You are currently viewing علیم صباؔ نویدی کی ’’تاریخ ادب اردو ۔تمل ناڈو ‘‘ایک تبصرہ

علیم صباؔ نویدی کی ’’تاریخ ادب اردو ۔تمل ناڈو ‘‘ایک تبصرہ

عائشہ صدیقہ ۔ جے

اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو،مظہر العلوم کالج، آمبور چنئی۔ تمل ناڈو

علیم صباؔ نویدی کی ’’تاریخ ادب اردو ۔تمل ناڈو ‘‘ایک تبصرہ

’’تاریخ ادب اردو تمل ناڈو‘‘ یہ کتاب در اصل تمل ناڈو کی ادبی تاریخ پر مشتمل ایک دستاویز ہے۔ اس کے مصنف علیم صباؔ نویدی ہیں جو عالمی شہرت یافتہ شاعر، ادیب ، محقق اور نقاد ہیں۔ تمل ناڈو کے علاقائی ادب پر یہ ایک اہم کتاب ہے بلکہ اسے مآخذ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ طالبانِ علم و ادب علاقائی ادب پر تحقیق کرتے ہوئے علیم صباؔ نویدی کی اس کتاب سےاکثر ہی استفادہ کرتے ہیں۔ اس میں ادبی تاریخ کے ساتھ ساتھ تمل ناڈو کے شعراء کرام اور ادباء سے متعلق بھی جانکاری دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں اس میں شعراء کرام کی تاریخ پیدائش، تاریخ وفات اور ان کے احوال ِ زندگی اور ان کی شخصیت و کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، اسی لیے اسے بعض دانشورں نے تذکرہ بھی کہا ہے۔ میرا تحقیقی موضوع ’’ شہر آمبور اور اس کے قرب و جوار میں اردو شعرو ادب کی پیش رفت‘‘ ہے ۔ میں نے اگر چہ مختلف کتابوں سے اپنا تحقیقی مواد جمع کیا ہے اور شعراء کی تخلیقات تک رسائی بھی ہوئی ہے ،لیکن بعض بنیادی نکات جو میرے موضوع سے متعلق ہیں وہ مجھے تصنیف ’’ تاریخ ادب اردو تمل ناڈو ‘‘ جلد اول و دوم سے دستیاب ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک بنیادی مآخذ ہے۔ اس میں کل چھے ابواب قائم کئے گئے ہیں۔ پہلے ، دوسرے اور تیسرے باب میں تمل ناڈو کے شعرا و ادباء کا تذکرہ پیش کیا گیا ہے۔ ان ابواب میں علیم صباؔ نویدی نی نے بڑی باریک بینی سے کام لیا ہے۔ تقریبا ً تین سو سالہ قدیم شعراء کرام سے لے کر موجودہ دور کے شعراء کرام تک اپنا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے اور ہر ایک شاعر اور ان کی تخلیقات پر اپنا تحقیقی نقطہ نظر بھی پیش کیا ہے۔ چوتھے باب میں تمل ناڈو میں اردو رباعی گوئی سے متعلق تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں ان تمام شعراء کا احاطہ کیا گیا ہے جنھوں نے اردو رباعی میں خامہ فرسائی کی ہے ۔ اس باب میں ان شعراء کرام کا بھی تذکرہ آیا ہے جنھوں نے غزل گوئی کے ساتھ تبرکاً رباعیاںبھی لکھی ہیں۔ تمل ناڈو میں رباعی گوئی کے آغاز و ارتقاء سے متعلق ہمارے طالبانِ علم و ادب کو یہ باب رہنمائی کرتا ہے۔ اس کتاب کا پانچواں باب تمل ناڈو کی خواتین کی علمی و ادبی خدمات پر مشتمل ہے۔ اس باب کے تحت علیم صباؔ نویدی نے تقریبا دو درجن خواتین اہلِ قلم کا تذکرہ کیا ہے اور ہر ایک کے سوانحی احوال اور ان کی تخلیقات کا تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے۔ یہاں یہ بات واضح کرنا چاہتی ہوں کہ علیم صباؔ نویدی نے اس باب میں صرف شاعرات کا تذکرہ ہی نہیں کیا بلکہ فکشن سے تعلق رکھنے والی ان تمام اہل قلم خواتین کا جائزہ بھی لیا ہے۔ یہ باب اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں عالمی شہرت یافتہ اہل قلم خاتون حجاب امتیاز علی تاج کی پیدائش سے لے کر ان کی تخلیقی زندگی تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شہر آمبور، شہر وانمباڑی، میل وشارم اور شہر مدراس کی اہل قلم خواتین پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کا چھٹا باب تمل ناڈو میں اردو نعت گوئی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس باب میں علیم صباؔ نویدی نے جہاں انفرادی طور پر اردو نعت گو شعراء کا جائزہ لیا ہے وہاں انھوں نے ان شعراء کرام کو بھی اس میں شامل کیا ہے جنھوں نے تبرکاً نعتیں کہی ہیں ۔ تمل ناڈو میں نعت گو شعرا کی فہرست کافی طویل ہے۔ طوالت کے خوف سے میں یہاں صرف چند نعت گو شعراء کا تذکرہ کرنا چاہتی ہوں۔ قربیؔ ویلوری، ذوقی ؔویلوری، باقرؔ آگاہ، حضرت شاہ سلطان ثانیؔ، شریف مدراسیؔ، اثیمہؔ آرکاٹی، مقبولؔ آمبوری، کمالی ؔویلوری، مرزا غلام عباسؔ، نثارؔ نگری، حیدر علی خانؔ، محبوب پاشاہؔ، راجیؔ صدیقی، کاوشؔ بدری، دانشؔ فرازی، حسن فیاض ؔوغیر اہ اسی قبیل کے شعراء ہیں۔ تاریخ ادب پر مشتمل یہ کتاب صرف شعراء و ادباء تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں تمل ناڈو کے اردو اداروں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ تمل ناڈو میں اردو زبان و ادب کے ارتقائی سفر میں یہ ادبی انجمنیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔ ان ادبی اداروں کے زیر اہتمام تمل ناڈو کے ادب پرور شہروں میں کل ہند مشاعرے اور مذاکرے منعقد ہوا کرتے رہے ہیں۔ تمل ناڈو میں اردو صحافت کا تذکرہ کیے بغیر یہ کتاب مکمل نہیں کہی جاسکتی۔ علیم صبا نویدی نے تمل ناڈو میں اردو صحافت سے متعلق بھی ایک باب قائم کیا ہے جو ضمیمہ کی حیثیت رکھتا ہے اس میں علیم صبا نویدی نے یہاں کے متعدد اخبار و رسائل سے متعلق معلومات فراہم کیے ہیں جو اس سمت کام کرنے والوں کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ تمل ناڈو میں اردو صحافت کافی پرانی ہے یہاں اس دور سے اخبار و رسائل جاری ہوتے رہے جب سے شمالی ہند میں اردو صحافت کی ابتدا ہوئی تھی۔1840 ء سے یہاں اخبارات نمودار ہوچکے تھے جن میں جامع الاخبار اور عمدۃ الاخبار خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

