میں رہنے والے کردار میں دکھایا گیا ہے اور عورت کی نفسیات کو ایک مخصوص دائرے میں محدود کیا گیا ہے، جس میں اس کی جنسی خواہشات کو کمزوری اور اس کی وفاداری کو ایک اخلاقی پیمانہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ کہانی کی تنقید اس امر پر روشنی ڈالتی ہے کہ عورت کی جذباتی اور جنسی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے ایک وسیع اور متوازن نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ عورت کو محض جنسی خواہشات کے تناظر میں کمزور اور پختہ ارادوں سے عاری پیش کرنا، اس کے انسانی پہلوؤں کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔
ایک اور امریکی مصنف ’’مارک فین‘‘ کے فلیش فکشن’’پلمبر کی ہدایت‘‘ کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس مختصر کہانی میں امریکی سماج کے چند اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے، جیسے جنسی آزادی، تعلقات کی پیچیدگی، اور خاموشی کے ساتھ اپنی خواہشات کی تکمیل کرنا۔ یہ فلیش فکشن نہایت اختصار کے ساتھ جذباتی اور نفسیاتی کشمکش کو پیش کرتا ہے، جس میں مرکزی کردار مائیک اپنی بیوی کی خیانت کا ادراک کر کے ایک خاموش لیکن فیصلہ کن ردعمل دیتا ہے۔کہانی دیکھیے:
’’مائیک رات کی شفٹ سے واپس آیا تو سونے سے پہلے نہانا چاہتا تھامگر واش روم کا فلش خراب دیکھ کر پلمبر کو فون کیا ۔پلمبر نے فلش سے سو کے قریب کنڈوم نکالنے کے بعد کہا سر آئندہ خیال رکھئے گا کنڈوم فلش میں نہ پھینکے جائیں آپ کا فلش کبھی خراب نہیں ہوگا۔مائک کافی دیر خا موش بیٹھا رہا۔پھر اپنا سامان پیک کیا اپنی سوتی ہوئی بیوی کیلئے ایک چٹ پر نوٹ لکھا۔آئندہ کنڈوم فلش میں نہ پھینکے جائیں پلمبر کی اس ہدایت کو اپنے جاہل بوائے فرینڈ تک پہنچا دینا۔ ہمیشہ کیلئے ۔خدا حافظ ۔ تمہارا مائیک‘‘(۲۱)
کہانی میں جنسی آزادی کا تصور، جو امریکی معاشرت میں کافی اہمیت رکھتا ہے،یہاں نمایاں کیا گیا ہے۔ امریکی معاشرت میں افراد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جنسی تعلقات قائم کریں، چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں۔اسی طرح مائیک کا اپنی بیوی کے جنسی تعلق کے بارے میں ردعمل زیادہ جذباتی یا پرتشدد نہیں ہے، بلکہ وہ خاموشی اور وقار کے ساتھ اپنے فیصلے پر عمل کرتا ہے۔ یہ رویہ مغربی معاشروں میں فرد کی آزادی اور ذاتی فیصلوں کے احترام کی عکاسی کرتا ہے۔ مائیک اس حقیقت کو قبول کرتا ہے کہ اس کی بیوی کا کسی اور سے جنسی تعلقات قائم کرنا اس کی ذاتی پسند ہے، اور وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔مائیک کا کردار تحمل اور ضبط کا نمائندہ ہے جو بیوی کے بوائے فرینڈ کے بارے میں جاننے کے باوجود غصے یا تنازعے کی بجائے خاموشی سے رخصت ہوتا ہے۔ یہ خاموش ردعمل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مائیک اپنی بیوی کی خیانت کو اندرونی طور پر تسلیم کر چکا ہے اور مزید تعلقات کی کشمکش میں نہیں پڑنا چاہتا۔پلمبر کی ہدایت اس کہانی کا مرکزی نکتہ ہے۔ “کنڈوم فلش میں نہ پھینکے جائیں” ایک سادہ اور تکنیکی مشورہ ہے، لیکن مائیک کے لیے یہ ایک گہرے راز کے افشا کا لمحہ بن جاتا ہے۔ اس ہدایت کا بیوی کے بوائے فرینڈ تک پیغام بھیجنا ایک طنزیہ انداز ہے، جو مائیک کی بے بسی اور غصے کو ظاہر کرتا ہے، لیکن وہ اس غصے کو غیراخلاقی یا بے قابو انداز میں ظاہر کرنے کی بجائے ایک خاموش پیغام کے ذریعے منتقل کرتا ہے۔کہانی ازدواجی تعلقات کی پیچیدگی کو بھی اجاگر کرتی ہے کہ مائیک اور اس کی بیوی کے تعلقات میں اعتماد کی کمی اور خیانت کا عنصر موجود ہے۔ کہانی یہ سوال اٹھاتی ہے کہ آیا محبت اور اعتماد کے بغیر ایک شادی شدہ زندگی معنی رکھتی ہے؟ مائک کا اپنی بیوی کو چھوڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس تعلق میں اپنی جگہ کھو چکا ہے اور مزید اس رشتے کو نبھانے کی کوشش نہیں کرنا چاہتا۔
مجموعی بات کی جائے تو مارک فین کی “پلمبر کی ہدایت” ایک مختصر لیکن گہری کہانی ہے، جو شادی، خیانت، جنسی آزادی اور خاموشی کے ساتھ ردعمل جیسے موضوعات کو نہایت خوبصورتی سے پیش کرتی ہے۔ مائیک کا کردار قاری کو اس بات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ کبھی کبھار خاموشی بھی ایک طاقتور جواب ہو سکتی ہے، اور بعض اوقات، رشتے کی ناکامی کا ادراک کرنے کے بعد اسے ختم کر دینا ہی سب سے بہتر حل ہو سکتا ہے۔
روس سے تعلق رکھنے والے معروف مصنف، فلسفی، ناول نگار ،افسانہ نگار،مضمون اور ڈرامہ نگار ’’لیوٹالسٹائی‘‘ کا اردو میں ترجمہ شدہ ایک فلیش فکشن ’’بوڑھا آدمی اور موت‘‘ کےعنوان سے ہے۔اس کہانی کو’’فینا نہ فرنام‘‘ نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔فینانہ فرنام بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں معروف افسانہ نگار اور کالم نگار زاہدہ حنا اور معروف شاعر جون ایلیا کے گھر پیدا ہوئیں انہوں نے متعدد عالمی ادب کی تخلیقات کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ٹالسٹائی کی اس مختصر کہانی میں انسانی نفسیات اور اس کی زندگی کی مشکلات کو نہایت سادگی سے پیش کیا گیا ہے۔ کہانی میں ایک بوڑھے آدمی کا کردار اس کی بڑھتی ہوئی عمر، تنگ دستی اور مشقت سے بھری زندگی کا علامتی اظہار ہے۔ اس کہانی کے ذریعے ٹالسٹائی زندگی اور موت کے بارے میں ایک گہرا فلسفیانہ پیغام دیتا ہے، جہاں موت کا تصور انسان کی زندگی کی حقیقت سے جڑا ہوا ہے۔ کہانی ایک بوڑھے آدمی کے گرد گھومتی ہے جو زندگی کی مشقت اور تھکاوٹ سے اکتا چکا ہے۔ لکڑیاں کاٹنا اور انہیں اٹھا کر لے جانا اس کے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر تکلیف دہ ہو چکا ہے۔مصنف لکھتا ہے:
’’ایک بوڑھے آدمی نے لکڑیاں کاٹیں اور انہیں اٹھا کر چلنے لگا،اسے لکڑیاں دور تک اٹھا کر لے جانی تھیں ۔ وہ تھک گیا۔ اس نے لکڑیوں کا گھٹا نیچے رکھا اور بڑبڑانے لگا ’’اگر مجھے موت آجاتی‘‘ موت آئی اور بولی’’ میں آگئی ہوں ۔تم کیا چاہتے ہو؟‘‘بوڑھا ڈر گیا اور بولا’’میرا بوجھ اٹھا لو‘‘۔(۲۲)
اس کہانی کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ انسان زندگی کی مشکلات سے تنگ آکر موت کی خواہش کرتا ہے، لیکن جب حقیقت میں موت سامنے آتی ہے تو وہ اس کا سامنا کرنے سے ڈرتا ہے۔ بوڑھے آدمی کی موت کی خواہش اس کی مایوسی اور زندگی کی مشکلات سے بھاگنے کی علامت ہے، لیکن جب وہ موت کے حقیقی چہرے کا سامنا کرتا ہے، تو وہ فوراً پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ یہ انسانی فطرت کی کمزوری اور اس کے اندر موجود زندگی سے جڑے خوف کو ظاہر کرتا ہے۔بوڑھے آدمی کی زندگی کی مشکلات اس کہانی کا دوسرا اہم پہلو ہیں۔ کہانی میں لکڑیاں اٹھانے اور دور تک لے جانے کا ذکر دراصل اس کی زندگی کی مشکلات اور محنت کا استعارہ ہے۔ وہ اپنی جسمانی تھکاوٹ اور ذہنی دباؤ سے اس قدر تنگ آچکا ہے کہ اسے موت ہی واحد حل نظر آتی ہے۔ لیکن جیسے ہی موت سامنے آتی ہے، وہ اپنی زندگی کی مشقت کو موت سے بہتر سمجھنے لگتا ہے اور موت سے اپنی مدد کی درخواست کرتا ہے۔بوڑھے کا موت سے ڈر جانا انسانی کمزوری اور خود غرضی کی علامت ہے۔ وہ اپنی زندگی کے مسائل کا حل موت میں تلاش کرتا ہے، لیکن جب موت اس کے سامنے آتی ہے، تو وہ اپنی زندگی کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان چاہے کتنی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کر رہا ہو، اندرونی طور پر وہ ہمیشہ زندگی کی طرف مائل رہتا ہے اور موت سے خوفزدہ رہتا ہے۔ٹالسٹائی کی کہانی کا پیغام یہ ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کی مشکلات کا سامنا ہمت اور صبر سے کرنا چاہیے اور موت کی خواہش کرنا کوئی حل نہیں ہے۔ جب ہم واقعی موت کا سامنا کرتے ہیں، تو ہمیں اپنی زندگی کی قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کہانی میں بوڑھے آدمی کا کردار ہماری زندگی کے اس سبق کو اجاگر کرتا ہے کہ مشکلات کے باوجود زندگی کی قدر کرنی چاہیے، کیونکہ موت کا سامنا آسان نہیں ہوتا۔
روس (ٹالسٹائی) سے ہوتے ہوئے دنیا کےدیگرممالک کی ترجمہ شدہ مزید کچھ مختصر کہانیوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔یہاں پہلے جرمنی کی زبان و ادب سے تعلق رکھنی والی مختصر کہانی ’’تین بھائی‘‘ کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔اس کہانی کے ماخذ اور تعارف کے بارے میں محقق اور مولفہ ’’شاہدہ لطیف‘‘ کچھ یوں فرماتی ہیں :
