فیضان بریلوی
غزل
ہمارے ہاتھ کی زنجیر ٹوٹے کبھی تو ظلم کی جاگیر ٹوٹے
کروں تعمیر خود کو از سر نو تمہاری یاد کی تعمیر ٹوٹے
اگر ہو جائے ہم کو موت پیاری تو گردن پر لگی شمشیر ٹوٹے
ہمیں ہے خوف اظہار محبت کریں تو گاؤں میں توقیر ٹوٹے
ہٹا دیں چاپلوسی رنگ تو پھر یہاں ہر ایک کی تحریر ٹوٹے
اگر میں مانگ لوں اسکو دعا میں تو ہر اِک لفظ کی تاثیر ٹوٹے
پرس میں فولڈ کر رکھی ہے میں نے بھلا اور کتنی اک تصویر ٹوٹے
حقیقت میں نہیں ہوتا ہے کچھ بھی تو پھر خوابوں کی بھی تعبیر ٹوٹے
مرض ایسا ہوا ہے اب کی مسیحا کہ اب تو نُسخہ اکسیر ٹوٹے
ملا ہے ہم کو یہ فن اس جگہ سے جہاں پر فیض و غالب میر ٹوٹے
نکل آئے فلک پر چاند فیضان تمہارے حسن کی تسخیر ٹوٹے