فیضان بریلوی
غزل
کیسے تھے اور کیسے مرے یار ہو گئے
بارش میں بے وفائی کی بیمار ہو گئے
نکلے تھے ہم تو سوئے گلستان ہی مگر
کانٹوں کے جانیں کیسے خریدار ہو گئے
بولے تو ہم سے کوئی بھی واقف نہیں ہوا
خاموش کیا ہوئے کہ پر اسرار ہو گئے
ہنستے ہیں زمانے سے چھپانے کے لئے غم
ایسا نہیں کہ درد سے بیزار ہو گئے
ہم نے کہے تو جھوٹ بتائے گئے مگر
اخبار میں چھپے تو سماچار ہو گئے
جب بھی سفر کا ہم نے ارادہ کیا تو پھر
پھولوں کے راستے سبھی پرخار ہو گئے
اپنوں سے اب سکون میسر کہاں میاں
اب تو سکوں کے واسطے اغیار ہو گئے
دل کی زمیں پہ ہم نے اگائے تھے جو شجر
غیروں کے واسطے وہ ثمر دار ہو گئے
سوچا تھا جن کی چھاؤں میں گزریں گے رات دن
وہ پیڑ خود ہی سوکھ کے بیکار ہو گئے
جیسے ہی بھولنے کا ارادہ کیا اسے
لمحے تمام ذہن کی دیوار ہو گئے
فیضان کیسے جیتے زمانے کے ساتھ ساتھ
سو یہ کیا کہ ہم بھی ادا کار ہو گئے
***