        اس کتاب میں تمل ناڈو میں اردو نثر پر بھی خاص توجہ دی گئی ، یہاں کے نثر نگاروں میں تحقیق و تنقید سے متعلق بھی خاص دلچسپی رہی ہے۔ اردو نثر کے اولین اہل قلم میں باقر آگاہؔ کا نام بڑے احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ انھیں تمل ناڈو میں اردو تنقید کا موجد کہتے ہیں۔ مولانا حالی سے بھی بہت پہلے باقر آگاہ نے اپنے مقدموں کے ذریعے اردو تنقید کا رجحان پیش کیا تھا۔ قربی ویلوری، ذوقی ویلوری، قاضی بدر الدولہ ، شاکر وانمباڑی ، حیدر علی خان ، احمد حسین قتیل، مولانا یوسف کوکن، کاوش بدری، خطیب قادر باشاہ، دانش فرازی، علی اکبر آمبوری وغیرہم وہ نثر نگار ہیں جو تمل ناڈو میں اردو نثر نگاری کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔ اردو نثر کے فروغ میں جس طرح فورٹ ولیم کالج کلکتہ کا تذکرہ آتا ہے اسی طرح شہر مدراس کا فورٹ سینٹ جارج کالج تمل ناڈو میں اردو نثر نگاری کا ایک اہم مرکز رہا ہے ۔ یہ کالج بھی فورٹ ولیم کالج کی طرح 1800 ء میں قائم ہوا تھا ۔ اس کالج کے بھی وہی مقاصد تھے جو فورٹ ولیم کالج کے تھے۔ یہاں صر ف کتابوں کا ترجمہ ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ سرکاری ملازمین کو اردو کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ فورٹ سینٹ جارج کالج میں مقامی زبانوں کے علاوہ عربی و فارسی تعلیم کا بھی انتظام تھا۔یہاں دیگر علوم و فنون مثلا  : قانون ، تاریخ، اقتصادیات اور ریاضی کے شعبے بھی قائم کیے گئے تھے۔ اس کالج کے شعبہ عربی ،فارسی و اردو میں تدریسی فرائض انجام دینے والوں میں مولوی تراب علی نامی، مولوی حسن علی ماہلی، مولوی شمس الدین احمد اور میر مہدی واصف شامل تھے۔ ان کے علاوہ کالج کے اساتذہ میں ابراہیم بیجاپوری ، قاضی ارتضی علی خان، غلام حسین معاون، مزرا عبد اللہ باقی وفا وغیرہم کے نام بھی لیے جاسکتے ہیں۔ یہ کالج اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں مختلف زبانوں پر مشتمل کتابوں کا ایک کتب خانہ بھی موجود تھا ۔یہاں بڑی تعداد میں عربی، فارسی و اردو کتابوں کا ذخیرہ بھی موجود تھا ۔ یہ کتابیں مطبوعہ بھی تھیں اور مخطوطات کی شکل میں بھی۔ علیم صبا نویدی کی جانکاری کے مطابق ولیم ٹیلر نے یہاں پائے جانے والے مخطوطات کی فہرست دو جلدوں میں مرتب کرکے فورٹ سینٹ جارج گیزٹ پریس سے شائع کی تھی۔ ٹیلر کا بیان ہے کہ یہاں موجود مخطوطات کی تعداد تین ہزار تھی۔ کالج کا اپنا ایک نجی پریس بھی تھا جس میں کالج کی کتابیں شائع ہوتی تھیں۔ جنوبی ہند کے جس چھاپے خانے کا پتہ چلتا ہے وہ اسی کالج میں قائم تھا۔ عتیق صدیقی رقم طراز ہیں  : مدراس کی پہلی مطبوعہ کتاب ’’ حکایاتِ جلیلہ‘‘ 1836 ء میں شائع ہوئی۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مدراس اردو طباعت کے معاملے میں ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے بہت آگے تھا۔

