محمد عادل
ہلال ہاؤس 4/114 نگلہ ملاح علی گڑھ
غزل میں انٹروورٹ پرسنلٹی کی ترجمانی کرنے والا شاعر: ڈاکٹر وفا ؔنقوی
جب ہم کائنات کے رازوں پر تحقیقی نگاہ کرتے ہوئے غور و فکر کی وادی میں قدم رکھتے ہیں تو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ کائنات میں موجود ہر شئے بڑے منظم طریقے سے کام کرتی ہے۔لیکن پھر بھی جو چیزیں دیکھنے میں یکساں اورہم جنس معلوم ہوتی ہیں ان میںبھی افتراق و انفرادیت پائی جاتی ہے۔مثلا ًتمام انسان جو جسم و ساخت کے اعتبار سے ایک جیسے اعضاء رکھتے ہیں پھر بھی رنگ و روپ اور عادات و اطوار کی وجہ سے ایک دوسرے سے منفرد ہیں۔ماہرین نفسیات کے مطابق ہر دو افراد کے درمیان فطری،ذہنی اور نفسیاتی طور پر بھی بڑا فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔لیکن یہ فرق صرف انسانی نسل تک محدود نہیں اس کے علاوہ تمام حیاتیاتی اور غیر حیاتیاتی خلقت میں بھی ایک تنوع پایا جاتاہے۔ماہرین کے مطابق انسانی خلقت ایک ایسا معمہ ہے جس کے راز مکمل طور پر ابھی سائنس بھی نہیںسمجھ سکی ہے۔علمِ نفسیات کے رو سے جب ہم انسان پر تحقیق کرتے ہیں تو اس کی شخصیت سے متعلق بہت سے رازوں سے آشنائی ہوتی ہے۔ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ انسان جسمانی، فکری، جذباتی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔یہ ایسی خصوصیات ہیں جو ایک شخص کو دوسرے سے ممتاز کرسکتی ہیں۔
ماہر نفسیات رابرٹ سیشنز ووڈ ورتھ{Robert Sessions Wood worth (1962-1869)} اورپرسنلٹی ٹیسٹ (Personality Test)کے خالق کے مطابق،تمام انسانوں میں ان کی انفرادیت کی بنا پر الگ الگ نفسیاتی، جسمانی خصلتیں، ذہنی صلاحیتیں، علم، عادت، شخصیت اور کردار دیکھنے کو ملتے ہیں۔سر ایڈورڈ برنیٹ ٹائلر {Sir Edward Burnett Tylor (1917-1832)}کے نزدیک جسم کی ساخت، شکل ،کام کرنے کی رفتار، صلاحیتیں، ذہانت، علم، کامیابی، دلچسپی، قابلیت اور ذاتی خصوصیات انسان میں پائی جانے والی انفرادیت کے سبب ہی فروغ پاتی ہیں۔اس لئے ماہرینِ نفسیات انسانی شخصیت کا مطالعہ مختلف زاویوں سے کرتے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسان کی شخصیت اس کی شناخت قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔انسان کی شخصیت اس کی فکر،جذبات،احساسات،اور اس کی عادات و اطوار معاشرے میں اس کی کار کردگی کے سبب تشکیل پاتی ہے۔در اصل کسی انسان کی شخصیت اس کی ذہانت،جسمانی بناوٹ،سماج میں اس کے اٹھنے بیٹھنے،رد عمل کرنے اور اس کے اوصاف و کردار سے ابھر کر سامنے آتی ہے۔یہ شخصیت ہی ہے جو انسان کو سماج میں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ماہرینِ نفسیات کے مطابق انسان کے ظاہری و باطنی صفات،نظریات، اخلاقی اقدار،افعال احساسات اور جذبات کا انسان کی شخصیت بنانے میں اہم کردار ہوتا ہے۔ انسان کا ظاہری حسن وجمال تو وقتی طور پر کسی کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے لیکن انسان کے باطنی کردار میں وہ طاقت ہے جو دائمی طور پر کسی کو بھی اپنا گرویدہ بنا سکتی ہے۔