’’ اٹھارویں صدی کے وسط میں جرمنی کے دو محققوں نے اپنے ملک کی تمام حکایتوں اور لوک کہانیوں کو چھبیس جلدوں میں جمع کیا اور ان کو پانچ پانچ انداز سے محفوظ کیا گیا ہے۔یہ دو محقق گریم بردرز(Grimm Bros) کے نام سے مشہور ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ان کی توجہ اور کوشش سے حکایتوں اور لوک کہانیوں کو ان کی مستحق اہمیت حاصل ہو ئی۔تین بھائی اور دو مختلف حکایتیں ہیں جس سے موضوع اور انداز کے لحاظ سے جرمنی کے لوگوں کے رجحانات کا علم ہوتا ہے۔یہ دونوں حکایتیں ’’گریم بردرز‘‘کے مجموعے سے لی گئی ہیں ۔ ‘ ‘ (۲۳)
کہانی ’’تین بھائی ‘‘اُردو کے تقریباََ ۸۰۶لفظوں پر مشتمل ہے۔اس مختصر کہانی میں اخلاقی، اصلاحی اور سبق آموز پیغام کو پیش کیا گیاہے ،جس میں خاندانی محبت، ہم آہنگی اور انسانی رویے کو مرکزی موضوع بنایا گیا ہے۔ کہانی تین بھائیوں کے گرد گھومتی ہے جو اپنے والد کی محبت میں برابری اور ہنرمندی کے مقابلے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں خوش اسلوبی سے زندگی گزارتے ہیں۔ کہانی کا بنیادی پیغام بھائیوں کے درمیان محبت، احترام اور سمجھوتے پر مبنی ہے۔ وراثت کی تقسیم جیسے حساس موضوع پر بھی بھائیوں کے درمیان حسد، بغض، یا لالچ نہیں جنم لیتا بلکہ وہ محبت اور اشتراک کی مثال قائم کرتے ہیں۔ مکان کا ملنا ایک علامت ہے کہ یہ بھائی نہ صرف مادی لحاظ سے بلکہ جذباتی طور پر بھی ایک دوسرے کے قریب ہیں۔کہانی اس بات پر زور دیتی ہے کہ جب انسان کسی مقصد کے تحت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا شوق اور لگن بڑھ جاتی ہے۔ تینوں بھائی اپنے اپنے ہنر میں کمال حاصل کرتے ہیں اور ہر بھائی کا ہنر کسی نہ کسی لحاظ سے اہم ہے، مگر سب سے چھوٹے بھائی کا شمشیر زنی کا ہنر سب سے منفرد اور قابل تحسین مانا جاتا ہے۔
کہانی یہ پیغام دیتی ہے کہ جب لوگ مقابلے میں آکر کچھ سیکھتے ہیں تو وہ زیادہ یکسوئی اور شوق سے سیکھتے ہیں۔ یہاں والد کی جانب سے مکان دینے کا فیصلہ ایک ترغیب بن کر سامنے آتا ہے جو کہانی کے مرکزی خیال کو تقویت دیتا ہے۔والد کی شخصیت حکمت اور بصیرت کا نمونہ ہے جو اپنے بچوں کو محبت دیتا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی کوشش کرتا ہے۔ مکان دینے کا فیصلہ بھی حکمت سے کیا گیا ہے تاکہ بچے اپنے اپنے ہنر کو نکھار سکیں۔تینوں بھائیوں کے درمیان باہمی محبت اور بھائی چارے کا گہرا رشتہ دکھایا گیا ہے۔ یہ کردار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ مادی چیزوں کی تقسیم بھی محبت اور اخوت کو متاثر نہیں کرتی۔مصنف کہانی کا اختتام بہت دلچسپ اور معنی خیز انداز میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’جب وہ بوڑھے ہو گئے تو ان میں سے ایک بھائی اچانک بیمار ہوگیا اور چند روز کے بعد انتقال کر گیا ،بھائی کی موت پر دونوں بھائیوں کو بڑا ہی افسوس ہوا اور اس غم میں وہ بھی جلد ہی مر گئے چونکہ وہ تین باکمال ہنر مند تھے اور ایک دوسرے سے والہانہ محبت کرتے تھے ،اس لئے لوگوں نے انھیں ایک ہی قبر میں دفنا دیا۔‘‘(۲۴)
کہانی کا اختتام انتہائی معنی خیز اور جذباتی ہے۔ تینوں بھائیوں کی موت اور ایک ہی قبر میں دفن ہونے کا واقعہ اس بات کو مزید اجاگر کرتا ہے کہ ان کی محبت اور اتحاد مرنے کے بعد بھی قائم رہا۔ یہ ایک علامتی پہلو ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مادی وراثت کے ساتھ ساتھ روحانی اور جذباتی وراثت بھی اہمیت رکھتی ہے۔کہانی ایک عمدہ اخلاقی سبق سکھاتی ہے کہ محبت، ہم آہنگی اور بھائی چارہ انسانی رشتوں میں سب سے زیادہ اہم ہیں۔ اس میں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ مقابلہ اگر مثبت انداز میں کیا جائے تو اس کے نتائج تعمیری اور مفید ہوتے ہیں۔یہ کہانی ایک سادہ مگر جامع انداز میں ایک اہم سماجی پیغام دیتی ہے۔ اس میں بھائیوں کے کردار کی مضبوطی اور ان کے باہمی تعلقات کی گہرائی کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ کہانی کا اختتام اس کے مرکزی پیغام کو مزید تقویت دیتا ہے کہ محبت اور بھائی چارہ زندگی کی سب سے قیمتی دولت ہے، اور اس کا تسلسل زندگی اور موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔
اب ہم عالمی ادب میں بہت بڑے شاعر،مضمون نگار اور افسانہ نگار خور خے لوئیس بورخیس کے فلیش فکشن کا جائزہ پیشں کیا جاتا ہے ۔بورخیس کا آبائی ملک تو ارجنٹائن ہے لیکن وہ دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں بھی مقیم رہے ۔مادری زبان تو ان کی ہسپانوی تھی لیکن ان کی تخلیقات ہسپانوی کے علاوہ فرانسیسی،انگریزی جرمن وغیرہ میں بھی ہیں ۔ بورخیس کے کچھ افسانے تو اتنے مختصر ہیں کہ وہ ہزار بارہ سو لفظوں سے بھی کم پر مشتمل ہیں ۔اوروہ فلیش فکشن کے زمرے میں آتے ہیں بورخیس کی ان کہانیوں کے بارے میں مترجم محمد عاصم بٹ لکھتے ہیں :
’’بہت کسے ہوئے معماتی پلاٹ، غیر معمولی طور پر متنوع اور وسیع تر مطالعے، تاریخ اور فلسفہ کے گہرے شعور،غیر معمولی ،جودت طبع اور اسطوریاتی معلوم ہونے والے پر اسرار کرداروں کے ساتھ بورخیس نے فنتاسی کی آمیزش ایک منفرد اور دلچسپ اسلوب ،اختراع کیا جس نے افسانے کو یکسر نیا ذائقہ بخشا اور خاص و عام کی توجہ حاصل کی…الٰہیات،تاریخ، سریت پسندی، جرم،فلسفہ،زمان ومکان،کی بھول بھلیاں اور اسطوریات بورخیس کے محبوب موضوعات ہیں ۔‘‘(۲۵)
بورخیس کا فلیش فکشن ’’اسیر‘‘ ایک مختصر مگر گہرے مفہوم کے ساتھ لکھی گئی کہانی ہے، جو انسانی نفسیات، یادداشت، ماحول اور آزادی کے موضوعات کو بیان کرتی ہے۔ محمد عاصم بٹ کا ترجمہ اس کہانی کے پیچیدہ اور فلسفیانہ پہلوؤں کو خوبصورتی سے اجاگر کرتا ہے۔کہانی ایک انڈین لڑکے کے بارے میں ہے جو بچپن میں گم ہو جاتا ہے اور کئی سال جنگل اور ویرانوں میں وحشیانہ زندگی گزارتا ہے۔ جب وہ دوبارہ اپنے والدین سے ملتا ہے تو اس کی نیلی آنکھیں اور بدلی ہوئی حالت ظاہر کرتی ہیں کہ وہ اپنے ماضی سے بہت دور ہو چکا ہے۔ تاہم، ایک لمحے میں اسے ماضی کی ایک جھلک یاد آتی ہے، اور وہ بچپن میں چھپایا ہوا چاقو باورچی خانے میں تلاش کر لیتا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بچپن کی یادیں انسان کے لاشعور میں ہمیشہ موجود رہتی ہیں۔ ۔اس واقعہ کی بورخیس نے کچھ اس طرح منظر کشی کی:
’’تب اچانک اس نے سر جھکایا،عجیب انداز میں چیخ ماری،ڈیوڑھی اور دو طویل صحنوں میں سے بھاگتا ہوا وہ باورچی خانے میں گیا اس نے دھویں سے سیاہ ہو چکی ہوئی چولہے کی چمنی میں بلا ہچکچاہٹ ہاتھ ڈالاا ور سینگ جیسے دستے والا چاقو نکالا جو اس نے بچپن میں وہاں چھپایا تھا ۔اس کی آنکھیں مسرت سے چمک اٹھیں اور اس کے والدین رونے لگے کیونکہ انہوں نے اپنا گمشدہ بیٹا پا لیا تھا۔‘‘(۲۶)
اس کہانی کا سب سے اہم موضوع ناسٹلجیا ہے کہ انسان کا ماحول اس کی شخصیت اور زندگی پر کس قدر اثر انداز ہوتا ہے۔ کہانی میں لڑکا جنگل اور ویرانوں میں پلتا ہے، اس کا جسمانی اور نفسیاتی ڈھانچہ اس وحشیانہ زندگی کے مطابق ڈھل جاتا ہے۔ جب وہ اپنے والدین کے ساتھ واپس آتا ہے تو وہ دیواروں کے اندر محدود زندگی میں خود کو قید محسوس کرتا ہے اور وہی زندگی جو اس نے جنگل میں گزاری تھی، اس کی فطرت بن چکی ہے۔ کہانی میں بچپن کی یادیں اور لاشعور کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ چاقو کا یاد آنا اور اس کی بازیابی اس بات کی علامت ہے کہ بچپن کی یادیں ہمیشہ انسانی لاشعور میں محفوظ رہتی ہیں اور وہ کسی لمحے میں دوبارہ سامنے آسکتی ہیں۔ اس کا یہ عمل اس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ بچپن کے تجربات انسان کی شناخت اور شخصیت کا بنیادی حصہ ہوتے ہیں، چاہے وہ بظاہر کتنے ہی فراموش کیوں نہ کیے گئے ہوں۔کہانی میں ایک فلسفیانہ نقطہ نظر بھی پیش کیا گیا ہے کہ انسان کبھی بھی حقیقی آزادی حاصل نہیں کر پاتا۔ وہ ہمیشہ اپنے ماحول، یادوں اور رویوں کا اسیر رہتا ہے۔ اس لڑکے کی آزادی وحشیانہ ماحول میں تھی، لیکن جب اسے معاشرتی دیواروں میں قید کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ اس زندگی کے عادی نہیں رہا۔ مصنف کا یہ خیال ہے کہ انسان فطری طور پر اسیری میں رہتا ہے اور اس کی آزادی صرف بظاہر ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بچپن کی یادیں اور جذبات بھی ایک طرح کی اسیری ہیں جو ہمیشہ انسان کو قابو میں رکھتے ہیں۔ لڑکے کا والدین سے ملنا ایک جذباتی لمحہ ہے، لیکن اس کے بعد کا منظر نامہ المیہ سے بھرپور ہے۔ والدین کی آنکھوں میں خوشی اور محبت کے باوجود لڑکا ان کے ساتھ رہنے کے قابل نہیں رہتا۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ انسانی تعلقات اور محبت بھی بعض اوقات فطری عادتوں اور زندگی کے تجربات کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔
بورخیس کی تحریروں میں اکثر علامتی اور فلسفیانہ عناصر پائے جاتے ہیں، اور اس کہانی میں بھی چاقو، دیواریں، اور جنگل جیسے عناصر علامتی اہمیت رکھتے ہیں۔ چاقو بچپن کی یادوں اور لاشعوری جذبات کی علامت ہے، جب کہ دیواریں سماجی اور روایتی زندگی کی حدود کو ظاہر کرتی ہیں جنہیں لڑکا قبول نہیں کر سکتا۔ کہانی کا انداز مختصر، سادہ، مگر بہت گہرا ہے۔ بورخیس نے فلیش فکشن کی تکنیک کو بہت مؤثر طریقے سے استعمال کیا ہے۔ صرف۳۷۳ الفاظ پر مشتمل یہ کہانی نہ صرف ایک مکمل تجربہ پیش کرتی ہے بلکہ قاری کو مزید غور و فکر کی دعوت بھی دیتی ہے۔ محمد عاصم بٹ کا ترجمہ اصل کہانی کے مفہوم کو برقرار رکھتا ہے اور قاری کو فلیش فکشن کے مختصر مگر جامع طرز تحریر سے روشناس کراتا ہے۔
بورخیس کا ایک اور فلیش فکشن’’الوداع‘‘ کے عنوان سے بھی ہے۔اس کا اردو میں ترجمہ’’اجمل کمال‘‘ نے کیا۔ یہ کہانی اردو کے تقریباََ۲۷۲ لفظوں پر مشتمل ہے۔ بورخیس کا فلیش فکشن ’’الوداع‘‘ ایک مختصر مگر عمیق فلسفیانہ کہانی ہے ۔اس میں جدائی، محبت، اور روح کی بقا کے موضوعات کو انتہائی مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اجمل کمال کے ترجمے میں کہانی کی خوبصورتی اور گہرائی کو برقرار رکھا گیا ہے، اور یہ قاری کو ایک ایسے سفر پر لے جاتی ہے جہاں زندگی کی عارضیت اور روح کی ابدیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔کہانی کا آغاز ایک بچھڑنے کے منظر سے ہوتا ہے، جہاں راوی(حاضر واحدمتکلم) اور ڈیلیا ایک دوسرے سے الوداع کہہ رہے ہیں۔مصنف لکھتا ہے:
’’ ہم نے گیارہویں شاہراہ کے کونے پر ایک دوسرے کو الوداع کہا،سڑک کے اس پار پہنچ کر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا وہ بھی مڑیں اور ہاتھ ہلا کر مجھے الوداع کا اشارہ کیا۔لوگوں اور گاڑیوں کا ایک دریا ہمارے سامنے بہنے لگا،یہ ایک عام سی سہ پہر میں پانچ بجے کا وقت تھا۔‘‘(۲۷)
کہانی میں جدائی کا منظر ایک گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ یہ جدائی دائمی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جسمانی بچھڑنا ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک عارضی حالت ہے۔ جدائی کے اس لمحے کو فلسفیانہ نقطہ نظر سے دیکھنے کے بعد، قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ محبت کا اصل جوہر روحوں کی بقا میں ہے۔کہانی میں افلاطونی فلسفے کا حوالہ دیتے ہوئے، بورخیس یہ بیان کرتے ہیں کہ جسم کا خاتمہ تو ہو سکتا ہے، مگر روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ اس نظریے کے تحت، محبت کرنے والوں کے لیے جدائی ایک ناکامی نہیں، بلکہ یہ ایک نیا آغاز بھی ہو سکتی ہے۔ یہ پیغام قاری کو تسلی دیتا ہے کہ جدائی کے بعد بھی محبت کی راہ باقی رہتی ہے۔
متکلم کی یہ امید کہ وہ اور ڈیلیا دوبارہ ملیں گے، کہانی کا ایک مثبت پہلو ہے۔ اس امید میں یہ سچائی چھپی ہوئی ہے کہ محبت کبھی بھی ختم نہیں ہوتی، اور محبت کرنے والے کسی نہ کسی شکل میں دوبارہ ملنے کی امید رکھتے ہیں۔ یہ پیغام انسانی تجربے کی خوبصورتی اور محبت کی ابدیت کو اجاگر کرتا ہے۔بورخیس کی تحریریں ہمیشہ فلسفیانہ نقطہ نظر سے بھری ہوتی ہیں، اور ’الوداع‘ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ انہوں نے جدائی اور محبت کی پیچیدگیوں کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے، جو قاری کو گہرے غور و فکر میں مبتلا کر دیتا ہے۔کہانی کی زبان سادہ مگر اثر پذیر ہے۔ بورخیس نے سادہ الفاظ میں گہرے مفاہیم کو پیش کیا ہے، جو کہانی کے فلسفیانہ موضوعات کو مؤثر طریقے سے بیان کرتا ہے۔ ان کا اندازِ بیان قاری کو ایک نازک اور جذباتی لمحے کی طرف لے جاتا ہے۔بورخیس کے الفاظ میں ایک درد اور خوبصورتی ہے جو محبت کی پیچیدگیوں کو بیان کرتی ہے، اور یہ قاری کو محبت کی ابدیت اور اس کی معانی کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ بورخیس نے محبت کے ایک نئے جہان کی تصویر کشی کی ہے، جہاں جدائی صرف ایک عارضی حالت ہے اور روح کی بقا ہمیشہ محبت کا راستہ فراہم کرتی ہے۔
عالمی ادب سے ایک اور فلیش فکشن ’’ثبوت حاضر ہے‘‘ دیکھتے ہیں ،اس کا بھی موضوع موت اور روح کی ابدیت ہے، کہانی میں جسم کی موت کے بعد بھی روح کی بقا کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں مصنف نے ایک فلسفیانہ اور مافوق الفطرت پہلو کو اجاگر کیا ہے جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ جسمانی موت کے باوجود روح زندہ رہتی ہے اور جسم کی پابندیوں کے بغیر بھی عمل کر سکتی ہے۔کہانی کی ساخت مختصر اور جامع ہے، جو فلیش فکشن کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔ مصنف نے مختصر وقت میں قاری کو ایک حیران کن اور گہرے فلسفیانہ سوالات کی دنیا میں لے جانے کی کوشش کی ہے۔ میجر دیور کی تقریر ایک کلیدی موقع فراہم کرتی ہے جس میں وہ انسانی روح کی ابدیت کا ذکر کرتا ہے، لیکن اس کی باتوں کی سمجھ نہ آنا اور تقریب کے حاضرین کا بیزار ہونا، ایک دلچسپ تضاد پیدا کرتا ہے جو کہانی کے رازدارانہ موڑ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔جب میجر دیور کی موت کا انکشاف ہوتا ہے کہ وہ ایک ہفتہ پہلے مر چکا تھا، تو کہانی ایک غیر متوقع اور حیرت انگیز موڑ لیتی ہے۔ اس انکشاف کے ذریعے مصنف نے قاری کو چیلنج کیا ہے کہ وہ جسمانی موت کے بعد روح کی بقا کے موضوع پر غور کرے۔ میجر دیور کا اپنی روح کو مجبور کرنا کہ وہ جسم کے بغیر بولے، ایک گہری معنویت کی طرف اشارہ کرتا ہے، جہاں جسم اور روح کے درمیان تعلق پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔کرنل کراشا کا اس انکشاف پر گم سم ہونا اور میجر دیور کی روح کی گونج سننا ایک نفسیاتی پہلو بھی پیش کرتا ہے کہ انسان کیسے موت کے بعد زندگی یا روح کی موجودگی پر یقین کرنے لگتا ہے۔ یہ کہانی قاری کو موت اور روح کی حقیقتوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے، اور یہ سوال چھوڑ دیتی ہے کہ کیا روح کی بقا واقعی ممکن ہے یا یہ سب محض ایک حیران کن کہانی ہے۔مرقوم ہے:
’’ ڈاکٹر براؤن نے حیرت سے بوجھل آواز میں کہا۔ میجر دیور کی موت ابھی واقع نہیں ہوئی ہے اسے تو مرے کم از کم ایک ہفتہ ہو چکا ہے ۔کرنل کراشا چند منٹوں تک گم سم بیٹھا رہا اس کے خیالات تک منجمد ہوگئے پھر وہ سوچنے لگا تو اچھا یہ تھا اصل ماجرا۔اس لئے میجر دیور نے اجلاس بلانے کی درخوست لکھی تھی ۔وہ سات دن پہلے مر چکا تھا ۔لیکن اپنے اس عقیدے کو ثابت کرنے کیلئے کہ روح کبھی نہیں مرتی اور انسان جسم روح کے تابع ہوتا ہے۔ اس نے اپنی روح کو مجبور کیا تھا کہ وہ اپنی ابدیت کا اظہار کرے ۔‘‘(۲۸)
کہانی کا سب سے بڑا پہلو انسانی روح اور موت کے بعد اس کی موجودگی پر مبنی ہے۔ یہ ایک فلسفیانہ سوال اٹھاتی ہے کہ کیا موت کے بعد روح کا کوئی وجود ہوتا ہے اور کیا وہ جسم سے آزاد ہو کر اپنی مرضی سے عمل کر سکتی ہے؟فلیش فکشن کی ایک اہم خوبی اس کی مختصر ساخت ہوتی ہے، جس میں مختصر وقت میں قاری کو چونکا دینے والے واقعات سے گزرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ کہانی بھی اسی طرز پر لکھی گئی ہے جہاں مختصر مکالمات اور واقعات کے ذریعے گہری معنویت پیش کی گئی ہے۔میجر دیور کی موت کا انکشاف کہ وہ ایک ہفتہ پہلے مر چکا تھا، کہانی کا سب سے بڑا موڑ ہے جو قاری کو چونکا دیتا ہے اور کہانی کو ایک ماورائی رنگ دیتا ہے۔اس فلیش فکشن میں ماورائی اور حقیقی کے درمیان تذبذب ہے۔کہانی کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب حقیقت ہے یا محض ایک خیالی داستان۔ مصنف نے اس تشنگی کو برقرار رکھا ہے تاکہ قاری خود اس سوال کا جواب تلاش کرے۔اس فلیش فکشن کا بنیادی مقصد قاری کو موت اور روح کے متعلق سوچنے پر مجبور کرنا ہے، اور ساتھ ہی یہ غور کرنے کی دعوت دینا ہے کہ کیا انسان واقعی موت کے بعد بھی کسی نہ کسی طرح موجود رہتا ہے۔اس طرح یہ چونکا دینے والی کہانی اختتام پذیر ہوتی ہے اس میں مصنف ایک نئے پہلو کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ موت کے بعد بھی روح ادھر پھرتی رہتی ہے جس کو تابع کر کے سامنے بھی لاسکتے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ حقیقت ہے یا محض کہانی میں چونکا دینے والی صورتحال پیدا کی گئی ہے یہ سوال ہمیشہ تشنہ رہے گا۔
