میمونہ تحسین
ریسرچ اسکالر ڈاکٹر بامو اورنگ آباد
غزل
ہمارے دشمنوں کی انجمن میں وہ بھی آتے ہیں
ہمیں برباد کرنے کی وہی سازش رچاتے ہیں
جسے دل سے لگاتے ہیں دغا وہ دے ہی جاتے ہیں
وہی بنتے ہیں درد دل جنہیں مرہم لگاتے ہیں
ہزاروں زخم دے کر پوچھتے ہیں حال کیسا ہے
سنائیں جب وہ سن کر بھی ہمی پر مسکراتے ہیں
لڑائی کی زمانے سے وہی تو بے وفا نکلے
وہ اب ہنس کر ہمارے آشیانے کو گراتے ہیں
خطوطِ عشق بھی رہتے ہیں اکثر کوسوں دوری پر
انہیں معلوم ہے ان کو ہوا میں ہم اڑاتے ہیں
ہزاروں ظلم آندھی کو خوشی سے ہم بھی سہہ لیتے
ہمیں ایسے بھنور میں چھوڑ کر تنہا وہ جاتے ہیں
بھروسہ کس پہ ہو ہم نے جہاں میں بارہا دیکھا
جسے ہمدم سمجھتے ہیں وہی خنجر چلاتے ہیں
زمانہ بھول جائے پھر بھی اپنی داستانیں غم
سکونِ قلب ملت ہے اسے جب بھی سناتے ہیں
یہی تحسینِ الفت ہے یہ کیسی بے وفا رسمیں
جنہیں دل میں بٹھاتے ہیں وہی دل توڑ جاتے ہیں