You are currently viewing علامہ اقبال کی اردو شاعری میں تلمیحات و استعارات کا تجزیاتی مطالعہ

علامہ اقبال کی اردو شاعری میں تلمیحات و استعارات کا تجزیاتی مطالعہ

 ڈاکٹر سہیم الدین خلیل الدین صدیقی

ڈاکٹراقبال جاوید کی تصنیف

علامہ اقبال کی اردو شاعری میں تلمیحات و استعارات کا تجزیاتی مطالعہ

         ہرسال کی طرح اس سال بھی ہمارے ہندوستان میں عالمی یوم اردو انتہائی پرجوش انداز میں منایاگیاملک ہندکا ہر شخص یہ بخوبی جانتا ہے کہ عالمی یوم اردو شاعرہند ،قومی وبین الاقوامی اور ملی شاعر علامہ اقبال کی یوم ولادت کے موقع پر منایا جاتا ہے۔لہٰذا یہ کتاب ‘‘علامہ اقبال کی اردو شاعری میں تلمیحات و استعارات’’ ازپروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال جاویدکی ڈاکٹرسرعلامہ اقبال کوخیراج تحسین ہے۔ سرعلامہ اقبال ادب اردو میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔بچہ، جوان ہو یا پھر بوڑھاہر کوئی علامہ اقبال سے واقف ہیں۔ رہی بات صاحب کتاب پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال جاوید کی تو موصوف کی پیدائش مہاراشٹر کے ضلع پربھنی میں بتاریخ۲۴ /اپریل ۱۹۷۷؁ء میں عالی جناب شیخ ابراہیم صاحب جوکہ پیشہ درس و تدرس سے وابستہ ہے ان کہ یہاں ہوئی۔ڈاکٹر محمد اقبال جاوید صاحب نے ابتدائی تعلیم مراٹھی زبان میں حاصل کی ۔ لیکن اردو سے محبت تو انھیں ورثہ میں ملی تھی اسی ورثہ کے ضمن میں انھوں نے اپنے والدین سے اردو سیکھی۔اردو کی اسی محبت نے انھیں اردومیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے متحریک کیا ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے اردو میں ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی اورنگ آباد سے بی ایڈ کیا۔ بعد ازاں اسی اردو زبان میں سوامی رامانند تیرتھ مراٹھواڑہ یونیورسٹی ناندیڑ مہاراشٹر سے ایم اے اردونمایاں نمبرات سے کامیاب کیا۔اسی اثنا ء میں ڈاکٹر محمداقبال جاوید نے مسابقاتی امتحان نیٹ اردو زبان میں کامیاب کیا اور ۲۰۰۳؁ء میں ان کا بحیثیت اردو زبان کے لیکچررکے طورپرشیواجی کالج اعظم کالونی ہنگولی میں تقرر ہوا۔ نیز ۲۰۱۳؁ء میں موصوف نے پروفیسر حمیداللہ خاں کی نگرانی میں ‘‘علامہ اقبال کیاردو شاعری میں تلمیحات و استعارات’’ کے عنوان سے اپناپی ایچ ڈی کا مقالہ سوامی رامانند تیرتھ مراٹھواڑہ یونیورسٹی میں داخل کیا جس پر انھیں اردو زبان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔بعد ازاں یہ لکھنے کا سلسلہ بڑی آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہوگیا اور پھرڈاکٹر محمداقبال جاوید کے یکے بعد دیگرے ایک نہیں دو نہیں مسلسل آدھادرجن کتابیں منظر عام پر آئی اوربہت جلدہر عام و خواص قارئین سے خوب پذیرائی حاصل کی ان کتابوں میں‘‘علامہ اقبال کی اردو شاعری میں تلمیحات و استعارات’’،‘‘آبگینہ ’’،‘‘افکار مہاتما گاندھی’’، ‘‘آزادی کے بعد اردو شاعری’’ اور‘‘مسلم مجاہدین آزای ’’بیحد قابل ذکر ہیں۔