فلیش فکشن کا موجودہ منظرنامہ بے حد وسیع اور متنوع ہے، جو دنیا کے تقریباً تمام اہم ادب اور زبانوں میں اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ آج فلیش فکشن نہ صرف انگلش، فرانسیسی، ہسپانوی، چینی، عربی اور دیگر بڑی زبانوں میں لکھا جا رہا ہے، بلکہ اس کا ترجمہ بھی دنیا بھر کی مختلف زبانوں میں دستیاب ہے۔ اس صنف کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مختصر مگر مؤثر کہانیوں کا یہ انداز قارئین اور لکھاریوں دونوں میں یکساں طور پر پسند کیا جا رہا ہے۔فلیش فکشن کی عالمی سطح پر مقبولیت میں کئی عوامل کارفرما ہیں، جن میں تیز رفتار زندگی، کم وقت میں زیادہ مواد پڑھنے کا رجحان، اور مختصر لیکن گہرے موضوعات کی پیشکش شامل ہیں۔ آج کی مصروف زندگی میں لوگ مختصر کہانیوں کو ترجیح دیتے ہیں جو چند الفاظ میں مکمل تصویر پیش کر سکے، اور فلیش فکشن اس ضرورت کو بخوبی پورا کر رہا ہے۔عالمی سطح پر بھی کئی معروف اور نوبیل انعام یافتہ فکشن نگاروں نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے فلیش فکشن نے نہ صرف ادبی حلقوں میں بلکہ عام قارئین میں بھی خوب مقبولیت حاصل کی ہے۔ مثال کے طور پر ارنسٹ ہیمنگوے، گراہم گرین، گیبریل گارشیا مارکیز، اور سموئل بیکٹ جیسے عالمی شہرت یافتہ ادیبوں نے فلیش فکشن میں بھی اپنے منفرد انداز اور گہرے موضوعات کو بخوبی سمویا ہے۔فلیش فکشن کا اردو ادب میں ترجمہ ہونا اس صنف کی اہمیت اور مقبولیت کو مزید بڑھاتا ہے۔ اردو میں ترجمہ شدہ عالمی فلیش فکشن نے پاکستانی اور ہندوستانی قارئین کو دنیا کے مختلف ادبی روایات سے روشناس کرایا ہے۔ مثال کے طور پر، نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی مختصر کہانیاں اردو میں دستیاب ہیں جنہوں نے عالمی ادب کو ایک نیا زاویہ دیا ہے۔اردو ترجمہ شدہ عالمی فلیش فکشن میں ان کہانیوں کی روح اور معنویت کو اسی طرح محفوظ رکھا گیا ہے، جس سے عالمی ادب کی وسعت اور گہرائی کو اردو قارئین تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ ان کہانیوں میں زندگی کے مختلف پہلوؤں، انسانی جذبات، اور تجربات کی مختصر اور جامع عکاسی کی گئی ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔یوں فلیش فکشن کا عالمی منظر نامہ اور اردو میں اس کا ترجمہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مختصر کہانیوں کی یہ صنف اب ایک عالمی ادبی تحریک بن چکی ہے، جو مختلف زبانوں اور ثقافتوں میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔ اس صنف کی مقبولیت اور اس کا عالمی تناظر فکشن کے مستقبل میں اس کے اہم کردار کو ظاہر کرتا ہے۔
اب ایک جاپانی ادب سے اردو میں ترجمہ شدہ فلیش فکشن’’ساحلی بستی‘‘ کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔اس مختصر کہانی کا مصنف’’یا سوناری کاواباتا‘‘ ہیں۔یہ پہلا جاپانی ادیب ہے جسے ۱۹۶۸ء کا نوبل انعام برائے ادب سے نوازاگیا تھا۔ انہوں نے کئی مشہور ناول لکھے ہیں ۔ناولوں کے علاوہ اس نے لگ بھگ ۱۵۰ فلیش فکشن( مختصر کہانیاں ،افسانچے) ہیں۔ جنہیں وہ “Tonagohoro No Shosetsu”(بالشتی کہانی) کہتا تھا ۔ ان میں سے کچھ کہانیاں انگریزی میں پہلی بار۱۹۸۸ء میں لگ بھگ پچاس اور کچھ بعد میں لگ بھگ بیس۱۹۹۸ء میں شائع ہوئیں ۔ یہاں پیش کی گئی ساری کہانیوں کا ماخذ”Tonagohoro No Shosetsu” ہی ہے۔اس مختصر کہانی کا اردو میں ترجمہ قیصر نذیر خاور نے کیا ۔یہ کہانی اُردو کے تقریباََ۳۱۵ لفظوں پر مشتمل ہے۔ یہ مختصر کہانی ایک ساحلی بستی کی ہے جہاں خواتین اور لڑکیاں معاشرتی رسم و رواج اور مالی مجبوریاں کی وجہ سے ایک خاص روایت کے تحت سرائے میں آنے والے مہمانوں کے ساتھ مختصر مدت کی شادی جیسے تعلق میں بندھ جاتی ہیں۔ اس کہانی میں ایک منفرد منظرنامہ پیش کیا گیا ہے، جس میں محبت اور رسم و رواج کے درمیان کشمکش کو اجاگر کیا گیا ہے۔ کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ بستی کی عورتیں مہمانوں کے ساتھ وقت گزارنے کو روزی روٹی کے ذریعہ سمجھتی ہیں، لیکن یہ رشتہ معاشرتی اور جذباتی اقدار سے خالی ہوتا ہے۔ وہ صرف ایک محدود مدت کے لیے “بیوی” بنتی ہیں اور ان تعلقات کو معاشرتی رسم و رواج کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، اس بستی کی ایک لڑکی کے دل میں ایک خاص مہمان کے لیے محبت جاگ جاتی ہے، جو اس کہانی کو جذباتی گہرائی فراہم کرتی ہے۔اقتباس دیکھیے:
’’اس صبح جب آدمی اپنی چیزیں جلدی جلدی سمیٹ رہا تھا تاکہ وہ کشتی پر روانہ ہو سکے۔عورت نے اس کی مدد کرتے ہوئے کہا کیا تم میرے لئے ایک خط نہیں لکھو گے؟کیا اس وقت؟اب اس میں ہرج ہی کیا ہے۔اس وقت میں تمہاری بیوی نہیں ہوں تم جتنا عرصہ یہاں رہے ہو میں تمہارے ساتھ رہی ۔کیا نہیں رہی؟‘‘(۲۹)
لڑکی کا یہ سوال کہ “کیا تم میرے لیے ایک خط نہیں لکھو گے؟” اس کی محبت اور جذبات کے اظہار کی ایک علامت ہے۔ وہ جانتی ہے کہ وہ اپنی روایتوں سے باہر نہیں جا سکتی، لیکن اس کی خواہش اور محبت اسے اس سے ناطہ توڑنے پر مجبور نہیں کرتی۔ وہ اس بات کا ادراک کرتی ہے کہ وہ صرف اس مہمان کی عارضی بیوی تھی، لیکن اس کے دل میں محبت کا احساس اتنا گہرا ہو چکا تھا کہ وہ اس کو ایک خط کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے۔کہانی کے اس پہلو کو دیکھتے ہوئے، مرکزی خیال یہ ابھرتا ہے کہ رسم و رواج اور معاشرتی توقعات اکثر انسان کے اندرونی جذبات اور محبت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ اس لڑکی کی محبت ایک عام محبت کی طرح اندھی اور بلاشرط ہے، مگر وہ ان حالات کے تحت مجبور ہو کر اپنی محبت کو کھل کر بیان نہیں کر پاتی۔ وہ اپنے رسم و رواج میں جکڑی ہوئی ہے، اور یہی چیز اس کہانی کو اداسی اور بے بسی کی ایک جھلک دیتی ہے۔اس کہانی کا مرکزی موضوع رسم و رواج اور محبت کے درمیان تصادم ہے۔
مصنف نے اس کہانی میں اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ انسان کی فطری محبت اور جذبات اکثر روایات اور سماجی توقعات کے تابع ہو جاتے ہیں، اور ان کے سبب انسان کی زندگی کی سمت اور فیصلے متاثر ہوتے ہیں۔ اس کہانی میں غربت، مجبوری، اور روایات کا بوجھ اس لڑکی کی محبت کو دبانے پر مجبور کرتا ہے، جس سے کہانی کا مرکزی خیال ابھرتا ہے کہ محبت کسی بھی صورت میں جنم لے سکتی ہے، مگر سماجی بندشیں اور رسم و رواج اکثر انسان کے جذبات کو قید کر دیتے ہیں۔آخر میں، یہ فلیش فکشن انسانی جذبات اور معاشرتی قید و بند کی عکاسی کرتا ہے، جہاں ایک عورت کی محبت سماجی حدود کے باعث پنپ نہیں پاتی، اور وہ اپنی محبت کو ایک خط کے ذریعے زندہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ یقینا اس نے خط میں کچھ ایسا ضرور لکھا ہے جس سے اس کی محبت کا اظہار تھا اور آنے والے مہمان کیلئے کوئی ایسا پیغام تھا کہ وہ مہمان اس کے ساتھ رات نہ گزار نہ سکے۔اس کہانی کا ایک پہلو تو یہ نکلتا ہے کہ اس بستی کی خواتین ہر آنے والے مہمان سے کنٹریکٹ میرج محدود عرصہ کیلئے کرتی تھیں اس میں ان کا رسم و رواج کی قید غربت کی مجبو ریاں شامل تھیں اس کے باوجود اس لڑکی میں محبت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے لیکن پھر اس کی یہ محبت حالات سے ہار بھی جاتی ہے ۔محبت کردار نہیں دیکھتی محبت تو اندھی ہوتی ہے کسی کو بھی کسی سے کسی بھی وقت ہو سکتی ہے جیسے ساحلی بستی کی لڑکی اور مہمان کو ایک دوسرے سے۔لیکن وہ لڑکی اپنے خود ساختہ رسم و رواج سے مجبور ہوکر اس سے شادی کی خواہش کھل کر نہیں کرسکتی یہی مرکزی خیال ہے کہ ہم رسم و رواجوں میں اتنے جکڑے ہوتے ہیں بیشک وہ رواج غلط ہی کیوں نا ہوں ہم ان سے باہر نہیں نکل سکتے اور درست سمت کا تعین بھی نہیں کرسکتے۔
اس جاپانی کہانی کے بعد اب ایک روسی ادب سے ترجمہ شدہ فلیش فکشن’’آنند‘‘ کا تعارف اور جائزہ پیش کرتا ہوں ۔ یہ کہانی ’’آنند‘‘روس او ر عالمی افسانوی ادب کے مشہور ڈرامہ اور افسانہ نگار ’’انتون چیخوف‘‘ نے لکھی ہے۔چیخوف کو جدید افسانہ نگاری کا امام سمجھا جاتاہے۔اس مختصر کہانی کا اردو میں ترجمہ قیصر نذیر خاور نے کیا۔یہ اردوکے تقریباََ۸۴۷ الفاظ پر مشتمل ہے۔اس فلیش فکشن کا مرکزی کردار میشیا کلدروف ہے، جو اپنی معمولی اور منفی مشہوری کو بہت بڑی کامیابی سمجھتا ہے۔ وہ نشے کی حالت میں ایک حادثے کا شکار ہوتا ہے اور اس واقعے کی خبر اخبار میں شائع ہونے پر خوشی سے سرشار ہو جاتا ہے۔ کلدروف اپنے والدین اور دوستوں کو اس خبر کے بارے میں بتانے کے لیے بے چین ہوتا ہے، حالانکہ یہ خبر اس کے لیے کوئی عزت افزا نہیں، بلکہ ایک شرمندگی کا باعث ہے۔اس کہانی کے ذریعے مصنف چیخوف نے ایک اہم سماجی مسئلے کو نمایاں کیا ہے، یعنی ایسے لوگوں کی نفسیات جو معمولی اور منفی باتوں سے بھی اپنی شہرت حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کلدروف جیسے لوگ معاشرتی طور پر اپنی اندرونی کمی اور محرومیوں کا شکار ہوتے ہیں، اور جب انہیں کسی قسم کی توجہ ملتی ہے، چاہے وہ منفی ہی کیوں نہ ہو، وہ اسے ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔کلدروف کی خوشی اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ وہ اندر سے کتنا خالی اور محروم ہے۔ وہ صرف اس لیے خوش ہے کہ اس کا نام اخبار میں آیا، چاہے اس کی وجہ شرمندگی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کی عدم تکمیل کو کسی بھی قسم کی توجہ سے پورا کرنا چاہتا ہے، چاہے وہ توجہ منفی ہو۔اس کہانی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کلدروف جیسی شخصیات احساس برتری کا مظاہرہ کرتی ہیں تاکہ اپنی محرومیوں کو چھپا سکیں۔ وہ اپنی اندرونی کمی کو چھپانے کے لیے خود کو معاشرتی طور پر برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے لیے خبریں یا شہرت کا کوئی بھی موقع اہم ہے، چاہے وہ کس قسم کا ہو۔ وہ اس توجہ کو اپنی خود کی تعریف کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جبکہ دراصل وہ اندر سے بے وقعت ہوتے ہیں۔ کلدروف کے خوشی کے اظہار کی چیخوف نے یوں منظرکشی کی ہے:
