فیضان بریلوی
غزل
مسئلہ اس کا نہیں ہے مسئلہ ہے یاد کا
یعنی میری زندگی کے آخری صیّاد کا
مل گیا کتنوں کو بن مانگے تری دہلیز سے
اور کوئی منتظر ہے آج بھی امداد کا
حوصلوں کو خوف کی زنجیر سے باندھے ہوئے
دست بستہ شہر کو ہے آسرا آزاد کا
کر دیا مسمار ایوان محبّت کو مگر
رہ گیا ہے آج بھی نام و نشاں بنیاد کا
ہم وہ پہلے شخص ہیں اُترے جو بحر عشق میں
دیکھا ہے ہم نے اٹھا کر سلسلہ اجداد کا
ہم تری محفل میں تھے لیکن مخاطب غیر تھا
یہ ہوا ہے حال محفل میں دل ناشاد کا
باد بھی گزری نہ جن کے پاس سے آباد کی
کیا سمجھ پائیں گے وہ مطلب بھلا آباد کا
لوٹ کر برباد جس نے آشیانے کر دیے
درد و غم کیسے سمجھ پائے گا وہ برباد کا
سر گزشت زندگی پنہاں ہے خاص و عام کی
آئینہ ہے شاعری ہر ایک کی روداد کا
***