فیضان بریلوی
غزل
جس گیت میں خوشی تھی وہ سبکو سنا دیا
غم کے ہر ایک گیت کو دل میں دبا دیا
دیکھا ہے خود کو آج بڑی مدتوں کے بعد
کیسے تھے اور وقت نے کیسا بنا دیا
ہم نے لگائی ایک دو قطرے کی بس اُمید
ساقی نے لا کے سامنے دریا بہا دیا
جلنے سے پہلے بجھ گیا آندھی کے خوف سے
اس نے مجھے دیا بھی تو کیسا دیا دیا
مقتل ہے بادشاہ کا پوچھے گا پھر یہ کون
جلتے ہوئے چراغ کو کس نے بجھا دیا
ہم نے تمام عمر جہاں بھر سے کی وفا
اِک شخص نے وفا کا دغا سے صلہ دیا
فیضان ایک درد ہی کافی ہے عمر بھر
حالانکہ غم کا سارا خزانہ لُٹا دیا
***