’’ جی،جناب! اخبار میں میرے بارے میں بھی اب کچھ ہے ! جسے اب سارا روس جانتاہے ۔اوہو،ماں اخبار کے اس شمارے کو سنبھال کر رکھنا،ہم اسے وقتاََ فوقتاََ پڑھا کریں گے۔ دیکھیں !میشیا نے اپنی جیب میں سے اخبار نکالا اور اپنے باپ کو پکڑا دیا اور اس جگہ پر اشارہ کیا جہاں اس نے نیلی پنسل سے نشان لگایا ہوا تھا۔یہ پڑھیں ۔‘‘(۳۰)
چیخوف اس کہانی کے ذریعے یہ بتاتےہیں کہ معاشرتی سطح پر ایسے لوگ جو اپنے آپ کو معمولی یا منفی باتوں سے مشہور سمجھتے ہیں، دراصل اندرونی طور پر احساس کمتری اور محرومیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں، اور جب وہ اسے حاصل کرتے ہیں، تو اسے کسی بڑے کارنامے کے طور پر دیکھتے ہیں، حالانکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ اس طرح کے لوگ ایک کھوکھلی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں جو اپنی کمیوں کو شہرت یا توجہ کے ذریعے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔سماجی توجہ یا شہرت کا اصل مطلب اس کے مواد اور قدر سے ہوتا ہے، نہ کہ محض اس کے ہونے سے۔اسی طرح اس کہانی کے مرکزی کردار نے کیا ہے جب اس کے باپ نے اپنی عینک لگائی۔کلدروف کے اس قدر خوشی کے اظہار اور جذبے سے تو لگتا ہوگا۔اخبار میں اس کے لئے بہت اچھی خبر لگی ہوگی لیکن خبر یہ تھی کہ وہ نشہ کی حالت میں سڑک پر گھوڑے کے قدموں میں گر پڑتاہے۔ جس سے گھوڑا ڈر جاتاہے اور اوندھے پڑ ے کلدروف پر سے پھلانگتاہوا دوڑ پڑتاہے ۔اس بگھی میں مشہور سوداگر سوار ہوتا ہے گھوڑا شہر میں لوگ پکڑ لیتے ہیں ۔کلدروف کو معمولی سی چوٹ آتی ہے جس کو ڈاکٹر معمولی قرار دیتے ہوئے اس کو طبی مدد فراہم کر کے فارغ کر دیتے ہیں۔یہ خبر وہ گھر والو ں کے علاوہ باقی دوستوں اور شہر کے مشہور لوگوں کو بتانے کیلئے جانے لگتا ہے ۔خدا حافظ کہتا ہے اور خوشی خوشی فاتحانہ انداز سے باہر چلا جاتاہے۔
مصنف اس کہانی سے ایک ایسے کردار کی طرف نشاندہی کر رہا ہے۔جو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو معمولی اور منفی بات سے بھی اپنے آپ کو مشہور معروف سمجھنے لگتے ہیں اور اپنے لئے ایک اعزاز اور فتح قرار دیتے ہیں ۔وہ لوگ صرف اپنی شہرت اور مشہوری چاہتے ہیں ۔جو بے شک وہ منفی اور غلط کام کی وجہ سے کیوں نہ ہو رہی ہو۔ان کے لئے خبروں میں آنا ہی ان کے لئے اعزاز کی بات ہے ۔اس نفسیات کے لوگ اصل میں اندر سے بہت خالی ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے پلے کچھ نہیں ہوتا اس لئے وہ ایک معمولی اور منفی انداز میں کی ہوئی مشہوری کو بھی وہ اپنے لئے بہت بڑا کارنامہ سمجھ لیتے ہیں ۔اور سبقت کے دعوی دار بھی بن جاتے ہیں یہ ان کی اصل احساس محرومی ہوتی ہے۔جس کو احساس برتری سے ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اب ایک اور روسی ادب سے فلیش فکشن’’مساوات‘‘ کو دیکھتے ہیں۔جس کے مصنف کا نام ’’فیوڈور سلوگب‘‘ ہے ۔اس کہانی کا اردو میں ترجمہ نامور افسانہ نگار’’سعادت حسن منٹو‘‘ نے کیاتھا۔فیوڈور سلوگب کی کہانی ’’مساوات‘‘ ایک علامتی فلیش فکشن ہے، جو معاشرتی بے انصافی اور طاقتور و کمزور طبقات کے درمیان تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کہانی میں بڑی مچھلی اور چھوٹی مچھلی کا ذکر دو مختلف سماجی طبقات کی نمائندگی کرتا ہے: بڑی مچھلی دولت مند، طاقتور افراد کو اور چھوٹی مچھلی غریب، لاچار لوگوں کو ظاہر کرتی ہے۔کہانی کی ابتدا میں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو پکڑ لیتی ہے اور اسے نگلنے کی کوشش کرتی ہے۔ چھوٹی مچھلی اس صورت حال کو بے انصافی سمجھتی ہے اور قانون کی برابری کی بات کرتی ہے، جس کے مطابق سب مچھلیاں یکساں ہیں۔ بڑی مچھلی اس دلیل کو تسلیم نہیں کرتی اور چھوٹی مچھلی کو چیلنج کرتی ہے کہ اگر وہ اس کا شکار نہیں بننا چاہتی تو اس کی جگہ خود بڑی مچھلی کو شکار بنا دے۔ چھوٹی مچھلی کوشش کرتی ہے، لیکن ناکام رہتی ہے اور آخر میں بڑی مچھلی کو اپنا شکار بننے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔اقتباس دیکھیں:
’’میں تم سے اس بات پر ہر گز بحث کیلئے تیار نہیں کہ ہم سب ایک جیسے ہیں ۔ اگر تم میرا شکار ہونا پسند نہیں کرتیں تو آؤ مجھے اپنا شکار بنا لو۔۔ آؤ نا! مجھے نگل لو… ڈرتی کاہے کو ہے ۔ چھوٹی مچھلی نے بڑی مچھلی کو نگلنے کیلئے منہ کھولا… مگر بے سود،آخر کار وہ تنگ آکر کہنے لگی: ’’تم ہی مجھے نگل لو۔‘‘(۳۱)
کہانی کا بنیادی موضوع طاقتور لوگوں کا کمزوروں کے ساتھ استحصال ہے۔ بڑی مچھلی کا چھوٹی مچھلی پر غالب آنا اس بات کی علامت ہے کہ معاشرتی طاقت اور دولت رکھنے والے افراد ہمیشہ کمزوروں کا حق چھین لیتے ہیں، چاہے اس کے لیے وہ قانون کو بھی نظرانداز کر دیں۔چھوٹی مچھلی کا یہ کہنا کہ “ہم سب مچھلیاں یکساں ہیں” دراصل ایک سادہ سی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قانون کے تحت سب برابر ہیں، لیکن حقیقت میں یہ ہمیشہ درست نہیں ہوتا۔ بڑی مچھلی کی جانب سے اس کا انکار یہ ظاہر کرتا ہے کہ عملی طور پر طاقتور لوگ اپنے مفادات کے لیے قانون کو اپنے حق میں موڑ لیتے ہیں۔کہانی کا اختتام چھوٹی مچھلی کی ہار اور خاموشی سے بڑی مچھلی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر ہوتا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جب غریب لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے، تو وہ ظلم کے آگے جھکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک تنقیدی پیغام ہے کہ انسانی معاشرت میں جب ظلم بڑھتا ہے تو کمزور لوگوں کی ہمت بھی ٹوٹ جاتی ہے۔چھوٹی مچھلی کا اپنی شکست تسلیم کرنا اور بڑی مچھلی کو نگلنے کے لیے کہہ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے خاموشی کو اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ کیسے لوگ اپنے حقوق کے لیے لڑنے کے بجائے استحصال کو قبول کر لیتے ہیں۔مجموعی بات کی جائے تو کہانی “مساوات” ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ معاشرتی نظام میں طاقتور اور کمزور طبقات کے درمیان کیا تعلق ہے، اور کیسے ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ سلوگب نے اس کہانی کے ذریعے ایک طاقتور پیغام دیا ہے کہ قانون کی حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے، ہمیں اپنی خاموشی توڑنی چاہیے اور معاشرتی انصاف کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ یہ کہانی ایک اہم سوال اٹھاتی ہے: کیا ہم معاشرتی مچھلیوں کی اس دنیا میں خاموش رہیں گے یا اپنی آواز بلند کریں گے؟
عالمی زبان و ادب سے اردو ترجمہ شدہ ایک اور مختصرکہانی ’’ایک دن‘‘ دیکھیں تو اس یہ فلیش فکشن میکسیکو سے تعلق رکھنے والے ہسپانوی زبان کے مشہور نوبل انعام یافتہ مصنف’’ گیبرئیل گارشیا مار کوئیز‘‘ نے لکھا۔ اس مختصر کہانی ’’ایک دن‘‘ کا اردو میں ترجمہ قیصر نذیر خاور نے کیا۔یہ کہانی اردو کے تقریباََ۱۱۳۰الفاظ پر مشتمل ہے ۔یہ کہانی دو کرادروں ’’دندان ساز اور مئیر‘‘ کے درمیان ہے۔اس فلیش فکشن میں ایک سماجی حقیقت پر گہری تنقید کی گئی ہے، جہاں طاقتور لوگ اپنے مفادات کے لیے دوسروں کا استحصال کرتے ہیں، اور جب انہیں کسی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ نیچے آتے ہیں، لیکن کام ہونے کے بعد غرور اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔کہانی میں دندان ساز ایک عام آدمی کی نمائندگی کرتا ہے جو محنت کرتا ہے اور اپنی سادگی میں اپنے کام سے لگا رہتا ہے۔ وہ ایک ماہر کاریگر ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتا ہے، لیکن وہ جانتا ہے کہ سماج کے طاقتور افراد انصاف اور اخلاقیات کا لحاظ نہیں کرتے۔مئیر طاقت اور اقتدار کی علامت ہے۔ وہ ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہے، لیکن جب وہ تکلیف میں ہوتا ہے، تو وہ ایک عام کاریگر کے پاس آتا ہے تاکہ اس کی مدد لی جائے۔ جب اس کا دانت نکالا جاتا ہے، تب تک وہ عاجزی دکھاتا ہے، لیکن جیسے ہی مسئلہ حل ہو جاتا ہے، وہ تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیسے دینے سے انکار کر دیتا ہے۔