ادب سماج کا آئینہ تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ اس میں موجود مختلف شخصیات کا بھی عکاس ہے۔ ایک اچھا فنکار اپنے فن پاروں میں سماج کے ان ہی کرداروں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا ہے جن کے ساتھ وہ زندگی بسر کر رہا ہے۔اس کے علاوہ ایک اچھے ادبی فن پارے میں انسانی نفسیات کی بھی بھر پور عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ دنیا کا کوئی ایسا ادب نہیں جس میں انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو پیش نہ کیا گیا ہو۔
ہر زبان و ادب کی طرح ہمارے اردو ادب میں بھی انسانی نفسیات اور شخصیات سے متعلق بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ہمارے شعرا و ادبا نے انسانی نفسیات کی بھر پور عکاسی کی ہے۔شاعری کی بات کریں تو اردو ادب میں موجود قصیدوں،مثنویوں،مرثیوں،نظموں اور غزلوں میں ہمارے شعراء نے معاشرے میں موجود مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد، کردار، مرد و زن،بچے،بوڑھے،جوان،عاشق،محبوب،رقیب،واعظ،ناصح وغیرہ تمام لوگوں کی جیتی جاگتی اور نفسیاتی تصویریں پیش کی ہیں۔
اردو شاعری کا نفسیاتی طور پر جائزہ لینا کوئی نیا عمل نہیں ہے بلکہ ادب میں باقاعدہ ’’نفسیاتی تنقید‘‘ کے عنوان سے تنقید کی ایک شاخ دیکھنے کو ملتی ہے۔جو مغربی ادب کے زیر اثر ہمارے ادب میں آئی ہے۔غزل میں ’’انٹروورٹ پرسنلٹی کی ترجمانی کرنے والا شاعر: ڈاکٹر وفاؔ نقوی‘‘ کے عنوان سے یہ مضمون انٹروورٹ پرسنلٹی کی خصوصیات اور اس کی نفسیات سے متعلق پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ساتھ ہی اس سے متعلق موصوف کی غزلو ں میں آئے منفرد اشعار بھی پیش کئے گئے ہیں۔
انٹروورٹ (Introvert) دو لاطینی لفظوں’ انٹرو‘ (Intro) جس کا معنی ہیں اندر کی طرف اور ’ورٹرے‘ (vertere) موڑنے کے ہیں۔یہ لفظ ایسے انسانی شخصیت کی ترجمانی کے لئے استعمال ہوتا ہے جو ذہنی طور پر اندر کی طرف جھکا ہوتا ہے۔ ایسے افراد جو خارجی دنیا کے بجائے اپنی باطنی دنیا میں زیادہ گم رہتے ہیں ان کے لئے انٹروورٹ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ماہرِنفسیات کارل گستاو جنگ {Carl Gustav Jung (1961-1875)}نے سب سے پہلے 1900ء کی دہائی کے اوائل میں انٹروورٹ (Introvert)اور ایکسٹروورٹ (Extrovert)کی اصطلاح کو متعارف کرایاتاکہ شخصیت کی ان اقسام کو بیان کیا جا سکے جو انسان کی توانائی کو اندرونی یا بیرونی دنیا پر مرکوز کرتی ہیں۔اس کے بعد انٹروورٹ اور ایکسٹروورٹ اصطلاحات بڑے پیمانے پر استعمال کی جانے لگیں۔انٹروورٹ سے مراد ایسے لوگوں سے لی جانے لگی جو مزاجا ًخاموش یا شرمیلی طبیعت کے مالک ہوتے تھے۔