        ’’تاریخ ادب اردو تمل ناڈو‘‘ میں جہاں اردو سے متعلق جو مواد تاریخی ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے وہاں تمل ناڈو کے عربی مدارس کی اردو خدمات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ایک اہم باب ہے اس کتاب کا جس میں علیم صبا نویدی نے تمل ناڈو کے تقریبا ًتمام عربی مدارس کی اردو خدمات کا احاطہ کیا ہے، نیز ان عربی مدارس سے وابستہ اہل قلم کی تحقیقی ، تنقیدی اور تخلیقی کاوشوں کو بھی اجاگر کیا ہے ۔جس طرح یہ کتاب جو اردو زبان و ادب کے ابتدائی دور سے لے کر تا حال ادیبوں ، شاعروں اور فن کاروں کی خدمات کا احاطہ کرتی ہے ،کل ایک ہزار پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں شاعری کے علاوہ اردو افسانہ اور ناول پر بھی شر ح وبسط کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ ناول اور افسانوں کے حوالے سے علیم صبا نویدی نے بیسیوں فکشن نگاروں کا نہ صرف تعارف کرایا ہے بلکہ ہر ایک کی تخلیقات کی روشنی میں ان کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ یہ کتاب میرے تحقیقی مقالے کے لیے کافی مدد گار رہی میں نے اس کتاب سے اپنے تحقیقی کام میں کافی استفادہ کیا ہے اور میں کبھی اس پر مغز اور معلومات افزاء کتاب کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کرسکتی۔ بلکہ میں اسے ایسا مخزن سمجھتی ہوں جو تمل ناڈو کی ادبی تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے رہنمائی کرتا رہے گا۔