تو ہم اب یہاں ایک اقتباس کے ذریعے مصنف کے کمال فن کو دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح پر لطف انداز میں حقیقت کی منظر کشی کرتے ہیں ۔
’’یہ ایک نیچے کی عقل داڑھ تھی دندان ساز نے اپنے پاؤں پھیلائے اور گرم زنبو سے دانت کو پکڑا ۔مئیر نے کرسی کی ہتھیوں کوکس کے تھام لیا اور اپنے پیروں کو مضبوطی سے جمایا،اپنے گردوں میں ایک سرد خلاء محسوس کیا لیکن منہ سے کوئی آوازنہ نکا لی۔ بنا کسی تعصب کے البتہ تلخی گھلی نرماہٹ کے ساتھ ،دندان ساز نے کہا:اب آپ کو ہمار ے مرے ہوئے بیس آدمیوں کی قیمت چکانا پڑے گی۔مئیر نے اپنے جبڑ میں تڑخ کی آواز سنی اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے لیکن اس نے وقت تک سانس نہیں لیا جب تک اس نے یہ محسوس نہیں کر لیا کہ اس کا دانت نکل چکا ہے ۔پھر اس نے دانت کو آنسوؤں کے دھند ھلکے میں سے دیکھا تو وہ اسے کچھ اجنبی سا لگا جس نے اسے پچھلی پانچ راتوں سے درد کے عذاب میں بے حال کئے رکھا تھا۔‘‘(۳۲)
کہانی کا مرکزی خیال طاقتور اور کمزور طبقوں کے درمیان عدم مساوات اور ناانصافی کو بیان کرتا ہے۔ مئیر کا رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کیسے طاقتور لوگ اپنے فائدے کے وقت عاجزی اختیار کرتے ہیں، لیکن جب ان کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے، تو وہ دوسروں کو حقیر جانتے ہیں اور انصاف سے پہلوتہی کرتے ہیں۔ یہ رویہ غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی قدروں کی پامالی بھی ہے۔مصنف نے کہانی میں میجک ریلزم‘‘ کا استعمال کیا ہے، جس سے کہانی میں حقیقت اور تخیل کی آمیزش پیدا ہوتی ہے۔ مئیر کے دانت نکلنے کا منظر، دندان ساز کا نرمی سے بات کرتے ہوئے ایک تلخ حقیقت کا اظہار کرنا، اور مئیر کی جسمانی و جذباتی کیفیات کو اس مہارت سے بیان کیا گیا ہے کہ قاری خود کو اس منظر کا حصہ محسوس کرتا ہے۔جسمانی احساسات کی منظر کشی، مئیر کا دانت نکالے جانے کا عمل بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، جس میں درد، خوف، اور اندرونی خلاء کا احساس قاری کو مئیر کی تکلیف میں شریک کرتا ہے۔ یہ منظر کشی قاری کو جسمانی اور جذباتی طور پر کہانی کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔ کہانی میں دندان ساز کا مئیر سے دانت نکالتے ہوئے ایک تلخ حقیقت بیان کرنا کہ “اب آپ کو ہمارے مرے ہوئے بیس آدمیوں کی قیمت چکانی پڑے گی” ایک طرح کی علامتی حقیقت ہے۔ یہ حقیقت، جو بظاہر دانت نکالنے کے عمل سے منسلک نہیں، ایک بڑی سماجی حقیقت کا آئینہ ہے، جہاں کمزوروں کا استحصال طاقتور لوگ کرتے ہیں، اور ان کے مرنے والے افراد کی کوئی قیمت نہیں چکائی جاتی۔کہانی نہ صرف عدم مساوات اور ناانصافی کو اجاگر کرتی ہے، بلکہ اس میں مئیر کا تکبر اور غرور ایک بڑے طبقاتی فرق کی علامت ہے۔ مئیر کا رویہ اس بات کا عکاس ہے کہ طاقتور افراد صرف اپنے مفاد کے وقت عاجزی اختیار کرتے ہیں، اور جب ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے، تو وہ دوسرے لوگوں کے حقوق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔یہ کہانی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ معاشرے میں موجود طبقاتی تفریق اور طاقتور لوگوں کا رویہ کیسے کمزور لوگوں کے حقوق اور ان کی عزت نفس کو پامال کرتا ہے۔ مصنف کی جادوئی حقیقت پسندی اور سماجی تنقید کہانی کو ایک نئی گہرائی فراہم کرتی ہے، جو قاری کو نہ صرف تفریح فراہم کرتی ہے، بلکہ اسے معاشرتی ناہمواریوں کے بارے میں سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔
لبنان سے تعلق رکھنے والے عربی زبان کے معروف مصنف’’ خلیل جبران ‘‘ نے بھی فلیش فکشن لکھے ہیں۔ان کی ایک مختصر کہانی ’’مستقبل پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے ہے،جو جدید فلیش فکشن کا ایک معیاری نمونہ ہے۔اس کا اردو میں ترجمہ عبدالسبوح قاسمی نے کیا۔خلیل جبران کی اس کہانی میں مستقبل کی منظر کشی ایک مثالی معاشرہ کی تشکیل کا خواب پیش کرتی ہے جہاں امن، محبت اور ہم آہنگی کا دور دورہ ہے۔ مصنف نے ایک ایسی دنیا کا تصور پیش کیا ہے جہاں مختلف طبقات کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ خوشی سے رہتے ہیں۔ یہ معاشرہ نہ صرف انسانی سطح پر بلکہ دیگر مخلوقات کے ساتھ بھی محبت اور ہم آہنگی کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس میں امن کی فضا، سکون اور خوشحالی کے آثار ہیں۔انسان کو اپنی طاقت کا احساس ہو چکا ہے۔ ہر شخص اپنے تجربے کی بنیاد پر خود کو سمجھتا ہے اور اس کی اپنی عقل و سمجھ ہی اس کا سب سے بڑا رہنما ہے۔ یہ نقطہ جبران کے فلسفے کا اہم حصہ ہے جہاں انسان اپنی خودی کو پہچانتا ہے اور اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرتا ہے۔خلیل جبران نے اس مثالی مستقبل کی منظر کشی کرتے ایک جگہ فرماتے ہیں :
’’میں نے کسی ڈاکٹرکو نہیں دیکھا اس لئے کہ ہر شخص اپنے تجربے اور سمجھ کی وجہ سے اپنا ڈاکٹر آپ ہے۔ کسی نجومی کو بھی نہیں دیکھا اس لئے کہ ہر ایک کا اپنا ضمیر ہی سب سے بڑا نجومی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ انسان سمجھ گیا ہے کہ وہی مخلوقات کا محور ہے اسی وجہ سے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو خاطر میں لاتا۔‘‘(۳۳)
جبران کی کہانی میں امیر اور غریب کے فرق کا ختم ہونا ایک خوش آئند تبدیلی کی علامت ہے۔ اس میں بھائی چارے اور مساوات کا پیغام دیا گیا ہے جو ایک مثالی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسے سماج کی عکاسی کرتا ہے جہاں انسانیت کا خیال رکھا جاتا ہے۔جبران نے اس خیال کو بھی اجاگر کیا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہوگی۔ جب تک ہر انسان کو اپنے حقوق ملیں گے، تب تک وہ اپنے خیالات اور احساسات کے ساتھ جینے کی آزادی محسوس کرے گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ معاشرتی ترقی اس وقت ممکن ہے جب ہر ایک کو اپنے حقوق اور آزادی کا احساس ہو۔کہانی میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جانور اور پرندے بھی انسان سے محفوظ سمجھیں گے۔ یہ ایک ایسا منظر پیش کرتا ہے جہاں انسان اور مخلوق کے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ قائم ہو چکا ہے، جو ایک مثالی اور متوازن نظام کی بنیاد ہے۔جبران نے یہ واضح کیا ہے کہ مستقبل کی یہ خوش آئند تصویر ہمارے حال پر لاگو کی جا سکتی ہے۔ اگر ہم اپنے حال میں ان اصولوں کو اپنائیں، تو ممکن ہے کہ ہم اس مثالی مستقبل کو حقیقت میں بدل دیں۔ خلیل جبران کی یہ کہانی نہ صرف مستقبل کی ایک خوشگوار تصویر پیش کرتی ہے، بلکہ یہ بھی ہمیں اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ ایک بہتر معاشرہ قائم کرنے کے لیے ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ اس کے لیے شعور، محبت، مساوات اور آزادی کی ضرورت ہے۔ جبران کا یہ پیغام آج کے معاشرے کے لیے بھی بہت اہم ہے، جہاں ہم اپنی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
خلیل جبران کی ایک اور مختصر کہانی ’’دو بچے‘‘طبقاتی تقسیم اور اس کے انسانی معاشرت پر گہرے اثرات کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ کہانی مختصر اور سادہ ہے لیکن اس کا پیغام بہت گہرا اور فکر انگیز ہے، جس میں دو بچوں کی متضاد پیدائش کے واقعات کے ذریعے معاشرتی عدم مساوات کو بیان کیا گیا ہے۔خلیل جبران کی اس کہانی کا مرکزی پیغام طبقاتی تقسیم اور معاشرتی ناانصافی پر مبنی ہے۔ ہر بچہ پیدائشی طور پر معصوم ہوتا ہے، لیکن معاشرتی نظام اسے مختلف طبقات میں تقسیم کر دیتا ہے، اور یوں اس کی تقدیر کا تعین کرتا ہے۔ کہانی ایک طاقتور تنقید ہے اس معاشرتی نظام پر، جو امیر اور غریب کے درمیان ایک ناقابل عبور دیوار کھڑی کر دیتا ہے، اور بے گناہ بچوں کو اس ظالمانہ تقسیم کا شکار بنا دیتا ہے۔اقتباس دیکھیے ،جس میں ایک ماں کی بچے کے حوالے سے بے بسی عیاں ہے:
’’جانوروں کے بچے گھاس چرتے ہیں ،اور اطمینان سے باڑوں میں رات گزارتے ہیں پرندو ں کے بچے دانہ چگتے ہیں اور آرام سے شاخوں میں ہوتے ہیں لیکن میرے لال! تیری ماں کمزور ی اور آہوں کے سوا کچھ نہیں ۔!!!‘‘(۳۴)
’’دو بچے‘‘ ایک علامتی کہانی ہے جو جبران کے گہرے سماجی شعور اور طبقاتی تقسیم کے خلاف ان کے خیالات کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ ایک تنبیہہ ہے کہ یہ ظالمانہ معاشرتی نظام انسانی معصومیت اور زندگیوں کو تباہ کر سکتا ہے۔ کہانی معاشرتی مساوات اور انصاف کی ضرورت پر زور دیتی ہے تاکہ ہر انسان کو اس کی فطری معصومیت اور حقوق کے ساتھ جینے کا حق مل سکے۔