         ‘‘علامہ اقبال کی اردو شاعری میں تلمیحات و استعارات’’ ڈاکٹر محمد اقبال کی پہلی کاوش ہے جس پر انھیں اردو میں پی۔ایچ ۔ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔جس کو انھوں نے کتابی شکل میں شائع کرنے سے قبل کئی جگہ پرتنسیخ و توسیع کی ہے جس کے تعلق سے وہ خود ار قم طراز ہیں کہ:

‘‘ علامہ اقبال کی اردو شاعری تلمیحات و استعارات ’’ کے ذریعے حقیقی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔تحقیقی مقالہ پی۔ ایچ۔ ڈی کے لئے لکھا گیا تھا۔ اسے کتابی شکل میں شائع کرنے سے پہلے کئی جگہ تنسیخ و توسیع کی گئی۔’’

                            (علامہ اقبال کی اردوشاعری میں تلمیحات و استعارات،از: محمد اقبال جاوید، صفحہ۳)

         زیر نظرکتاب میں مصنف محمد اقبال جاوید صاحب نے علامہ اقبال کی شاعری کی فنی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کتاب کو حسب ذیل پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے جن میں باب اول تلمیح و استعارہ پر مبنی ہے جبکہ باب دوم میں موصوف نے علامہ اقبال کے فکری سر چشمے پر روشنی ڈالی ہے، باب سوم کی بات کی جائے تو اس میں ڈاکٹراقبال جاویدنے سرعلامہ اقبال کی اردو شاعری میں تلمیحات کا مطالعہ اس عنوان کے ضمن متعدد تلمیحات کو شامل کیا ہے۔باب چہارم علامہ اقبال کی اردو شاعری میں استعارات کا مطالعہ پر اور آخری باب علامہ اقبال کے فن کا جائزہ عناوین کے طورپر شامل ہیں۔

          باب اول کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرے تواس میں ہمیں موصوف کے فن کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کے فن کااندازہ بھی ہوتا ہے اوراقبال کے شاعری کی خصوصیات تلمیح و استعارہ کی تعریف، اہمیت، افادیت اور روایت کا تذکر بڑی چابکدستی سے دکھائی دیتا ہے اور اردو کے چند نمائندہ شعراء کے طور پر ولیؔ، نظیر، آتشؔ، ناسخؔ، غالبؔ، مومنؔ، داغؔ،حالیؔ وغیرہ کے شعری حوالے ملتے ہیں جس سے ڈاکٹر اقبال جاوید نے یہ بتانے کی ممکن کوشش کی ہے کہ تلمیحات کومذکورہ شعراء نے کس طرح سے استعمال کیا ہے۔ اس پر روشنی ڈالی ہے بعد ازاں استعارے کی تعریف اور اس کی روایت کے طور پر امیر خسرو سے لے کواقبال تک تمام نمائندہ شعراء پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

          باب دوم کے طور پر علامہ اقبال کے فکری سر چشمے کے ضمن میں قرآن حکیم سیرت حضرت محمد مصطفی ، والدین، مولوی میر حسن، پر وفیسرآرنلڈ، مولانا جلال الدین رومی،گوئٹے،نیطشے، برگساں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقبال کی فکر و سوچ کی بنیاد پر روشنی ڈالی گئی ہے جبکہ ان کے اساتذہ سے علامہ اقبال کے تعلقات،فلسفہ خودی اور فلسفہ بے خودی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

          لہٰذا مصنف نے باب سوم علامہ اقبال کی اردو شاعری میں تلمیحات کے مطالعہ میں صرف کیا ہے۔ اور اسی باب میں تلمیحات اقبال کے طور پر کوثرتسنیم،بو علی، سورۃ الشمس، شیخ مجدد الف ثانی، ہارون رشید، سلطان ٹیپو کی وصیت، ایرنی، لن ترانی، حافظ شیراز، داغ، بہزاد، سکندر، منصور، انوری و جامی، رومی، تبریز، رازی، عطار، غزالی، فارابی، لیلی مجنوں، حضرت یوسف، حضرت موسی، حضرت خضر، ابو العلا معمری، شیر شاہ سوری گلشن دیمر، تیمور،سید کی لوح تربت، فرہاد،کلیم ہمدانی، سمرقند و بخارا، حضرت آدم، حضرت بلال، ابلس، حضرت عیسی جیسے کم وبیش (۱۳۰) ایک سوتیس تلمیحات کو پیش کیا ہیں۔

