غزل

نگار فاطمہ انصاری

غزل

موجو  کی ساز میں ایک نئی تدبیر کی ہے

اس بار دل نے خود اپنی قسمت تحریر کی ہے

جل کے رہ گۓقلب و جگر راہ عشق میں

گویا کہ میری ہستی بھی میر کی ہے

اے جان جاں اب تیرا انتظار بھی آب حیات

یو جو آنے میں تو، نے ہر بار تاخیر کی ہے

بخت سیاہ پے پھر آنے والی ہے ہجر  کی آفت

اس بار شیخ نے  میرے خواب کی تعبیر کی ہے

اور یو تو دنیا میں کوئی بھی کافر نہیں آتا

یہاں ہر کسی نے اپنے خدا  کی خود تعمیر کی ہے !

_________&&______&&_________&&________

غزل

یہ تو ممکن ہی نہیں تجھ سے کنارہ کیا جاۓ

عشق ایسی شۓ نہیں جسکو دوبارہ کیا جائے

کہ تمام عمرایک شخص کی تمنا میں گزاری

اب یہ واجب ہے کہ کفارہ کیا جاۓ

عجیب دھن موجود ہے میری سماعتوں میں

موسیقی بن جاؤں بس زرا اشارہ کیا جائے

میرے گزرے ہوۓ ایام سے روٹھ کر

تقدیر نئ ادا سے کہتی ہے خسارہ کیا جاۓ

کب تلک صداوؤں کے سہا رے رہا جائے

کس طرح بے وفا کے شہر میں گزارہ کیا جائے؟

_________&&______&&_________&&________

شب فراق گزر رہی ہے ،جام کر

ٹوٹے دلوں کی صداۓ میرے نام کر

ہر جا نشیں کو ہے محبت سے شکایت

تو دامن محبت چھوڑ ،عشق کو عام کر

نہ جانے کیوں اس شہر میں عجب اداسی ہے

ہر شخص تنہاں ہے کسی کا ہاتھ تھام کر

فقط لب و لہجے حسین ہوتے ہیں یہاں

یقین نہیں تو کسی کے دل میں قیام کر

یہ دولت کا فضل وکرم  کمال ہے

اہل خرد بھی جھکتے ہیں سلام کر

***

Leave a Reply