عربی زبان سے ایک اور مختصر کہانی ’’محبت کے بیج‘‘ نجیب محفوظ نے لکھی ہے، جو مصر کے معروف ادیب ہیں۔ نجیب محفوظ کو ۱۹۸۸ء میں نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔ انہوں نے اپنے ادبی کیریئر میں ناول، مختصر کہانیاں، ڈرامے، اور فلمی سکرپٹ بھی لکھے۔ اس کہانی کا اردو میں ترجمہ عبدالحق نے کیا ہے، اور یہ کہانی صرف ایک صفحے پر مشتمل ہے، جو تقریباً تین الفاظ پر مشتمل ہے۔ نجیب محفوظ اس کہانی کو بیانیہ انداز میں پیش کرتے ہیں، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ مصنف کی ذاتی زندگی کی کہانی ہو۔نجیب محفوظ کی کہانی “محبت کے بیج” میں محبت اور حسن کے احساسات کی گہرائی کو عمدہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہانی کا آغاز ایک سادہ سی صورت حال سے ہوتا ہے، جب مصنف ایک کھلے دروازے کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور تین خوبصورت لڑکیوں کو دیکھتا ہے۔ ان لڑکیوں کے حسن کی شدت نے اسے مسحور کر دیا، اور وہ بے ساختہ ان کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔یہ کہانی اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ محبت اکثر بصری خوبصورتی سے جنم لیتی ہے، مگر اس کے پیچھے کی حقیقت مختلف ہوتی ہے۔ جب لڑکیاں اسے بولتی ہیں، تو یہ ان کی غیر روایتی طرز گفتگو کو ظاہر کرتا ہے، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی خوبصورتی کی طاقت کو جانتی ہیں اور اس کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔مرقوم ہے کہ:
’’کیا بات ہے۔تم راستہ روکے کیوں کھڑے ہو؟میں اپنی جگہ سے ہل نا پایا۔وہ پھر بولی!ارے بھئی، جاگ بھی جائو!میرے اندر ایک مبہم احساس جاگا اور میرے منہ سے نکلا،بلبلے خون دے خوردو گلے حاصل کرو۔وہ تینوں بیک وقت ہنسیں اور سب سے بڑی بولی،یہ تو درویش لگتاہے،منجھلی کہتی ہے ’پاگل لگتا ہے وہ‘‘(۳۵)
کہانی کا اختتام اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگرچہ یہ تجربہ متاثر کن ہے، لیکن یہ محبت حقیقی نہیں ہے۔ لڑکیوں کے حسن کے جلوے میں مصنف کا دل و دماغ محض ایک عارضی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہ کہانی اس بات کا تجزیہ کرتی ہے کہ محبت کا حقیقی وجود کبھی کبھار صرف ظاہری حسن کے پیچھے چھپا ہوتا ہے، جو کسی کی زندگی میں گہرائی یا مستقل بنیاد فراہم نہیں کرتا۔نجیب محفوظ کی یہ کہانی انسانی احساسات، محبت، اور حسن کی عارضیت پر ایک بصیرت فراہم کرتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ محبت کا ہر اظہار مستقل نہیں ہوتا، اور انسان اکثر اپنی جذباتی حالت میں بہک جاتا ہے۔ اس میں ایک تنقیدی نقطہ نظر ہے کہ ہمیں محبت کو صرف ظاہری حسن کی بنیاد پر نہیں پرکھنا چاہیے، بلکہ اس کے پیچھے کی حقیقت کو بھی سمجھنا چاہیے۔
ایک اور نوبل انعام یافتہ جاپانی فکشن نگار ’’یاسوناری کاواباٹا‘‘ نے بھی فلیش فکشن لکھے ہیں۔ان کو ۱۶اکتوبر ۱۹۴۸ء کو نوبل انعام سے بھی نوازا گیا تھا۔ان کی ایک مختصر کہانی ’’لڑکی جو آگ تک جاپہنچی‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس کا اردو میں ترجمہ معروف ادیب ’’محمد عاصم بٹ‘‘ نے کیا۔ یہ کہانی اردو کے ۴۳۴الفاظ پر مشتمل ہے۔ ان کے فکشن کو خاص کر مختصر کہانیوں کے بارے میں محمدعاصم بٹ بتاتے ہیں کہ:
’’نوبل انعام یافتہ ناول نگار اور کہانی کار ’’یاسوناری کاواباٹا‘‘ جاپانی ادب ہی میں نہیں دنیائے ادب میں بھی ایک نہایت معتبر حیثیت کے حامل لکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ آپ کے فکشن کی پہچان آپ کی مترنم اور پیچیدہ نثر ہے جو آپ کو دیگر لکھنے والوں سے ممتاز کرتی ہے۔ آپ انسانی نفسیات کے خفتہ گوشوں سے معاملہ کرتے ہیں ۔ آپ کے اسلوب کی سادگی اور پرکاری آپ کو کلاسیکی استادان فن کی صنف میں نمایاں جگہ دلاتی ہے۔ آپ جاپانی ادیب ہیں جنہیں نوبل انعام ملا… کاواباٹا کی شہرت کا آغاز ان کی کہانی ’ایزو کی رقاصہ‘ سے ہوا۔ اپنی کہانیوں میں کاواباٹا نے قدیم اسالیب کو نئے انداز میں برتنے کے سلسلہ کا آغاز کیا۔ آپ نے مختصر کہانیوں کا سلسلہ لکھا جو ان کے ایک سے زائد مجموعوں میں شامل ہوئیں ۔‘‘(۳۶)
’لڑکی جو آگ تک جا پہنچی‘ ایک ایسی مختصر کہانی ہے جو انسانی نفسیات اور لاشعور کی پیچیدگیوں کا گہرائی پیش کرتی ہے۔ یہ کہانی خاص طور پر فرائیڈ کی لاشعوری نظریہ کی عکاسی کرتی ہے، جہاں سوچے سمجھے خیالات اور جذبات انسانی خوابوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔کہانی میں ایک شخص کی نفسیات کو بیان کیا گیا ہے جو ایک لڑکی کے بارے میں اپنے خیالات کے دائرے میں محصور رہتا ہے۔ یہ شخصیت اس کے اندر کی بے یقینی اور خود پر شکوک و شبہات کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ یہ مانتا ہے کہ لڑکی اس کی طرف کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، اور اسی نظریے میں وہ اپنی دنیا کو محدود کر لیتا ہے۔کہانی میں خواب کا کردار اہم ہے۔ جب متکلم کو خواب میں لڑکی کا ایک خاص منظر نظر آتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے لاشعوری خیالات اور احساسات حقیقت کی شکل میں سامنے آ گئے ہیں۔ خواب لڑکی کی زندگی میں ایک بڑی علامت بن جاتا ہے، جو کہ اس کی داخلی کشمکش اور حساسیت کی عکاسی کرتاہے۔ ۔اس صورت حال کو مصنف کچھ یوں کرتا ہے۔:
’’تم اکیلی پہاڑ کے نیچے کیوں جارہی ہو؟ کیا آگ میں جل کر مرنا چاہتی ہو؟ میں مرنا نہیں چاہتی لیکن تمہارا گھر مغرب کی طرف ہے، اسی لیے میں مشرق کی طرف جارہی ہوں ۔ اس کے ہیولے نے جو شعلوں کے سامنے میری نظر پر چھائے ہوئے سیاہ دھبے کی صورت تھا، میری آنکھوں کو چندھیا دیا۔ میں جاگ اٹھا۔ میری آنکھوں کے کناروں سے آنسو چھلک رہے تھے۔ اس نے کہا تھا کہ وہ میرے گھر کی سمت نہیں جانا چاہتی تھی۔ مجھ پر یہ بات پہلے ہی واضح تھی۔ جو کچھ اس نے سوچا بالکل درست تھا۔‘‘ (۳۷)
متکلم کے خواب میں یہ احساسات ایک طرح کی نفسیاتی جڑت کی صورت میں آتے ہیں، جہاں خواب حقیقت کی جھلک پیش کرتا ہے۔ متکلم کو جب یہ سمجھ آتا ہے کہ اس کے خواب اس کے خیالات کی عکاسی کر رہے ہیں، تو وہ خود کو ہیچ اور کمتری کے احساس میں مبتلا کر لیتا ہے۔ یہ احساس اس کی شخصیت کی گہرائی میں جھانکتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح ایک فرد اپنی بے یقینی اور خوف کے زیر اثر رہتا ہے۔ کہانی کا اختتام متکلم کی اندرونی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے، جہاں وہ اپنی کمزوریوں اور عدم اعتماد کا سامنا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کو پیش کرتی ہے، خاص طور پر اس بات کو کہ کس طرح خیالات اور احساسات انسان کے خوابوں میں سرایت کرتے ہیں، اور یہ کہ خواب اکثر انسانی حقیقت کا ایک آئینہ دار ہوتے ہیں۔دراصل یہ کہانی انسانی نفسیات کی گہرائیوں میں جانے والی ایک شاندار کہانی ہے۔ یہ نہ صرف خوابوں کی نفسیات کو پیش کرتی ہے بلکہ یہ بھی دکھاتی ہے کہ کس طرح ہم اپنے خیالات کے جال میں پھنس جاتے ہیں، جو کبھی کبھار ہمیں اپنی حقیقت کا سامنا کرنے سے روکتے ہیں۔ فرائیڈ کی تھیوری کی روشنی میں یہ کہانی انسان کے اندر کے پیچیدہ احساسات کی عکاسی کرتی ہے، جو زندگی کے راستوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔مجموعی طور بات کی جائے تو فلیش فکشن کی تاریخ بہت قدیم ہے، اس کی جڑیں قدیم حکایات، پنچ تنتر اور جاتک کہانیوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ قبل از مسیح کے دور میں ایسوپ جیسے مصنفین نے مختصر کہانیوں کے ذریعے اہم اخلاقی سبق سکھائے۔ اسی طرح شیخ سعدی، مولانا رومی اور ملا نصرالدین کی حکایات میں انسانیت، اخلاقیات اور زندگی کے بنیادی اصولوں کی عکاسی کی گئی۔ ان کہانیوں میں اکثر جانوروں کو کردار بنا کر انسانی کمزوریوں اور خوبیوں کو اجاگر کیا جاتا تھا۔ ان مختصر تجربات کے ذریعے سیکھنے کا ایک نیا زاویہ سامنے آتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ مختصر کہانیوں کا رجحان دنیا بھر میں پھیلتا چلا گیا اور مختلف ثقافتوں میں مقبول ہوتا رہا۔ مختصر کہانیوں کا یہ انداز عالمی سطح پر پہچانا گیا اور فلیش فکشن تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے لگا۔ فلیش فکشن کا مقصد کم الفاظ میں زیادہ گہرائی اور اثر پیدا کرنا ہے، جو کہ جدید زندگی کی تیز رفتار مصروفیات کے باعث اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ مختلف ثقافتوں اور زبانوں میں ادبی تخلیقات کی نئی جہات نے فلیش فکشن کو ایک منفرد اور پسندیدہ صنف بنا دیا ہے۔