          ڈاکٹر اقبال جاوید نے اپنی اس تصنیف ” علامہ اقبال کی اردو شاعری میں تلمیحات و استعارات’’ باب چہارم میں علامہ اقبال کی تصنیف کلیات اقبال سے۷۵ سے زائد استعارات کو ا علیحدہ کیا ہے۔ جن میں ا انہوں نے اقبال کی اردو شاعری میں استعارات کے مطالعہ کا عنوان دیتے ہوئے اس ضمن میں استعارات اقبال کے حوالے سے فصیل کشور، چراغ خانہ حکمت، نافۂ شاہدِ رحمت،، اشکوں کے ہار، صحرائے علم، جگنو، منار، ظلمت خانۂ دل، ہینہ زریں، مزرغِ،کا رواں کی گرد، ہم دوش ارم، گورستان، موتی کی لڑی، بوئے گل، بحر ظلمات، شمع لحد، سیارہ، قطرہ، خلق عظیم، لعل بدخشاں، عرب کی خور، رہ و رسم حرم، یقین چمن، جلوہ گرجبرائیل، نوائے شوق،بے کراں، انجم تارامہ کامل،شا ہین، قند یل،مشتِ خاک، مر مر کی بیلیں، خوشۂ گندام کی جیب، شاخ، موج، میدانِ جنگ، بستانِ وجود، لذت ساحل، قطرہ شبنم اور ضمیر فلک وغیرہ استعارات کو کتاب ہذا میں شامل کیا ہے۔

         اس کے علاوہ باب پنجم میں مصنف نے صاحب کتاب نے علامہ اقبال کے فن کا جائزہ لیا ہے اور اختتامی کلمات بھی شامل کئے ہیں۔لہٰذا زیر نظر کتاب میں علامہ اقبال کی اردو شاعری میں استعمال کئے بیشتر تلمیحات و استعارات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کتاب کے سرورق پر موجود اقبال کی مسکراتی ہوئی تصویر و گل بوٹوں سے لے کر کتابیات تک انتہائی خوبصورتی سے لبریز علامہ اقبال فنی و تکنیکی معلومات کے ساتھ ساتھ نمایاں تلمیحات و استعارات اس میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال کی کلیات اقبال کم و بیش ۳۵۴ نظموں اور ۱۲۷ غزلوں میں نمایاں اشعار کا انتخاب بھی جا بجاں اس کتاب ہذا‘‘ علامہ اقبال کی اردو شاعری میں تلمیحات و استعارات’’ میں نظر آتا ہے۔ اس کتاب کو شرح کلیات اقبال کہنا بے جاں نہ ہوگا چونکہ اس تصنیف میں اقبال کی شاعری میں نظر آنے والے تلمیحات و استعارات کے ساتھ ساتھ بیشتر اشعار کی تشریح بھی ملتی ہے۔ جو نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء طالبات، اساتذہ اکرام، ریسرچ اسکالر کے لئے ضروری معلومات بھی باآسانی ملتی ہیں۔ کہنے کا لب و لباب یہ ہے کہ زیر نظر کتاب علامہ اقبال سے عقیدت رکھنے والے تمام اصحاب علم کے لئے باقرینہ ٔجو ہر ہے جو تا قیامت اقبال کی شاعری کو سمجھنے و عملی زندگی میں برتنے کے لئے قادِرا لبیان ثابت ہوگی۔

Dr. SAHIMODDIN KHALILODDIN SIDDIQUI

Asst. Prof. Dept. Of Urdu

Swami Ramanand Teerth Mahavidyalia, Ambajogai Dist. Beed, (Maharashtra)

431517.

Mob: 8087933863.

٭٭٭

Leave a Reply