        تحقیق میں حوالوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ بغیر حوالے کے کسی بھی تحقیق کو مستند نہیں مانا جاتا، عموما ًحوالہ جات کی ایک فہرست کتاب کے آخر میں دی جاتی ہے یا کبھی ہر باب کے اختتام پر بھی دینے کا رواج رہا ہے۔حوالے دینے کا مطلب یہ ہے کہ محقق نے کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ نہ صرف مطالعہ بلکہ اقتباس اور اقوال بھی نقل کیے جاتے ہیں۔جہاں اقوال اور اقتباس ہوں گے وہاں حوالہ دینا لازمی ہے ورنہ سرقہ کا احتمال ہوتا ہے۔ علیم صبا نویدی نے پورے ایمانداری سے نہ صرف حوالے دیے ہیں بلکہ حوالوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔حوالے صرف مطبوعہ کتابوں کے ہی نہیں ہوتے بلکہ غیر مطبوعہ کتابوں یا تحقیقی مقالوں کو بھی حوالوں کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔بعض دفعے انٹرویو کے دوران استفادے کو بھی سند کا درجہ دینے کے لیے محقق حضرات حاشیے میں اس کا حوالہ دیتے ہیں جس سے تحقیقی کام کا اعتبار بڑھ جاتا ہے۔ ’’تاریخ ادب اردو تمل ناڈو ‘‘ میں جو تحقیقی حوالے دیے گئے ہیں وہ مستند ہیں ۔ جہاں کہیں بھی علیم صبا نویدی نے نئی بات یا نئی تحقیق کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہاں انھوں نے حوالوں کا سہارا لیا ہے۔ مثلا ً  : اثیمہ آرکاٹی سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے یا ان کے کلام کا جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے کاوش بدری کے مقالے ’’ شہزادی اثیمہ آرکاٹی کی مثنویاں‘‘ مطبوعہ معارف اگست 1996 ء کا حوالہ دیا ہے۔ اسی طرح پرتو مدراسی پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے ’’کلیات پرتو‘‘ مطبوعہ 1903 ء کا حوالہ دیا ہے۔ ان حوالوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ علیم صبا نویدی نے پورے احتیاط کے ساتھ اس کتاب میں حوالے دیے ہیں۔ باقر آگاہ جیسے مستند اہل قلم کے بارے میں لکھتے ہوئے علیم صبانویدی نے مولانا یوسف کوکن کے مقالے کا حوالہ دیا ہے اور ساتھ ہی’’ نوادراتِ تحقیق‘‘جو ڈاکٹر محمد علی اثر کی مطبوعہ تصنیف ہے، اس کے حوالے بھی انھوں نے اپنی کتاب میں جابجا پیش کیے ہیں۔ عربی مدارس کا تذکرہ کرتے ہوئے علیم صبا نویدی نے ڈاکٹر راہی فدائی کی مطبوعہ کتاب ’’دار العلوم لطیفیہ ویلور‘‘ کا ادبی منظر نامہ کا حوالہ بھی دیا ہے جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ علیم صبا نویدی نے اپنی کتاب  ’’تاریخ ادب اردو تمل ناڈو‘‘  میں حوالوں کے ذریعے اپنی کتاب کو نہ صرف مستند بنایا ہے بلکہ اسے وسعت دیتے ہوئے وقار بھی بخشا ہے۔

٭٭٭٭٭

Leave a Reply