ڈاکٹر گلشن مسرت
عکسِ گم گشتہ
کتاب: عکسِ گم گشتہ
شاعر: شعیب نظام
مبصر: ڈاکٹر گلشن مسرت
رات کا تاریک تر پتھر جگر پانی کریں
ہم بھلا کس کے لئے یہ کار لا ثانی کریں
“عکسِ گم گشتہ” عصرِ حاضر کے ایک معتبر اور مستند شاعر شعیب نظام صاحب کا شعری مجموعہ ہے جس کی اشاعت رواں برس ۱۲۰۲ء میں عمل میں آئی۔ معاصر شعری منظرنامے میں ان کی شاعری اپنے اسلوب اور لہجے کے حوالے سے ایک معتبر شناخت رکھتی ہے۔ طبیعت میں ایک طرح کی بے نیازی ہے چنانچہ انہوں نے کبھی اپنے فن کو اپنی شناخت کی دریافت کا ذریعہ نہیں بنایا۔ شاید یہی سبب ہے کہ ان کے پہلے مجموعے کلام کو منظر عام پر آنے میں اتنا وقت لگا لیکن دیر آید درست آید۔مجموعوں کی کثیر تعداد کسی تخلیق کار کی قدر و منزلت کی ضمانت نہیں اس لئے یہ مجموعہ اپنے معیار اور وقار کے اعتبار سے شاعری کے سنجیدہ شائقین کے لئے بہت کافی ہے۔ اردو ادب کی قد آور شخصیت شمیم حنقی صاحب نے عکس گم گشتہ کی شاعری اور اس کے معیار کی
بلندی پر اپنے تاثرات کچھ اس طرح قلمبند کیے ہیں
شعیب نظام صاحب کے اشعار پر ہمیشہ انتخاب کا گمان ہوتا ہے۔ زبان و بیان کے اسالیب پر مضبوط گرفت اور زندگی کی رنگا رنگی پر ان کی توجہ غیر معمولی ہے۔ یہی رنگا رنگی ان کی شاعرانہ تخیل کا وصف بھی ہے۔
شعیب نظام صاحب کی ادب سے وابستگی، مطالعہ وسعت، مشاہدہ گہرائی و گیرائی، حیات و کائنات کی رمز شناسی اور ذہنی اور قلبی واردات کے اظہار کی شکل میں ان کے اشعار میں رچی بسی نظر آتی ہے۔ آپ نے عمر کا ایک طویل عرصہ لکھنوء میں گزارا باکمال شعراء اور ادباء کی روز و شب کی صحبتوں اور سر پرستی نے ان میں وہ علمی ذوق پیدا کیا جس نے ان کی ادبی شناخت اور شعری رویّوں کو خالص لکھنوی لب و لہجہ اور تہذیب کی وہ حرارت بخشی جسے شعیب نظام صاحب کی طبیعت کا خاص وصف سمجھا جاتا ہے۔ اس خاص وصف کی ایک جھلک اس خوبصورت شعر میں ملاحظہ فرمائیں
کیسی دھڑکن سی کبھی ان بند دروازوں میں تھی
اک الگ الگ آواز ان مدھم سی آوازوں میں تھی
اور یہ اشعار بھی
ذرا سا ٹوٹنے کا ڈر تھا لیکن
کمالِ شیشہ گردیکھا تو جاتا
وہ آنکھیں گو مسیحائی نہ کرتیں
مرا زخمِ جگر دیکھا تو جاتا
شعیب نظام صاحب کے اشعار کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہے کہ وہ روایت پسند ہونے کے باوجود روایت پرست نہیں ہیں۔ وہ اپنی
شعری کائنات میں جہان نو کی معنی خیزیوں اور پر اسرار راہوں کی تلاش میں اْس مقام پر نظر آتے ہیں جو ان کے کلام کو روایت کا اعتبار اور جدت و ندرت کی دلکشی عطا کرتی ہے۔ جہاں معنی کی سطح پر انکے کلام میں میر کا سوز اور آتش کا بانکپن یکسر موجود ہیں اور ان دونوں رنگوں کو انہوں نے اپنے فن میں نئے پیکر اور نئے آہنگ کے ساتھ پیش کیا ہے۔ چند اشعار دیکھیں
اگر سنے تو کسی کو یقیں نہیں آئے
مکاں بلاتے رہے اور مکیں نہیں آئے
پھر کے ویران بستیوں میں نظام
دستکیں دوں صدا لگا ؤں میں
ہر اک نگاہ میں اک خوف بھی ہے خواہش بھی
کسے پتہ وہ ستارہ ادا کدھر جائے
اب پروں کو کھولنے سے جانے کیوں ڈرتا ہے جی