ماہرین نفسیات نے انسانی نفسیات پر تحقیق کرنے کے بعد انٹروورٹ پرسنلٹی سے متعلق بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ ایسا دیکھا گیا ہے کہ انٹروورٹ پرسنلٹی کے افراد خاموش طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔وہ اکثر زیادہ گفتگو نہیں کرتے ،کم سخن اور کم گوہوتے ہیں۔انٹروورٹ پرسنلٹی کی اس خصوصیت کو ڈاکٹر وفاؔ نقوی اس طرح بیان کرتے ہیں:
ہم نے چپ رہ کے انھیں حال سنایا اپنا
ہم سے الفاظ کا احساں نہ اٹھانا آیا
وفا ؔنقوی نے اپنے اس شعر میںانٹروورٹ پرسنلٹی کی نفسیاتی کیفیت کا کیا خوب جیتا جاگتا خاکہ پیش کیا ہے۔کس طرح اس شخصیت کے مالک سماج میں ردِ عمل کرتے ہیں۔ان کا اصلی رنگ اکیلے پن اور تنہائی میںابھر کر سامنے آتا ہے۔ماہرین نفسیات نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ایسی پرسنلٹی کے افراد تنہائی میں گھنٹوں خود سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔کبھی کبھی یہ بڑبڑاتے ہیں تو کبھی بالکل خاموش رہ کر دل ہی دل میں باتیں کرتے رہتے ہیں۔یہاں تک کے یہ اپنے آپ کے لئے خود کو ہی ایک کردار تصور کر کے اس سے حالِ دل بیان کرتے ہیں۔اور خود کو اپنی ذات کارہنما تصور کرتے ہیں۔ماہرینِ نفسیات نے تحقیق کے بعد یہ بات آشکار کی ہے کہ ہربڑا شاعر،ادیب،مصور،فلسفی،دانش ور،سائنسداں کے اندر فطری طور پر انٹروورٹ پرسنلٹی کی خصوصیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔اس طرح یہ شعر موصوف کی باطنی کیفیت کا بھی ترجمان بن جاتا ہے۔ شعر میںڈاکٹر وفاؔنقوی نے مخاطبانہ لہجہ اختیار کیا ہے۔یہاں ’’ہم نے چپ رہ کے‘‘جیسا فقرہ جہاں انٹروورٹ پرسن کا ترجمان ہے وہیں شاعر خود کو شعر میں کردار بنا کر اپنی نفسیاتی کیفیت کی عکاسی کر رہا ہے۔دوسرا فقرہ’’ انھیں حال سنایا اپنا‘‘ بظاہر دو کرداروں کے آمنے سامنے ہونے اور ان کے تبادلۂ خیال کو پیش کرتا ہے۔لیکن چونکہ یہ انٹروورٹ پرسن کے جذبات کا عکاس ہے لہٰذا شاعر نے اپنے وجود کو ہی اپنا رفیق بنا لیا ہے جس سے وہ چپ رہ کر اپنی اندرونی کیفیت،بے چینی اور کرب بیان کر رہا ہے۔ٹھیک کسی انٹروورٹ پرسن کی طرح جو بغیر کچھ بولے اپنے وجود سے گھنٹوں تنہائی میںبات کرتا رہتا ہے ۔اوراس کو الفاظ کا احسان بھی نہیں اٹھانا پڑتا یعنی وہ بنا کچھ بولے سب کچھ بیاں کر دیتا ہے۔
یہ افراد تنہائی پسندہوتے اور خود اپنی تخلیق کردہ دنیا میں گم رہتے ہیں لہٰذا یہ معاشرے سے کٹ کر زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کے احباب کا حلقہ بھی بہت مختصر ہوتاہے ۔ان کے دوست بہت کم اور چنیدہ ہوتے ہیں۔وہ جس کا دوستی کے لئے انتخاب کرتے ہیں وہ ان کی نگاہ میں انتہائی معتبر اور بھروسے کے لائق ہوتے ہیں۔اس موضوع سے متعلق ڈاکٹر وفاؔ نقوی کا ایک شعرملاحظہ کریں:
اس زندگی نے دوست بہت کم بنائے ہیں
لیکن بنائے جتنے ہیں اچھے بنائے ہیں
انٹروورٹ افراد کے کردار کا خاصہ یہ بھی ہے کہ وہ بعض مرتبہ اپنی بات چاہ کر بھی نہیں کہہ پاتے کیوں کہ وہ کوئی بات کرنے سے قبل بہت غور و فکر کرتے ہیں اور گہری سوچ میںڈوب جاتے ہیں۔اس لئے کبھی کبھی وہ بات کرنے سے کتراتے ہیں گویا کہ ایک شرم ان کی شخصیت کا حصار کئے رہتی ہے۔اس فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے موصوف کہتے ہیں:
بولنا چاہا جب بھی شرمایا
بھیڑمیں آکے کتنا گھبرایا
وفاؔ نقوی کا یہ شعر انٹروورٹ افراد کی نفسیاتی کیفیت کو منفرد انداز میںپیش کر تا ہے۔انھوں نے اپنے اس شعر میں ایک ایسے شخص کا لفظی خاکہ پیش کیا ہے،جو مردم گزیدہ ہے اور بھیڑ میں بولنے سے گھبرا رہا ہے۔یہاں یہ شعراگورفوبیا (Agoraphobia) کا بھی عکاس ہوجاتا ہے یہ ایسا فوبیا ہے جس میں مبتلا افراد بھیڑ،سماجی حالت یا گھر سے باہر جانے سے بچتے ہیں اور وہ گھر یاتنہائی میں زیادہ آرام محسوس کرتے ہیں۔ایسا اس لئے ہوتا ہے کیوں کہ وہ بھیڑ میں اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کبھی کبھی خوف زدہ بھی ہوجاتے ہیںاور بھیر بھاڑ پر یا انجمن پر خلوت و تنہائی کو فوقیت دیتے ہیں۔اس بات کی ترجمانی میں ڈاکٹر وفاؔ نقوی کے چند اشعار دیکھیں:
مجھ کو شہروں کے تماشوں نے پرایا سمجھا
میں نے تنہائی کی آواز پہ لبیک کہا
دل کو تنہائی کے صحرا میں مقید کرکے
میں نے شہروں کی صدائوں سے بچایا خود کو
میں وہ گوشہ نشین ہوں اب تک
جس نے تنہائی انجمن سمجھی
ڈوبا رہتا ہوں میں سدا خود میں
ایک دریا ہے میری تنہائی
مندرجہ بالا اشعار میں استعمال کیا گیا خطابیہ لہجہ،اشعار میں آنے والے الفاظ’’مجھ کو،میں نے،میں وہ،میں سدا خود میں‘‘سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف انٹروورٹ پرسنلٹی کے ساتھ ساتھ کہیں نہ کہیں اپنی اندرونی کیفیت اور کشمکش کی بھی وضاحت کر رہے ہیں۔مندرجہ بالا اشعار میں ڈاکٹر وفاؔ نقوی نے انٹروورٹ پرسنلٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جس طرح عکاسی کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ان افراد کی نگاہ میں تنہائی کسی نعمت سے کم نہیں کیوں کہ اسی تنہائی میں گم ہو کر کائنات کے رازوں کو آشکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے وہ اپنی حقیقت تک پہنچتے ہیں۔اس سلسلے سے ایک شعر دیکھیں:
میں اپنے آپ میں لوٹا تو یہ ہوا معلوم
مرے علاوہ کوئی کائنات میں کب ہے
ان افراد کی پرسنلٹی میں خودکلامی بھی ایک اہم جز ہے۔ وہ بات جس کو یہ بھیڑمیںکہنے سے گھبراتے ہیں اس کو تنہائی میںخود سے بڑی آسانی سے بیان کر دیتے ہیں۔اپنی شخصیت کو ہی ایک الگ کردار سمجھ کر اس سے ایسے گفتگو کرتے ہیں جیسے ان کا تخاطب وہ خود نہیں بلکہ کوئی دوسرا فرد ہے۔شعر ہے:
خود کلامی سے مجھ پہ راز کھلا
میرے اندر ہیں سینکڑوں افراد
ماہرین نفسیات نے انٹروورٹ پرسنلٹی پر تحقیق کر کے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ ایسے افرادجتنے اپنے درون میں اور باطن میں ڈوبے رہتے ہیں اتنے ہی باہر کی دنیا سے بھی آگاہ ہوتے ہیں لیکن اس کا اظہار مشکل سے کرپاتے ہیں۔اکثر ان کی ذات کی انکساری کو لوگ ان کی نادانی سمجھنے لگتے ہیں۔جس وجہ سے لوگ انھیں اپنی سیاست اور مکاری کا شکار بناتے ہیں لیکن وہ برداشت کر لیتے ہیں کیوں کہ انھیں رشتوں کا پاس ہوتا ہے۔اور آخر تک ہر رشتے کو نبھانے کی پر زورکوشش کرتے ہیں۔اس فکر کی عکاسی میں ایک شعر دیکھیں:
ہم سے سادہ مزاج لوگوں نے
انکساری میں زخم کھائے ہیں
لیکن ایسا نہیں کہ وہ کسی عمل پر بالکل ردِعمل نہیں کرتے۔ کبھی کبھی ان کے یہاں تنک مزاجی اورچڑچڑاہٹ بھی پائی جاتی ہے جو ان کی برادشت کی حد توڑتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن یہ کیفیت دائمی نہیں رہتی۔وہ اپنی حالت میں جلد ہی لوٹ آتے ہیں۔اس سے متعلق اشعار دیکھیں:
کسی سے تلخ کلامی سے کام لے بیٹھے
ہم انکسار کی دولت سے ہوگئے محروم
خموشیوں کو لبوں پر سجائوں گا لیکن
ابھی کسی کو برا اور بھلا بھی کہنا ہے
پہلے شعر میں موصوف ’’تلخ کلامی سے کام لینے‘‘ پر بظاہرخود کو مزمت کا نشانہ بناتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں لیکن اس کے پیرائے میں انٹروورٹ افراد کی نفسیات کا بیان کر رہے ہیںکہ وہ کس طرح تلخ لہجہ اختیار کر کے اپنی فطرت کے برخلاف عمل کر بیٹھتے ہیں اور اپنی انکساری کی دولت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ایسے افراد کی طبیعت میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنی غلطیوں سے سبق لیتے ہیں اور ان سے سیکھتے ہیں۔دوسرا شعر بھی اسی نوعیت کا جس میںڈاکٹر وفاؔ نقوی نے خودکلامی کا لہجہ اختیار کر کے اس بات کی بھی ترجمانی کی ہے کہ انٹروورٹ افراد ظاہری طور پر خاموش ہو سکتے ہیں لیکن ان کے اندر سماج میںپھیل رہی برائی کو سمجھنے کی بھی بھرپور صلاحیت ہوتی ہے۔کیوں کہ وہ ہر چیز کا بغور مشاہدہ کرتے ہیںاور خود کو سماج کا ایک حصہ تصور کرتے ہیں۔اس لئے وہ پہلے اپنے اندر موجود برائی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔در اصل ان دونوں اشعار میںموصوف خود سے تلخ کلامی اور خود اپنی ذات کو ہی طنز کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔کیوں کہ معاشرے میںاگر ہر انسان اپنا تجزیہ خود اپنے آپ کرکے اپنے اندر تبدیلی لے آئے تو کبھی انکساری اور خلوص و محبت کی دولت سے محروم نہیں ہو سکتا۔
انٹروورٹ پرسنلٹی کے افراد سماج سے چاہے کتنا ہی کترائیں یا دور رہیںلیکن وہ کبھی سماج کی طرف سے آنکھیں نہیں پھیرتے انھیں اپنے گرد و پیش کا مکمل علم رہتا ہے اور اس کی بدلتی ہوئی تصویر انھیں نہایت تکلیف بھی پہنچاتی ہے۔اشعار ملاحظہ کریں:
میں نے مانا کہ خموشی بھی بڑی ہے نعمت
لیکن آنکھیں تو مری بول رہی ہیں کچھ کچھ
تم جو خاموش کہہ رہے ہو مجھے
شہر والوں! پڑھو مری آنکھیں
جو ہورہا ہے اسے دیکھتے ہوئے رہنا
مجھے عزیز نہیں ہے مگر ہے مجبوری
انٹروورٹ پرسن کے اندر خود اعتمادی بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔وہ اپنے لیے خود نئی راہ بناتے ہیں اور اس پر گامزن رہتے ہیں۔اس فکر کی عکاسی میںڈاکٹر وفاؔنقوی کے اشعار دیکھیں جس میںموصوف انٹروورٹ پرسن کی خود اعتمادی کو بڑے ہی منفرد انداز میں پیش کر رہے ہیں:
کوئی رہبر نہ قافلہ کوئی
میرا سایا ہی رہنما میرا
بھروسہ خود پہ ہی کرتا ہوں ہر محاذ پہ میں
نہ تیغ ہے نہ تبر ہے نہ تیر ہی میرا
کیوں کہ انٹروورٹ پرسنالٹی کے افراد تنہائی پسند اور کم بولتے ہیں لہٰذا ان کے اندر غور و فکر کرنے اور سننے سمجھنے کی طاقت بہت قوی ہوتی ہے۔وہ اچھے سامع ہوتے ہیں،کم بولنے، زیادہ سننے اور سمجھنے کی عادت ان کے علم میں اضافے کا باعث ہوتی ہے۔انٹروورٹ کی اس خوبی کی ترجمانی میں اشعار دیکھیں:
میں دیکھتا ہوں تری کائنات کے منظر
میں سوچتا ہوں کہ اس میں ترا وجود ہے کیا
تو گفتگو کے زعم میں پاگل نہ ہو ابھی
پہلے سماعتوں کا کرشمہ سمجھ کے دیکھ
کوئی ضروری نہیں تم زبان ہی کھولو
خموشیوں کی صدائیں بھی خوب سنتا ہوں
انٹروورٹ پرسنلٹی کی یہ بھی خوبی ہے کہ وہ جو بات کرتے ہیں بڑے سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔کچھ کہنے سے پہلے کئی بار غور و فکر کرتے ہیں۔پھر اس کے بعد ایک منظم طریقے سے اپنی بات کو کسی کے سامنے پیش کرتے ہیں۔وہ ہر بات پر غور کرنا جانتے ہیں۔اشعار دیکھیں:
پہلے تولی ہے گفتگو میں نے
بعد میں یہ زبان کھولی ہے
میرے جملوں میں جتنے ہیں الفاظ
ان میں اک حسنِ دلفریب سا ہے
ایسے افراد ہجوم اور انجمنوں سے گریزاں رہتے ہوئے بھی رشتوں کی حقیقت سے منہ نہیں پھیرتے۔ڈاکٹر وفاؔ نقوی کہتے ہیں:
میں ہوں سوکھا ہوا شجر لیکن
اپنی شاخوں سے ربط رکھتا ہوں
لوٹ کر جب پرندے آئیں گے
منتظر ہی مجھے وہ پائیں گے
مانا صبا کے دوش پہ اڑتا ہوا ہوں میں
لیکن کہاں گلاب کو بھولا ہوا ہوں میں
انٹروورٹ پرسنلٹی والے افراد طبعی طور پر نہایت حساس اور دل کے نرم ہوتے ہیں۔ان کے معاشرے میں جو کچھ اچھا برا ہوتا ہے انھیں لگتا ہے وہ ان کے ساتھ ہو رہا ہے۔وہ کسی کو قصوروار نہیں ٹھہراتے بلکہ خود کو ہی مجرم تصور کرتے رہتے ہیں۔اور اپنی ذات کو نکھارنے پر کام کرتے ہیں۔شعر ہے:
کل رات میں ہی قتل ہوا تھا سو آج میں
اپنے ہی خوں کا رکھتا ہوں الزام اپنے سر
انٹرو ورٹ پرسنلٹی کے لوگوں کو کسی کی تعریف و توصیف اور داد و تحسین کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی وہ دنیا کی شہرتوں سے بے نیاز ہوکر عمل انجام دیتے ہیں:
میری تعریف نہ کر مجھ سے گریزاں ہو جا
میرا ہر کام ہے شہرت کا مخالف جاناں
تیری تحسین کی ضرورت کیا
میں نے دل اپنا مار رکھا ہے
مختصر یہ کہ ڈاکٹر وفاؔ نقوی کے کلام میں عصری حسیت،گرد و پیش کے مناظر اور انسانی نفسیات کی بہترین عکاسی ملتی ہے۔ساتھ ہی ان کے کلام میںخود ان کی باطنی اور نفسیاتی کیفیت کا بھی احساس ہوتا ہے۔گویا ان کے احساسات اور جذبات لاشعوری طور پر ان کے کلام میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔ان کے رقم کئے اشعار اس بات کی دلیل ہیں کہ ان کا قلم بغیر غور و خوض کئے کاغذ پر نہیں چلتا بلکہ وہ اپنے قلم کو اس وقت جنبش دیتے ہیں جب وہ انسانی نفسیات کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔
موبائل:8273672110
Email:mohdadil75@yahoo.com