اس مباحث اور تجزیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فلیش فکشن کا پس منظر بہت قدیم ادوار(ق۔م) سے منسلک ہے اور پھر یہ طویل سفر طے کرتا ہوا انیسویں صدی میں داخل ہوا۔قدیم فلیش فکشن بےشک موضوعاتی، پیغام رسانی اورسبق آموزی کے حوالے سے بہترین تھے لیکن ان کا اسلوب اور کہانی سادہ تھی ،پھر وقت کے ارتقا کے ساتھ انیسویں اور بیسویں صدی میں، فلیش فکشن نے ایک نئی شکل اختیار کر لی۔ جس میں دنیا کے مشہور مصنفین نے اس صنف کو مزید نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔اس دور میں ہی نئی تکنیکوں اور طرز تحریر کی تلاش شروع ہوئی۔ فلیش فکشن کی جدت کا ایک اہم لمحہ بیسویں صدی کے پانچویں اور چھٹی کی دہائی میں آیا، جب کچھ مصنفین نے کم الفاظ میں زیادہ اثر ڈالنے کی کوشش کی۔ اس طرز تحریر کا مقصد یہ تھا کہ کم جگہ میں زیادہ خیالات، تجربات اور احساسات کو سمیٹا جائے۔اس دورانیے میں عالمی سطح پردیگر کئی ممتاز مصنفین کے ساتھ ساتھ’’فرانز کافکا، یاسوناری کاواباتا، گیئبریل گارشیا مارکویئزاور نجیب محفوظ‘‘ جیسے نوبل انعام یافتہ مصنفین نے فلیش فکشن کے ذریعے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو عروج پر پہنچایا۔ ’ فرانز کافکا‘ کی کہانیاں وجود اور معاصر انسان کی زندگی کی الجھنوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کی فلیش فکشن میں انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کو سادہ مگر گہرے انداز میں پیش کیا گیا۔’یاسوناری کاواباتا‘ نے جاپانی ثقافت اور معاشرتی مسائل کو اپنی مختصر کہانیوں میں سمویا، جو قاری کو مختلف جذباتی تجربات سے گزارتی ہیں۔’’گیئبریل گارشیا مارکویز‘ کی فلیش فکشن میں جادوئی حقیقت پسندی کا عنصر شامل ہے، جو مختصر کہانیوں کو ایک نیا رنگ دیتا ہے اور قاری کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔نجیب محفوظ‘نے اپنی کہانیوں میں مصری ثقافت اور معاشرتی مسائل کو مختصر اور مؤثر انداز میں بیان کیا۔ دیگر نامور مصنفین بورخیس،چیخوف،خلیل جبران اور ٹالسٹائی‘ وغیرہ جیسے فکشن نگاروں نے بھی فلیش فکشن کو اپنی تخلیقات میں شامل کیا۔بورخیس کی کہانیاں حقیقت اور افسانے کے درمیان کی سرحدوں کو مٹا دیتی ہیں، جہاں ہر مختصر کہانی میں ایک نئے عالم کا دروازہ کھلتا ہے۔چیخوف نے انسانی جذبات اور معاشرتی مسائل کو سادہ مگر طاقتور انداز میں پیش کیا، جہاں قاری کو ہر فلیش فکشن میں ایک گہرائی محسوس ہوتی ہے۔ٹالسٹائی کی کہانیاں زندگی کے اخلاقی مسائل کو چھوتی ہیں، جو انسانی جذبات کی عکاسی کرتی ہیں۔
عالمی فلیش فکشن مختلف ثقافتوں اور زبانوں سے جڑا ہوا ہے، اور اس میں مختلف ادبی روایات کا اثر پایا جاتا ہے۔ اردو ادب نے بھی عالمی فلیش فکشن کو اپنایا ہے، اور یہ اردو کی مختصر کہانی کی روایات کے ساتھ مل کر ایک نیا رنگ بکھیرتا ہے۔ تیز رفتار زندگی اور محدود وقت کے باعث لوگ اب زیادہ تفصیلی کہانیوں کو پڑھنے کا وقت نہیں رکھتے۔ فلیش فکشن اس ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ اردو میں اس کی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو زبان بھی عالمی ادب کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ جہاں تک فلیش فکشن کے پیش منظر کا تعلق ہے،دن بدن فلیش فکشن کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اس کی موجودگی، جیسے بلاگ، سوشل میڈیا، اور ادبی ویب سائٹس، نے اسے ایک نئی جہت دی ہے۔معاصر فلیش فکشن میں جدید مسائل، جیسے کہ ٹیکنالوجی، شناخت اور سماجی مسائل پر توجہ دی جاتی ہے۔ یہ نئے موضوعات قاری کی دلچسپی کو بڑھاتے ہیں۔فلیش فکشن کے معاصر مصنفین نے مختلف طرز اور اسلوب اپنائے ہیں، جس سے یہ صنف مزید دلچسپ ہو گئی ہے۔ کچھ مصنفین سادہ زبان استعمال کرتے ہیں، جبکہ دیگر ادبی اشکال میں تجربہ کرتے ہیں۔
عالمی فلیش فکشن کے اردو تراجم نہ صرف اردو ادب میں نیا اضافہ ہیں، بلکہ یہ اردو زبان اور ثقافت کی بین الاقوامی سطح پر شناخت کا بھی ذریعہ ہیں۔ یہ تراجم اردو قارئین کو نئے خیالات، تجربات اور ثقافتوں سے متعارف کراتے ہیں، جس سے اردو ادب کی حدود کو بڑھانے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے علاوہ، عالمی فلیش فکشن کا اردو میں ترجمہ ادبی تنوع، ثقافتی تبادلہ اور نئے موضوعات کی دریافت کا ایک منفرد ذریعہ ہے، جو اردو ادب کے مستقبل کے لیے بہتری کی امید کا پیغام دیتا ہے۔فلیش فکشن کی ترقی اور مقبولیت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انسانی تجربات کو مختصر مگر مؤثر انداز میں بیان کرنے کی ضرورت ہمیشہ موجود رہے گی۔ عالمی مصنفین کی محنت اور تخلیقی صلاحیتوں نے اس صنف کو نئی بلندیوں تک پہنچایا ہے، اور یہ آج بھی قاری کی توجہ کا مرکز ہے۔
حوالہ جات
(1) Eidted: James Thomas and Robert Shepard” Flash fiction International” W.W.Norton & Company
2 Ltd. Landon 2015 pages No.21 and 232
(2) James Thomas and Robert Shapard” Flash fiction International Eitted:W.W.Norton & Company Ltd. Landon, 2015, page No.233
(3) Sustana, Catherine. “Flash Fiction Definition and History.” ThoughtCo, Feb. 16, 2021.
(4) James Thomas and Shapard, Same as above, p.no. 23
۵)قیصر نذیر خاور ،حکایاتِ عالم،لاہور ، مکتبہ فکر و دانش جنوری ۲۰۱۸ء ، ص۴۷
(6) https:// www,aik rozan.com
۷) قیصر نذیر خاور ،کسان اور بیٹے،مشمولہ:حکایاتِ عالم، لاہور ،مکتبہ فکر و دانش اشاعت جنوری۲۰۱۸ ء ، ص ۵۲
۸) ڈاکٹر پروفیسر انعام الحق جاوید(پیش لفظ)ایسپ کے منتخب قصے کہانیاں,مترجم:ملک اشفاق،اسلام آباد ،نیشنل بک فاؤنڈیشن ،جون ۲۰۱۶ء،ص۱۳
۹) مترجم:ملک اشفاق،ایک آدمی کی دو بیویاں ،مشمولہ:ایسپ کے منتخب قصے کہانیاں،اسلام آباد ،نیشنل بک فاؤنڈیشن،جون ۲۰۱۶ء،ص۱۲۲
۱۰)مترجم:ملک اشفاق، ایسپ کے منتخب قصے کہانیاں،اسلام آباد ،نیشنل بک فاؤنڈیشن ،جون ۲۰۱۶ء،ص۱۶،۱۵
۱۱) قیصر نزیر خاور،عالمی ادب اور افسانچہ،لاہور،مکتبہ فکر ودانش،جون ۲۰۱۸ء،ص۲۵،۲۴
۱۲) قیصر نذیر خاور ، حکایاتِ عالم، لاہور ،مکتبہ فکر و دانش اشاعت جنوری۲۰۱۸ ء ، ص۱۱۸
۱۳) قیصر نذیر خاور ،موہ،مشمولہ:حکایاتِ عالم، لاہور ،مکتبہ فکر و دانش اشاعت جنوری۲۰۱۸ ء ، ص۱۱۹
۱۴) قیصر نزیر خاور،عالمی ادب اور افسانچہ،لاہور،مکتبہ فکر ودانش،جونء ۲۰۱۸،ص۸۰
۱۵) مرتب:ساجد علی صدیقی،پروفیسر،شوخ،شوخ باتیں ملا نصیر الدین کی، اسلام آباد،نیشنل بک فاؤنڈیشن،اپریل ۲۰۱۸ء،ص۴۲
۱۶) مولفہ:شاہدہ لطیف،شیخ سعدی،’’درویش کی نصیحت،حکایاتِ سعدی‘لاہور،سیونتھ سکائی پبلی کیشنز،اگست۲۰۱۵ء،ص۱۱۲
۱۷) قیصر نزیر خاور،عالمی ادب اور افسانچہ،لاہور،مکتبہ فکر ودانش،جون ۲۰۱۸ء،ص۲۵،۲۴
۱۸) مترجم:محمد عاصم بٹ،کافکا کہانیاںِاسلام آباد،نیشنل بک فاؤنڈیشن ،ستمبر۲۰۱۶ء،ص۲۰۶
۱۹) مترجم:محمد عاصم بٹ، ایک کتب فروش ولیم مینز ، مشمولہ:کافکا کہانیاں اسلام آباد،نیشنل بک فاؤنڈیشن ،ستمبر۲۰۱۶ء،ص۲۰۶
۲۰) مترجم:منور آکاش،ابتدا،مشمولہ:دن میں پڑھی جانے والی کہانیاں،(نئی امریکی کہانیوں سے انتخاب)لاہور،فکشن ہاؤس،۲۰۰۸ء،ص۱۶۲
۲۱) مترجم:منور آکاش،’’پلمبر کی ہدایت‘‘مشمولہ:دن میں پڑھی جانے والی کہانیاں،(نئی امریکی کہانیوں سے انتخاب)لاہور،فکشن ہاؤس،۲۰۰۸ء،ص۱۶۶
۲۲) مترجم:فینانہ فرنام،’’بوڑھا آدمی اور موت‘‘ مشمولہ:ٹالسٹائی کی حکایات،اسلام م آباد،نیشنل بک فاؤنڈیشن،۲۰۱۸ءص۴۲
۲۳) مولفہ:شاہدہ لطیف ،حکایات کا انسائیکلو پیڈیا، لاہور،الفیصل ناشران،اردو بازار،۲۰۱۵ء،ص۶۱۱
۲۴)ایضاؐ،ص۶۱۴،۶۱۳
۲۵) محمدعاصم بٹ،بورخیس کہانیاں،لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز،۲۰۱۷ء،ص۶،۵
۲۶) مترجم: محمدعاصم بٹ،اسیر،مشمولہ:بورخیس کہانیاں،لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز،۲۰۱۷ء،ص۲۱۳
۲۷) مرتبین:طارق شاہد،محمد عاصم بٹ،’’الوداع‘‘ مشمولہ:بین الاقوامی ادب(انتخاب) اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،۲۰۰۸ء، ص۵۳
۲۸) مرتبین:طارق شاہد،محمد عاصم بٹ،ثبوت حاضر ہے،مشمولہ:بین الاقوامی ادب(انتخاب) اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،۲۰۰۸ء، ص۱۲۱
۲۹) قیصر نزیر خاور،ساحلی بستی،مشمولہ:عالمی ادب اور افسانچہ،لاہور،مکتبہ فکر ودانش،جون ۲۰۱۸ء،ص۲۴۸
۳۰) قیصر نزیر خاور،آنند، مشمولہ:عالمی ادب اور افسانچہ،لاہور،مکتبہ فکر ودانش،جون ۲۰۱۸ء،ص۳۹۷
۳۱) قیصر نزیر خاور، مساوات،مشمولہ:عالمی ادب اور افسانچہ،لاہور،مکتبہ فکر ودانش،جون ۲۰۱۸ء،ص۴۰۵
۳۲) قیصر نزیر خاور،ایک دن،عالمی ادب اور افسانچہ،لاہور،مکتبہ فکر ودانش،جون ۲۰۱۸ء،ص۴۰۵
۳۳) مترجم:عبدالسبوح قاسمی، مستقبل پر ایک نظر،مشمولہ: اپنا اپنا دیس،لاہور،ادارہ فروغ اردو،۱۹۴۶ء،ص۱۶۹
۳۴) مترجم:حبیب اشعر دیلوی،دوبچے،اشک و تبسم،لاہور،آئینہ ادب،۱۹۵۹ء،ص۱۰۸
۳۵) مترجم:عبدالحق، محبت کے بیج،نجیب محفوظ کی کہانیاں‘دہلی،نیو پبلک پریس،۱۹۹۰ء،ص۲۰
۳۶) محمد عاصم بٹ،جاپانی کہانیاں،راول پنڈی،صریر پبلی کیشنز،۲۰۱۹ء،ص۲۱۳
۳۷) مترجم:محمد عاصم بٹ،لڑکی جو آگ تک جا پہنچی‘،مشمولہ:جاپانی کہانیاں،راول پنڈی،صریر پبلی کیشنز،۲۰۱۹ء،ص۲۱