کل تلک تو ساری دنیا اپنی پروازوں میں تھی
بظاہرشعیب نظام صاحب کے کلام کا بیشتر حصہ واردات قلب کی روداد ہے لیکن وہ عشق کی بھول بھلیوں میں گم نہیں ہوتے ان کی نظر زمانے کے تغیرات اور مصائب، نئے عہدکے مسائل، بدلتی ہوئی تہذیبی اقدار،انسانی احساسات اور کیفیات پر ثبت ہونے والے تمام اندرونی و بیرونی اثرات پر ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کے شعروں میں محبت کی چاشنی کے ساتھ ساتھ سماج اور سیاست میں در آنے والی تلخیاں بھی شامل ہیں
سبھی اپنی اداکاری میں گم ہیں
کسی کو چاہتا کوئی نہیں ہے
نظر آتے ہیں جب اطراف بونے
ہم اپنا قد گھٹالیتے ہیں تھوڑا
گرد حالات سے چہرہ کوئی محفوظ کہاں
وقت ہر شخص کو آئینہ دکھا دیتا ہے
ہے اندر روشنی باہر اندھیرا
سو دونوں کو ملالیتے ہیں تھوڑا
یہ سفر ختم کیوں نہیں ہوتا
خود سے خود تک کبھی تو آؤں میں
انسانی احساسات و کیفیات کے مختلف رنگوں کو پیش کرنے میں شعیب نظام صاحب کو ملکہ حاصل ہے وہ داخلی کیفیات کے اظہار میں فن کے مختلف وسائل سے کام لیتے ہیں۔ کہیں عشق کے نرم جذبات ہیں تو کہیں طنز کے چبھتے نشتر، کہیں خواب آلودہ حسرتوں کا شور ہے تو کہیں زمانے سے برہمی و بیگانگی کا احساس۔ الغرض ان کے کلام میں فکری پختگی اور شعور جدید دونوں کارفرما نظر آتے ہیں۔ عکس گم گشتہ کی شاعری میں یاد گم گشتہ کی کرب ناکی اور محرومی، احساس زیاں کا کرب مختلف رنگوں اور مختلف شکلوں میں ہمارے دل و ذہن پر دستک دیتا ہے۔
میں اپنے آپ سے مصروف جنگ ہوں جب تک
کسی محاذ سے کوئی صدا نہ دے مجھ کو
دیارِ غیر میں اتنی بھی خاکساری کیا
سمجھ کے گرد زمانہ اڑا نہ دے مجھ کو
وہ نوحہ شہر کا لکھ لکھ کے پھاڑتا کیوں ہے
جو مدح خوانی عالم پناہ کرتا ہے
شعیب نظام کی شاعری کا امتیازی وصف میری نظر میں ان کا استعاراتی نظام ہے۔ وہ سپاٹ شعری پیرائے کے بجائے استعارات و تشبیہات کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔ کچھ اشعار پیش خدمت ہیں
رات کے جنگل میں میں ہوں اور تری مبہم سی یاد
اک دیا ہے، یہ کہاں تک راستہ روشن کرے
یہ دھند یہ غبار چھٹے تو پتا چلے
سورج کا حال رات کٹے تو پتا چلے
ہر اک نگاہ میں اک خوف بھی ہے خواہش بھی
کسے پتہ وہ ستارہ ادا کدھر جائے
میں سائے کو اٹھانا چاہتا ہوں
اٹھالیتا مگر بھاری بہت ہے
معروف نقاد اور دانشور پروفیسر قاضی جمال صاحب نے شعیب نظام صاحب کی شعری کائنا ت کی اس خوبی کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
وہ اشیاء اور مظاہر کو روشن اور واضح پیکروں کی شکل میں دیکھنے کے بجائے خواب آسا اور مبہم شکلوں میں دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کسی طلسم کی مانند غیر یقینی صورت حال میں چیزوں کو دیکھنے کا رویہ شعیب نظام کا پسندیدہ طریقہ کار ہے۔
ختم ہوتی تخلیقیت اور کمزور پڑتی شعری حسیت کے دور میں شعیب نظام صاحب کا شعری مجموعہ “عکس گم گشتہ “کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ اچھی شاعری سے شغف رکھنے والوں کے لیے یہ مجموعہ ء کلام ایک خوبصورت اور یادگار تحفہ ہے۔